Friday 10 March 2017

نوشتہ دیوار — مفہوم اور پس منظر

               ڈاکٹر محمد امین

نوشتہ دیوار سے کیا مراد ہے؟ اردو میں  یہ ترکیب بالعموم ایسے مقام پر استعمال کی جاتی ہے جب کسی چیز یا واقعے کے رونما ہونے کے امکانات قوی تر قریباً یقینی ہوں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اب تو یہ بات دیوار پر لکھی جا چکی ہے، اس کا وقوع پذیر ہونا یقینی ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ نعرے اور مطالبات (خاص طور پر سیاسی) دیواروں  پر لکھے جاتے ہیں  اور یہ تحریریں  عوامی خیالات کا اظہار ہوتی ہیں۔ جب ان میں  سے کوئی بات سچ ثابت ہو جائے تو نوشتۂ دیوار کہلاتی ہے۔
بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں  نوشتۂ دیوار اور کسی واقعے کے رونما ہونے میں  کیا تعلق ہے۔ یہ ترکیب کیسے معرض وجود میں  آئی۔ یہ تخیلاتی ہے اور کسی ادیب کی تخلیق ہے، تلمیح ہے، ضرب المثل ہے یا محاورہ ہے۔ دیواروں  پر لکھنے کا عمل ماضی قریب کی بات ہے۔ اس کی تاریخ پچاس ساٹھ سال سے زیادہ نہیں۔ قدیم زمانے میں  کوئی شخص بھی دیوار پر لکھنے کی جرات نہیں  کر سکتا تھا اور نہ ہی انسان کو ایسی آزادی حاصل تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوشتۂ دیوار کسی واقعے کی طرف اشارہ ہے جو نوشتۂ دیوار ہوا۔
تاریخ میں  ایک واقعہ ملتا ہے بائیبل میں  دانی ایل کے باب میں  مذکور ہے۔ بابل کے بادشاہ بتوکد نضر نے یروشیلم پر حملہ کر دیا اور وہاں  سے سونے چاندی کے قیمتی برتن لوٹ کر لے آیا۔ یہ برتن خاص طور پر مذہبی تہواروں  پر کھانے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یہ قیمتی برتن صرف اور صرف ان ہی کھانوں  کے لیے مخصوص تھے۔ بتوکدنضر کی سلطنت کے اختتام پر اس کا بیٹا بیلشضر تخت نشین ہوا۔ بیلشضر نے امرا کی بہت بڑی ضیافت کی۔ بیلشضر نے ان برتنوں  میں  جو اس کا باپ بتوکد نضر یروشیلم سے لوٹ کر لایا تھا مے نوشی کی۔ جس سے ان برتنوں  کا تقدس پامال ہوا۔ بیلشضر نے نشے میں  بتوں  کی تعریف کی۔ یوں  وہ گناہ گار ہوا۔ اسی دوران غیب سے ایک ہاتھ نمودار ہوا، اور اس نے دیوار پر لکھا، مئے مئے تقیل و فرسین۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ خدا نے تیری سلطنت کا حساب کیا اور اسے تمام کر ڈالا۔ اس تحریر سے بیلشضر خوف زدہ ہو گیا اور اس نوشتہ ٔ دیوار کو حضرت دانیال علیہ السلام نے پڑھا۔ بیلشضر کی سلطنت جلد ہی ختم ہو گئی۔
اس واقعے کے پس منظر میں  نوشتۂ دیوار کا مفہوم سمجھ میں  آتا ہے یعنی اس سے مراد کسی سلطنت، حکومت اور اقتدار کا زوال یا اختتام ہے۔ حالات و واقعات اس قدر خراب ہو جائیں  کہ حکومت کا جانا یقینی نظر آنے لگے۔ تو کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کا جانا نوشتۂ دیوار ہے۔ میرے خیال میں  یہی مناسب اور موزوں  معانی ہیں۔ میرا قیاس ہے کہ یہی واقعہ نوشتۂ دیوار کا پس منظر ہے۔ ممکن ہے ایسا نہ ہو۔ کوئی اور واقعہ اس کا محرک ہو، یا یہ ترکیب محض تخیلاتی ہو۔ فرہنگ آصفیہ اور فیروز اللغات میں  یہ ترکیب نہیں  ملتی۔ البتہ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت میں  موجود ہے اور اس کے معانی میں  اشارۂ غیب کے معنی بھی درج ہیں۔ اشارۂ غیبی کے حوالے سے متذکرہ پس منظر کو تقویت ملتی ہے۔
٭٭٭
ماخذ:
اخبارِ اردو
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

No comments: