Friday 3 March 2017

اُردو کے فروغ میں مشاہیر ادب کا کردار

تحریر:  مہر محمد خالد

زبان انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک تحفۂ بے بدل ہے جس کا اوتار کوئی شے نہیں ہوسکتی۔ انسانی زندگی میں اس کا کردار واضح اور بیّن ہے۔ زبان نے انسان کو معرفتِ خداوند کریم سے آشنا کیا ہے۔ زبان کی کوکھ سے شعر و ادب ، فلسفہ ، سائنس کی ایجادات اور باہمی تعارف و پہچان نے جنم لیا۔ انداز زیست اور تعلقات باہمی کا سبق ہمیں زبان نے دیا ہے۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ انسان حیوانِ ناطق ہے۔ بالکل اس حقیقت سے انحراف نہیں کیا جا سکتا کہ انسان کی بقا کا سبب زبان میں مخفی ہے۔
زبان انسانوں سے زندہ ہے اور انسان زبان سے زندہ ہیں۔ اگر ان کا آپس کا تعلق ختم ہو جائے تو دونوں کا نتیجہ بات ہے۔ ذکر الٰہی جو اطمینان قلب و نظر ہے وہ بھی زبان کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ انسان اور زبان کا آپس میں رشتہ کیسے بنا، انسان اور زبان کس طرح ایک دوسرے سے آشنا ہوئے۔ کیا انسانی زبان کا ماخذ ایک ہے۔ جب اصل ایک مان لی جائے تو زبانوں کا تنوع کیسے وقوع پذیر ہوا۔ ان میں اجنبیت اور تفاوت کا سبب کیا ہے؟ زبانوں کے خاندان اور ان کی پہچان کہ کوئی زبان کس خاندان کی پروردہ ہے۔ بولیاں، ٹھولیاں اور لہجے کیونکر وجود میں آئے۔ لہجے اور بولی کی ضرورت زبان کے ہوتے ہوئے کیوں درآئی۔
زبان کی ترقی قوموں کی ترقی کا سبب ہے۔ زبان ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے ہم نہاں خانۂ دل کے لطیف اورخفیف جذبات کا اظہار کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ اگر زبان کا ذخیرۂ الفاظ وسیع تر ہو گا تو اس زبان میں جذبات کا ابلاغ آسان ہو گا۔ زبان کے دامن کی الفاظ کو پناہ ملتی ہے اور اس طرح دوسری زبانوں کے الفاظ اس کے اندر وسعت پذیری کا سبب بنتے ہیں۔ جس سے اس کا دامن افہام و تفہیم میں وسعت پذیر اور ہمہ گیر ہوتاہے اور اس زبان میں علم و ادب کا سرمایہ فروغ گیر اور نمو پذیر ہوتا ہے اور اس ادبائے ادب کو تخمِ علم و ادب اور نخلِ ادب کے پروان چڑھانے کے وقیع مواقع ملتے ہیں۔
معاشرے کا زبان پر اور زبان کا معاشرے پر کیا اثر پڑتا ہے؟ معاشرے میں مختلف طبقات کی زبانوں میں فرق کی نوعیت کیا ہے؟ انسانی زبان اور فکرِ انسان میں کیا قدرِ مشترک ہے۔
مولانا آزاد لکھتے ہیں:
زبان کا استقلال اور آئندہ کی زندگی چار ستونوں کے استقلال پر منحصر ہے۔ قوم کا ملکی استقلال، سلطنت کا اقبال، اس کا مذہب اور تعلیم و تہذیب اگر یہ چاروں پاسبان پورے زوروں سے قائم ہیں تو زبان بھی زور پکڑتی جائے گی۔ ایک یا زیادہ جتنے کمزور ہوں گے اتنی ہی زبان ضعیف ہوتی جائے گی۔ یہاں تک کہ مر جائے گی۔ ہر زبان وسیع تردامن کی متحمل ہوتی ہے جس میں متعلقہ قوم کی تہذیب و تمدن اور تاریخ و روایات اور رہن سہن کے طور طریقے اور سماجیات کا وسیع ذخیرہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ ہر خطے کی زبان اس کا تشخص اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ قومی زبان اور تشخص میں چولی دامن کاساتھ ہے۔ زیر نظر مضمون میں اردو کے فروغ میں مشاہیر ادب کا کارہائے نمایاں کی نسبت جائزہ لیاجائے گا۔ اس تحریر سے میری یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ اردو کے فروغ و اشاعت میں صرف اور صرف مسلمانوں نے ہی کام کیا ہے اور دوسری قوموں نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا۔ رتن ناتھ سرشار، مالک رام ، نول کشور، منشی پریم چند، ہری چند اختر ، تلوک چند محروم، پنڈت دیاشنکر نسیم، سری رام، چکبست کرشن چندر، رام بابو سکسینہ، منشی تیرتھ رام فیروز پوری، دیوان سنگھ مفتون، فراق گورکھپوری، گیان چند، آنند نرائن ملّا، راجندر سنگھ بیدی، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، مسز سروجنی نائیڈو جیسے اہل قلم کی اردو زبان و ادب کے بارے میں خدمات سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے؟ لیکن سچی اور پکی بات ہے کہ مسلمانوں نے اس ضمن میں سب سے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ دوسری قوموں نے اس زبان کو من حیث القوم نہیں اپنایا کیوں کہ ان کے پاس وسیلۂ اظہار کے لیے دوسری دیسی زبانیں بھی موجود تھیں جنھیں انھوں نے بوقت ضرورت استعمال بھی کیا ہے لیکن مسلمانوں نے من حیث القوم ہندوستان کی سینکڑوں زبانوں میں سے صرف اسی ایک زبان پر قناعت کی اور اپنے خیالات کے اظہار کا واحد بھرپور اور مؤثر وسیلہ بنایا۔
اسلام ایک طریق حیات ہے اور انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو محیط ہے۔ عربی زبان اسلامی احکامات کی امین ہے۔ اس میں زندگی کے تمام شعبوں کے لیے کلمات و مفردات کا ایک بحرِ زخار موجود ہے جس نسبت سے یہ کلمات برصغیر کی مقامی زبانوں میں داخل ہوتے گئے، اسی نسبت سے ان کا عربی زبان سے قرب بڑھتا گیا۔ یہ اُن مشاہیر ادب کی محنت کا پھل ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے عوام اپنے دین سے محبت کرنے والے ہیں اور تہذیبی و تمدنی اقدار کے حوالے سے اپنے عرب بھائیوں سے بہت قریب ہیں۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں:
''اردو ہماری گزشتہ عروجِ عظمت کی تنہا یادگار یا سوگ وار ہے۔ مسلمانوں نے نہ صرف اردو کی بنیاد رکھی بلکہ اس کی تمام تدریجی اور ارتقائی منازل میں انہی کا ذہن و دماغ کارفرما ہے۔ کسی قوم کے اولین آثار انحطاط کا مطالعہ کرنا ہو تو اس قوم کی زبان پر نظر ڈالیے، آپ پر یہ حقیقت جلد منکشف ہو جائے گی کہ قومی زوال کی ابتداء ہمیشہ زبان کے زوال سے ہوئی ہے۔''
جب سے مسلمانوں نے برصغیر میں قدم رکھا اسی وقت سے مقامی زبانوں پر ہندی و فارسی کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے۔
مسلمانوں نے جب اردو کو اپنے لیے چن لیا تو اس میں عربی و فارسی کے دخیل الفاظ کا حصہ بھی زیادہ ہو گیا۔
برصغیر کے مسلمانوں کی اپنی سماجی زندگی کا ایک خاص نہج تھا اور زندگی کے کچھ رسوم و رواج اور کچھ تقاضے بھی تھے۔ مسلمانوں نے اپنی ظاہری و باطنی اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کی عکاسی اور ترجمانی کا اہل بنانے کے لیے اردو زبان کو عربی و فارسی کے کثیر تعداد الفاظ، اصطلاحات، محاورات، تلمیحات اور اسالیب بیان عطا کر دیے۔ مختلف اصناف مثلاً غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی وغیرہ کا اضافہ کیا گیا۔ شعری تنقید کا انداز مستعار لیا گیا۔
مسلمان علماء نے قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کیا اور تفاسیر لکھیں، قرآن و حدیث ، فقہ، سیرت، تصوف، اسلامی فلسفے اور تاریخ کے سرمائے کو اردو میں منتقل کیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دیسی زبانوں میں اردو ہی وہ اکیلی زبان تھی جسے اکبر راج میں اس کے محل والوں نے اپنا لیا تھا، جسے شاہ جہاں نے ہندوستان کے کونے کونے میں پہنچا دیا تھا اور جسے ۱۸۳۲ء میں انگریزوں نے فارسی کی جگہ سرکاری زبان بھی بنا دیا تھا۔ یہی زبان آج پورے برصغیر کے طول و عرض میں سب زبانوں سے زیادہ بولی جاتی ہے۔ اس میں جتنا اسلامی ادب موجود ہے اتنا عربی و فارسی میں بھی مشکل سے مل سکے گا۔ اردو میں جو کچھ مواد اسلامی علوم اور عربی و فارسی زبان و ادب سے متعلق ہے اس کی تہ میں مسلم ہند کی تاریخ او رتہذیب کے معتبر شواہد ملیں گے۔ لاہور، ملتان، دہلی، گجرات اور لکھنؤ وغیرہ مراکز ایسے تھے جہاں ہندوستان اور بیرون ہند کے علماء و فضلاء علوم کی تحقیق و تدقیق میں معروف ہوئے۔ یہ روایت صدیوں تک قائم رہی۔ اسی وجہ سے دہلی جو دارالسلطنت تھا، اس نے علمی اور تہذیبی ترقی کے اعتبار سے بغداد اور قرطبہ کو بھی دھند لا کر دیا۔
ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں:
''نئی زبان (اُردو) میں اس شدید قسم کی کشش تھی کہ اس نے جلد ہی عوام میں قبولیت کا درجہ حاصل کر لیا تھا۔ پھر مسلمان صوفیا نے اس زبان کے ذریعے اسلام کو پھیلانا شروع کیا تو یہ اور بھی مقبول ہو گئی لیکن انیسویں صدی کے آغاز میں اردو کی یہ مقبولیت انتہاء پسند ہندوئوں کو انتہائی ناگوار گزری''۔
زبان اور رسم الخط کا تعلق بھی روح اور قالب سے کم نہیں۔ رسم الخط تلفظ کا تابع ہوتا ہے اور اس کا ہرحرف ایک جداگانہ آواز کی نیابت کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ابتداً زبان صرف اصوات کا نام ہوتا ہے اور اشکال ثانوی حیثیت رکھتی ہیں لیکن حروف یعنی الفاظ کی تحریری شکلیں بھی اتنی ہی اہم ہوتی ہیں جتنی کہ اُن کی آوازیں۔ زبان اور رسم الخط کا مکمل اور مناسب اجتماع و امتزاج زبان کو زندہ اور پائندہ بناتا ہے اس لیے کسی زبان کو اس کے رسم الخط سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ زبان رسم الخط کے بغیر مکمل نہیں ہوتی بلکہ ادھوری رہتی ہے۔
برصغیر میں اردو ہندی تنازع کا اصل محرک رسم الخط کی تبدیلی تھا۔ ہندو اردو زبان کے لیے دیونا گری رسم الخط رائج کرنا چاہتے تھے اگر ایسا ہو جاتاتو مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی ، معاشرتی روایات اور تہذیبی و ثقافتی سرمائے سے دست بردار ہونا پڑتا۔
اردو رسم الخط ایک مبسوط تاریخ رکھتا ہے۔ رسم الخط قوموں کے لسانی مزاج کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اس سے ایک قوم کے مخصوص تہذیبی نقوش کا پتہ چلتا ہے جب تک اردو زبان دیونا گری میں قلم بند ہوتی رہی۔ ہمالیہ کی فصیل پار نہ کر سکی لیکن عربی و فارسی رسم الخط میں منتقل ہونے کی دیر تھی کہ اسے ہندوستان کی سرحدوں کو پھلانگ کر ایران و عربستان کی زبانوں اور ان کے بولنے والوں سے تعارف و ملاقات کا موقع بھی ہاتھ آ گیا۔
فورٹ ولیم کالج وہ واحد ادارہ تھا جہاں سب سے پہلے پنڈت للو لال جی نے اردو ہندی تنازع کا آغاز کیا۔ انگریزوں کی پالیسی ''لڑائو اور حکومت کرو'' ان کے روز اول سے ہی کارفرماتھی۔ ہندوئوں کو اردو زبان اس لیے ناگوار تھی کہ اس کا ظاہری پیکر فارسی اور عربی تھا اور وہ مہاتما گاندھی کے بقول قرآن کے حروف اور اسلوب کا مالک تھا اور یہ بات تکلیف دہ تھی کہ اردو ابجد کی شکل قرآن کی زبان سے ملتی جلتی تھی۔ شیخ محمد اکرام ہندوئوں کی اردو سے مخالفت اور ناگواری کے حوالے سے لکھتے ہیں! انیسویں صدی کے شروع میں 'فورٹ ولیم کالج' میں للو لال جی اور اُن کے ساتھیوں نے نئی ہندی اس طرح پیدا کی کہ اردو زبان سے تمام عربی اور فارسی کے الفاظ نکال دیے اور سنسکرت کے ہندی مآخذ کے الفاظ شامل کر لیے۔ اردو زبان عربی رسم الخط کی حامل تھی اور یہ آہستہ آہستہ پورے برصغیر میں رابطے کی زبان بن گئی۔ چنانچہ ۱۸۳۵ء میں فارسی کی جگہ اردو کو عدالتی زبان بنا دیا گیا۔ گویا یہ اقدام مسلمانوں کی سیاسی اور ثقافتی حیثیت کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔ انیسویں صدی کے پہلے ربع میں شاہ عبدالقادر دہلوی کے اردو زبان میں سادہ ترجمۂ قرآن کو بہت مقبولیت حاصل ہو رہی ہے تو وہ جل بھن گئے۔ لہٰذا انھوں نے اردو کو بھی مسلمانوں کی طرح ملیچھ قرار دے دیا۔
۱۸۸۲ء میں ''ہنٹر ایجوکیشن کمیشن'' کی تشکیل کے موقع پر ہندوئوں کو دوبارہ اردو زبان کو نقصان پہنچانے کا موقع میسر آیا۔ اس بار یہ فتنہ پنجاب اور یوپی میں اٹھا۔ سر سید اردو کی حفاظت کے لیے آگے بڑھے اور ہنٹر کمیشن کو باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ یہ مسئلہ لسانی کی بجائے سیاسی رنگ اختیار کر چکا ہے۔
میکڈانل مسلمانوں کے بارے میں بہت متعصب تھا اس سے مسلمانوں سے غداری کی بو آتی تھی۔ یو پی کے مشہور متعصب وزیر تعلیم مسٹر سمپور نانند نے اپنی اردو دشمنی کا بڑا سبب یہ بتایا تھا کہ ''جب میں گھر گیا تو میری لڑکی نے بھگوان کی بجائے خدا کہا'' مسلمانوں کے عقیدے کے الفاظ اردو زبان کے ذریعے ہندوئوں کے دماغوں میں داخل ہو گئے اور اس سے ان کے مذہبی عقیدے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ مسلم لیگ کے چوتھے اجلاس میں اعلان کیاگیا کہ ہندوئوں کا جس طرح اسلام سے کوئی تعلق نہیں اسی طرح ان کا اردو سے بھی کوئی تعلق نہیں۔
۱۹۳۷ء میں کانگریسی وزارتوں کی تشکیل ہوئی تو تمام ہندو صوبوں کے وزرائے اعلیٰ برہمنوں کو بنا دیا گیا۔ اب یہ حال ہو گیا ہے کہ ڈاک خانے والے اردو میں تحریر کردہ منی آرڈر بھی قبول نہ کرتے اور خطوط کو مکتوب الیہ تک پہنچانے سے انکار کر دیا۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اردو کو پاکستان کی قومی زبان کی حیثیت سے بلند مرتبے پر دیکھنا چاہتے تھے۔ انھیں اردو کی اہمیت اور قوت کا اندازہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے پاکستان اور اردو زبان، دونوں کا بیک وقت مقدمہ لڑا۔ مصور پاکستان نے بھی اردو دوستی کا حق خوب نبھایا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ۱۹۳۶ء میں اردو کانفرنس منعقد کی باصرار علامہ محمد اقبال کو شرکت کی دعوت دی۔ علامہ بیمار تھے۔ آپ نے جواب لکھا اگر اردو کانفرنس کی تاریخوں تک میں صحت یاب ہو گیا تو انشاء اللہ ضرور حاضر ہوں گا۔ اگر حاضر نہ بھی ہو سکا تو یقین جانیے کہ اس معاملے میں کلیتاً آپ کے ساتھ ہوں۔
مسلمانوں نے پشاور و کشمیر سے لے کرر اس کماری تک اور سندھ بلوچستان سے لے کر بنگال اور آسام تک اپنے قول و فعل سے اردو کی اس عمومی اور اجتماعی حیثیت کو جانا اور مانا ہے۔ اس لیے سردار عبدالرب نشتر نے کہا تھا:
''واقعاتی اور تاریخی نقطۂ نگاہ سے یہ حیثیت اردو ہی کو حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی قومی زبان ہے۔ اپنا علیحدہ وطن بنائیں۔ ان میں سے ایک اہم چیز یہ تھی کہ ہم اردو کو اغیار کی دست برد سے محفوظ کر دیں''۔
مدیر ادبی دنیا مولانا صلاح الدین اردو زبان کے تاریخی کردار کے بارے میں لکھتے ہیں:
''اردو ہمارے باہمی ارتباط کی سب سے مؤثر اور زندہ جاوید زبان ہے۔ ہمارے ہزار سالہ تمدن کی امین اور ہماری مذہبی ، ثقافتی اور علمی روایات کی سرمایہ دار ہے''۔
پروفیسر غازی علم الدین لکھتے ہیں:
''میرے نزدیک اردو زبان، اس کا رسم الخط اور املاء عقیدے کا مسئلہ ہے۔ برصغیر میں اردو کسی کی مادری زبان ہو یا نہ ہو یہ ہر مسلمان کی مذہبی اور ثقافتی زبان ضرور ہے اور عربی و فارسی کے بعد اسلامیان ہند کی واحد ترجمان ہے''۔
میرے خیال میں اردو زبان شروع سے لے کر آخر تک بلکہ ہمیشہ ہی ہمارے لیے ایک واحد اظہار کا ذریعہ ہے جس سے ہم اپنے من و عن خیالات، احساسات اور تصورات کو لفظی پیکر میں بیان کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔
حوالہ جات
۱۔ مولانا محمد حسین آزاد، مولانا، سخن دانِ فارس (لاہور، بک ٹاک ٹمپل روڈ ۲۰۰۶ئ)
۲۔ خطباتِ رشید احمد صدیقی، مرتبین مہرالٰہی ندیم (علیگ) لطف الزمان خان (کراچی: مکتبہ دانیال عبداللہ ہارون روڈ)
۳۔ بخاری، ڈاکٹر سہیل، لسانی مقالات حصہ دوم(اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان)
۴۔ زکریا ڈاکٹر رفیق: ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کا عروج (نئی دہلی ترقی اردو بیورو)
۵۔ اخبار اردو، اسلام آباد : مضمون از پروفیسر غازی علم الدین
٭٭٭٭

No comments: