Wednesday 1 March 2017

ہمیں ایک قوم کیوں نہیں بننے دیا گیا؟ 
Image may contain: 1 person, sitting
تحریر: احمد اقبال
-------------------------------------
میں جو کچھ لکھ رہا ہوں اس کے بارے میں وضاحت ضروری ہے کہ میں ہرگز اس طبقہؑ فکر کے خیالات کی ترجمانی یا حمایت نہیں کر رہا ہوں جو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر700 سال قبل پاکستان بناےؑ جانے کو ایک سیاسی اور فکری غلطی قرار دیتے آؑےؑ ہیں۔۔ کسی حوالے کے بغیر۔۔۔ آج میں صرف پاکستانی ہوں ۔۔جو بھی میں لکھ رہا ہوں اس میں ابتدایؑ 8 سالوں کے بارے میں میری معلومات کا ماخذ مطالعہ ہے اور اس کے بعد کا مشاہدہ پلس مطالعہ ۔۔
قیام پاکستان کے پہلے سال میں جو مہمانداری یک جہتی اور ہر قسم۔اب کے تعصب سے پاک اپناییؑت کےجذبات کا جوش میں نے لاہور میں 1948 تک دیکھا وہ ایک قومیت کا مکمل تصور پیش کرتا تھا جب میں نےپہلی عید کی نماز بادشاہی مسجد میں ادا کی پہلے یوم آزادی کا جشن دیکھا ۔پھر قایؑد اعظم کی وفات پر سوگ ۔۔۔(میرے والد اور میرے 25 سال بعد کے سسر ساتھ بیٹھے زار و قطار رو رہے تھے)۔۔۔ اور گاندھی کے قتل پر سوگ میں لاہور کے بازار بند دیکھے۔آج بھی میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت پاکستانی ایک قوم تھے
پھر راولپینڈی میں چار سال کی ابتدایؑ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں پشاور کے ایڈورڈزکا لج پہنچا تو کانگرس سے سرحدی گاندھی کا خطاب پانے والا سرخ پوش راہنما عبدایغفار خان کسی زخم خوردہ سانپ کی طرح زندہ تھا۔اس کی پاکستان مخالف قوت کو سرحد کے مسلمان عوام کے ریفرنڈم نے اورکانگریسی حکومت کو قایؑداعظم نے ختم کر دیا تھا۔ ایک قومیت کے خلاف پہلی علیحدگی کی تحریک کی بنیاد اس نے رکھی کیونکہ اس کی اپنی سیاست کے اور ذاتی مفادات بھی اسی سے وابستہ تھے۔اس نے "پختونستان" کے نعرے سے محدود اقلیت والے حامی عناصر کو ساتھ ملالیا تھا،مسلم لیگی وزیر اعلیٰ عبدایقیوم خان نے اس تحریک کو سختی سے بھی کچلا اور عوامی فلاح کی اصلاحات سے بھی ۔۔اور بالاخر کامیاب رہا ۔۔۔ سرحدی گاندھی اب کابل میں دفن ہے۔۔دو گز زمین بھی نہ ملی کوےؑ یار میں۔۔یہ بہادر شاہ ظفر کا نوحہ تھا۔۔غفار خان کی خواہش اور وصیت تھی
غفار خان کے تین بیٹے تھے۔۔ بڑاغنی خان مصور اور شاعرتھا ۔وہ آبایؑ قلعہ نما حویلی میں رہ کرگنا پیدا کرنے والی زمینوں اور چارسدہ شوگر مل کو سنبھالتا تھا۔ ولی خان سیاسی جانشیں ہوا۔ چھوتاعلی خان پشاور یونیورسٹی کا وایؑس چانسلر بنا۔ ان دونون نے پختونستان تحریک کو آگے بڑھایا یعنی ایک قومیت کے تصور کو دانستہ تقسان پہنچایا۔۔علی خان نے اسلامیہ کالج میں تحریک کو قوت دی۔مجھے یاد ہے کہ اس کی مخالفت کرنے واکے ایک طالب علم کو اتنا مارا گیا کہ وہ 6 ماہ ہسپتال میں پڑا رہا۔صدر سے ملحق ایک جگہ " نوتھیا" تھی جہاں کریم کبابی کے چپلی کباب ٹاپ پر تھے۔ لیکن یہ پختونستان کے حامی اور بدنام عناصرکی پناہ گاہ بھی تھی ،قیوم خان نے سب کو ڈنڈے سے سیدھا کیا اور علاقے کو پاک کرکے وہاں ایر فورس کو آباد کیا۔میں ناواقفیت کے باعث 26 دن اس علاقے میں رہا ۔اس عرصے میں 5 قتل ہوۓ اور خیریت گزری کہ ہم باڑہ لاین کے سرکاری کوارتر میں منتقل ہوگےؑ
پختونستان کی علیحدگی پسند تحریک میرے 1958 میں گریجویشن کرنے تک ختم ہوچکی تھی اس کی بنیاد خالص مقامی سیاست سے وابستہ ایک خاندان اور اس کے مفاد پرست حامی عناصرتک محدود تھی لیکن اس سے قومیت کے فروغ پزیر تصور کو ناقابل تلافی نقسان ہوا۔۔اس کا ایک ذیلی رد عمل بھی عجیب تھا۔وہان ہرراہ چلتے پتلون پہننے والے کو" دال خور پنجابی" کی گالی دی جاتی تھی۔جو مجھے بھی دی گیؑ۔۔اسے گالی بنانے کا طریقہ یہ تھا کہ مخاطب کی طرف ایک ہاتھ کی پانچ انگلیوں کولاوڈ اسپیکر کی شکل میں اٹھایا جاتا تھا اور یہ "لعنت" کا نشان تھا۔پنجابی کا لفط صرف پنجابی بولنے یا پنجاب کے باسی کیلےؑ مخصوص نہ تھا۔۔یہ جذبات بھی معدوم ہوگےؑ جو متعصب اور غیر تعلیم یافتہ عناصر تک محدود تھے۔میں اس دور مین ریڈیو پاکستان کیلےؑ ڈرامے لکھتا رہا ، شاعر فارغ بخاری کے علاوہ وہاں احمد فراز پروڈیوسر اور میرے مدگار دوست تھے۔جن کا مجموعہ "تنہا تنہا" شایع ہو کے مقبول ہو چکا تھا،ایک خاتون پرؤدیوسررعنا شیروانی اسے (مجموعے کو) سینے سے لگاؑےؑ پھرتی تھیں ۔یہ بعد میں غالبا" پی ٹی وی کی ایم ڈی بھی ہوییؑں۔۔ 1958 میں ایوب خاں کا پہلا مارشل لا نافذ ہونے تک میں وہیں تھا اور ،یں سمجھتا ہوں کہ جس دور میں پاکستانی قومیت کی بنیادوں کو استوار کیا جا سکتا تھا وہ حالات مقامی سیاست دانوں نے ذاتی اور مالی مفادات پر قربان کےؑ اور مارشل لا کی راہ ہموارکی،،پاکستانیوں کو ایک قوم بننے نہیں دیا گیا۔اس کے مضمرات اور نقصانات کا خمیازہ ہماری موجودہ نسل کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

-------------------------------
مزید کچھ عرض کرنے سے پہلے میں اپنی کم آگاہی کا اعتراف کر لیتا ہوں ۔۔میں نہ تاریخ داں نہ مفکر۔۔میری یاد داشت میں عام انسانی فرو گزاشت ممکن اور میرا مشاہدہ کم فہمی پر مبنی ہو سکتا ہے مجھے ہرگزہرگز ؎ نہ سایش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔۔میں اس اختلاف کا متمنی ہوں جو دلیل ۔ درست حوالے اور واقعاتی حقایق پر مبنی ہو اور میرے فکری نتایج کی تصحیح کرے۔میں سب کی آراؑ کی قدر اور سب کے جزبات کا احترام ہی عین انسانیت اور اپنی اخلاقی ذمے داری جانتا اور مانتا ہوں
گزشتہ تحریر نے صرف صوبہ سرحد کی تصویر کا ایک رخ پیش کیا تھا جو مجھے نظر آیا لیکن حرف آغاز ہی تو حرف آخر نہیں اور ابتدا کسی انتہا کی امانت دار نہیں۔یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ ملک کے دیگر حصے کس کی سازش کا شکار تھے اور میں اس کا جواب بھی اپنی عقل رسا کی مدد سے ہی دوںگا لیکن ؎ سفینہ چاہےؑ اس بحر بیکراں کیلۓ پختونستان تحریک ایک حصے میں اقلیت کی سوچ تھی جو اپنی موت آپ مرگیؑ لیکن کچھ سوال چھوڑ گیؑ
سرحد کے غیوراور حریت پسند عوام نے غلامی کا طوق کبھی قبول نہیں کیا تھا انگریز کے خلاف ان کا جہاد ہمیشہ جاری رہا جس کی سزا ان کو علاقہ غیر میں ایجنسی کی جابرانہ طرز حکمرانی کی صورت میں دی گیؑ جہاں ایک سیاہ قانون Frontier Crimes Regulat آج تک نافذ ہے۔۔ اس کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں ۔ہر ایجنسی پر انگریز کا ایجنٹ کسی چنگیز خاں کی طرح راج کرتا تھا۔۔وہ مدعی سے منصف تک سب کچھ تھا۔اس کے اختیار میں تھا کہ ایک جرم کی اجتماعی سزا پوری بستی کو دے اور ایک مرد کے جرم میں اس کے خانداں کو جیل میں ڈال دے چنانچہ پردہ دار ماییؑں بہنیں بیٹیان ہی نہیں ان کے شیر خوار بچے بھی پابند سلاسل رہے۔ ان کیلۓ پاکستان کی کسی اعلیٰ ترین عدالت میں اپیل نہ تھی آ آ زادی نے ان کو کیا دیا؟ وہ آمرانہ کالا قانون اسی طرح قبایلی سمجھے جانے والے علاقے میں اج بھی نافذ ہے۔۔گورے کی جگہ نوکر شاہی کے نمایندے کالے ایجنٹ نے لے لی ہے۔ ایجنسیوں پر مشتمل علاقہ غیر آج بھی پاکستان کا حصہ نہیں۔۔ کیا اسی لےؑ سرحد کے عوام نے ریفرنڈم میں بھاری اکثریت سے کانگریسی حکومت کا فیصلہ مسترد کر کے متفقہ طور پر کہا تھا کہ وہ پاکستان چاہتے ہیں؟۔۔جواب بہت سادہ ہے۔۔ کالا انگریز بھی Divide and Rule کی پالیسی کو اقتدار پر قابض رہنے کیلےؑ ضروری سمجھتا تھا اورجغرافیایؑ خط تقسیم نے ملکی حکمرانون کی سوچ کونہیں بدلا تھا۔۔وہ عوام کو غلام رکھنے پر اتفاق راےؑ کر چکے تھے ،ان حکمرانوں میں آیؑ سی ایس نوکر شاہی کے ساتھ وہ جاگیر دار طبقہ اقتدار میں شریک ہو گیا جو انگریز سے وفاداری کا انعام خان بہادر یا سر جیسے خطابات اور جاگیروں کی صورت میں پا چکے تھے۔۔علامہ اقبال نے تو کہا تھا
آ بتاوں تجھ کو رمز آیہؑ ان الملوک ۔۔۔۔ سلطمت اقوام عالم کی ہے اک بازیگری
 لیکن ان وطن فروش وڈیروں اور جاگیر داروں نے ایک قدم اگےجا کراپنی روحانی برتری کا جال بھی پھیلا دیا اور ولایت سے قانون کی سند ایل ایل بی لینے کے بعد خود کو پیر کا درجہ بھی دیا اور آج تک ان کا عقیدت مند انہیں (نعوذ باللہ) خدایؑ قوتوں کا علمبردار سمجھتا ہے۔انہی سے رزق۔۔ اولاد۔ بیماری اور موت سے نجات اور زندگی مانگتا ہے۔ایسا تب ہی ممکن تھا جب اس تک تعلیم سے پہنچنے والی بصارت اور بصیرت کی روشنی نہ پہنچنے دی جاےؑ۔ اس مشن کی تکمیل میں طاقتور بیوروکریسی ان کی شریک بنی اوربالاخر عسکری قوت بھی۔۔آج آپ جانتے ہیں ہم تعلیم کے معیار میں کہاں کھڑے ہیں۔۔ہماری اعلیٰ درس گاہوں میں ایک بھی دنیا کی500 معیاری ینیورسٹی نہیں سمجھی جاتی۔۔ان کی عطا کردہ ہر سند جعلی ہے۔۔ ۔بی اے سے ایم اے اورپی ایچ ڈی تک۔۔جب تک کہ ہایؑر ایجوکیشن کمیشن اس پر مہر تصدیق ثبت نہ کرے ۔۔اس تصدیق کے بغیر کلرک کی نوکری بھی نہیں ملتی
کیا پختونستان جیسی مرکز گریز سندھو دیش۔۔ گریٹر بلوچستان اور مہاجر صوبہ کی ہر تحریک ان کی عطا نہیں تھی جو علاقایؑ حکمرانی چاہتے تھے؟ ہوس زر میں ذاتی خزانے بھرنے کیلےؑ قومیت کے تصورکواپنے مفادات کے منافی سمجھتے تھے۔اجتماعیت کو لسانی۔۔ قبایلی۔۔صوبایؑ نفرتوں میں بدلنے کیلۓ کوشاں تھے۔۔انہون نے جھوٹ کو سچ بنایا۔مخلس کو متعصب ۔ فکر و فہم کو ملکی مفاد کے خلاف اور دانشور کو دشمن کا ایجنٹ بناےؑ رکھا۔ان کو زنداں میں پا بہ زنجیر رکھا ۔جلا وطن کیا۔۔کوڑے مار کے سر عام رسوا کیا؟ وہ سچ بولنے کی ہاداش میں یون اٹھاےؑ گےؑ جیسے ان کا وجودہی نہ تھا۔ انصاف قابل خرید بنا
35 سال تک ایک پرایؑ جنگ کا ایندھن کون بنا؟ ڈرون حملوں میں موت کہاں برسی ۔ اسی خطے پر جہان کالا قانون نافز ہے۔۔اسی قوم پر جو حریت پسند تھی۔۔ جس صوبے کا تعلیمی تناسب سب سے زیادہ تھا۔۔جس کے افراد سب سے زیادہ ذہین اور با صلاحیت تھے۔۔ کیسے؟؟۔۔اس کی تفصیل ادھار۔۔یار زندہ صحبت باقی

No comments: