Friday 10 March 2017

ابن انشاء اور قتیل شفائی

ابن انشاء کا کلام*“انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو“* جس کے لکھنے کے ایک ماہ بعد وہ وفات پاگئے تھے۔
اس کے بعد قتیل شفائی نے غزل لکھی “یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی“، دونوں غزلیں اپنے اعتبار سے اردو ادب ميں ایک اچھا اضافہ ہيں۔
ہاں، یہ اور بات ہے کہ قتیل صاحب کی غزل زیادہ افسردہ کر جاتی ہے۔

ابن انشاء

-انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا
-وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں ٹھکانا کيا

-اس دل کے دريدہ دامن کو، ديکھو تو سہی سوچو تو سہی
-جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا پھيلانا کيا

-شب بيتی ، چاند بھی ڈوب چلا ، زنجير پڑی دروازے میں
-کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانا کيا

-پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی ايک گھڑی
-جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا

-اس روز جو اُن کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
-اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا

-اس حُسن کے سچے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں
-جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

-اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن،  اک شُعلہ لال بھبوکا بن
-یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا

-جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کرے
-ديوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کيا
*************
قتیل شفائی

-یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشاء جی
-یہ شہر تمہارا اپنا ہے، اسے چھوڑ نہ جاؤ انشاء جی

-جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں، سب کے سب تم سے پیار کریں
-کیا اِن سے بھی منہ پھیروگے، یہ ظلم نہ ڈھاؤ انشاء جی

-کیا سوچ کے تم نے سینچی تھی، یہ کیسر کیاری چاہت کی
-تم جن کو ہنسانے آئے تھے، اُن کو نہ رلاؤ انشاء جی

-تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی، اِک بات ہماری بھی مانو
-کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں، اُس دیس نہ جاؤ انشاء جی

-بکھراتے ہو سونا حرفوں کا، تم چاندی جیسے کاغذ پر
-پھر اِن میں اپنے زخموں کا، مت زہر ملاؤ انشاء جی

-اِک رات تو کیا وہ حشر تلک، رکھے گی کھُلا دروازے کو
-کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے، سجنی کو بتاؤ انشاء جی

-نہیں صرف “قتیل“ کی بات یہاں، کہیں “ساحر“ ہے کہیں “عالی“ ہے
-تم اپنے پرانے یاروں سے، دامن نہ چھڑاؤ انشاء جی....!!

No comments: