Tuesday 4 April 2017

پاکستان قومی زبان تحریک لاہور تصویری جھلکیاں

Image may contain: 7 people, beard


No automatic alt text available.


No automatic alt text available.


Image may contain: outdoor


No automatic alt text available.




یوم پاکستان اور قومی زبان از عزیز ظفر آزاد

Image may contain: 1 person

قومی زبان کے فروغ میں خواتین کا کردار

Image may contain: 4 people, people sitting

سی ایس ایس کے امتحان کا انگریزی میں لیا جانا سب سے بڑی ناانصافی اور پاکستانی عوام کے ساتھ ایک گھٹیا اور گھناؤنا مذاق ہے

پروفیسر محمد سلیم ہاشمی
سی ایس ایس کے امتحان کا انگریزی میں لیا جانا سب سے بڑی ناانصافی اور پاکستانی عوام کے ساتھ ایک گھٹیا اور گھناؤنا مذاق ہے۔ 
 سی ایس ایس کے امتحان کا انگریزی میں لیا جانا پاکستان میں بد عنوانی اور بد انتظامی کا سب سے بڑا سبب ہے کہ اس کی وجہ سے کم تر اور پست ذہنی سطح کے حامل لوگ پاکستان کی انتظامیہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ قابل، ذہین اور پاکستان سے محبت رکھنے والے نوجوانوں کو اس عمل سے انتظامیہ کا حصہ بننے سے روک دیا جاتا ہے۔
70 سال سے سی ایس ایس کے ذریعے پاکستان کی انتظامیہ کا حصہ بننے والوں نے آخر پاکستان کی کیا خدمات کی ہیں؟ پاکستان کو ترقی اور رفعت کے کس درجے تک پہنچا یا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان کا نام ہر مثبت درجہ بندی میں پست ترین درجات میں اور ہر منفی درجہ بندی میں پلند ترین درجات پر آتا ہے۔
 برطانوی حکومت نے یہ نظام غلاموں کے لئے وضع کیا تھا، جس میں معیار مملکت برطانیہ کی وفاداری اور ذہن کو استعمال کہے بغیر احکامات کی بلا چون و چرا بجا آوری تھا۔ ہماری کتنی بڑی ناکامی ہے کہ ہم آزادی کے 70 سال بعد بھی ایک آزاد ملک کے لئے اس کے شایان شایان نظام نہ دے سکے۔
 ہمیں اس نظام سے نجات حاصل کرنا یوگی۔ کم از کم بھی سی ایس ایس کا امتحان اردو میں لینا ہوگا کہ ہر پاکستانی اس امتحان میں شامل ہو کر اپنی صلاحیتیں اس ملک کی سربلندی کے لئے استعمال کر سکے۔
 جس امتحان کی بنیاد ہی غلامانہ نہج پر ہو گی اس کے نتیجے میں بہتر صلاحیتوں اور قابل افراد کیسے آگے آئیں گے۔
انگریزی کی ہر سطح پر لازمی حیثیت ختم کی جائے۔
 اردو کو تمام شعبوں میں ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔





http://friday.jasarat.org/2017/03/31/mag/52

کروں کیا فیصلہ وہ پوچھتا ہے. 
پروفیسر محمد سلیم ہاشمی 

 (مکمل)
بڑے سوال پیدا ہو گئے، بڑے سوال پیدا ہو گئے اور اتنا مجھے پتا ہے کہ جب سوال پیدا ہوں اور ان کے جوابات سوال کرنے والوں کے ذہنوں میں اور اور جواب دینے والوں کے ذہنوں میں اور ہوں تو انقلاب آیا کرتے ہیں. 
 یہ نظام گل سڑ چکا ہے اور اس کے دن گنے جا چکے ہیں اہل شب جو مرضی تدبیر کر لیں دن کا اجالا نکلنے کو ہے. پاکستان میں کون سوچ سکتا تھا کہ یہاں انگریزی کی حکمرانی کو کبھی چیلنج کیا جا سکے گا، کبھی کہا جائے گا کہ انگریزی کے طاغوت سے نجات حاصل کرو اور پھر نہ صرف یہ بات سنی جائے گی بلکہ عوام کی ایک غالب اکثریت اس کی ہمنوا بن جائے گی. عدالت عظمی' کا 8 ستمبر 2015 کا فیصلہ نافذ ہونے کے لئے کیا گیا تھا، یہ نافذ ہو کر رہے گا. تاریکی اور ظلمت کے پجاری جو مرضی کر لیں جو مرضی کر لیں ان کو شکست ہونا ہی ہونا ہے اس ملک میں اس کی زبان نافذ ہونا ہی ہونا ہے. جو کچھ وہ کر رہے ہیں بس وہ ایسے ہی ہے جیسے شمع بجھنے سے پہلے بھڑکتی ہے اور پھر بجھ جاتی ہے. وہ اپنی روسیاہی میں، اپنے جرائم کی فہرست میں اضافہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پا رہے. یہ پہلی بار نہیں ہو رہا بہت دفعہ ہو چکا ہے کسی بھی نظام کے تہ و بالا ہونے سے پہلے اس کو بچانے کے لئے مقتدر قوتیں، اصحاب منبر و محراب اور انصاف کے ٹھیکیدار سب اکٹھے ہو جاتے ہیں مگر عوامی جذبات اور احساسات کا ریلا سب کچھ اپنے دامن میں خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے، روس، ترکی، چین، ایران اور فلپائن میں جو کچھ ہوا وہ ابھی لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا. 
 حیرت ہے جس عدالت سے لوگوں کو مقدمات کی سماعت کے لئے وقت نہیں ملتا تاریخیں ملتی ہیں، وہ عدالت یکدم اتنی فعال کیسے ہو گئی کہ اس نے ایک فیصلہ بھی صادر فرما دیا اور مزید حیرت اس بات پر کہ فیصلہ بھی ہو گیا ہے اور سماعت بھی جاری ہے۔
 عدالت کے فیصلے سے پتا چلا کہ اب فیصلے آئین اور قانون کے مطابق نہیں زمینی حقائق کے پیش نظر ہوا کریں گے، زمینی حقائق بھی وہ جو فاضل کرسی نشین کی عینک سے نظر آ رہے ہوں گے. 
فاضل کرسی نشین کو یہ تو نظر آ گیا کہ 51 مضامین ہیں جن میں سے 433 مضامین انگریزی میں پڑھائے جا رہے ہیں یہ نظر نہیں آیا کہ بی اے کے امتحان میں ہر سال فیل ہونے والوں کا تناسب %70 سے %75 فی صد ہے. 
 انہیں یہ تو نظر آ گیا کہ اردو میں دیے گئے پرچہ جات کو چیک کرنے کے لئے ممتحن حضرات نہیں ہیں یہ نظر نہ آ سکا کہ ہر سال سی ایس ایس کے امتحان میں 97 سے 98 فی صد نوجوان ناکام ہو جاتے ہیں جن میں سے صرف انگریزی میں ناکام ہونے والے امیدواروں کی تعداد پچھلے سال %92 تھی. فیل ہونے والوں میں ڈاکٹر انجینئیر، ماسٹر ڈگری ہولڈر، وکیل اور اساتذہ شامل ہیں. ان میں سے غالب اکثریت انگریزی میں یا انگریزی کی وجہ سے فیل ہوتی ہے جو بہرحال کسی پاکستانی کی زبان نہیں ہے. 
انہیں یہ تو نظر آ گیا کہ 20188 سے سی ایس ایس کا امتحان اردو میں نہیں لیا جا سکتا یہ نظر نہیں آ رہا کہ انگریزی کسی پاکستانی کی زبان نہیں ہے. 
 انہیں یہ تو علم ہے کہ سی ایس ایس کا امتحان انگریزی میں لیا جانا چاہیے مگر یہ علم نہیں کہ جس انگریزی میں یہ امتحان لیا جاتا ہے وہ کسی اچھے خاصے انگریز کے بس سے بھی باہر ہے. 
اس امتحان کا مقصد صرف اور صرف کچھ خاص لوگوں کو حکومتی اداروں میں کھپانا اور  معاشرے کی غالب اکثریت کو اس سے دور رکھنے کے سوا کچھ نہیں. 
 یہ امتحان بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے جس میں معاشرے کے ہر فرد کو یکساں مواقع دینے کی بات کی جاتی ہے. 
 مجھے سمجھ نہیں آتی کہ انگریزی کس میرٹ کا نام ہے اور وہ بھی ایک ایسے معیار کی انگریزی جو ایک عام پاکستانی کی دسترس سے باہر ہے. آپ اردو میں یہ پرچے لے کر بھی میرٹ کو قائم رکھ سکتے ہیں جو امیدوار قابلیت کے اعتبار سے سب سے اوپر ہوں ان کو حکومتی اداروں میں ملازمت کے لئے منتخب کر لیا جائے. مگر اس سے ہر پاکستانی مقابلے کی اس دوڑ میں شامل ہو جائے گا جو ان کو اس نظام کے تلپٹ ہونے کے سوا کسی اور صورت میں گوارا نہیں. 
وہ کہتے ہیں کہ 2018 کا امتحان اردو میں نہیں لیا جا سکتا، کیا انہوں نے کسی حکومتی اہلکار کو 
وفاقی وزیر تعلیم 
صوبائی وزرائے تعلیم،
وفاقی اور صوبائی محکمہ ہائے تعلیم کے سیکرٹریز 
محکمہ ہائے تعلیم کے اعلی' افسران 
وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن کے چیئرمینز و سیکریٹریز کو
اور دیگر حکومتی اہلکاروں کو عدالت میں طلب کیا؟ 
کیا انہوں نے ان سے پوچھا کہ 
جب کہ پاکستان کو بنے 70 سال ہو چکے ہیں 
جب کہ پاکستان کے ہر آئین میں اردو کو سرکاری زبان کہا گیا ہے
جب کہ 1973 کے آئین میں 15 سال میں اردو کو تمام سطحوں پر نافذ کرنے کا کہا گیا ہے
8 ستمبر 2015 کے فیصلے میں اردو کو بلا تاخیر تمام اداروں میں اور مقابلے کے امتحانات  کی زبان کے طور پر نافذ کرنے کا حکم جاری کیا گیا تو آج 29 مارچ 2017 کو عدالت کو یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ ہم 2018 میں مقابلے کا امتحان اردو میں نہیں لے سکتے. 
 عدالت ان محکموں سے یہ کیوں نہیں پوچھتی کہ جب کہ یہ ملک پاکستان ہے اور اس کی زبان اردو ہے اور یہ کہ انگریزی اس ملک کی، اس کے کسی باسی کی زبان نہیں ہے تو یہ غیر ملکی زبان اس ملک پر کیوں مسلط ہے؟
 یہ ان لوگوں سے کیوں نہیں پوچھتی کہ مذکورہ بالا تمام باتوں کی روشنی میں وہ اب تک اردو کو ذریعہ تعلیم کیوں نہیں بنا پائے؟
 وہ ان سے کیوں نہیں کہتی کہ کیوں نہ آپ کو آپ کے عہدوں سے برطرف کر کے آپ کو اس وقت تک جیل میں ڈال دیا جائے جب تک اس ملک میں اردو نافذ نہیں ہو جاتی۔

بس مجھے اتنا پتا ہے کہ انگریزی نے پاکستانیوں کی آئی کیو کی سطح خطرناک حد تک کم کر دی ہے اور بڑے بڑوں کی مت اس زبان نے مار دی ہے۔ 
 ختم شد
پاکستان پر انگریزی کا تسلط
تحریر: پروفیسر محمد سلیم ہاشمی
پاکستان پر انگریزی کے تسلط کا کوئی جواز کوئی توجیہ نہیں ہے، ممکن ہی نہیں ہے۔
انگریزی کسی پاکستانی کی زبان نہیں ہے
انگریزی علم، سائنس یا ٹیکنالوجی کی واحد زبان نہیں ہے
 پھر یہ کہ دنیا کا کوئی ملک اپنی زبان ہوتے ہوئے کسی غیر ملکی زبان کو اپنے اوپر مسلط کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا
یہ نقالی بھی نہیں کہ نقالی کے لئے بھی کسی مماثلت کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
 یہ جہالت، گمراہی اور اندھا پن ہے۔ اپنے آپ سے عدم آگاہی اور اس ملک و قسم کے مستقبل اور ترقی سے بے اعتنائی کی بھونڈی مثال ہے۔
 اس سے زیادہ اندھے پن، اور ذہنی مفلسی کو سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ ایک غیر ملکی زبان کو بلا سوچے سمجھے، بلا کسی وجہ کے اپنے اوپر مسلط کر لیا جائے اورمسلط کئے رکھنے پر اصرار کیا جائے۔
 میں چاہتا ہوں کہ اس بھونڈے پن اور بربادی کے عمل کو فی الفور روکا جائے، ساری قوم اس کے خلاف یکجا ہو جائے۔
 ہمارے حکمران اس زبان کو اس۔ملک پر مسلط دکھ کر کس کا کام کر رہے ہیں کون سی توقع پر کیا آس لگائے بیٹھے ہیں۔
 بوئے پیر ببول کے تو آم کہاں سے آئے۔