Wednesday 1 March 2017


غیر ملکی زبان کا تسلط:- قوت فیصلہ کا فقدان، بے یقینی کا بحران

تحریر: پروفیسر محمد سلیم ہاشمی




(ترمیم و تصحیح شدہ)

 غیر ملکی زبان کے تسلط نے جہاں بہت سے معاملات میں ہمیں برباد کیا ہے وہاں اس نے ہم سے قوت فیصلہ اور خود اعتمادی بھی چھین لی ہے. 
1973 میں اردو کو 155 برس کے اندر پاکستان کی سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس فیصلے کو آئین کی شق نمبر 251 کے ذریعے آئین کا حصہ بنا دیا گیا. صد حیف ہے ان حکمرانوں پر جنہوں نے آئین کی اس شق پر عمل درامد کے بجائے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے اور اس پر 2015 تک عمل نہ ہونے دیا. 
8 ستمبر 20155 کو عدالت عظمیٰ نے اردو کو پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر فوری طور پر نافذ کر کے تین ماہ کے اندر عدالت میں اس امر کی بابت رپورٹ جمع کروانے کو کہا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس پر بھی صدق دل سے عمل نہیں کیا گیا. بہت نیم دلی سے چند اقدامات کیے گئے مگر تاحال ان پر بھی مکمل اور موثر عمل درامد نہیں کیا گیا. 
 اب جو اقدامات کے گئے ہیں ان پر بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کو ان کے ہونے پر یا ان کے ہمیشہ کے لئے موثر رہنے پر بے تحاشا شکوک و شبہات ہیں. نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اب لوگوں کو عدالتوں کے فیصلوں اور ان پر عمل درامد ہونے پر بھی یقیں نہیں رہا. 
 آج شام کی بات ہے میں لاہور کے ایک مشاعرے میں مدعو تھا، وہاں پر بھی اردو کے نفاذ کے حوالے سے بات ہوئی. میں نے عدالت عالیہ لاہور کے اس فیصلے کا ذکر کیا جس کی رو سے 2018 سے مقابلے کے امتحانات اردو میں ہوں گے. حقیقت تو یہ ہے کہ لوگوں کو اس بات پر یقین ہی نہیں آ رہا. "نہیں جی نہیں ہوں گے"، "نہیں جی حکومت نہیں ہونے دے گی"، "نہیں جی یہ کیسے ممکن ہے کہ اشرافیہ اس امتحان کو اردو میں ہونے دے". اب یہ سوچیں لوگوں کے ذہنوں میں کیوں پیدا ہو رہی ہیں؟ اس سوال سے زیادہ اہم بات میرے نزدیک یقین کا وہ بحران ہے جس میں ساری قوم گرفتار دکھائی دیتی ہے. 
جس بات پر کچھ لوگوں کو بہت زیادہ تشویش ہے وہ مقابلے کے امتحانات کا 20188 میں قومی زبان میں لیا جانا ہے، جس بات کی طرف لوگوں کی نظر نہیں جاتی وہ یہ ہے کہ ایسا پاکستان بننے کے 71 سال بعد، آئین پاکستان کی منظوری کے 45 سال بعد اور عدالت عظمیٰ کے حکم نامے کے 3 سال بعد ہوگا.
یہاں پر حکومت کی بے حکمتی اور بے عملی بھی لازما" زیر بحث آنا چاہیے، جس نے 20155 میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد فوری طور پر متحرک ہونے کے بجائے چپ سادھے رکھی اور اس طرح بے یقینی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو مزید گہرا کیا. اگر 2015 میں ہر سطح پر ذریعہ تعلیم اردو کر دیا گیا ہوتا تو یقینی طور پر پاکستانی قوم اس بے یقینی کی فضا سے نکل چکی ہوتی، بہر حال اس وقت بھی اگر فوری طور پر تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم اردو کر دیا جائے تو پاکستانی قوم اس غیر یقینی صورت حالات اور تذبذب سے باہر نکل آئے گی. 2018 سے سی ایس ایس کے امتحانات بہر صورت اردو میں ہی ہونا چاہیے اور اس ضمن میں حکومت کو فوری طور پر اعلان کرنا چاہیے، تمام پرچہ جات کا اردو میں لینے کا حکم نامہ بے یقینی کی کیفیت کو ختم کر دے گا اور امیدواران پوری یکسوئی سے امتحان کی تیاری کریں گے. 
 جو امیدواران اس امتحان کے اردو میں ہونے سے خائف ہیں انہیں علم ہونا چاہیے کہ ابھی اس امتحان کے انعقاد میں ایک سال باقی ہے‫. اس دوران وہ اس امتحان کی تیاری کر سکتے ہیں. جہاں تک اس امتحان کے انگریزی میں لئے جانے کی بات ہے تو (ان کی دانست میں) اگر اردو میں ان کے لئے مواقع کم ہیں تو انگریزی میں صورت حالات اس سے کہیں زیادہ ابتر ہے جہاں کئی سالوں سے تحریری امتحان میں کامیاب ہونے والے امیدواران کی تعداد لگ بھگ 2 فی صد رہی ہے. مقابلے کے امتحان کے امیدواران حوصلے اور محنت سے کام لیں اردو میں امتحان دینے کی صورت میں ان کے اچھے نمبروں کے ساتھ کامیابی کے امکانات کئی گنا بڑھ جائیں گے. 
 یہ وقت پکار پکار کر کہ رہا ہے کہ ہمارے حکمران قوم کو غیر یقینی صورت حال سے نکالیں اور فوری طور پر 
11. تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں ہر شعبہ تعلیم میں ہر سطح پر اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کا اعلان کریں. 
2. انگریزی کی ہر درجے سے لازمی مضمون کی حیثیت ختم کر کے اس کی تدریس بند کریں اور
33. آئندہ مقابلے کے تمام امتحانات اور تمام ملازمتوں کے لئے گفت و شنید اردو میں کرنے کا اعلان کریں.
غیر یقینی صورت حال سے نجات - ایک مستحکم اور ترقی کرتا پاکستان‫.

No comments: