Friday 10 March 2017

صوتیات اور زبان کی ترکیبی اہمیت

               قاسم یعقوب

اُردو صوتیات (فونیمز) کی بنیادی تقسیم کے حوالے سے متعدد آرا ء موجود ہیں۔ بنیادی طور پر صوتیات کی تقسیم زبان میں  عمل پیرا مختلف آوازوں  کے اُتار چڑھاؤ سے وقوع پذیر صوتیاتی تبدیلیوں  سے ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اُردو صوتیات کو مصمتی، مصوّتی اور نیم مصوّتی درجہ بندیوں  میں  امتیاز کرتے ہوئے کل ۴۱ صوتیات (فونیمز) کی فہرست پیش کی ہے، جس میں  و، ن، ہ، ی، ے، کو مزید ذیلی اصوات میں  تقسیم کیا گیا۔ (۱) اسی طرح مختلف لہجوں  کے فرق سے فونیمز میں  تبدیلی اور زیر، زبر اور پیش سے آوازوں  کی صوتی تبدیلی سے معنیاتی کیفیت پر اثرات بھی دراصل فونیمز کے بنیادی امتیازی عناصر کے قریب تر عمل ہے۔ یہاں  یہ بات یاد رہے کہ حروفِ تہجی ہی کسی زبان میں  مصمتی اور نیم مصوّتی فونیمز کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں، جیسے انگریزی میں  A, B, C, D اور اُردو میں  ا، ب، پ وغیرہ۔ ان کو بنیادی آوازیں  (Segmental Phonemes) کہا جاتا ہے مگر جب مختلف بنیادی فونیمز آپس میں  مل کر زبان میں  مختلف لسانی تصورات کی تشکیل کرنے لگتے ہیں  تو کچھ آوازیں  ایسی بھی پیدا ہوتی ہیں  جو Segmental فونیمز کے زمرے میں  نہیں  آتیں۔ یہ عمل عموماً ہر زبان کی عملی سطح پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اُردو میں  بنیادی فونیمز کی تقسیم عربی اور فارسی کے لسانی نظام سے مستعار ہے، جس کی وجہ سے گرافک سطح پر موجود فونیمز اکثر اوقات دھوکہ دیتے ہیں۔ مثلاً :
۰ س، ص، ث ۰ ز، ذ، ض، ظ، ژ ۰ ت، ط ۰ ح، ہ
کیا ہمارے لسانی ماہرین نے اُردو کے بنیادی فونیمز کی چنداں  تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں  کی اور ایسی بہت سی آوازیں  جو بالاصوت امتیازی فونیمز (Supra Segmental Phonemes) کے زمرے میں  رکھی جاتی رہی ہیں، کیا اُردو کے بنیادی حروفِ تہجی قرار نہیں  پائی جا سکتیں ؟
اُوپر پیش کردہ ایک ہی بنیادی آواز کے نمائندہ مختلف صوری امیجز اب اُردو رسم الخط کا ایسا لازمی حصہ بن چکے ہیں  کہ اُردو کی صوری شناخت کی بنیادی اکائی تصور ہوتے ہیں۔ لہٰذا مذکورہ ایک ہی فونیم کی مختلف اشکال کا خاتمہ یا تبدیلی پورے اُردو رسم الخط کے انہدام کی طرف اقدام ہو گا۔
یہاں  شان الحق حقی صاحب کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے :
’’کہتے ہیں  کہ وی وڈ مچ را ور لائک ٹو اڈائپ دی اُردو سکرپٹ۔۔۔ ان الفاظ کو پڑھنے میں  آپ کو کتنی دقّت ہوئی اور یہ الفاظ صوتی اعتبار سے اچھی طرح ادا بھی نہیں  ہوئے کیوں  کہ یہ رسم الخط ان کے لیے بنا ہی نہیں۔ لیکن غورکیجیے تو الفاظ کا مفہوم بھی بعینہٖ وہ نہیں  رہا۔ جتنا کچھ بھی فرق واقع ہوا ہے وہ جمالیاتی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ فقط ’’ایکسکوئزٹ‘‘ کی مکمل قیمت وہ نہیں  ہو سکتی جو Exquisite کی ہے۔ جس طرح لہجے کے فرق سے بعض اوقات الفاظ کا مفہوم کچھ سے کچھ ہو سکتا ہے، اسی طرح رسم الخط کا اختلاف بھی وہی حکم رکھتا ہے جو تلفظ یعنی مخرج، لہجے، لحن اور حرکت و سکون کا۔ لفظ دوشیزہ کو ’’دو شے زا‘‘ کر دیجیے تو مفہوم غائب ہو جاتا ہے۔ جس طرح تقریر میں  الفاظ کی ایک صوتی حیثیت ہوتی ہے۔ اسی طرح تحریر میں  ان کی ایک صوری حیثیت بھی ہے، جس کا قائم رہنا نہ صرف مستحسن بلکہ لازم ہے۔ ‘‘(۲ )
لفظوں  کی تحریری شکل بھی دراصل زبان کی طرح ثقافت کے برسوں  کے ثقافتی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے، چوں  کہ لفظ کے Signifier کے صوری اور صوتی امیجز میں  Signified یا تصورِ شے کا عکس من مانا یا اختراعات پر مبنی نظام ہے۔ اصل میں  اس (Structural Reality) کے ساتھ ساتھ ایک مانوسیت کی من مانی حقیقت بھی موجود ہوتی ہے جو حقی صاحب کو مذکورہ اقتباس میں  معنی خیزی (Signification) کے عمل سے دور کر رہی ہے۔ ’’ایکسکوئزٹ‘‘ کیوں  مکمل قیمت ادا نہیں  کر رہا؟ اس لیے نہیں  کہ یہ انگریزی کا لفظ ہے بلکہ اس کے تصور کی ثقافتی عمر اُردو کیassociation structural میں  نہیں  موجود، لہٰذا اس لفظ کا صوتی اور صوری ساختیہ دوسرے لفظوں  سے اختلافی سطح پر کوئی معنی خیزی پیدا کرنے میں  ناکام ہے۔ زبان میں  بنیادی فونیمز کی ادائیگی سے قاصر الفاظ ہی اُس زبان کا حصہ نہیں  بن سکتے ورنہ ہر لفظ اپنے مخصوص ثقافتی استعمال کے بعد زبان کے ساختیاتی نظام میں  جگہ پا سکتا ہے۔
اُردو زبان تو اس حوالے سے بہت زرخیز ہے کہ اس میں  غیر زبان کا لفظ دیسی ساخت کو قبولنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اُردو میں  افعال اور ان کے مصادر مثلاً، اٹھنا، پڑھنا، چلنا، پھرنا وغیرہ، حرف جار مثلاً، تک، کو، سے، میں، پر وغیرہ، اور تذکیر و تانیث، واحد/ جمع کے اُصول دیگر زبانوں  کے لفظوں  کو خالص مقامی سطح (ثقافتی اور لسانی) پر رَچ بسنے میں  مدد فراہم کرتے ہیں۔ کیا انگریزی کا ہر لفظ اُردو میں  نامانوس ہو گا، مثلاً سکول، یونیورسٹی، یوٹرن وغیرہ حقی صاحب کے بقول رسم الخط کے اختلاف میں  آنے کے باوجود کیا کوئی معنی نہیں  دے رہے؟ کیا ان الفاظ کی کوئی جمالیاتی قدر متعیّن نہیں  ہوتی؟ یہ الفاظ، دراصل اُردو کے ثقافتی عمل کا حصہ بن چکے ہیں۔
فونیمز کی تقسیم کے ساتھ ساتھ لفظوں  کی جمالیاتی حیثیت (جو زبان کے ساختیاتی پھیلاؤ سے مانوسیت ہوتی ہے) بھی معنی خیزی کے قریب ترین تصور کو پیش کرتی ہے اسی لیے ’’دوشیزہ‘‘ کی بجائے ’’دو شے زا‘‘ غیر مانوس ہونے سے اپنے قریب ترین Trace سے ہٹ گیا حالاں  کہ فونیمز کی ادائیگی دونوں  صورتوں  میں  یکساں  ہے۔
تحریر کو پڑھتے ہوئے صوری امیجز، فونیمز کی تقسیم کا کام کر رہے ہوتے ہیں، لہٰذا تحریری شکل میں  موجود الفاظ کو اُن کی جمالیاتی مانوس اشکال میں  قرات کے دوران فونیمز کی درست ادائیگی کا نمائندہ ہونا چاہیے۔
اُردو میں  بہت سے الفا ظ مرکب شکل میں  نئے تصور کو جنم دیتے ہیں۔ جیسے یکساں، دلچسپ، بلکہ، راہنمائی، پسپائی وغیرہ، جو اصل میں  بالترتیب یک ساں، دل چسپ، بل کہ، راہ نمائی، پس پائی کو یکجا کرنے کا عمل ہے۔ یہ الفاظ دیگر مختلف لفظوں  کی مرکب شکل ہیں، ان کو جدا یا اکٹھے لکھنے کے لیے زبان کی ساختی صوری تقسیم (Typological Classification) کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ جو دراصل زبان کے ارتقا کے تدریجی پھیلاؤ میں  Intonation System کا لازمہ ہوتی ہے۔ یہ Intonation System زبان کی ساختیاتی سطح پر لفظوں  کی صوتیاتی توڑ
کے طرے انشا پر لغُwhy shed cop پھوڑ سے نئے صرفیے (Morphemes) پیدا کر رہا ہوتا ہے۔ یہ عمل کسی خاص وقت میں  شروع ہو کر مکمل نہیں  ہو جاتا، بلکہ زبان کے استعمال کرنے والوں  میں  مسلسل جاری رہتا ہے۔ فونیمز کی طرح مارفیمز بھی زبان کی معنی خیزی میں  اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کی ابتدائی شکل تحلیلی (Analytic) ہوتی ہے۔ (۳) اپنے خودکار نظام کی ترقی یافتہ شکل میں  آنے تک ترکیبی سطح (Synthetic) پر پہنچ جاتی ہے۔ زبان کی ساختی یا صوری (Typological) تقسیم اصل میں  فونیمز کے آپس میں  ادغام اور تفریق سے نئے لفظوں  کی صوتیاتی تقسیم ہی کا نام ہے۔ مثلاً جدا سے جدائی، آنا سے آہٹ وغیرہ کی تبدیلیاں  پابند صرفیے (Bound Morpheme) اور آزاد صرفیے (Free Morpheme) سے ترکیب پاتی ہیں۔ لفظوں  کی ترکیبی (Synthetic) شکل کو توڑ کر تحلیلی سطح میں  تقسیم مجموعی معنی خیزی سے دور کرنے کا عمل ہوتا ہے۔
ہر لفظ زبان میں  اپنے مخصوص تصور کا قریب ترین نمائندہ ہوتا ہے۔ ڈریڈا کے ہاں  تصورِ معنی (Signified) کا یک معیناتی انکار اصل میں  لفظ کی من مانی حیثیت اور کسی حد تک فونیمز سے مارفیمز تک صوتی اور صوری شکل بھی ہے۔ ایک لفظ اپنی ’’تخلیقی‘‘ درجہ بندی میں  اپنے مادے کی مختلف حالتوں  یا سماجی تناظرات سے گزر کے ساختی نظام کا حصہ بنتا ہے۔ (۴ )
گھر سے گھریلو بناتے ہوئے گھر کا Trace ناگزیر ہے۔ جھگڑا سے جھگڑالو، مکتب میں  کتاب، ادب میں  ادیب، آداب کے Trace لفظی یا صوری سطح پر بھی موجود ہیں۔ متن کا مطالعہ کرتے ہوئے تحریری سطح پر موجود لفظیات کا گرافک تاثر ہی فونیمز کی تقسیم میں  مدد دیتا ہے۔ ایک ہی لفظ مختلف طریقوں  سے لکھا گیا ہو تو پڑھتے ہوئے آواز کی بنیادی تبدیلیوں  کا باعث بنتا ہے، لہٰذا ’’پس پائی‘‘ میں  پس اور پائی اُردو زبان کی ساختی ترتیب میں  الگ الگ تصورات کو لیے موجود ہیں۔ پسپائی کی ترکیبی شکل کی دو حصوں  میں  تقسیم پس اور پائی دراصل پسپائی کے تصور معنی (Signifier) کو دو واضح اور ناگزیر Trace میں  تقسیم کرنے کا عمل ہے اور ہر ان دو کے مزید دیگر Traces، جو لفظ کی ترکیبی حالت سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں، میں  بھی جھانکنے کا باعث ہو سکتے ہیں۔ یوں  یہ زبان کے قریب ترین معیناتی عمل سے دور لے جانے کی کوشش ہے۔
فونیمز کی درست ادائیگی کے قریب جانے کی کوشش میں  مارفیمز کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ زبان کی ترکیبی سطح (Synthetic) فونیمز کی اُلٹ پلٹ (Permutation) کے بعد کا عمل ہوتا ہے۔ اگر مارفیمز کی ارتقائی اہمیت سے انکار کرتے ہوئے صوتیے (phonemes)کے قریب ترین تقسیم سے زبان کا عمل آسان اور درست ہو سکتا ہے تو ایسے صوتیے (Phonemes) رکھنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے جو ایک ہی بنیادی آواز کی کئی شکلوں  میں  نمائندگی کر رہے ہیں۔ اگر صابر کو سابر لکھنے کے عمل کو زبان کے صوری نظام (Graphic Structure) میں  بگاڑ کہا جا سکتا ہے تو دلچسپ، راہنمائی وغیرہ کو مادے کے قریب کرنے سے مارفیمز کے ارتقائی، غیرشعوری اور تاریخی سطح پر کانٹ چھانٹ سے تعمیر نظام میں  بگاڑ کیوں  نہیں  کہا جا سکتا۔
زبان کی ترکیبی بُنت، اس میں  موجود تجربات کی ثقافتی معنی خیزی کو زیادہ پُراثر بنانے کی جہت ہوتی ہے۔ ثقافتی عمل سے وجود پانے والے تصورات اپنے صوری اور صوتی ساختیے خود تخلیق کرتے ہیں  جو زبان کے اندر توڑ پھوڑ سے بھی اور زبان سے باہر پڑے الفاظ کو جوں  کا توں  اُٹھا کے زبان کا خمیر بنا لینے سے وجود میں  آتے ہیں۔ ہمیں  زبان کے اس ثقافتی ڈھانچے کا لسانی احترام کرتے ہوئے انہیں  خوش آمدید کہناچاہیے۔

حواشی

( ۱ ) گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر:اردو کی بنیادی اور ذیلی آوازیں، مشمولہ مقالہ در’اردو املا و قواعد‘ مرتّب:ڈاکٹر فرمان فتح پوری، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، ۱۹۹۰ء
( ۲ ) حقی، شان الحق:رسم الخط کی الجھن، مشمولہ مقالہ در’اردو رسم الخط‘، مرتّب:شیما مجید، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، ۱۹۸۹ء
( ۳ ) البتہ کچھ زبانیں  ایسی بھی ہیں  جن میں  الفاظ اپنے مادے ) roots (کے قریب یامادے ہی ہوتے ہیں۔ مادہ لفظ ہی جملے میں  مختلف حالتوں  کے استعمال سے مختلف معنی پیدا کرتا ہے۔ ایسی زبانیں  عموماً پابند اور آزاد صرفیوں  سے ماورا ہوتی ہیں۔ چینی زبان اور اس سے ملتی جلتی بولیاں  اس کی مثال ہیں۔
( ۴ ) ڈریڈا نے معنی کی عدم قطعیت کی بجائے کثیرالمعنیت پر زور دیتے ہوئے لفظ کے حاضر اور غائب tracesکا نظریہ پیش کیا ہے۔ کثیر المعنیت کا مطلب یہ نہیں  کہ لفظ کا معنی آزاد پرواز کرتا خطوں  کی حدود سے ماورا ہو جائے۔ اس کے لیے وہ استعمال شدہ لفظ کے تناظرات کا خیال رکھتا ہے۔ کوئی بھی لفظ اپنے تہذیبی، تاریخی اور زبان میں  موجود اپنی نحوی (syntex) درجہ بندی کے تناظرات سے بھی ماورا ہو کے کوئی معنی نہیں  پیدا کر سکتا۔ معنی خیزی کے عمل میں  وہ معنی پیدا کر رہا ہوتا ہے مگرحتمی نہیں  بلکہ اپنے تناظر کے پھیلاؤ میں  اپنی موجودگی کے اثبات کے حد تک۔
وہ اپنی کتاب Of Grammatology میں  لکھتا ہے:۔
“why of the trace?what led us to the choise of this word?I have begun to answer this question.but this question is such the nature of my answer,that the place of the one and of the other must constanly be in movement.If words and concepts receive meaning only in sequences of differences.one can justify one’s language,and one’s choise of terms,only within a topic(an orientation in space)and an historical strategy.the justification can therefore never be absolute and definite”/
Derrida,jacques:Of Grammatology (translated by bayatri chakrroth), johan hopkins university press,1976.
٭٭٭

No comments: