Thursday 9 March 2017


یہ کہاں کی دوستی ہے؟

(سندھ اسمبلی میں نفاذ اردو کی قرار داد کا استرداد)

پروفیسر محمد سلیم ہاشمی 
کل سے کئی دوست مجھ سے رابطہ کر چکے ہیں، فون پر فیس بک پر، واٹس ایپ پر بھی، وہ سندھ اسمبلی میں اردو کے نفاذ کے حوالے سے پیش کی جانے والی قرار داد کے استرداد پر مضطرب اور بے چین تھے، بہت کچھ کہہ رہے تھے، کچھ سننا بھی چاہ رہے تھے۔ میں تو اس قرار داد کے پیش کیے جانے اور اس کے وقت پر حیران ہوں۔ جو کام خود بہ خود ہو رہا تھا اور رفتہ رفتہ اپنی جگہ بنا رہا تھا، اس پر یہ قرار داد پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ پھر یہ کہ کسی حلیف یا حریف سیاسی جماعت سے کوئی بات چیت نہیں کی گئی، کوئی بنیادی کام نہیں کیا گیا اور بغیر کسی تیاری کے یک دم ایک ایسی قرار داد پیش کی گئی جس کا مقصد مجھے تو اس کے استر داد کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
افسوس تو اس بات پر بھی ہے کہ ابھی سندھ اسمبلی میں سندھی زبان کو قومی زبان کی حیثیت قرار دینے کی قرار داد کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی کہ یہ قرار داد پیش کر دی گئی، کیا اس کا کوئی پیش کار بتا سکے گا کہ ایسی قرار داد پیش کرنے کا یہ کون سا وقت اور انداز تھا؟
جہاں تک سندھ میں سندھی کو نافذ کرنے یا ذریعہ تعلیم بنانے کی بات ہے، اس پر جذباتی انداز اختیار کرنے کے بجائے گہرے غور و خوض اور سوچ بچار کی ضرورت ہے۔
سندھ میں سندھی زبان اور سندھی ہونے پر فخر کا اظہار ایک ایسا ترپ کا پتا ہے جسے کھیل کر کوئی بھی سندھی عوام کی حمایت اور ہم دردی حاصل کر سکتا ہے اور پچھلی کئی دہائیوں سے ایسے بے شمار واقعات میری نظرسے گزر چکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سندھی کہاں کہاں نافذ ہے، کس کس سطح پر نافذ ہے اور اندرون سندھ کے ایک عام سندھی کو اس سے کیا مل رہا ہے اور مزید کیا ملے گا؟
اس کے ساتھ ساتھ کئی اور سوالات بھی جڑے ہوئے ہیں میں ان سب کے جوابات دینے کی کوشش کرتا ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ ان امکانات پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں جو ان سوالات اور ان کے جوابات سے جڑے ہوئے ہیں۔
اندرون سندھ کے اسکولوں میں سندھی ذریعہ تعلیم ہے، سندھی زبان میں ایف آئی آر درج کی جاتی ہے، تھانوں کے روزنامچے لکھے جاتے ہیں، پٹواریوں کا ریکارڈ اور زمینوں کی مسلیں بھی سندھی میں لکھی جاتی ہیں۔ ماتحت عدالتوں میں مقدمات کی کارروائی اور فیصلے بھی سندھی میں لکھے جاتے ہیں۔ جامعات میں سندھی زبان کے شعبے بھی قائم ہیں جہاں سندھی زبان کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔
بڑے شہروں، قصبوں اور ترقی یافتہ علاقوں میں بڑے بڑے نجی انگریزی میڈیم اسکول قائم ہیں جہاں تعلیم انگریزی میں دی جاتی ہے۔
سندھی ہاری، کسان، مزدور، کلرک، سپاہی، چپڑاسی اور چھوٹے دکان دار کی اولاد سندھی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرے گی اور اگر کسی سطح تک پڑھ لے گی تو وہ سپاہی، کلرک، چپڑاسی یا کوئی چھوٹی موٹی نوکری کر لے گی۔
وڈیروں، جاگیرداروں، سرکاری افسروں، اراکین اسمبلی، صنعت کاروں اور بڑے تاجروں کی اولادیں بڑے بڑے نجی انگریزی میڈیم اسکولوں میں پڑھیں گی، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر، انجینئر، سرکاری افسر بنیں گی یا پھر کسی کثیرالقومی ادارے میں بھاری مشاہرے پر ملازمت کریں گی۔
جو ہو رہا ہے وہ یہ کہ سندھی کے ذریعے معاشرے کے زیریں طبقوں پر تعلیم حاصل کرنے کے اور ترقی کی دوڑ میں آگے نکلنے کے راستے میں ایک ایسی رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ہے جس کو وہ کبھی عبور نہیں کر سکتے۔ میڈیکل، انجینئرنگ سمیت اعلیٰ تعلیم اور مقابلے کے امتحانات انگریزی میں ہیں جن کے لیے بڑے بڑے انگریزی میڈیم نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے تو جگہ بنا لیتے ہیں مگر جو بچہ تمام تعلیم سندھی میڈیم میں حاصل کرتا ہے اس کے لیے یہ سب ناقابل رسائی ہو جاتا ہے۔ اندرون سندھ رہنے والوں کو، ہاری، کسان، مزدور، کلرک، چپڑاسی، سپاہی اور چھوٹے تاجر کو سندھی زبان کا نعرہ تو دے دیا جاتا ہے، جلسوں کی رونق تو بڑھا لی جاتی ہے اور وہ نچلا طبقہ ووٹوں کے ذریعے نعرہ دینے والوں کو اسمبلیوں تک تو پہنچا دیتا ہے لیکن اچھی ملازمت، باعزت زندگی، معقول روزگار ایسے خواب بن جاتے ہیں جو ایک غریب سندھی کی آنکھوں میں کبھی نہیں اترتے، تعبیر نہیں پاتے۔
سوال یہ ہے کہ جب کہ اعلیٰ تعلیم، مقابلے کے امتحان اور ترقی کے تمام امکانات انگریزی میڈیم میں ہیں تو ایک غریب سندھی، سندھی میں تعلیم حاصل کر کے کیا کرے گا؟ وہ لوگ جو سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کی قرار داد پیش اور منظور کرتے ہیں کیا وہ اس بات کا جواب دینا پسند کریں گے کہ ایک عام سندھی کو سندھی زبان میں تعلیم دے کر ترقی اور کام یاب زندگی سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے؟
پنجاب میں جب دانش اسکول قائم کے گئے تو کہا گیا کہ ان اسکولوں کے ذریعے ایک غریب آدمی کا بچہ بھی وہی تعلیم حاصل کرے گا جو ایچی سن کالج میں دی جاتی ہے۔ اس پر ہم نے کہا کہ جناب ہر سطح پر تمام تعلیم اردو میں کر دیں اس سے ساری قوم کا ہر ایک بچہ ایچی سن کے معیار کی تعلیم حاصل کرے گا مگر مقصد ہر دو صوبوں کی اشرافیہ کا ایک ہی ہے (اور وہ یہ کہ ایک عام پاکستانی کو اچھی تعلیم، اعلیٰ ملازمتوں اور عہدوں کی دوڑ سے باہر رکھنا ہے) اسی لیے پاکستان بننے کو 70 سال، آئین پاکستان کو لاگو ہوئے 44 سال اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو ڈیڑھ سال ہونے کو آئے اردو کے نفاذ کی کوئی معقول صورت ابھی تک نظر نہیں آتی۔
پھر یہ بات ہے کہ سندھ پاکستان کا ایک صوبہ ہے جو آبادی کے لحاظ سے دوسرا اور رقبے کے لحاظ سے تیسرے درجے پر آتا ہے۔ جب یہاں کے بچے سندھی میں تعلیم حاصل کریں گے تو وہ باقی پاکستان سے کٹ جائیں گے۔ وہ باقی پاکستان میں کوئی ملازمت کر سکیں گے نہ کاروبار، نہ وہ کسی سے کسی قسم کے رابطے یا تعلق کے قابل ہوں گے۔ وہ سارے مواقع جو پاکستان بھر میں بکھرے ہوئے ہیں ان سے سندھی نوجوانوں کو محروم کردینا ان کے ساتھ دوستی ہے یا ان کے استحصال کی صورت؟ میرے نزدیک تو سندھی زبان میں بچوں کو تعلیم دینا ان کو اعلیٰ تعلیم، بہتر مواقع، اعلیٰ ملازمتوں اور پاکستان بھر میں مواقع حاصل کر دینے سے محروم رکھنے کی کوشش ہے۔ یہ بات سندھی نوجوان جتنی جلدی سمجھ جائے اسی قدر بہتر ہے۔ جہاں تک سندھی زبان کا تعلق ہے، وہ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے استعمال ہونی چاہیے، سندھی زبان کی تعلیم ضرور حاصل کرنا چاہیے، اس کو بھر پور فروغ ملنا چاہیے، اس میں شاعری، افسانہ نگاری اور ادب کی تخلیق کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور اس کو ہر وہ مقام ملنا چاہیے جو اس کا حق ہے۔ اس کام کے لیے نئے ادارے بنانے چاہئیں اور پہلے سے موجود اداروں کو زیادہ فعال بنانا چاہیے اور اس کام کے لیے سندھی ادیب، شاعر اور دانش وروں کو آگے آنے کے مواقع دینے چاہئیں اس طرح سندھ اور سندھی زبان کی بہترین خدمت کی جا سکتی ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہاں پر فوری طور پر ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر اردو کا مکمل نفاذ ہونا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ کے 8 ستمبر 2015ءکے فیصلے پر بلا کم و کاست عمل ہونا چاہیے، مقابلے کے امتحانات کے حوالے سے عدالت عالیہ لاہور کے فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل ہونا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ آنے والے تعلیمی سال سے تمام شعبہ جات میں ہر سطح پر اردو میں تعلیم دیں. مانٹیسوری کلاسوں میں انگریزی میں تعلیم دینے پر مکمل پابندی ہونی چاہیے، اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کی کوشش کرے تو اس کو قید اور جرمانے کی سزا دی جائے۔ انگریزی کی لازمی مضمون کی حیثیت ختم کر کے اس کو دیگر زبانوں کے ساتھ ایک اختیاری مضمون کے طور پر ششم تا ہشتم تک پڑھایا جائے۔
ہم پاکستانی ہیں، ہمیں پاکستانی بن کو سوچنا ہوگا نہ کہ یہ خود کو کسی ایک صوبے یا علاقے تک محدود کر لیں اور نہ یہ کہ بین الاقوامی ہونے کی چاہ میں ایک ایسی زبان کو گلے کا طوق بنا لیں جو ہم میں سے کسی کی زبان نہیں اور جس نے 70 سال سے ہماری ترقی اور خوش حالی کے آگے بند باندھ کر ہمیں آزادی کی حقیقی نعمتوں سے محروم رکھا ہوا ہے۔

1 comment:

Urdu Zuban said...

بالکل درست فرمایا سر سندھی زبان کی اہمیت اپنی جگہ مگر اردو جیسی ہمہ گیریت کسی میں بھی نہیں ہے اور کوئی بھی زبان وطن عزیز کی تمام قوموں کو یک جا کرنے کی صلاحیت کی حامل نہیں ہے۔