Tuesday 4 April 2017
سی ایس ایس کے امتحان کا انگریزی میں لیا جانا سب سے بڑی ناانصافی اور پاکستانی عوام کے ساتھ ایک گھٹیا اور گھناؤنا مذاق ہے
پروفیسر محمد سلیم ہاشمی
سی ایس ایس کے امتحان کا انگریزی میں لیا جانا سب سے بڑی ناانصافی اور پاکستانی عوام کے ساتھ ایک گھٹیا اور گھناؤنا مذاق ہے۔
سی ایس ایس کے امتحان کا انگریزی میں لیا جانا پاکستان میں بد عنوانی اور بد انتظامی کا سب سے بڑا سبب ہے کہ اس کی وجہ سے کم تر اور پست ذہنی سطح کے حامل لوگ پاکستان کی انتظامیہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ قابل، ذہین اور پاکستان سے محبت رکھنے والے نوجوانوں کو اس عمل سے انتظامیہ کا حصہ بننے سے روک دیا جاتا ہے۔
70 سال سے سی ایس ایس کے ذریعے پاکستان کی انتظامیہ کا حصہ بننے والوں نے آخر پاکستان کی کیا خدمات کی ہیں؟ پاکستان کو ترقی اور رفعت کے کس درجے تک پہنچا یا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان کا نام ہر مثبت درجہ بندی میں پست ترین درجات میں اور ہر منفی درجہ بندی میں پلند ترین درجات پر آتا ہے۔
برطانوی حکومت نے یہ نظام غلاموں کے لئے وضع کیا تھا، جس میں معیار مملکت برطانیہ کی وفاداری اور ذہن کو استعمال کہے بغیر احکامات کی بلا چون و چرا بجا آوری تھا۔ ہماری کتنی بڑی ناکامی ہے کہ ہم آزادی کے 70 سال بعد بھی ایک آزاد ملک کے لئے اس کے شایان شایان نظام نہ دے سکے۔
ہمیں اس نظام سے نجات حاصل کرنا یوگی۔ کم از کم بھی سی ایس ایس کا امتحان اردو میں لینا ہوگا کہ ہر پاکستانی اس امتحان میں شامل ہو کر اپنی صلاحیتیں اس ملک کی سربلندی کے لئے استعمال کر سکے۔
جس امتحان کی بنیاد ہی غلامانہ نہج پر ہو گی اس کے نتیجے میں بہتر صلاحیتوں اور قابل افراد کیسے آگے آئیں گے۔
انگریزی کی ہر سطح پر لازمی حیثیت ختم کی جائے۔
اردو کو تمام شعبوں میں ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔
کروں کیا فیصلہ وہ پوچھتا ہے.
پروفیسر محمد سلیم ہاشمی
(مکمل)
بڑے سوال پیدا ہو گئے، بڑے سوال پیدا ہو گئے اور اتنا مجھے پتا ہے کہ جب سوال پیدا ہوں اور ان کے جوابات سوال کرنے والوں کے ذہنوں میں اور اور جواب دینے والوں کے ذہنوں میں اور ہوں تو انقلاب آیا کرتے ہیں.
یہ نظام گل سڑ چکا ہے اور اس کے دن گنے جا چکے ہیں اہل شب جو مرضی تدبیر کر لیں دن کا اجالا نکلنے کو ہے. پاکستان میں کون سوچ سکتا تھا کہ یہاں انگریزی کی حکمرانی کو کبھی چیلنج کیا جا سکے گا، کبھی کہا جائے گا کہ انگریزی کے طاغوت سے نجات حاصل کرو اور پھر نہ صرف یہ بات سنی جائے گی بلکہ عوام کی ایک غالب اکثریت اس کی ہمنوا بن جائے گی. عدالت عظمی' کا 8 ستمبر 2015 کا فیصلہ نافذ ہونے کے لئے کیا گیا تھا، یہ نافذ ہو کر رہے گا. تاریکی اور ظلمت کے پجاری جو مرضی کر لیں جو مرضی کر لیں ان کو شکست ہونا ہی ہونا ہے اس ملک میں اس کی زبان نافذ ہونا ہی ہونا ہے. جو کچھ وہ کر رہے ہیں بس وہ ایسے ہی ہے جیسے شمع بجھنے سے پہلے بھڑکتی ہے اور پھر بجھ جاتی ہے. وہ اپنی روسیاہی میں، اپنے جرائم کی فہرست میں اضافہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پا رہے. یہ پہلی بار نہیں ہو رہا بہت دفعہ ہو چکا ہے کسی بھی نظام کے تہ و بالا ہونے سے پہلے اس کو بچانے کے لئے مقتدر قوتیں، اصحاب منبر و محراب اور انصاف کے ٹھیکیدار سب اکٹھے ہو جاتے ہیں مگر عوامی جذبات اور احساسات کا ریلا سب کچھ اپنے دامن میں خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے، روس، ترکی، چین، ایران اور فلپائن میں جو کچھ ہوا وہ ابھی لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا.
حیرت ہے جس عدالت سے لوگوں کو مقدمات کی سماعت کے لئے وقت نہیں ملتا تاریخیں ملتی ہیں، وہ عدالت یکدم اتنی فعال کیسے ہو گئی کہ اس نے ایک فیصلہ بھی صادر فرما دیا اور مزید حیرت اس بات پر کہ فیصلہ بھی ہو گیا ہے اور سماعت بھی جاری ہے۔
عدالت کے فیصلے سے پتا چلا کہ اب فیصلے آئین اور قانون کے مطابق نہیں زمینی حقائق کے پیش نظر ہوا کریں گے، زمینی حقائق بھی وہ جو فاضل کرسی نشین کی عینک سے نظر آ رہے ہوں گے.
فاضل کرسی نشین کو یہ تو نظر آ گیا کہ 51 مضامین ہیں جن میں سے 433 مضامین انگریزی میں پڑھائے جا رہے ہیں یہ نظر نہیں آیا کہ بی اے کے امتحان میں ہر سال فیل ہونے والوں کا تناسب %70 سے %75 فی صد ہے.
انہیں یہ تو نظر آ گیا کہ اردو میں دیے گئے پرچہ جات کو چیک کرنے کے لئے ممتحن حضرات نہیں ہیں یہ نظر نہ آ سکا کہ ہر سال سی ایس ایس کے امتحان میں 97 سے 98 فی صد نوجوان ناکام ہو جاتے ہیں جن میں سے صرف انگریزی میں ناکام ہونے والے امیدواروں کی تعداد پچھلے سال %92 تھی. فیل ہونے والوں میں ڈاکٹر انجینئیر، ماسٹر ڈگری ہولڈر، وکیل اور اساتذہ شامل ہیں. ان میں سے غالب اکثریت انگریزی میں یا انگریزی کی وجہ سے فیل ہوتی ہے جو بہرحال کسی پاکستانی کی زبان نہیں ہے.
انہیں یہ تو نظر آ گیا کہ 20188 سے سی ایس ایس کا امتحان اردو میں نہیں لیا جا سکتا یہ نظر نہیں آ رہا کہ انگریزی کسی پاکستانی کی زبان نہیں ہے.
انہیں یہ تو علم ہے کہ سی ایس ایس کا امتحان انگریزی میں لیا جانا چاہیے مگر یہ علم نہیں کہ جس انگریزی میں یہ امتحان لیا جاتا ہے وہ کسی اچھے خاصے انگریز کے بس سے بھی باہر ہے.
اس امتحان کا مقصد صرف اور صرف کچھ خاص لوگوں کو حکومتی اداروں میں کھپانا اور معاشرے کی غالب اکثریت کو اس سے دور رکھنے کے سوا کچھ نہیں.
یہ امتحان بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے جس میں معاشرے کے ہر فرد کو یکساں مواقع دینے کی بات کی جاتی ہے.
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ انگریزی کس میرٹ کا نام ہے اور وہ بھی ایک ایسے معیار کی انگریزی جو ایک عام پاکستانی کی دسترس سے باہر ہے. آپ اردو میں یہ پرچے لے کر بھی میرٹ کو قائم رکھ سکتے ہیں جو امیدوار قابلیت کے اعتبار سے سب سے اوپر ہوں ان کو حکومتی اداروں میں ملازمت کے لئے منتخب کر لیا جائے. مگر اس سے ہر پاکستانی مقابلے کی اس دوڑ میں شامل ہو جائے گا جو ان کو اس نظام کے تلپٹ ہونے کے سوا کسی اور صورت میں گوارا نہیں.
وہ کہتے ہیں کہ 2018 کا امتحان اردو میں نہیں لیا جا سکتا، کیا انہوں نے کسی حکومتی اہلکار کو
وفاقی وزیر تعلیم
صوبائی وزرائے تعلیم،
وفاقی اور صوبائی محکمہ ہائے تعلیم کے سیکرٹریز
محکمہ ہائے تعلیم کے اعلی' افسران
وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن کے چیئرمینز و سیکریٹریز کو
اور دیگر حکومتی اہلکاروں کو عدالت میں طلب کیا؟
کیا انہوں نے ان سے پوچھا کہ
جب کہ پاکستان کو بنے 70 سال ہو چکے ہیں
جب کہ پاکستان کے ہر آئین میں اردو کو سرکاری زبان کہا گیا ہے
جب کہ 1973 کے آئین میں 15 سال میں اردو کو تمام سطحوں پر نافذ کرنے کا کہا گیا ہے
8 ستمبر 2015 کے فیصلے میں اردو کو بلا تاخیر تمام اداروں میں اور مقابلے کے امتحانات کی زبان کے طور پر نافذ کرنے کا حکم جاری کیا گیا تو آج 29 مارچ 2017 کو عدالت کو یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ ہم 2018 میں مقابلے کا امتحان اردو میں نہیں لے سکتے.
عدالت ان محکموں سے یہ کیوں نہیں پوچھتی کہ جب کہ یہ ملک پاکستان ہے اور اس کی زبان اردو ہے اور یہ کہ انگریزی اس ملک کی، اس کے کسی باسی کی زبان نہیں ہے تو یہ غیر ملکی زبان اس ملک پر کیوں مسلط ہے؟
یہ ان لوگوں سے کیوں نہیں پوچھتی کہ مذکورہ بالا تمام باتوں کی روشنی میں وہ اب تک اردو کو ذریعہ تعلیم کیوں نہیں بنا پائے؟
وہ ان سے کیوں نہیں کہتی کہ کیوں نہ آپ کو آپ کے عہدوں سے برطرف کر کے آپ کو اس وقت تک جیل میں ڈال دیا جائے جب تک اس ملک میں اردو نافذ نہیں ہو جاتی۔
بس مجھے اتنا پتا ہے کہ انگریزی نے پاکستانیوں کی آئی کیو کی سطح خطرناک حد تک کم کر دی ہے اور بڑے بڑوں کی مت اس زبان نے مار دی ہے۔
ختم شد
پاکستان پر انگریزی کا تسلط
تحریر: پروفیسر محمد سلیم ہاشمی
پاکستان پر انگریزی کے تسلط کا کوئی جواز کوئی توجیہ نہیں ہے، ممکن ہی نہیں ہے۔
انگریزی کسی پاکستانی کی زبان نہیں ہے
انگریزی علم، سائنس یا ٹیکنالوجی کی واحد زبان نہیں ہے
پھر یہ کہ دنیا کا کوئی ملک اپنی زبان ہوتے ہوئے کسی غیر ملکی زبان کو اپنے اوپر مسلط کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا
یہ نقالی بھی نہیں کہ نقالی کے لئے بھی کسی مماثلت کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
یہ جہالت، گمراہی اور اندھا پن ہے۔ اپنے آپ سے عدم آگاہی اور اس ملک و قسم کے مستقبل اور ترقی سے بے اعتنائی کی بھونڈی مثال ہے۔
اس سے زیادہ اندھے پن، اور ذہنی مفلسی کو سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ ایک غیر ملکی زبان کو بلا سوچے سمجھے، بلا کسی وجہ کے اپنے اوپر مسلط کر لیا جائے اورمسلط کئے رکھنے پر اصرار کیا جائے۔
میں چاہتا ہوں کہ اس بھونڈے پن اور بربادی کے عمل کو فی الفور روکا جائے، ساری قوم اس کے خلاف یکجا ہو جائے۔
ہمارے حکمران اس زبان کو اس۔ملک پر مسلط دکھ کر کس کا کام کر رہے ہیں کون سی توقع پر کیا آس لگائے بیٹھے ہیں۔
بوئے پیر ببول کے تو آم کہاں سے آئے۔
Monday 13 March 2017
قومی زبان اُردو اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے منشورات۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
ڈاکٹر مجیب احمد
اسسٹنٹ پروفیسر؛شعبہ تاریخ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد۔
اسسٹنٹ پروفیسر؛شعبہ تاریخ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد۔
قومی زبان اُردو اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے منشورات۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
Abstract
Urdu is National Language of the Islamic Republic of Pakistan by virtue of Pakistan movement and the constitution. However, due to transformational reasons none of the governments of Pakistan have succeeded to adopt it accordingly yet. The research paper discusses and analyses the role of political parties in this regard through their manifestos issued time to time.
Urdu is National Language of the Islamic Republic of Pakistan by virtue of Pakistan movement and the constitution. However, due to transformational reasons none of the governments of Pakistan have succeeded to adopt it accordingly yet. The research paper discusses and analyses the role of political parties in this regard through their manifestos issued time to time.
تعارف:
کسی ملک و قوم کی تہذیبی اور ثقافتی پہچان اس کی قومی زبان ہوتی ہے اور اس ملک و قوم کی معاشی، صنعتی اور سماجی ترقی کا دارومدار بھی اس کی اپنی قومی زبان کے ہر میدانِ عمل میں استعمال پر ہوتا ہے۔ قومی زبان کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں اور لہجوں کی افادیت اور اہمیت سے دنیا کے کسی بھی آزاد ملک میں انکار نا ممکن ہے لیکن قومی زبان یا زبانیں ہی اقوام کا امتیازی نشان ہوتی ہیں۔ دوسری طرف کسی ملک کی سیاسی جماعتیں اُس ملک کے عوام کی ترجمان اور سوچ کی عکاس ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قیام اور بعد ازاں انتخابات کے موقع پر جاری کردہ ان کے منشورات دراصل اس ملک کے عوام کی فکری سمت کا پتا دیتے ہیں۔
پسِ منظر:
تحریک پاکستان کے آغاز و ارتقاء اور بعد ازاں اگست ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کی صورت میں اِس تحریک کی کامیابی میں جہاں دیگر مذہبی، معاشی اور سماجی عناصر کار فرما تھے، وہیں مسلمانانِ ہند میں تہذیبی، تمدنی اور لسانی تشخّص کا احساس بھی شدید ترین اور مضبوط ترین حوالہ تھا۔ اس کی واضح مثال ۱۹ ویں صدی عیسوی کے آخر میں غیر منقسم ہندوستان میں اُردو ہندی تنازع ہے جو ایک لسانی مسئلہ سے بڑھ کر مسلم قوم کے تصور کی بنیاد بن گیا تھا۔ اس تنازع نے مسلم قوم کے شعور کو پروان چڑھنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد، پاکستانی قومیت کے تصّور کے فروغ نہ پا سکنے کی جہاں دیگر سیاسی ، مذہبی، معاشی وجوہ تھیں وہیں تہذیبی اور ثقافتی حوالوں سے بھی کئی تضادات اور اختلافات موجود تھے۔ یہ اختلافات حکومتی سطح پر بھی تھے اور پاکستانی معاشرہ کے مختلف طبقات میں بھی گہرے اور واضح تھے۔ تاہم قیامِ پاکستان کے فوری بعد بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی پُرخلوص وضاحت اور پاکستان کی تمام صوبائی زبانوں کے حقوق کی ۲۱ا ور ۲۴ مارچ ۱۹۴۸ء کو ڈھاکہ میں دی گئی ان کی ضمانت کے باوجود بعض طبقات کی جانب سے لسانی مفاہمت کے بجائے مخاصمت پر مبنیٰ پروپیگنڈہ جاری رہا۔ اس کے ردِ عمل میں حکومتی سطح پر بعض ایسے انتظامی اقدامات کیے گئے کہ جس کی وجہ سے پسِ پردہ قوتیں پاکستان میں اُردو زبان کو متنازع اور اسے دیگر علاقائی زبانوں، خصوصاً بنگلہ زبان، کی حریف اور مدِ مقابل بنا کر پیش کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔
اسلام کے نظریہ قومیت سے قطع نظر، پاکستان ایک کثیر القومی ملک ہے۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۵ء کے دوران، پاکستان کے دونوں حصوں میں بسنے والی مختلف لسانی قومیتوں کی زبانوں کو ہائی اسکول کی سطح تک ذریعہ تعلیم بنایا گیا جبکہ اُردو کو لازمی مضمون کے طور پر پانچویں جماعت سے شروع کیا گیا۔۱
۱۹۵۶ء میں مملکت کے پہلے آئین میں اُردو اور بنگلہ ہر دو، زبانوں ،کو قومی زبانیں تسلیم کر لیا گیا۔ یہ آئین پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ نے ہی دیا۔ یوں مسلم لیگ اپنے تاریخی مؤقف سے ہٹ گئی۔ اس سے قومی زبان کا مسئلہ حل تو نہ ہوا لیکن نئے لسانی مسائل ضرور پیدا ہو گئے۔
۱۹۵۵ء سے ۱۹۶۸ء کے دوران بلوچستان، شمال مغربی سرحدی صوبہ( اب صوبہ خیبر پختونخوا) اور پنجاب میں اُردو کو پرائمری سے ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ تاہم صوبہ سندھ اور بنگال ( اب بنگلہ دیش) میں یہ پانچویں جماعت سے ذریعہ تعلیم بنائی گئی۔۲
۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۷ء کے دوران اُردو کو قومی زبان کا درجہ ملا مگر ساتھ ہی دیگر علاقائی زبانوں کی بھی اس طرح سرپرستی کی گئی کہ وہ اپنے اپنے حلقۂ اثر میں مقامی سطح تک ذریعہ تعلیم بن سکیں۔ تاہم صوبہ پنجاب کے علاوہ دیگر تینوں صوبوں میں یہ یونیورسٹی کی سطح تک بھی ذریعہ تعلیم بنی رہیں۔۳
۱۹۷۷ء کے بعد، اُردو کی بطور قومی زبان تمام صوبوں میں تعلیم و تدریس ہوتی رہی ،تاہم دیگر علاقائی زبانیں بھی پرائمری کی سطح تک پڑھائی جاتی رہیں۔ بلوچستان واحد صوبہ تھا جہاں اُردو کو پہلی جماعت سے ہی لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانے لگا۔ جولائی ۱۹۷۷ء کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد عربی زبان کو بھی ملک بھر میں چھٹی جماعت سے لازمی مضمون کے طور پر شاملِ نصاب کر دیا گیا۔۴
پاکستان کا قیام ایک جمہوری عمل کا نتیجہ تھا۔اس جمہوری و آئینی جدوجہد کا ہر اوّل دستہ آل انڈیا مسلم لیگ (دسمبر ۱۹۰۶ء) کی زیر نگرانی کام کر رہا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے اس جدوجہد میں اُردو زبان کو اپنی قوت اور مسلم شناخت کے ایک اہم عنصر کے طور پر پیش کیا۔ تاہم قیامِ پاکستان کے بعد ، بوجوہ یہ عنصر پاکستان میں قائم ہونے والی دیگر سیاسی جماعتوں اور گروہوں کے لیے شناخت و اتفاق کا نکتہ نہ بن سکا اور دیگر قومی مسائل کی طرح زبان ، خصوصاً اُردو کے بارے میں سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور اور پروگراموں میں مختلف آراء اور سیاسی رویے کا اِظہار کیا۔ ان کے بارے میں ایک تجزیاتی و تنقیدی اجمالی جائزہ ذیل میں پیش کیا گیا ہے۔
مباحث:
پاکستان کی خالق جماعت آل انڈیا مسلم لیگ جو بعدازاں دسمبر ۱۹۴۷ء میں دو حصّوں میں تقسیم کر دی گئی اور پاکستان میں پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اس جماعت نے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ پاکستان کی خالق جماعت ہونے کے علاوہ یہ پاکستان کی پہلی حکمران جماعت بھی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ اپنے اندورنی اختلافات اور سیاسی تضادات کی وجہ سے جلد ہی کئی حصّوں میں تقسیم ہو گئی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
اکتوبر ۲۰۰۲ء میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے پاکستان مسلم لیگ (نواز شریف گروپ) نے جو منشور جاری کیا اُس میں قومی زبان، اُردو، کو بنیادی ذریعہ تعلیم بنانے کے عزم کا ذکر کیا گیا۔ تاہم ساتھ ہی انگریزی اور مقامی زبانوں کو مناسب اہمیت دیے جانے کا بھی عہد کیا گیا۔ مزید برآں اس منشور میں کہا گیا کہ اعلیٰ ملازمتوں کے لیے مقابلہ کے امتحانات اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں لیے جائیں گے۔۵
فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے لیے دسمبر ۲۰۰۷ء میں جاری کردہ مسلم لیگ کے اس گروپ میں زبان کے مسئلے پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم گروپ) نے اگست ۲۰۰۲ء میں اپنے جاری کردہ منشور میں بھی زبان کے مسئلہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔۶
پاکستان جمہوری پارٹی ستمبر ۱۹۶۹ء میں ڈھاکہ میں بنی۔ نوابزادہ نصراللہ خان (۱۹۱۶ء - ۲۰۰۳ء) اس کے تا حیات صدر رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے نوابزادہ منصور علی خان صدر بنے جنھوں نے مارچ۲۰۱۲ء میں پارٹی کو پاکستان تحریکِ انصاف (اپریل ۱۹۹۶ء) میں ضم کر دیا۔ ۱۱- ۱۲ جولائی ۱۹۸۵ء میں پاکستان جمہوری پارٹی کے ایک اجلاس منعقدہ کراچی میں منظور کردہ منشور کے مطابق اُردو زبان کو سارے ملک میں قومی زبان کی حیثیت سے عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں رائج کرنے کا عہد کیا گیا۔ علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کا بھی ذکر کیا گیا۔ تاہم منشورمیں کسی بھی سطح پر ذریعۂ تعلیم کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی۔ ۷
خاکسار تحریک پاکستان نے ۱۹۷۷ء میں اپنے انتخابی منشور میں اُردو کو سرکاری زبان بنانے کے عزم کا اِظہار کیا۔ علاقائی زبانوں کو مکمل تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ عربی زبان کو اس حد تک فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا کہ وہ مناسب وقت پر اُردو کی جگہ سرکاری زبان بن جائے۔۸
خاکسار تحریک نے ۱۹۸۸ء میں شائع کردہ اپنے انقلابی منشور میں جہاں اُردو کو پاکستان کی قومی زبان کے طور پر بلاتاخیر دفتری زبان اورذریعۂ تعلیم بنانے کا عہد کیا اور علاقائی زبانوں کے فروغ دیے جانے کا بھی ذکر کیا ، وہیں عربی زبان کو اُردو کی جگہ سرکاری زبان بنانے سے متعلق اپنے سابقہ مؤقف سے ہٹتے ہوئے اس کا ذکر نہیں کیا۔ صرف یہ بیان کر دیا کہ قرآنی تعلیم لازمی ہو گی۔۹
۶ جولائی ۱۹۸۷ء کو مینارِ پاکستان لاہور میں قرآن و سُنت کانفرنس میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان نے ملکی سیاست میں عملی حصہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے اپنا منشور پیش کیا۔ اس میں اُردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے اور انگریزی کو ہر سطح پر بحیثیت لازمی مضمون ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ انگریزی کی جگہ علاقائی زبانوں کی تعلیم لازمی قرار دینے کا خیال ظاہر کیا گیا۔ منشور میں نصابی اور دیگر متعلقہ کتب کا فی الفور قومی زبان میں ترجمہ کرانے اور عربی کی تعلیم و ترویج کے لیے مناسب اقدامات کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔۱۰
اگست ۱۹۴۱ء میں لاہور میں قائم ہونے والی جماعت اسلامی نے ۱۹۵۰ء کے عشرے میں جاری کردہ اپنے منشور میں عربی کی لازمی تعلیم ، اُردو اور بنگلہ کو کالجوں اور جامعات میں انگریزی کی بجائے ذریعۂ تعلیم کی حیثیت سے رائج کرنے اور تمام دیگر علاقائی زبانوں کی ترقی کے لیے مناسب اقدامات کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ مزید برآں انگریزی کو سرکاری محکموں سے جلداز جلد ختم کر کے ، اس کی جگہ اُردو و بنگلہ کے استعمال کو رواج دینے کے لیے مثبت اور مؤثر اقدامات کرنے کا بھی منشور میں ذکر ہے۔۱۱
۲۰ دسمبر ۱۹۶۹ء کو جماعت اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ نے دسمبر ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کے لیے اپنے منشور کا اعلان کیا جس میں اُردو اور بنگلہ کو پورے ملک کے لیے قومی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا اور ساتھ ہی عربی کو ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائے جانے ، انگریزی کے بجائے قومی زبانوں (اُردو اوربنگلہ) کو ذریعۂ تعلیم بنانے کا عہد کیا گیا۔ علاقائی زبانوں کی ترقی کے لیے اعادہ کیا گیا کہ انگریزی زبان کو سرکاری محکموں سے جلد از جلد رُخصت کر دیا جائے گا۔ ۱۲ اسی بات کوجماعت کے ۱۹۹۷ء کے منشور میں بھی دہرایا گیا ہے۔
کُل پاکستان مرکزی جمعیت علماء اسلام نے دسمبر ۱۹۷۰ء میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے اپنے منشور کا اعلان کرتے ہوئے عربی زبان کو لازمی حیثیت دینے اور قومی زبانوں،اُردوا ور بنگلہ، کو ذریعۂ تعلیم بنانے کا وعدہ کیا۔ ۱۳
۲۶ ستمبر ۱۹۶۹ء کو جمعیت علماء اسلام کے پارٹی کنونشن منعقدہ سرگودھا میں بنیادی مسود�ۂ منشور کی منظوری دی گئی۔ بعدازاں ۲۴-۲۵ مارچ ۱۹۸۶ء کو اس مسودہ کو بعض ضروری ترامیم و اضافہ جات کے ساتھ جمعیت کی مرکزی مجلسِ عمومی نے اپنے اجلاس ، منعقدہ لاہور میں منظور کیا گیا۔ ملک کی دیگر دینی و سیاسی جماعتوں کی طرح جمعیت علما ء اسلام کی تاریخ بھی دھڑے بندیوں سے بھری پڑی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں مارچ ۱۹۸۱ء میں بننے والا گروپ اس منشور کو اپنائے ہوئے ہے۔ جمعیت کے اسی منشور میں کہا گیا ہے کہ مادری زبانیں بنیادی تعلیم کی اساس ہوں گی۔ انگریزی اختیاری مضمون ہو گا جبکہ عربی کو لازمی زبان کا درجہ دیا جائے گا۔علاقائی زبانوں کو ترقی دینے کا عزم ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر اُردو کو ذریعۂ تعلیم بنائے جانے کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔۱۴ جمعیت علماء اسلام کے سابق امیر مفتی محمود (۱۹۱۹ء تا ۱۹۸۰ء) جب ۱۹۷۲ء میں صوبہ سرحد میں تقریباً نو ماہ کے لیے وزیر اعلیٰ بنے تو اُنھوں نے اُردو کو صوبہ کی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔ ۱۵
مارچ ۱۹۴۸ء میں قائم ہونے والی مرکزی جمعیت علماء پاکستان نے ۱۰ اگست ۱۹۵۷ء کو اپنے مرکزی ایوانِ عام کے ایک اجلاس، منعقدہ لاہور، میں انتخابی منشورکی منظوری دی۔ اس میں اُردو زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت دینے کا اعلان کیا گیا۔۱۶
جمعیت علماء پاکستان (صاحبزادہ فیض الحسن گروپ) کی مجلس عمومی کا اجتماع یکم نومبر ۱۹۶۹ء کو گوجرنوالہ میں منعقدہوا جس میں بالا تفاق آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے لیے منشور منظور کیا گیا۔ اس منشور کے تحت عربی زبان کو خاص اہمیت دینے اور اُردو و بنگلہ کو بطور قومی زبان فروغ دینے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ۱۷
اپریل ۱۹۷۰ء میں جمعیت علماء پاکستان کے تمام گروپ ، مرکزی مجلس عمل جمعیت علماء پاکستان کے نام کے تحت متحد ہو گئے۔ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کے لیے مئی ۱۹۷۰ء میں منظور کردہ اپنے انتخابی منشورمیں مرکزی مجلس عمل نے عہد کیا کہ ملک میں عربی زبان کو لازمی قرار دیا جائے گا اور دونوں قومی زبانوں ( اُردو اور بنگلہ) کو فروغ دیا جائے گا۔ اس وقت کے مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں اُردواور مغربی پاکستان میں بنگلہ زبان کو لازمی مضمون کے طور پر متعارف کرایا جائے گا جبکہ انگریزی کو ایک اختیاری مضمون کے طور پر رکھا جائے گا۔ ۱۸
جمعیت علما ء پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کے ۲۲ اور ۲۳ جولائی ۱۹۸۶ء کے اجلاس منعقدہ لاہور میں جو منشور منظور کیا گیا، اس میں زبان کے حوالہ سے کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ۱۹
پاکستان پیپلز پارٹی (شیر پاؤ) کے نزدیک پاکستان ایک کثیر القومی ملک ہے ۔ ملک میں مادری زبان میں تعلیم کو ترجیح اور فروغ دیا جائے گا۔ البتہ پارٹی کے پروگرام میں اُردو کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ۲۰
نواب محمد اکبرخان بگٹی (۱۹۲۷ء تا ۲۰۰۶ء) نے ۱۶ اگست ۱۹۹۰ء کو جمہوری وطن پارٹی بنائی۔ اس کے موجودہ صدر، ان کے صاحبزادے، نوابزادہ طلال اکبر خان بگٹی ہیں۔ پارٹی کے منشور میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے لیکن ذریعۂ تعلیم کس زبان میں ہو گا ؟ اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اسی پارٹی نے ۲۰۰۹ء کے جاری کردہ منشور میں اُردو کو قومی رابطہ اور سرکاری زبان کی حیثیت دینے کا وعدہ کیا۔ نیز بلوچی، سندھی ، پشتو اور پنجابی زبانوں کو علاقائی زبانوں کی حیثیت دینے اور پاکستان کی دیگر بولی جانے والی زبانوں کو فروغ دینے کی کوشش کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔۲۱
پاکستان نیشنل پارٹی کے نزدیک پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے۔ اس لیے پارٹی کے منشور کے مطابق تمام قومی زبانوں کو قومی حیثیت سے تسلیم کرانے کی جد وجہد کی ہر سطح پر حمایت کی جائے گی۔ ۲۲ بلوچی، پنجابی، سندھی اور پشتو کو ان کے صوبوں بالترتیب بلوچستان، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا (پارٹی صرف پشتونخوا کا لفظ استعمال کرتی ہے)میں قومی زبان کا درجہ دینے کی جدوجہد کی جائے گی۔ پارٹی اپنے منشور میں وعدہ کرتی ہے کہ وہ مادری زبان میں تعلیم کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کر کے ، اسے نافذ کرائے گی۔ ۲۳پاکستان نیشنل پارٹی کے منشور میں اُردو زبان کے حوالے سے کوئی بات موجود نہیں۔
بلوچستان نیشنل موومنٹ کے نزدیک بھی پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے۔ اس لیے تمام قومی زبانوں کو قومی و سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم کرانے کے لیے ہر طرح کی جدو جہد کی حمایت کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مادری زبانوں میں تعلیم کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کر کے اسے نافذ کرنے کا عزم کیا گیا۔ ۲۴ بلوچستان نیشنل موومنٹ کے منشور میں بھی اُردو کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اُردو کو سرکاری زبان ، انگریزی کو اختیاری زبان اور ہر صوبہ میں اس کی اپنی علاقائی زبان کو فروغ دینے کی قائل ہے ۔۲۵ البتہ پارٹی کے منشور میں تعلیمی پالیسی کے طور پر قومی زبان کے علاوہ مادری زبان میں دینا درج ہے۔۲۶
قومی محاذ آزادی ۶ مئی ۱۹۷۴ء کو کراچی میں بنی۔اس کے نزدیک بھی پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے جس میں بڑی قومیں پنجابی، سندھی، بلوچ اور پختون آباد ہیں۔ محاذ کے نزدیک ذریعۂ تعلیم ، مادری زبان میں یا ہر قوم کی قومی زبان میں ہونا چاہیے۔۲۷
پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے لیے تیسری سوشلسٹ کانفرنس، منعقدہ ۲۸ مارچ ۱۹۸۶ء ، بمقام لاہور میں منظور کردہ منشور اور پروگرام میں اس عزم کا اِظہار کیا گیا کہ ذریعۂ تعلیم قومی (مادری) زبان ہو گا جبکہ اُردو رابطہ کی زبان بنائی جائے گی۔۲۸
نومبر ۱۹۹۶ء میں پاکستان نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل موومنٹ کے انضمام سے بلوچستان نیشنل پارٹی وجود میں آئی۔ اس کے نزدیک بھی پاکستان ایک کثیر القومی ملک ہے۔ اس لیے اُردو ان میں رابطہ کی زبان ہو گی۔ ۲۹
۲۹-۳۰ مارچ ۱۹۸۹ء کو کوئٹہ میں پشتو نخوا ملّی عوامی پارٹی کے قیام کے لیے تا سیسی کانگریس کا اجلاس منعقد ہوا۔ پارٹی اپنے منشور کے مطابق پشتو، بلوچی، سندھی اور پنجابی کو قومی زبانیں تسلیم کر کے ، اپنے اپنے صوبہ میں ان کو سرکاری ، تعلیمی اور تدریسی زبانیں قرار دیے جانے کے حق میں ہے جبکہ بلوچستان میں پشتو اوربلوچی کو سرکاری اور تدریسی زبان قرار دینا۔۳۰ پارٹی کی قومی کانگریس کے ایک اجلاس منعقد ہ ۲۹-۳۱ جولائی ۲۰۰۲ء ، بمقام کوئٹہ میں سرائیکی کو بھی قومی زبانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ۳۱ پارٹی کے منشور میں اُردو کے بارے میں کسی قسم کا ذکر نہیں ملتا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے منشور کی منظوری ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء کو کراچی میں ہونے والے اس کے تاسیسی اجلاس میں دی گئی۔ پارٹی ’’قومی عوامی جمہوری انقلاب‘‘ کی داعی ہے اور پاکستان کو ایک کثیر القومی ریاست قرار دیتی ہے ۔اِس کے منشور میں قومی مسئلہ کے زیر عنوان پانچ نکات پر مشتمل لسانی پالیسی کا اعلان کیا گیا۔ اس لیے منشور میں تعلیمی پالیسی کے زیر عنوان عہد کیا گیا ہے کہ پنجابی ، سندھی، پختون، بلوچ اور سرائیکی قومیتوں کی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دے کر، ان کو ذریعۂ تعلیم، عدالتی اور دفتری زبانوں کے طور پر فروغ دیا جائے گا۔ ان کے علاوہ دیگر زبانوں کو بھی ترقی دینے کا ذکر ہے جبکہ اُردو رابطہ کی زبان ہو گی۔ ذریعۂ تعلیم کے بارے میں مزید وضاحت کی گئی کہ یہ مادری زبان میں ہو گا۔ تاہم تعمیر و ترقی کے لیے دوسری زبانوں میں بھی تعلیم کا بندوبست کیا جائے گا۔ ۳۲
فروری ۱۹۷۷ء کو نو سیاسی و دینی جماعتوں کے اتحاد سے تشکیل پانے والے پاکستان قومی اتحاد نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان لاہور میں ۸، فروری ۱۹۷۷ء کو کیا۔ اس میں وعدہ کیا گیا کہ اُردو کو ایک سال کے اندر اندر دفتری زبان کے طور پر رائج کر دیا جائے گا جبکہ عربی اور علاقائی زبانوں کو بھی فروغ دیا جائے گا۔ ۳۳
پاکستان پیپلز پارٹی (۱۹۶۷ء)کے اولین منشور کی دستاویز: ۳، بنیادی اُصول نمبر ۱۳ میں درج ہے:
۱۳۔ ملکی زبانوں کی تیز ترترقی تا کہ وہ غیر ملکی زبانوں کی جگہ لے سکیں جو ملکی معاملات میں مستعمل ہیں اور تمام علاقائی زبانوں کی ترویج
’’پاکستان ہمیشہ کے لیے ایک غیر ملکی زبان پر انحصار نہیں کر سکتا ۔ جلد یا بدیر ملکی زبانوں کو اس کی جگہ لینی ہے۔ تاہم اس کے لیے خاصی تیاری کی ضرورت ہے اور ملکی زبانوں کی بتدریج ترقی اس کے آئندہ کردار کے لیے ضروری ہے۔ علاقائی زبانیں جو کہ ان لوگوں کو عزیز ہیں، جو انھیں بولتے ہیں، اپنے حقوق رکھتی ہیں۔ یہ پُرانی زبانیں ہیں۔ ان میں سے چند ایک کے پاس ادب کا قابل قدر سرمایا بھی ہے اور وہ لاکھوں انسانوں کا ذریعۂ اِظہار ہیں۔ اِن علاقائی زبانوں کی نشوو نما ملک کی ترقی کے لیے مدد گار ثابت ہو گی اور لوگوں کو خوش گوار بنائے گی‘‘۔۳۴
پاکستان پیپلز پارٹی اکتوبر ۱۹۹۳ء اور ۱۹۹۸ء میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے جاری کردہ منشورات میں اس سلسلے میں خاموش ہے ۔۳۵ اسی جماعت نے اپنے ۱۹۷۱ء تا ۱۹۷۷ء کے دورِ اقتدار میں ۱۹۷۲ء میں اُردو سندھی تنازع کو خوش اسلوبی سے حل کیا ۔۱۹۷۳ء کے متفقہ آئین میں تمام سیاسی جماعتوں سے اُردو کو واحد قومی زبان تسلیم کرایا اور اس کے نفاذ کی مدت پندرہ سال مقرر کی۔
متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم )اپنے منشورات کے اندر تعلیم کے میدان میں ذریعہ تعلیم میں یکسانیت لانے کی قائل ہے اور کہتی ہے کہ اُردو اور انگریزی کے میڈیم کے فرق کو ختم کیا جائے گا۔۳۶
پاکستان محکوم اقوام تحریک (پونم) کے اعلان نامہ جاری کردہ ۲، اکتوبر ۱۹۹۸ء میں تمام صوبوں اور وفاقی قوموں کی ہر زبان و ثقافت کو ترقی کے برابر مواقع اور وسائل دینے کی بات کی گئی ہے۔۳۷
پاکستان تحریک انصاف اپنے منشور کی دفعہ ح میں درج کرتی ہے: ’’ پرائمری سکولوں میں ذریعۂ تعلیم مادری زبان یا اُردو ہو گی۔ سکول کی تعلیم میں ہر سطح پر پڑھانے کا ذریعہ لازمی اُردو زبان ہو گی جبکہ پرائمری کی سطح پر سکولوں میں انگریزی زبان کے ذریعے تعلیم اختیاری ہو گی لیکن مڈل اور سیکنڈری پر انگریزی لازمی ہو گی‘‘۔۳۸
پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے منشور میں درج ہے کہ پاکستان میں سب زبانوں کو تسلیم کرنا چاہیے، اس میں فائدہ بھی ہو گا۔ اُردو ہمارے ہاں عملاً رابطے کی زبان ہے ۔۳۹
لیبر پارٹی پاکستان تعلیم کے باب میں اپنے منشور کے مطابق مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی قائل ہے ۔۴۰
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین ۲۰۰۲ء میں جاری کردہ اپنے منشور میں عالمی زبان انگریزی کو تمام طلبہ کے لیے ذریعۂ تعلیم کے طور پر شروع کرنے کی پابند ہے۔۴۱
اسی طرح تحریک استقلال (مارچ ۱۹۷۰ء) کے مارچ ۱۹۷۰ء ، جولائی ۱۹۷۲ء اور جولائی ۱۹۷۴ء کے منشور؛ مرکزی جمعیت اہلحدیث؛ پاکستان عوامی تحریک (مئی ۱۹۸۹ء) ؛نیشنل الائنس کے منشور برائے انتخابات اکتوبر ۲۰۰۲ء؛ پاکستان ملت پارٹی (اگست ۱۹۹۸ء) کے تاسیسی منشور؛ مرکزی جمعیت علماء پاکستان؛ نیشنل پیپلز پارٹی ( اگست ۱۹۸۶ء) ، پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو گروپ) اور متحدہ مجلس عمل (جون۲۰۰۱ء) کے منشور برائے انتخابات اکتوبر ۲۰۰۲ء میں زبان کے مسئلے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
پاکستان میں ان سیاسی جماعتوں کے علاوہ دیگر سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی و دینی جماعتیں اور گروہ کام کر رہے ہیں ۔ مذکورہ بالا جماعتوں کے علاوہ کئی اہم سیاسی جماعتیں ایسی بھی ہیں جو قومی زبان جیسے اہم مسئلہ پر خاموش ہیں ۔ چنانچہ ان کے منشور اور پروگرام میں قومی وحدت کے لیے درکار دیگر اہم عناصر کے ساتھ قومی زبان کا ذکر نہ کرنا خوش آئند نہیں ہے۔
اس کے برعکس بعض طلبہ تنظیمیں اس مسئلے پر بہت حساس ہیں اور انھوں نے اپنے اپنے نظریہ کے مطابق قومی زبان کے مسئلہ پر کھل کر اِظہار خیال کیا ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (۱۹۶۶ء) اور پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن (۱۹۸۸ء) مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے جبکہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (۱۹۵۷ء) مادری زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے اور کم از کم پرائمری تک مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حق میں ہیں۔۴۲
کسی ملک و قوم کی تہذیبی اور ثقافتی پہچان اس کی قومی زبان ہوتی ہے اور اس ملک و قوم کی معاشی، صنعتی اور سماجی ترقی کا دارومدار بھی اس کی اپنی قومی زبان کے ہر میدانِ عمل میں استعمال پر ہوتا ہے۔ قومی زبان کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں اور لہجوں کی افادیت اور اہمیت سے دنیا کے کسی بھی آزاد ملک میں انکار نا ممکن ہے لیکن قومی زبان یا زبانیں ہی اقوام کا امتیازی نشان ہوتی ہیں۔ دوسری طرف کسی ملک کی سیاسی جماعتیں اُس ملک کے عوام کی ترجمان اور سوچ کی عکاس ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قیام اور بعد ازاں انتخابات کے موقع پر جاری کردہ ان کے منشورات دراصل اس ملک کے عوام کی فکری سمت کا پتا دیتے ہیں۔
پسِ منظر:
تحریک پاکستان کے آغاز و ارتقاء اور بعد ازاں اگست ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کی صورت میں اِس تحریک کی کامیابی میں جہاں دیگر مذہبی، معاشی اور سماجی عناصر کار فرما تھے، وہیں مسلمانانِ ہند میں تہذیبی، تمدنی اور لسانی تشخّص کا احساس بھی شدید ترین اور مضبوط ترین حوالہ تھا۔ اس کی واضح مثال ۱۹ ویں صدی عیسوی کے آخر میں غیر منقسم ہندوستان میں اُردو ہندی تنازع ہے جو ایک لسانی مسئلہ سے بڑھ کر مسلم قوم کے تصور کی بنیاد بن گیا تھا۔ اس تنازع نے مسلم قوم کے شعور کو پروان چڑھنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد، پاکستانی قومیت کے تصّور کے فروغ نہ پا سکنے کی جہاں دیگر سیاسی ، مذہبی، معاشی وجوہ تھیں وہیں تہذیبی اور ثقافتی حوالوں سے بھی کئی تضادات اور اختلافات موجود تھے۔ یہ اختلافات حکومتی سطح پر بھی تھے اور پاکستانی معاشرہ کے مختلف طبقات میں بھی گہرے اور واضح تھے۔ تاہم قیامِ پاکستان کے فوری بعد بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی پُرخلوص وضاحت اور پاکستان کی تمام صوبائی زبانوں کے حقوق کی ۲۱ا ور ۲۴ مارچ ۱۹۴۸ء کو ڈھاکہ میں دی گئی ان کی ضمانت کے باوجود بعض طبقات کی جانب سے لسانی مفاہمت کے بجائے مخاصمت پر مبنیٰ پروپیگنڈہ جاری رہا۔ اس کے ردِ عمل میں حکومتی سطح پر بعض ایسے انتظامی اقدامات کیے گئے کہ جس کی وجہ سے پسِ پردہ قوتیں پاکستان میں اُردو زبان کو متنازع اور اسے دیگر علاقائی زبانوں، خصوصاً بنگلہ زبان، کی حریف اور مدِ مقابل بنا کر پیش کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔
اسلام کے نظریہ قومیت سے قطع نظر، پاکستان ایک کثیر القومی ملک ہے۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۵ء کے دوران، پاکستان کے دونوں حصوں میں بسنے والی مختلف لسانی قومیتوں کی زبانوں کو ہائی اسکول کی سطح تک ذریعہ تعلیم بنایا گیا جبکہ اُردو کو لازمی مضمون کے طور پر پانچویں جماعت سے شروع کیا گیا۔۱
۱۹۵۶ء میں مملکت کے پہلے آئین میں اُردو اور بنگلہ ہر دو، زبانوں ،کو قومی زبانیں تسلیم کر لیا گیا۔ یہ آئین پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ نے ہی دیا۔ یوں مسلم لیگ اپنے تاریخی مؤقف سے ہٹ گئی۔ اس سے قومی زبان کا مسئلہ حل تو نہ ہوا لیکن نئے لسانی مسائل ضرور پیدا ہو گئے۔
۱۹۵۵ء سے ۱۹۶۸ء کے دوران بلوچستان، شمال مغربی سرحدی صوبہ( اب صوبہ خیبر پختونخوا) اور پنجاب میں اُردو کو پرائمری سے ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ تاہم صوبہ سندھ اور بنگال ( اب بنگلہ دیش) میں یہ پانچویں جماعت سے ذریعہ تعلیم بنائی گئی۔۲
۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۷ء کے دوران اُردو کو قومی زبان کا درجہ ملا مگر ساتھ ہی دیگر علاقائی زبانوں کی بھی اس طرح سرپرستی کی گئی کہ وہ اپنے اپنے حلقۂ اثر میں مقامی سطح تک ذریعہ تعلیم بن سکیں۔ تاہم صوبہ پنجاب کے علاوہ دیگر تینوں صوبوں میں یہ یونیورسٹی کی سطح تک بھی ذریعہ تعلیم بنی رہیں۔۳
۱۹۷۷ء کے بعد، اُردو کی بطور قومی زبان تمام صوبوں میں تعلیم و تدریس ہوتی رہی ،تاہم دیگر علاقائی زبانیں بھی پرائمری کی سطح تک پڑھائی جاتی رہیں۔ بلوچستان واحد صوبہ تھا جہاں اُردو کو پہلی جماعت سے ہی لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانے لگا۔ جولائی ۱۹۷۷ء کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد عربی زبان کو بھی ملک بھر میں چھٹی جماعت سے لازمی مضمون کے طور پر شاملِ نصاب کر دیا گیا۔۴
پاکستان کا قیام ایک جمہوری عمل کا نتیجہ تھا۔اس جمہوری و آئینی جدوجہد کا ہر اوّل دستہ آل انڈیا مسلم لیگ (دسمبر ۱۹۰۶ء) کی زیر نگرانی کام کر رہا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے اس جدوجہد میں اُردو زبان کو اپنی قوت اور مسلم شناخت کے ایک اہم عنصر کے طور پر پیش کیا۔ تاہم قیامِ پاکستان کے بعد ، بوجوہ یہ عنصر پاکستان میں قائم ہونے والی دیگر سیاسی جماعتوں اور گروہوں کے لیے شناخت و اتفاق کا نکتہ نہ بن سکا اور دیگر قومی مسائل کی طرح زبان ، خصوصاً اُردو کے بارے میں سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور اور پروگراموں میں مختلف آراء اور سیاسی رویے کا اِظہار کیا۔ ان کے بارے میں ایک تجزیاتی و تنقیدی اجمالی جائزہ ذیل میں پیش کیا گیا ہے۔
مباحث:
پاکستان کی خالق جماعت آل انڈیا مسلم لیگ جو بعدازاں دسمبر ۱۹۴۷ء میں دو حصّوں میں تقسیم کر دی گئی اور پاکستان میں پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اس جماعت نے سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ پاکستان کی خالق جماعت ہونے کے علاوہ یہ پاکستان کی پہلی حکمران جماعت بھی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ اپنے اندورنی اختلافات اور سیاسی تضادات کی وجہ سے جلد ہی کئی حصّوں میں تقسیم ہو گئی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
اکتوبر ۲۰۰۲ء میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے پاکستان مسلم لیگ (نواز شریف گروپ) نے جو منشور جاری کیا اُس میں قومی زبان، اُردو، کو بنیادی ذریعہ تعلیم بنانے کے عزم کا ذکر کیا گیا۔ تاہم ساتھ ہی انگریزی اور مقامی زبانوں کو مناسب اہمیت دیے جانے کا بھی عہد کیا گیا۔ مزید برآں اس منشور میں کہا گیا کہ اعلیٰ ملازمتوں کے لیے مقابلہ کے امتحانات اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں لیے جائیں گے۔۵
فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے لیے دسمبر ۲۰۰۷ء میں جاری کردہ مسلم لیگ کے اس گروپ میں زبان کے مسئلے پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم گروپ) نے اگست ۲۰۰۲ء میں اپنے جاری کردہ منشور میں بھی زبان کے مسئلہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔۶
پاکستان جمہوری پارٹی ستمبر ۱۹۶۹ء میں ڈھاکہ میں بنی۔ نوابزادہ نصراللہ خان (۱۹۱۶ء - ۲۰۰۳ء) اس کے تا حیات صدر رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے نوابزادہ منصور علی خان صدر بنے جنھوں نے مارچ۲۰۱۲ء میں پارٹی کو پاکستان تحریکِ انصاف (اپریل ۱۹۹۶ء) میں ضم کر دیا۔ ۱۱- ۱۲ جولائی ۱۹۸۵ء میں پاکستان جمہوری پارٹی کے ایک اجلاس منعقدہ کراچی میں منظور کردہ منشور کے مطابق اُردو زبان کو سارے ملک میں قومی زبان کی حیثیت سے عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں رائج کرنے کا عہد کیا گیا۔ علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کا بھی ذکر کیا گیا۔ تاہم منشورمیں کسی بھی سطح پر ذریعۂ تعلیم کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی۔ ۷
خاکسار تحریک پاکستان نے ۱۹۷۷ء میں اپنے انتخابی منشور میں اُردو کو سرکاری زبان بنانے کے عزم کا اِظہار کیا۔ علاقائی زبانوں کو مکمل تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ عربی زبان کو اس حد تک فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا کہ وہ مناسب وقت پر اُردو کی جگہ سرکاری زبان بن جائے۔۸
خاکسار تحریک نے ۱۹۸۸ء میں شائع کردہ اپنے انقلابی منشور میں جہاں اُردو کو پاکستان کی قومی زبان کے طور پر بلاتاخیر دفتری زبان اورذریعۂ تعلیم بنانے کا عہد کیا اور علاقائی زبانوں کے فروغ دیے جانے کا بھی ذکر کیا ، وہیں عربی زبان کو اُردو کی جگہ سرکاری زبان بنانے سے متعلق اپنے سابقہ مؤقف سے ہٹتے ہوئے اس کا ذکر نہیں کیا۔ صرف یہ بیان کر دیا کہ قرآنی تعلیم لازمی ہو گی۔۹
۶ جولائی ۱۹۸۷ء کو مینارِ پاکستان لاہور میں قرآن و سُنت کانفرنس میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان نے ملکی سیاست میں عملی حصہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے اپنا منشور پیش کیا۔ اس میں اُردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے اور انگریزی کو ہر سطح پر بحیثیت لازمی مضمون ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ انگریزی کی جگہ علاقائی زبانوں کی تعلیم لازمی قرار دینے کا خیال ظاہر کیا گیا۔ منشور میں نصابی اور دیگر متعلقہ کتب کا فی الفور قومی زبان میں ترجمہ کرانے اور عربی کی تعلیم و ترویج کے لیے مناسب اقدامات کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔۱۰
اگست ۱۹۴۱ء میں لاہور میں قائم ہونے والی جماعت اسلامی نے ۱۹۵۰ء کے عشرے میں جاری کردہ اپنے منشور میں عربی کی لازمی تعلیم ، اُردو اور بنگلہ کو کالجوں اور جامعات میں انگریزی کی بجائے ذریعۂ تعلیم کی حیثیت سے رائج کرنے اور تمام دیگر علاقائی زبانوں کی ترقی کے لیے مناسب اقدامات کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ مزید برآں انگریزی کو سرکاری محکموں سے جلداز جلد ختم کر کے ، اس کی جگہ اُردو و بنگلہ کے استعمال کو رواج دینے کے لیے مثبت اور مؤثر اقدامات کرنے کا بھی منشور میں ذکر ہے۔۱۱
۲۰ دسمبر ۱۹۶۹ء کو جماعت اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ نے دسمبر ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کے لیے اپنے منشور کا اعلان کیا جس میں اُردو اور بنگلہ کو پورے ملک کے لیے قومی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا اور ساتھ ہی عربی کو ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائے جانے ، انگریزی کے بجائے قومی زبانوں (اُردو اوربنگلہ) کو ذریعۂ تعلیم بنانے کا عہد کیا گیا۔ علاقائی زبانوں کی ترقی کے لیے اعادہ کیا گیا کہ انگریزی زبان کو سرکاری محکموں سے جلد از جلد رُخصت کر دیا جائے گا۔ ۱۲ اسی بات کوجماعت کے ۱۹۹۷ء کے منشور میں بھی دہرایا گیا ہے۔
کُل پاکستان مرکزی جمعیت علماء اسلام نے دسمبر ۱۹۷۰ء میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے اپنے منشور کا اعلان کرتے ہوئے عربی زبان کو لازمی حیثیت دینے اور قومی زبانوں،اُردوا ور بنگلہ، کو ذریعۂ تعلیم بنانے کا وعدہ کیا۔ ۱۳
۲۶ ستمبر ۱۹۶۹ء کو جمعیت علماء اسلام کے پارٹی کنونشن منعقدہ سرگودھا میں بنیادی مسود�ۂ منشور کی منظوری دی گئی۔ بعدازاں ۲۴-۲۵ مارچ ۱۹۸۶ء کو اس مسودہ کو بعض ضروری ترامیم و اضافہ جات کے ساتھ جمعیت کی مرکزی مجلسِ عمومی نے اپنے اجلاس ، منعقدہ لاہور میں منظور کیا گیا۔ ملک کی دیگر دینی و سیاسی جماعتوں کی طرح جمعیت علما ء اسلام کی تاریخ بھی دھڑے بندیوں سے بھری پڑی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں مارچ ۱۹۸۱ء میں بننے والا گروپ اس منشور کو اپنائے ہوئے ہے۔ جمعیت کے اسی منشور میں کہا گیا ہے کہ مادری زبانیں بنیادی تعلیم کی اساس ہوں گی۔ انگریزی اختیاری مضمون ہو گا جبکہ عربی کو لازمی زبان کا درجہ دیا جائے گا۔علاقائی زبانوں کو ترقی دینے کا عزم ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر اُردو کو ذریعۂ تعلیم بنائے جانے کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔۱۴ جمعیت علماء اسلام کے سابق امیر مفتی محمود (۱۹۱۹ء تا ۱۹۸۰ء) جب ۱۹۷۲ء میں صوبہ سرحد میں تقریباً نو ماہ کے لیے وزیر اعلیٰ بنے تو اُنھوں نے اُردو کو صوبہ کی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔ ۱۵
مارچ ۱۹۴۸ء میں قائم ہونے والی مرکزی جمعیت علماء پاکستان نے ۱۰ اگست ۱۹۵۷ء کو اپنے مرکزی ایوانِ عام کے ایک اجلاس، منعقدہ لاہور، میں انتخابی منشورکی منظوری دی۔ اس میں اُردو زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت دینے کا اعلان کیا گیا۔۱۶
جمعیت علماء پاکستان (صاحبزادہ فیض الحسن گروپ) کی مجلس عمومی کا اجتماع یکم نومبر ۱۹۶۹ء کو گوجرنوالہ میں منعقدہوا جس میں بالا تفاق آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے لیے منشور منظور کیا گیا۔ اس منشور کے تحت عربی زبان کو خاص اہمیت دینے اور اُردو و بنگلہ کو بطور قومی زبان فروغ دینے کے لیے مناسب اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ۱۷
اپریل ۱۹۷۰ء میں جمعیت علماء پاکستان کے تمام گروپ ، مرکزی مجلس عمل جمعیت علماء پاکستان کے نام کے تحت متحد ہو گئے۔ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کے لیے مئی ۱۹۷۰ء میں منظور کردہ اپنے انتخابی منشورمیں مرکزی مجلس عمل نے عہد کیا کہ ملک میں عربی زبان کو لازمی قرار دیا جائے گا اور دونوں قومی زبانوں ( اُردو اور بنگلہ) کو فروغ دیا جائے گا۔ اس وقت کے مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں اُردواور مغربی پاکستان میں بنگلہ زبان کو لازمی مضمون کے طور پر متعارف کرایا جائے گا جبکہ انگریزی کو ایک اختیاری مضمون کے طور پر رکھا جائے گا۔ ۱۸
جمعیت علما ء پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کے ۲۲ اور ۲۳ جولائی ۱۹۸۶ء کے اجلاس منعقدہ لاہور میں جو منشور منظور کیا گیا، اس میں زبان کے حوالہ سے کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ۱۹
پاکستان پیپلز پارٹی (شیر پاؤ) کے نزدیک پاکستان ایک کثیر القومی ملک ہے ۔ ملک میں مادری زبان میں تعلیم کو ترجیح اور فروغ دیا جائے گا۔ البتہ پارٹی کے پروگرام میں اُردو کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ۲۰
نواب محمد اکبرخان بگٹی (۱۹۲۷ء تا ۲۰۰۶ء) نے ۱۶ اگست ۱۹۹۰ء کو جمہوری وطن پارٹی بنائی۔ اس کے موجودہ صدر، ان کے صاحبزادے، نوابزادہ طلال اکبر خان بگٹی ہیں۔ پارٹی کے منشور میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے لیکن ذریعۂ تعلیم کس زبان میں ہو گا ؟ اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اسی پارٹی نے ۲۰۰۹ء کے جاری کردہ منشور میں اُردو کو قومی رابطہ اور سرکاری زبان کی حیثیت دینے کا وعدہ کیا۔ نیز بلوچی، سندھی ، پشتو اور پنجابی زبانوں کو علاقائی زبانوں کی حیثیت دینے اور پاکستان کی دیگر بولی جانے والی زبانوں کو فروغ دینے کی کوشش کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔۲۱
پاکستان نیشنل پارٹی کے نزدیک پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے۔ اس لیے پارٹی کے منشور کے مطابق تمام قومی زبانوں کو قومی حیثیت سے تسلیم کرانے کی جد وجہد کی ہر سطح پر حمایت کی جائے گی۔ ۲۲ بلوچی، پنجابی، سندھی اور پشتو کو ان کے صوبوں بالترتیب بلوچستان، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا (پارٹی صرف پشتونخوا کا لفظ استعمال کرتی ہے)میں قومی زبان کا درجہ دینے کی جدوجہد کی جائے گی۔ پارٹی اپنے منشور میں وعدہ کرتی ہے کہ وہ مادری زبان میں تعلیم کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کر کے ، اسے نافذ کرائے گی۔ ۲۳پاکستان نیشنل پارٹی کے منشور میں اُردو زبان کے حوالے سے کوئی بات موجود نہیں۔
بلوچستان نیشنل موومنٹ کے نزدیک بھی پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے۔ اس لیے تمام قومی زبانوں کو قومی و سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم کرانے کے لیے ہر طرح کی جدو جہد کی حمایت کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مادری زبانوں میں تعلیم کو بنیادی حق کے طور پر تسلیم کر کے اسے نافذ کرنے کا عزم کیا گیا۔ ۲۴ بلوچستان نیشنل موومنٹ کے منشور میں بھی اُردو کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اُردو کو سرکاری زبان ، انگریزی کو اختیاری زبان اور ہر صوبہ میں اس کی اپنی علاقائی زبان کو فروغ دینے کی قائل ہے ۔۲۵ البتہ پارٹی کے منشور میں تعلیمی پالیسی کے طور پر قومی زبان کے علاوہ مادری زبان میں دینا درج ہے۔۲۶
قومی محاذ آزادی ۶ مئی ۱۹۷۴ء کو کراچی میں بنی۔اس کے نزدیک بھی پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے جس میں بڑی قومیں پنجابی، سندھی، بلوچ اور پختون آباد ہیں۔ محاذ کے نزدیک ذریعۂ تعلیم ، مادری زبان میں یا ہر قوم کی قومی زبان میں ہونا چاہیے۔۲۷
پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے لیے تیسری سوشلسٹ کانفرنس، منعقدہ ۲۸ مارچ ۱۹۸۶ء ، بمقام لاہور میں منظور کردہ منشور اور پروگرام میں اس عزم کا اِظہار کیا گیا کہ ذریعۂ تعلیم قومی (مادری) زبان ہو گا جبکہ اُردو رابطہ کی زبان بنائی جائے گی۔۲۸
نومبر ۱۹۹۶ء میں پاکستان نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل موومنٹ کے انضمام سے بلوچستان نیشنل پارٹی وجود میں آئی۔ اس کے نزدیک بھی پاکستان ایک کثیر القومی ملک ہے۔ اس لیے اُردو ان میں رابطہ کی زبان ہو گی۔ ۲۹
۲۹-۳۰ مارچ ۱۹۸۹ء کو کوئٹہ میں پشتو نخوا ملّی عوامی پارٹی کے قیام کے لیے تا سیسی کانگریس کا اجلاس منعقد ہوا۔ پارٹی اپنے منشور کے مطابق پشتو، بلوچی، سندھی اور پنجابی کو قومی زبانیں تسلیم کر کے ، اپنے اپنے صوبہ میں ان کو سرکاری ، تعلیمی اور تدریسی زبانیں قرار دیے جانے کے حق میں ہے جبکہ بلوچستان میں پشتو اوربلوچی کو سرکاری اور تدریسی زبان قرار دینا۔۳۰ پارٹی کی قومی کانگریس کے ایک اجلاس منعقد ہ ۲۹-۳۱ جولائی ۲۰۰۲ء ، بمقام کوئٹہ میں سرائیکی کو بھی قومی زبانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ۳۱ پارٹی کے منشور میں اُردو کے بارے میں کسی قسم کا ذکر نہیں ملتا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے منشور کی منظوری ۲۶ جولائی ۱۹۸۶ء کو کراچی میں ہونے والے اس کے تاسیسی اجلاس میں دی گئی۔ پارٹی ’’قومی عوامی جمہوری انقلاب‘‘ کی داعی ہے اور پاکستان کو ایک کثیر القومی ریاست قرار دیتی ہے ۔اِس کے منشور میں قومی مسئلہ کے زیر عنوان پانچ نکات پر مشتمل لسانی پالیسی کا اعلان کیا گیا۔ اس لیے منشور میں تعلیمی پالیسی کے زیر عنوان عہد کیا گیا ہے کہ پنجابی ، سندھی، پختون، بلوچ اور سرائیکی قومیتوں کی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دے کر، ان کو ذریعۂ تعلیم، عدالتی اور دفتری زبانوں کے طور پر فروغ دیا جائے گا۔ ان کے علاوہ دیگر زبانوں کو بھی ترقی دینے کا ذکر ہے جبکہ اُردو رابطہ کی زبان ہو گی۔ ذریعۂ تعلیم کے بارے میں مزید وضاحت کی گئی کہ یہ مادری زبان میں ہو گا۔ تاہم تعمیر و ترقی کے لیے دوسری زبانوں میں بھی تعلیم کا بندوبست کیا جائے گا۔ ۳۲
فروری ۱۹۷۷ء کو نو سیاسی و دینی جماعتوں کے اتحاد سے تشکیل پانے والے پاکستان قومی اتحاد نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان لاہور میں ۸، فروری ۱۹۷۷ء کو کیا۔ اس میں وعدہ کیا گیا کہ اُردو کو ایک سال کے اندر اندر دفتری زبان کے طور پر رائج کر دیا جائے گا جبکہ عربی اور علاقائی زبانوں کو بھی فروغ دیا جائے گا۔ ۳۳
پاکستان پیپلز پارٹی (۱۹۶۷ء)کے اولین منشور کی دستاویز: ۳، بنیادی اُصول نمبر ۱۳ میں درج ہے:
۱۳۔ ملکی زبانوں کی تیز ترترقی تا کہ وہ غیر ملکی زبانوں کی جگہ لے سکیں جو ملکی معاملات میں مستعمل ہیں اور تمام علاقائی زبانوں کی ترویج
’’پاکستان ہمیشہ کے لیے ایک غیر ملکی زبان پر انحصار نہیں کر سکتا ۔ جلد یا بدیر ملکی زبانوں کو اس کی جگہ لینی ہے۔ تاہم اس کے لیے خاصی تیاری کی ضرورت ہے اور ملکی زبانوں کی بتدریج ترقی اس کے آئندہ کردار کے لیے ضروری ہے۔ علاقائی زبانیں جو کہ ان لوگوں کو عزیز ہیں، جو انھیں بولتے ہیں، اپنے حقوق رکھتی ہیں۔ یہ پُرانی زبانیں ہیں۔ ان میں سے چند ایک کے پاس ادب کا قابل قدر سرمایا بھی ہے اور وہ لاکھوں انسانوں کا ذریعۂ اِظہار ہیں۔ اِن علاقائی زبانوں کی نشوو نما ملک کی ترقی کے لیے مدد گار ثابت ہو گی اور لوگوں کو خوش گوار بنائے گی‘‘۔۳۴
پاکستان پیپلز پارٹی اکتوبر ۱۹۹۳ء اور ۱۹۹۸ء میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے جاری کردہ منشورات میں اس سلسلے میں خاموش ہے ۔۳۵ اسی جماعت نے اپنے ۱۹۷۱ء تا ۱۹۷۷ء کے دورِ اقتدار میں ۱۹۷۲ء میں اُردو سندھی تنازع کو خوش اسلوبی سے حل کیا ۔۱۹۷۳ء کے متفقہ آئین میں تمام سیاسی جماعتوں سے اُردو کو واحد قومی زبان تسلیم کرایا اور اس کے نفاذ کی مدت پندرہ سال مقرر کی۔
متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم )اپنے منشورات کے اندر تعلیم کے میدان میں ذریعہ تعلیم میں یکسانیت لانے کی قائل ہے اور کہتی ہے کہ اُردو اور انگریزی کے میڈیم کے فرق کو ختم کیا جائے گا۔۳۶
پاکستان محکوم اقوام تحریک (پونم) کے اعلان نامہ جاری کردہ ۲، اکتوبر ۱۹۹۸ء میں تمام صوبوں اور وفاقی قوموں کی ہر زبان و ثقافت کو ترقی کے برابر مواقع اور وسائل دینے کی بات کی گئی ہے۔۳۷
پاکستان تحریک انصاف اپنے منشور کی دفعہ ح میں درج کرتی ہے: ’’ پرائمری سکولوں میں ذریعۂ تعلیم مادری زبان یا اُردو ہو گی۔ سکول کی تعلیم میں ہر سطح پر پڑھانے کا ذریعہ لازمی اُردو زبان ہو گی جبکہ پرائمری کی سطح پر سکولوں میں انگریزی زبان کے ذریعے تعلیم اختیاری ہو گی لیکن مڈل اور سیکنڈری پر انگریزی لازمی ہو گی‘‘۔۳۸
پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے منشور میں درج ہے کہ پاکستان میں سب زبانوں کو تسلیم کرنا چاہیے، اس میں فائدہ بھی ہو گا۔ اُردو ہمارے ہاں عملاً رابطے کی زبان ہے ۔۳۹
لیبر پارٹی پاکستان تعلیم کے باب میں اپنے منشور کے مطابق مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی قائل ہے ۔۴۰
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین ۲۰۰۲ء میں جاری کردہ اپنے منشور میں عالمی زبان انگریزی کو تمام طلبہ کے لیے ذریعۂ تعلیم کے طور پر شروع کرنے کی پابند ہے۔۴۱
اسی طرح تحریک استقلال (مارچ ۱۹۷۰ء) کے مارچ ۱۹۷۰ء ، جولائی ۱۹۷۲ء اور جولائی ۱۹۷۴ء کے منشور؛ مرکزی جمعیت اہلحدیث؛ پاکستان عوامی تحریک (مئی ۱۹۸۹ء) ؛نیشنل الائنس کے منشور برائے انتخابات اکتوبر ۲۰۰۲ء؛ پاکستان ملت پارٹی (اگست ۱۹۹۸ء) کے تاسیسی منشور؛ مرکزی جمعیت علماء پاکستان؛ نیشنل پیپلز پارٹی ( اگست ۱۹۸۶ء) ، پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو گروپ) اور متحدہ مجلس عمل (جون۲۰۰۱ء) کے منشور برائے انتخابات اکتوبر ۲۰۰۲ء میں زبان کے مسئلے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
پاکستان میں ان سیاسی جماعتوں کے علاوہ دیگر سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی و دینی جماعتیں اور گروہ کام کر رہے ہیں ۔ مذکورہ بالا جماعتوں کے علاوہ کئی اہم سیاسی جماعتیں ایسی بھی ہیں جو قومی زبان جیسے اہم مسئلہ پر خاموش ہیں ۔ چنانچہ ان کے منشور اور پروگرام میں قومی وحدت کے لیے درکار دیگر اہم عناصر کے ساتھ قومی زبان کا ذکر نہ کرنا خوش آئند نہیں ہے۔
اس کے برعکس بعض طلبہ تنظیمیں اس مسئلے پر بہت حساس ہیں اور انھوں نے اپنے اپنے نظریہ کے مطابق قومی زبان کے مسئلہ پر کھل کر اِظہار خیال کیا ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (۱۹۶۶ء) اور پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن (۱۹۸۸ء) مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے جبکہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (۱۹۵۷ء) مادری زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے اور کم از کم پرائمری تک مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حق میں ہیں۔۴۲
نتائج:
پاکستان میں قومی زبان کے بارے میں رویّے کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے منشورات کی بنیاد پر کیے گئے اس تجزیاتی مطالعہ سے کئی ایک نتائج بآسانی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
(i) قیام پاکستان سے قبل برصغیر کے طول و عرض کے خطے اور مختلف علاقائی زبانیں رکھنے کے باوجود الگ وطن کے لیے اُردو کو بحیثیت
قومی زبان تسلیم کرتے ہوئے مسلمانانِ ہند نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا اور قیامِ پاکستان کو ممکن بنایا ۔ تحریک پاکستان کے
دوران الگ زبان’اُردو‘ دو قومی نظریہ کا ایک بڑا اوربنیادی حوالہ تھی۔
(ii) قیامِ پاکستان کے فوری بعد اُردو اور بنگلہ زبان میں لسانی مناقشت پیدا کیے جانے کے باوجود اُردو کی حیثیت مسلمہ رہی اور سیاسی
جماعتوں نے اپنے منشورات میں زور و شور سے اس کا اِظہار کیا۔
(iii) ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے کچھ عرصہ پہلے اور پھر بعد میں سیاسی جماعتوں کا رویہ نفاذ قومی زبان کے
حوالے سے بتدریج نرم پڑنے لگا اور بعض نے خاموشی اختیار کر لی ۔ کئی ایک جماعتیں علاقائی زبانوں کو ساتھ ملانے کی بات کرنے لگیں ۔
(iv) ۱۹۸۵ء کے بعد قائم ہونے والی سیاسی جماعتوں اور سیاسی اتحادوں نے قومی زبان کے نفاذ کو سرے سے کوئی مسئلہ سمجھنا ہی چھوڑ دیا
بلکہ صوبائی زبانوں کو قومی زبانیں بنانے پر زور دیا جانے لگا۔
(v) ملک میں قومی زبان کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے منشورات کی روشنی میں جو رویّے نظر آتے ہیں ، اُن میں دینی و مذہبی، سیاسی
جماعتوں اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کے مؤقف میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔
(vi) پاکستان کے سیاسی و دینی جماعتوں کے منشور اور پروگراموں کے اس مطالعے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سوائے دینی جماعتوں
کے، باقی تمام جماعتیں قومی زبان کے مسئلہ پر اپنا واضح مؤقف نہیں رکھتیں یا بیان نہیں کرتیں۔ دینی جماعتیں بھی اُردو کے ساتھ عربی
زبان کو تقریباً برابر کا درجہ دینے کے حق میں ہیں جو کہ پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں کبھی بھی حقیقت پسندانہ مؤقف قرار
نہیں دیا جا سکتا۔
(vii) پاکستان کی قوم پرست جماعتیں جہاں ملک کو کثیر القومی ملک سمجھتی ہیں ،وہیں وہ مختلف اقوام کی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے
حق میں ہیں، جبکہ یہ تمام جماعتیں اُردو کو رابطہ کی زبان سے زیادہ درجہ دینے کے حق میں نہیں۔
پاکستانی وحدت اور پاکستانیت کے فروغ اور ملک میں بسنے والے تمام گروہوں اور طبقوں کو متحد رکھنے کے لیے اسلام کے علاوہ زبان بھی ایک نہایت اہم اور مفید ذریعہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایوانِ اقتدار اور ایوانِ علم میں بیٹھنے والے اہلِ فکر و دانش اس سلسلے میں اپنا کردارادا کریں اور مناسب قانون سازی کرتے ہوئے ، اُردو کو اس کا جائز مقام اس طرح دلائیں کہ دیگر علاقائی و مقامی زبانوں کو احساسِ محرومی نہ رہے۔
حوالہ جات وحواشی
پاکستان میں قومی زبان کے بارے میں رویّے کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے منشورات کی بنیاد پر کیے گئے اس تجزیاتی مطالعہ سے کئی ایک نتائج بآسانی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
(i) قیام پاکستان سے قبل برصغیر کے طول و عرض کے خطے اور مختلف علاقائی زبانیں رکھنے کے باوجود الگ وطن کے لیے اُردو کو بحیثیت
قومی زبان تسلیم کرتے ہوئے مسلمانانِ ہند نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا اور قیامِ پاکستان کو ممکن بنایا ۔ تحریک پاکستان کے
دوران الگ زبان’اُردو‘ دو قومی نظریہ کا ایک بڑا اوربنیادی حوالہ تھی۔
(ii) قیامِ پاکستان کے فوری بعد اُردو اور بنگلہ زبان میں لسانی مناقشت پیدا کیے جانے کے باوجود اُردو کی حیثیت مسلمہ رہی اور سیاسی
جماعتوں نے اپنے منشورات میں زور و شور سے اس کا اِظہار کیا۔
(iii) ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے کچھ عرصہ پہلے اور پھر بعد میں سیاسی جماعتوں کا رویہ نفاذ قومی زبان کے
حوالے سے بتدریج نرم پڑنے لگا اور بعض نے خاموشی اختیار کر لی ۔ کئی ایک جماعتیں علاقائی زبانوں کو ساتھ ملانے کی بات کرنے لگیں ۔
(iv) ۱۹۸۵ء کے بعد قائم ہونے والی سیاسی جماعتوں اور سیاسی اتحادوں نے قومی زبان کے نفاذ کو سرے سے کوئی مسئلہ سمجھنا ہی چھوڑ دیا
بلکہ صوبائی زبانوں کو قومی زبانیں بنانے پر زور دیا جانے لگا۔
(v) ملک میں قومی زبان کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے منشورات کی روشنی میں جو رویّے نظر آتے ہیں ، اُن میں دینی و مذہبی، سیاسی
جماعتوں اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کے مؤقف میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔
(vi) پاکستان کے سیاسی و دینی جماعتوں کے منشور اور پروگراموں کے اس مطالعے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سوائے دینی جماعتوں
کے، باقی تمام جماعتیں قومی زبان کے مسئلہ پر اپنا واضح مؤقف نہیں رکھتیں یا بیان نہیں کرتیں۔ دینی جماعتیں بھی اُردو کے ساتھ عربی
زبان کو تقریباً برابر کا درجہ دینے کے حق میں ہیں جو کہ پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں کبھی بھی حقیقت پسندانہ مؤقف قرار
نہیں دیا جا سکتا۔
(vii) پاکستان کی قوم پرست جماعتیں جہاں ملک کو کثیر القومی ملک سمجھتی ہیں ،وہیں وہ مختلف اقوام کی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے
حق میں ہیں، جبکہ یہ تمام جماعتیں اُردو کو رابطہ کی زبان سے زیادہ درجہ دینے کے حق میں نہیں۔
پاکستانی وحدت اور پاکستانیت کے فروغ اور ملک میں بسنے والے تمام گروہوں اور طبقوں کو متحد رکھنے کے لیے اسلام کے علاوہ زبان بھی ایک نہایت اہم اور مفید ذریعہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایوانِ اقتدار اور ایوانِ علم میں بیٹھنے والے اہلِ فکر و دانش اس سلسلے میں اپنا کردارادا کریں اور مناسب قانون سازی کرتے ہوئے ، اُردو کو اس کا جائز مقام اس طرح دلائیں کہ دیگر علاقائی و مقامی زبانوں کو احساسِ محرومی نہ رہے۔
حوالہ جات وحواشی
1. Aftab A. Kazi; Ethnicity And Education in Nation - Building in Pakistan; Lahore, Vanguard Books Ltd;
p.109; 1994.
شمال مغربی سرحدی صوبہ (اب صوبہ خیبر پختونخوا )میں اُردو بطور لازمی مضمون، چوتھی جماعت سے پڑھائی جاتی تھی۔
2. Ibid; p.118
3. Ibid; p. 125
4. Ibid; p. 131
۵۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، منشور ۲۰۰۲ء؛ اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ کیمپ آفس؛ ت۔ن؛ ص ۱۲۔
۶۔ تفصیلات کے لیے دیکھیں۔ منشور پاکستان مسلم لیگ (ن) ۲۰۰۷ء (اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) ۲۰۰۷ء)اور منشور پاکستان
مسلم لیگ(ج۔ن: ن۔ن، ۲۰۰۲ء)۔ نومبر ۱۹۹۸ء اور اکتوبر ۱۹۹۰ء میں ہونے والے انتخابات ملک کے آٹھ چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اور بعض آزاد ارکان کی طرف سے اکتوبر ۱۹۹۸ء میں’ اسلامی جمہوری اتحاد‘ بنایا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ کے دونوں گروپ (نواز شریف اور قائداعظم) جو کہ اس وقت ایک ہی تھے ، بھی اس انتخابی اتحاد کا حصہ تھے۔ اس اتحاد کے منشور میں بھی زبان کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ۔Manifesto Islami Jamhori Ittehad (Islamabad: n. Pub,. 1988)(منشور اسلامی جمہوری اتحاد پاکستان؛اسلام آباد : پیر فضلِ حق؛ ۱۹۹۰ء)
۷۔ منشور پاکستان جمہوری پارٹی؛ لاہور: شعبۂ نشر واشاعت، پاکستان جمہوری پارٹی؛ت۔ن؛ ص ص : ۱۰، ۱۸-۱۹۔
۸۔ انتخابی منشور خاکسار تحریک پاکستان ؛ لاہور : باب الاشاعت ، خاکسار تحریک؛ ۱۹۷۷ء؛ ص: ۱۴۔
۹۔ خاکسار تحریک پاکستان کا انقلابی منشور؛ لاہور: خاکسار تحریک پاکستان؛ ۱۹۸۸ء؛ ص: ۶۔
۱۰۔ تحریک نفاذِ فقۂ جعفریہ پاکستان؛ ہمارا راستہ؛ لاہور: مکتبہ الرضاء؛ ت۔ن؛ ص ص : ۴۱، ۴۳۔
۱۱۔ منشور جماعت اسلامی پاکستان؛ لاہور: شعبہ انتخابات، جماعت اسلامی پاکستان؛ ت۔ن؛ ص ص : ۴۶-۴۷۔
۱۲۔ منشور جماعت اسلامی پاکستان؛ لاہور : شعبہ نشرو اشاعت، جماعت اسلامی پاکستان؛ ۱۹۷۰ء۔ ص ص : ۷، ۱۹-۲۰۔
۱۳۔ منشور کل پاکستان مرکزی جمعیت علماء اسلام و نظامِ اسلام؛ کراچی: النور چیمہ؛ ت۔ن؛ ص ص: ۱۹-۲۰۔
۱۴۔ اسلامی منشور جمعیت علماء اسلام پاکستان ؛ لاہور: مرکزی دفتر جمعیت علماء اسلام؛ ۱۹۸۷ء؛ ص ص: ۱۸، ۲۱-۲۲۔
۱۵۔ ایضاً، ص : ۹
۱۶۔ انتخابی منشور مرکزی جمعیتۂ العلماء پاکستان؛ لاہور: شعبۂ نشرو اشاعت، مرکزی جمعیتۂ العلماء پاکستان، ت۔ن؛
ص: ۹۔
۱۷۔ منشور جمعیت العلماء پاکستان؛ گوجرانوالہ: شعبۂ نشرو اشاعت، جمعیت العلماء پاکستان؛ ۱۹۶۹ء؛ ص: ۱۲۔
۱۸۔ منشور مجلسِ عمل جمعیت العلماء پاکستان، لاہور؛ راولپنڈی: مجلس عمل جمعیت علماء پاکستان؛ ت۔ن؛ ص: ۲۹۔
۱۹۔ منشور جمعیت علماء پاکستان ؛ لاہور: شعبہ نشر واشاعت، جمعیت علماء پاکستان؛ ت۔ن۔
۲۰۔ پروگرام پاکستان پیپلز پارٹی ( شیر پاؤ) مجوزہ ڈرافٹ ؛ پشاور: شعبہ نشر و اشاعت؛ ت۔ن؛ ص: ۱۰۔
۲۱۔ منشور جمہوری وطن پارٹی؛ کوئٹہ: شعبۂ نشر و اشاعت، جمہوری وطن پارٹی؛ مرکزی سیکرٹریٹ؛ ۲۰۰۹ء؛ ص ص: ۴-۵،۱۱۔
۲۲۔ قومی کونسل، قومی جمہوریت؛ ملتان: ت۔ن؛ ۱۹۸۶ء؛ ص: ۵
۲۳۔ آئین و منشور نیشنل پارٹی ؛ ج۔ن؛ شعبۂ نشر و اشاعت نیشنل پارٹی؛ ت۔ن؛ ص ص: ۱۵-۱۶، ۲۱۔
۲۴۔ آئین و منشور بلوچستان نیشنل موومنٹ؛ کوئٹہ: مرکزی شعبۂ نشر و اشاعت، بلوچستان نیشنل موومنٹ؛ ت۔ن؛ ص ص :
۱۴-۱۵،۲۱۔
۲۵۔ آئین و منشور ،سوشل ڈیموکریٹک پارٹی؛ ج۔ن؛ ت۔ن؛ ۱۹۸۸ء؛ ص: ۱۹۔
۲۶۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں؛ از: پروفیسر محمد عثمان؛ مسعود اشعر؛ لاہور سنگ میل پبلیکیشنز؛ ص: ۲۷۳؛۲۰۰۴ء(طبع دوّم)۔
27 Announcement of the formation of Qaumi Mohaz - E - Azadi was made in First Convention Held on 4th
May, 1974, at Katrak Hall. Basic Aims and Objectives of The Party Pronounced in the Convention are
included in this draft programme; pp.30- 31.
۲۸۔ پاکستان سوشلسٹ پارٹی کا منشور-پروگرام اور آئین؛ لاہور: پاکستان سوشلسٹ پارٹی؛ ۱۹۸۶ء؛ ص: ۷۔
29. The Political Parties of Pakistan; by: ABS Jafri; Karachi: Royal Book Company; 2002; p: 19.
۳۰۔ منشور و آئین پشتو نخوا ملّی عوامی پارٹی؛کوئٹہ: شعبۂ نشر و اشاعت؛ مرکزی کمیٹی پشتونخوا ملّی عوامی پارٹی؛ ت۔ن؛
ص: ۸۔
۳۱۔ منشور و آئین پاکستان پشتو نخوا ملّی عوامی پارٹی؛ ج۔ن؛ شعبۂ نشر و اشاعت، پاکستان پشتو نخوا ملّی عوامی پارٹی ؛ ت۔ ن؛ ص: ۱۰۔
۳۲۔ منشور عوامی نیشنل پارٹی؛ لاہور؛ عوامی نیشنل پارٹی [پنجاب]؛ ت۔ن؛ ص ص: ۷،۱۵۔
۳۳۔ منشور پاکستان قومی اتحاد؛ لاہور ؛شعبۂ نشرو اشاعت، پاکستان قومی اتحاد، ۱۹۷۷، ص: ۵۔ پاکستان قومی اتحاد میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس،
پاکستان جمہوری پارٹی، پاکستان مسلم لیگ، تحریک استقلال پاکستان، جماعت اسلامی پاکستان، جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، خاکسار تحریک اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی شامل تھیں۔
۳۴۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں؛ از : پروفیسر محمد عثمان، مسعود اشعر؛ لاہور سنگِ میل پبلیکیشنز؛ ص: ۱۰۰؛ ۲۰۰۴ء۔
۳۵۔ دیکھیں۔منشور :۱۹۹۳ء پاکستان پیپلز پارٹی؛ج۔ن؛ الیکشن سیل ؛سینٹرل سیکرٹریٹ؛ت۔ن۔
۳۶۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں؛ طبع دوّم؛ از: پروفیسر محمد عثمان، مسعود اشعر؛ لاہور، سنگِ میل پبلیکیشنز؛ ص: ۴۷۶؛ ۲۰۰۴۔
۳۷۔ ایضاً؛ ص:۵۷۳۔ ۵۷۴
۳۸۔ ایضاً؛ ص:۷۲۶
۳۹۔ ایضاً؛ ص:۲۶۵
۴۰۔ ایضاً؛ ص:۷۹۲
۴۱۔ ایضاً؛ ص: ۸۱۹
۴۲۔ عامر ریاض (ترتیب)؛ طلباء تنظیمیں کیا چاہتی ہیں؟ ؛ گوجرانوالہ برگر، ۲۰۰۹ء؛ ص ص: ۹-۱۰، ۱۹۔
p.109; 1994.
شمال مغربی سرحدی صوبہ (اب صوبہ خیبر پختونخوا )میں اُردو بطور لازمی مضمون، چوتھی جماعت سے پڑھائی جاتی تھی۔
2. Ibid; p.118
3. Ibid; p. 125
4. Ibid; p. 131
۵۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، منشور ۲۰۰۲ء؛ اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ کیمپ آفس؛ ت۔ن؛ ص ۱۲۔
۶۔ تفصیلات کے لیے دیکھیں۔ منشور پاکستان مسلم لیگ (ن) ۲۰۰۷ء (اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) ۲۰۰۷ء)اور منشور پاکستان
مسلم لیگ(ج۔ن: ن۔ن، ۲۰۰۲ء)۔ نومبر ۱۹۹۸ء اور اکتوبر ۱۹۹۰ء میں ہونے والے انتخابات ملک کے آٹھ چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اور بعض آزاد ارکان کی طرف سے اکتوبر ۱۹۹۸ء میں’ اسلامی جمہوری اتحاد‘ بنایا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ کے دونوں گروپ (نواز شریف اور قائداعظم) جو کہ اس وقت ایک ہی تھے ، بھی اس انتخابی اتحاد کا حصہ تھے۔ اس اتحاد کے منشور میں بھی زبان کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ۔Manifesto Islami Jamhori Ittehad (Islamabad: n. Pub,. 1988)(منشور اسلامی جمہوری اتحاد پاکستان؛اسلام آباد : پیر فضلِ حق؛ ۱۹۹۰ء)
۷۔ منشور پاکستان جمہوری پارٹی؛ لاہور: شعبۂ نشر واشاعت، پاکستان جمہوری پارٹی؛ت۔ن؛ ص ص : ۱۰، ۱۸-۱۹۔
۸۔ انتخابی منشور خاکسار تحریک پاکستان ؛ لاہور : باب الاشاعت ، خاکسار تحریک؛ ۱۹۷۷ء؛ ص: ۱۴۔
۹۔ خاکسار تحریک پاکستان کا انقلابی منشور؛ لاہور: خاکسار تحریک پاکستان؛ ۱۹۸۸ء؛ ص: ۶۔
۱۰۔ تحریک نفاذِ فقۂ جعفریہ پاکستان؛ ہمارا راستہ؛ لاہور: مکتبہ الرضاء؛ ت۔ن؛ ص ص : ۴۱، ۴۳۔
۱۱۔ منشور جماعت اسلامی پاکستان؛ لاہور: شعبہ انتخابات، جماعت اسلامی پاکستان؛ ت۔ن؛ ص ص : ۴۶-۴۷۔
۱۲۔ منشور جماعت اسلامی پاکستان؛ لاہور : شعبہ نشرو اشاعت، جماعت اسلامی پاکستان؛ ۱۹۷۰ء۔ ص ص : ۷، ۱۹-۲۰۔
۱۳۔ منشور کل پاکستان مرکزی جمعیت علماء اسلام و نظامِ اسلام؛ کراچی: النور چیمہ؛ ت۔ن؛ ص ص: ۱۹-۲۰۔
۱۴۔ اسلامی منشور جمعیت علماء اسلام پاکستان ؛ لاہور: مرکزی دفتر جمعیت علماء اسلام؛ ۱۹۸۷ء؛ ص ص: ۱۸، ۲۱-۲۲۔
۱۵۔ ایضاً، ص : ۹
۱۶۔ انتخابی منشور مرکزی جمعیتۂ العلماء پاکستان؛ لاہور: شعبۂ نشرو اشاعت، مرکزی جمعیتۂ العلماء پاکستان، ت۔ن؛
ص: ۹۔
۱۷۔ منشور جمعیت العلماء پاکستان؛ گوجرانوالہ: شعبۂ نشرو اشاعت، جمعیت العلماء پاکستان؛ ۱۹۶۹ء؛ ص: ۱۲۔
۱۸۔ منشور مجلسِ عمل جمعیت العلماء پاکستان، لاہور؛ راولپنڈی: مجلس عمل جمعیت علماء پاکستان؛ ت۔ن؛ ص: ۲۹۔
۱۹۔ منشور جمعیت علماء پاکستان ؛ لاہور: شعبہ نشر واشاعت، جمعیت علماء پاکستان؛ ت۔ن۔
۲۰۔ پروگرام پاکستان پیپلز پارٹی ( شیر پاؤ) مجوزہ ڈرافٹ ؛ پشاور: شعبہ نشر و اشاعت؛ ت۔ن؛ ص: ۱۰۔
۲۱۔ منشور جمہوری وطن پارٹی؛ کوئٹہ: شعبۂ نشر و اشاعت، جمہوری وطن پارٹی؛ مرکزی سیکرٹریٹ؛ ۲۰۰۹ء؛ ص ص: ۴-۵،۱۱۔
۲۲۔ قومی کونسل، قومی جمہوریت؛ ملتان: ت۔ن؛ ۱۹۸۶ء؛ ص: ۵
۲۳۔ آئین و منشور نیشنل پارٹی ؛ ج۔ن؛ شعبۂ نشر و اشاعت نیشنل پارٹی؛ ت۔ن؛ ص ص: ۱۵-۱۶، ۲۱۔
۲۴۔ آئین و منشور بلوچستان نیشنل موومنٹ؛ کوئٹہ: مرکزی شعبۂ نشر و اشاعت، بلوچستان نیشنل موومنٹ؛ ت۔ن؛ ص ص :
۱۴-۱۵،۲۱۔
۲۵۔ آئین و منشور ،سوشل ڈیموکریٹک پارٹی؛ ج۔ن؛ ت۔ن؛ ۱۹۸۸ء؛ ص: ۱۹۔
۲۶۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں؛ از: پروفیسر محمد عثمان؛ مسعود اشعر؛ لاہور سنگ میل پبلیکیشنز؛ ص: ۲۷۳؛۲۰۰۴ء(طبع دوّم)۔
27 Announcement of the formation of Qaumi Mohaz - E - Azadi was made in First Convention Held on 4th
May, 1974, at Katrak Hall. Basic Aims and Objectives of The Party Pronounced in the Convention are
included in this draft programme; pp.30- 31.
۲۸۔ پاکستان سوشلسٹ پارٹی کا منشور-پروگرام اور آئین؛ لاہور: پاکستان سوشلسٹ پارٹی؛ ۱۹۸۶ء؛ ص: ۷۔
29. The Political Parties of Pakistan; by: ABS Jafri; Karachi: Royal Book Company; 2002; p: 19.
۳۰۔ منشور و آئین پشتو نخوا ملّی عوامی پارٹی؛کوئٹہ: شعبۂ نشر و اشاعت؛ مرکزی کمیٹی پشتونخوا ملّی عوامی پارٹی؛ ت۔ن؛
ص: ۸۔
۳۱۔ منشور و آئین پاکستان پشتو نخوا ملّی عوامی پارٹی؛ ج۔ن؛ شعبۂ نشر و اشاعت، پاکستان پشتو نخوا ملّی عوامی پارٹی ؛ ت۔ ن؛ ص: ۱۰۔
۳۲۔ منشور عوامی نیشنل پارٹی؛ لاہور؛ عوامی نیشنل پارٹی [پنجاب]؛ ت۔ن؛ ص ص: ۷،۱۵۔
۳۳۔ منشور پاکستان قومی اتحاد؛ لاہور ؛شعبۂ نشرو اشاعت، پاکستان قومی اتحاد، ۱۹۷۷، ص: ۵۔ پاکستان قومی اتحاد میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس،
پاکستان جمہوری پارٹی، پاکستان مسلم لیگ، تحریک استقلال پاکستان، جماعت اسلامی پاکستان، جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، خاکسار تحریک اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی شامل تھیں۔
۳۴۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں؛ از : پروفیسر محمد عثمان، مسعود اشعر؛ لاہور سنگِ میل پبلیکیشنز؛ ص: ۱۰۰؛ ۲۰۰۴ء۔
۳۵۔ دیکھیں۔منشور :۱۹۹۳ء پاکستان پیپلز پارٹی؛ج۔ن؛ الیکشن سیل ؛سینٹرل سیکرٹریٹ؛ت۔ن۔
۳۶۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں؛ طبع دوّم؛ از: پروفیسر محمد عثمان، مسعود اشعر؛ لاہور، سنگِ میل پبلیکیشنز؛ ص: ۴۷۶؛ ۲۰۰۴۔
۳۷۔ ایضاً؛ ص:۵۷۳۔ ۵۷۴
۳۸۔ ایضاً؛ ص:۷۲۶
۳۹۔ ایضاً؛ ص:۲۶۵
۴۰۔ ایضاً؛ ص:۷۹۲
۴۱۔ ایضاً؛ ص: ۸۱۹
۴۲۔ عامر ریاض (ترتیب)؛ طلباء تنظیمیں کیا چاہتی ہیں؟ ؛ گوجرانوالہ برگر، ۲۰۰۹ء؛ ص ص: ۹-۱۰، ۱۹۔
اُردو کی اوّلیں لغت
آثارِ اُردو
پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل
سابق ڈین ،کُلیہ لسانیات و سماجی علوم ، بین الاقوامی یونیورسٹی، اسلام آباد
پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل
سابق ڈین ،کُلیہ لسانیات و سماجی علوم ، بین الاقوامی یونیورسٹی، اسلام آباد
اُردو کی اوّلیں لغت
اُردوزبان کی اوّلیں لغت سے قطع نظر، اوّلیں قواعد کے تعین کے تعلق سے، دستیاب شواہد کی روشنی میں، اس بات پر محققین کا اب قریب قریب اتفاق ہے کہ یہ ہندوستان کی تہذیب وثقافت سے متعلقہ موضوعات پر مشتمل قاموسی نوعیت کی ایک فارسی تصنیف ’’تحفتہ الہند‘‘میں ایک باب کے طور پر لکھ کر شامل کی گئی تھی۔ اس کے مصنف کا نام تین طرح سے: (۱)میرزا خان بن فخرالدین محمد، (۲)میرزا محمد خان بن فخرالدین محمد، (۳)میرزا جان بن فخرالدین محمد جیسی قدرے مختلف صورتوں میں ملتا ہے۔ اس کا تعلق عہد جلال الدین اکبر (۱۵۵۶ء -۱۶۰۵ء)کے مدبر و دانش ورعبدالرحیم خانخاناں (۱۵۵۶ء - ۱۶۲۷ء) کے اخلاف سے تھا، لیکن اس کے حالاتِ زندگی اور سرگرمیوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ [ مسعود حسن رضوی ادیب (۱۸۹۳ء-۱۹۷۵ء) کے مطابق کتب خانے میں قصائد عرفی کی ایک شرح ’’ مفتاح النکات‘‘ کے دو قلمی نسخے تھے، جن کا مصنف میرزا جان بن فخرالدین محمدتھا اور یہ شرح ۱۰۷۲ھ مطابق ۱۶۶۱ء میں، بعہدِ اورنگ زیب لکھی گئی تھی۔ مسعود حسن رضوی کے مطابق میرزا جان، میرزا خان کا بھائی ہو سکتا ہے یا ممکن ہے کہ خود میرزا خان ہی میرزا جان ہو، کیوں کہ ’’ تحفتہ الہند‘‘ کے بعض قلمی نسخوں پر بطور مصنف میرزا جان بھی لکھا ہے، پھر اس نام کی مزید تائید دیگر نسخوں سے بھی ہوتی ہے ۔ ۱]
یہ تصنیف متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی ہے اور اس کے لکھے جانے کے کافی عرصے کے بعد اس میں بطورِ مقدمہ اُردو زبان کے ایک ابتدائی روپ’برج بھاشا‘ ، ’کھڑی بولی‘ یا ’ ہندوستانی‘ کی قواعد کو ایک نصابی ضرورت کے تحت بالارادہ لکھا اور شامل کیا گیا تھا ۲ ۔ اگرچہ یہ تصنیف خاصی معروف ہے لیکن اس کی اس مناسبت سے اُردو دُنیا سے اس کا اور اس میں شامل قواعد کا اوّلین تعارف پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب (۱۸۹۳ء۔ ۱۹۷۵ء) نے جون ۱۹۳۰ء میں کرایا تھا ۳ اور پھر بعد میں اُنھوں نے ایک مزید تعارف کے ساتھ اس قواعد کے فارسی متن کا اُردو ترجمہ بھی شائع کیا ۴ ۔
’’ تحفتہ الہند‘‘ سات ابواب ، مقدمہ اور خاتمہ پر مشتمل ہے جس میں علمِ عروض، علمِ قافیہ، علمِ بیان و بدیع، علمِ موسیقی، علمِ مباشرت، علمِ قیافہ پر مفصل معلومات درج کی گئی ہیں لیکن اس کے آخر میں دراصل اُردو -فارسی لغت بھی شامل ہے ، جو لغت نویسی کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی اوّلین لغت بھی ہے۔ حالانکہ اب تک یہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے کہ اُردو کی اوّلیں لغت عبدالواسع ہانسوی کی ’’غرائب اللغات‘‘ ہے جو اورنگ زیب ہی کے زمانے میں لکھی گئی اور اس کے کچھ سال بعد ۱۱۶۵ھ یا ۱۷۴۸ء میں سراج الدین علی خان آرزو(۱۶۸۸ء۔ ۱۷۶۵ء) نے ’’نوادرالالفاظ‘‘ لکھی اور اوّل الذکر سے استفادہ بھی کیااور اس میں شامل الفاظ اپنی لغت میں شامل کیے ۵ ۔ اس کے قریبی عرصہ میں کئی اور لغاتِ اُردو و فارسی بھی مرتب ہوئیں لیکن وہ تاحال شائع نہ ہو سکیں ۶ اور اس وقت ہمارا مو۳ضوع بھی نہیں۔ ’’ تحفتہ الہند‘‘اگرچہ ۱۶۷۶ء سے قبل کی تصنیف ہے لیکن مصنف نے اپنے ایک مربیّ اور اورنگ زیب عالم گیر (۱۶۵۸ء تا ۱۷۰۷ء) کے فرزند اعظم شاہ ( متوفی ۱۷۰۷ء) کی خوشنودی یا ایماء پر ، جو برج بھاشا کا سرپرست بتایا جاتا ہے ، شہزادہ جہاندار شاہ (متوفی ۱۷۱۲ء) کی تعلیم و تربیت کی خاطر، اس میں اضافہ کر کے ایک مختصر اُردو -فارسی (برج بھاشا -فارسی)لغت اور قواعد اس میں شامل کی تھی۔ اُس نے یہ اضافہ ۱۷۱۱ء میں کیا تھا ۷ ۔مصنف نے اس کتاب کی تالیف میں بڑی محنت اور جانفشانی کا ثبوت دیا ہے۔ اس نے اس میں شامل مطالب کی توضیح و تشریح اور معلومات کے جمع کرنے میں بڑی کدو کاوش اور جستجو سے کام لیا ہے اور کہیں کہیں مثالیں بھی درج کی ہیں پھراس نے جو لغت ترتیب دی ہے اس میں یہ اہتمام کیا ہے کہ اُردو لفظ کے مقابل جہاں فارسی معنی تحریر کیے ہیں، وہیں اس نے اس لفظ کو دیونا گری رسم الخط میں بھی لکھ دیا ہے۔ اس طرح وہ پہلا شخص ہے جس نے، چاہے ایک ترغیب وتحریک ہی کے تحت سہی، ایک شعور اور ارادے کے تحت اور ایک مقصد کو سامنے رکھ کر ضمنی طور پر اُردو کی یہ اوّلیں لغت مرتب کی ہے۔
اگرچہ ’’ تحفتہ الہند‘‘ کے اجزاء یا ابواب شائع ہوتے رہے ہیں لیکن اس کا مکمل متن اب تک شائع نہیں ہوا ۔البتہ اِس میں شامل لغت تا حال مرتب و شائع نہیں ہوئی۔ یہاں ذیل میں اِس کے ابتدائی چند صفحات کا عکس بطور نمونہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس تصنیف کے متعدد قلمی نسخے ہندوستان اور یورپ کے کئی کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔ یہاں جو عکس پیش کیے گئے ہیں وہ کتب خانہ انڈیا آفس کے نسخے سے ماخوذ ہیں، جس کی تمام دیگر نسخوں کے مقابلے میں یہ اہمیت ہے کہ یہ معروف و ممتاز مستشرق سرولیم جونز ( ۱۷۴۶ء تا ۱۷۹۴ء Sir William Jones)کے استفادے اور ملکیت میں رہا۔ ان صفحات پر انگریزی زبان میں جو یادداشتیں نظر آ رہی ہیں یہ سب جونز کے قلم سے ہیں اور نہایت قیمتی ہیں۔
حواشی:
۱ لچھمی نرائن شفیق نے فارسی شعراء کے اپنے تذکرے’’گلِ رعنا‘‘، مخزونہ برٹش میوزیم، لندن (Or. 2044) میں اس کا تذکرہ کیا ہے اور اس کا نام مرزا خان بن فخر الدین محمد تحریر کیا ہے۔ بحوالہ چارلس ریو (Charles Rieu) ، Catalogue of Persian Manuscripts in the British Museum.جلد سوم، برٹش میوزیم، لندن ۱۹۶۵ء ، ص ۱۰۷۹، الف؛ ریو کے مطابق اس تذکرے کے اسی ذخیرے میں شامل ایک اور نسخے (Or. 2014)میں اس کا نام محمد مرزا خان لکھا ہے۔ ایضاً۔ لیکن ہَرمن ایتھے (Hermann Ethe)، Catalogue of Persian Manuscripts in the India Office Library، لندن، انڈیا آفس لائبریری اینڈ ریکارڈ ، ۱۹۸۰ء ، ص۱۱۹، کے مطابق مصنف کا نام میرزا محمدبن فخرالدین محمد ہے ۔ چارلس ریو اور ایتھے کی فہارسِ مخطوطات میں ’’تحفتہ الہند‘‘ کے ذیل میں اس کے دیگر نسخوں کی نشاندہی بھی موجود ہے۔ اس کی تائید نجمہ پروین احمد کی کتاب Indian Music، نئی دہلی، منوہر، ۱۹۸۴ء، ص:۲۴میں بھی ملتی ہے کہ مصنفہ نے ’’تحفتہ الہند‘‘ کے کئی نسخوں میں مصنف کا نام ’ میرزا جان‘لکھا دیکھا۔
۲ اس تصنیف کے متعدد قلمی نسخے ہندوستان اور یورپ کے کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔ تفصیلات کے لیے: ڈی۔ این۔ مارشل (D.N. Marshall) Mughals in India, a Bibliographical Survey: Manuscripts.جلد اوّل، ایشیا پبلشنگ کمپنی، بمبئی، ۱۹۶۷ء، ص ص ۶۹۲-۲۹۵؛ مارشل کی اس تصنیف کا ترجمہ، مع اضافہ جات: ’’مغولاں در ہند: بررسی کتابشاختی دستنویس ہا‘‘، ترجمہ حسین برز گر کشتلی، مرکز پژ و ہش کتابخانہ، تہران، ۱۳۸۹ھ، ص ۶۲۲؛ ’’تحفتہ الہند‘‘ کے باب اوّل کو مع انگریزی ترجمہ و حواشی شانتی نکیتن، کلکتہ کے پروفیسر ایم۔ ضیا الدین نے مرتب کر کے شائع کیا تھا: (1676)A Grammar of the Braj Bhakha by Mirza Khanمطبوعہ، کلکتہ: وشوابھارتی بک شاپ، ۱۹۳۵ء۔
۳ ’’برج بھاشا کی پہلی گرامر‘‘،مشمولہ : ’’ادب ‘‘، لکھنؤ، جون ۱۹۳۰ء؛ یہی مقالہ بعد میں ’’نقوش‘‘، لاہور، جولائی ۱۹۵۵ء، ص ص ۲۰۷-۲۱۹، میں شائع کیا تھا جو دوبارہ اسی مجلے میں اپریل ۱۹۶۰ء، ص ص۱۹۹۔ ۲۱۳میں بھی نقل ہوا۔ پھر اُنھوں نے اس قواعد کے فارسی متن کا اُردو ترجمہ ایک معلوماتی مقدمے کے ساتھ کتابی صورت میں، بعنوان ’’قواعد کلیۂ بھاکا‘‘ ، کتاب نگر، لکھنؤ سے ۱۹۶۸ء میں شائع کیا۔ اس میں شامل عرضِ ناشر کے مطابق رضوی صاحب نے اس موضوع پر اپنا اوّلین مقالہ انگریزی زبان میں بھی تحریر کیا جسے انھوں نے سنسکرت کے ممتاز عالم اور الٰہ آباد یونی ورسٹی کے وائس چانسلر و پروفیسر گنگا ناتھ جھاکے اعزاز میں شائع ہونے والے ارمغان: Jha Commemoration Volumeکے لیے لکھا جو ۲۴ ، نومبر ۱۹۳۳ء کو پیش کیا گیا اور یہ پونا اورئینٹل بک ایجنسی سے ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا۔ اظہر مسعود رضوی،عرضِ ناشر، ایضاً، ص ۳
۴ ایضاً، ص ص ۱۱-۳۹۔
۵ سید عبداللہ، ’’نوادر الالفاظ مع غرائب اللغات‘‘، مرتبہ: انجمن ترقی اُردو، کراچی، ۱۹۵۱ء، ص ص ۳-۴۔
۶ ایضاً، ص ص ۱۶-۱۷؛مگر اسی زمانے میں لکھی ہوئی ایک لغت ’’کمالِ عترت‘‘ مصنفہ میر محمد ی عترت اکبر آبادی نے لکھی تھی جسے ڈاکٹر عارف نوشاہی نے اپنے فاضلانہ مقدمے کے ساتھ مرتب و شائع کیا ، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۹۹ء۔
۷ ’’تحفتہ الہند‘‘ ، مرتبہ : نورالحسن انصاری، بنیاد فرہنگِ ایران، دہلی، ۱۹۷۵ء، جلد اوّل، ص ۲۶؛ ’’تحفتہ الہند‘‘ کا بقیہ متن بہ اہتمام ڈاکٹر نور الحسن انصاری، ۱۹۸۳ء میں بخشِ فارسی، دانشگاہِ دہلی کے ’’مجلہ تحقیقاتِ فارسی‘‘ کے شمارۂ مخصوص میں شائع ہوا۔ ’’تحفتہ الہند‘‘ پر سرولیم جونز (Sir William Jones) نے ’’ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ‘‘ کے تحت اپنے جاری کیے ہوئے تحقیقی مجلے Asiatic Researches، ۱۷۸۵ء، شمارہ ۳، ص ۶۶، پر اس کے حصۂ موسیقی کا تعارف On the Musical Modes of Hindusتحریرکیا تھا،بحوالہ چارلس ریو، تصنیفِ مذکور، جلد اوّل، لندن، ۱۹۶۵ء، ص ۶۲، الف؛ یہ مقالہ بعد میں Indian Music and its Instruments، مرتبہ: ولیم ریوز، مطبوعہ، روز نتھال، لندن، ۱۹۲۸ء میں شائع ہوا۔ بحوالہ: رشید ملک، تصنیفِ مذکور،ص۲۰۔ اس تصنیف کے ایک مخطوطے مخزونہ’انڈیا آفس لائبریری‘ پر سر ولیم جونز نے انگریزی میں جا بجا تشریحات اور معانی تحریر کیے ہیں۔ ڈینیسن روس(Denison Ross) اور ای۔ جی۔ براؤن (E.G. Brown) ،Catalogue of Two Collections of Persian and Arabic Manuscripts in the India Office Library، مطبوعہ: ایر ااینڈ سپوٹس ووڈ، لندن، ۱۹۰۲ء، ص ۵۹۔
یہ تصنیف متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی ہے اور اس کے لکھے جانے کے کافی عرصے کے بعد اس میں بطورِ مقدمہ اُردو زبان کے ایک ابتدائی روپ’برج بھاشا‘ ، ’کھڑی بولی‘ یا ’ ہندوستانی‘ کی قواعد کو ایک نصابی ضرورت کے تحت بالارادہ لکھا اور شامل کیا گیا تھا ۲ ۔ اگرچہ یہ تصنیف خاصی معروف ہے لیکن اس کی اس مناسبت سے اُردو دُنیا سے اس کا اور اس میں شامل قواعد کا اوّلین تعارف پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب (۱۸۹۳ء۔ ۱۹۷۵ء) نے جون ۱۹۳۰ء میں کرایا تھا ۳ اور پھر بعد میں اُنھوں نے ایک مزید تعارف کے ساتھ اس قواعد کے فارسی متن کا اُردو ترجمہ بھی شائع کیا ۴ ۔
’’ تحفتہ الہند‘‘ سات ابواب ، مقدمہ اور خاتمہ پر مشتمل ہے جس میں علمِ عروض، علمِ قافیہ، علمِ بیان و بدیع، علمِ موسیقی، علمِ مباشرت، علمِ قیافہ پر مفصل معلومات درج کی گئی ہیں لیکن اس کے آخر میں دراصل اُردو -فارسی لغت بھی شامل ہے ، جو لغت نویسی کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی اوّلین لغت بھی ہے۔ حالانکہ اب تک یہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے کہ اُردو کی اوّلیں لغت عبدالواسع ہانسوی کی ’’غرائب اللغات‘‘ ہے جو اورنگ زیب ہی کے زمانے میں لکھی گئی اور اس کے کچھ سال بعد ۱۱۶۵ھ یا ۱۷۴۸ء میں سراج الدین علی خان آرزو(۱۶۸۸ء۔ ۱۷۶۵ء) نے ’’نوادرالالفاظ‘‘ لکھی اور اوّل الذکر سے استفادہ بھی کیااور اس میں شامل الفاظ اپنی لغت میں شامل کیے ۵ ۔ اس کے قریبی عرصہ میں کئی اور لغاتِ اُردو و فارسی بھی مرتب ہوئیں لیکن وہ تاحال شائع نہ ہو سکیں ۶ اور اس وقت ہمارا مو۳ضوع بھی نہیں۔ ’’ تحفتہ الہند‘‘اگرچہ ۱۶۷۶ء سے قبل کی تصنیف ہے لیکن مصنف نے اپنے ایک مربیّ اور اورنگ زیب عالم گیر (۱۶۵۸ء تا ۱۷۰۷ء) کے فرزند اعظم شاہ ( متوفی ۱۷۰۷ء) کی خوشنودی یا ایماء پر ، جو برج بھاشا کا سرپرست بتایا جاتا ہے ، شہزادہ جہاندار شاہ (متوفی ۱۷۱۲ء) کی تعلیم و تربیت کی خاطر، اس میں اضافہ کر کے ایک مختصر اُردو -فارسی (برج بھاشا -فارسی)لغت اور قواعد اس میں شامل کی تھی۔ اُس نے یہ اضافہ ۱۷۱۱ء میں کیا تھا ۷ ۔مصنف نے اس کتاب کی تالیف میں بڑی محنت اور جانفشانی کا ثبوت دیا ہے۔ اس نے اس میں شامل مطالب کی توضیح و تشریح اور معلومات کے جمع کرنے میں بڑی کدو کاوش اور جستجو سے کام لیا ہے اور کہیں کہیں مثالیں بھی درج کی ہیں پھراس نے جو لغت ترتیب دی ہے اس میں یہ اہتمام کیا ہے کہ اُردو لفظ کے مقابل جہاں فارسی معنی تحریر کیے ہیں، وہیں اس نے اس لفظ کو دیونا گری رسم الخط میں بھی لکھ دیا ہے۔ اس طرح وہ پہلا شخص ہے جس نے، چاہے ایک ترغیب وتحریک ہی کے تحت سہی، ایک شعور اور ارادے کے تحت اور ایک مقصد کو سامنے رکھ کر ضمنی طور پر اُردو کی یہ اوّلیں لغت مرتب کی ہے۔
اگرچہ ’’ تحفتہ الہند‘‘ کے اجزاء یا ابواب شائع ہوتے رہے ہیں لیکن اس کا مکمل متن اب تک شائع نہیں ہوا ۔البتہ اِس میں شامل لغت تا حال مرتب و شائع نہیں ہوئی۔ یہاں ذیل میں اِس کے ابتدائی چند صفحات کا عکس بطور نمونہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس تصنیف کے متعدد قلمی نسخے ہندوستان اور یورپ کے کئی کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔ یہاں جو عکس پیش کیے گئے ہیں وہ کتب خانہ انڈیا آفس کے نسخے سے ماخوذ ہیں، جس کی تمام دیگر نسخوں کے مقابلے میں یہ اہمیت ہے کہ یہ معروف و ممتاز مستشرق سرولیم جونز ( ۱۷۴۶ء تا ۱۷۹۴ء Sir William Jones)کے استفادے اور ملکیت میں رہا۔ ان صفحات پر انگریزی زبان میں جو یادداشتیں نظر آ رہی ہیں یہ سب جونز کے قلم سے ہیں اور نہایت قیمتی ہیں۔
حواشی:
۱ لچھمی نرائن شفیق نے فارسی شعراء کے اپنے تذکرے’’گلِ رعنا‘‘، مخزونہ برٹش میوزیم، لندن (Or. 2044) میں اس کا تذکرہ کیا ہے اور اس کا نام مرزا خان بن فخر الدین محمد تحریر کیا ہے۔ بحوالہ چارلس ریو (Charles Rieu) ، Catalogue of Persian Manuscripts in the British Museum.جلد سوم، برٹش میوزیم، لندن ۱۹۶۵ء ، ص ۱۰۷۹، الف؛ ریو کے مطابق اس تذکرے کے اسی ذخیرے میں شامل ایک اور نسخے (Or. 2014)میں اس کا نام محمد مرزا خان لکھا ہے۔ ایضاً۔ لیکن ہَرمن ایتھے (Hermann Ethe)، Catalogue of Persian Manuscripts in the India Office Library، لندن، انڈیا آفس لائبریری اینڈ ریکارڈ ، ۱۹۸۰ء ، ص۱۱۹، کے مطابق مصنف کا نام میرزا محمدبن فخرالدین محمد ہے ۔ چارلس ریو اور ایتھے کی فہارسِ مخطوطات میں ’’تحفتہ الہند‘‘ کے ذیل میں اس کے دیگر نسخوں کی نشاندہی بھی موجود ہے۔ اس کی تائید نجمہ پروین احمد کی کتاب Indian Music، نئی دہلی، منوہر، ۱۹۸۴ء، ص:۲۴میں بھی ملتی ہے کہ مصنفہ نے ’’تحفتہ الہند‘‘ کے کئی نسخوں میں مصنف کا نام ’ میرزا جان‘لکھا دیکھا۔
۲ اس تصنیف کے متعدد قلمی نسخے ہندوستان اور یورپ کے کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔ تفصیلات کے لیے: ڈی۔ این۔ مارشل (D.N. Marshall) Mughals in India, a Bibliographical Survey: Manuscripts.جلد اوّل، ایشیا پبلشنگ کمپنی، بمبئی، ۱۹۶۷ء، ص ص ۶۹۲-۲۹۵؛ مارشل کی اس تصنیف کا ترجمہ، مع اضافہ جات: ’’مغولاں در ہند: بررسی کتابشاختی دستنویس ہا‘‘، ترجمہ حسین برز گر کشتلی، مرکز پژ و ہش کتابخانہ، تہران، ۱۳۸۹ھ، ص ۶۲۲؛ ’’تحفتہ الہند‘‘ کے باب اوّل کو مع انگریزی ترجمہ و حواشی شانتی نکیتن، کلکتہ کے پروفیسر ایم۔ ضیا الدین نے مرتب کر کے شائع کیا تھا: (1676)A Grammar of the Braj Bhakha by Mirza Khanمطبوعہ، کلکتہ: وشوابھارتی بک شاپ، ۱۹۳۵ء۔
۳ ’’برج بھاشا کی پہلی گرامر‘‘،مشمولہ : ’’ادب ‘‘، لکھنؤ، جون ۱۹۳۰ء؛ یہی مقالہ بعد میں ’’نقوش‘‘، لاہور، جولائی ۱۹۵۵ء، ص ص ۲۰۷-۲۱۹، میں شائع کیا تھا جو دوبارہ اسی مجلے میں اپریل ۱۹۶۰ء، ص ص۱۹۹۔ ۲۱۳میں بھی نقل ہوا۔ پھر اُنھوں نے اس قواعد کے فارسی متن کا اُردو ترجمہ ایک معلوماتی مقدمے کے ساتھ کتابی صورت میں، بعنوان ’’قواعد کلیۂ بھاکا‘‘ ، کتاب نگر، لکھنؤ سے ۱۹۶۸ء میں شائع کیا۔ اس میں شامل عرضِ ناشر کے مطابق رضوی صاحب نے اس موضوع پر اپنا اوّلین مقالہ انگریزی زبان میں بھی تحریر کیا جسے انھوں نے سنسکرت کے ممتاز عالم اور الٰہ آباد یونی ورسٹی کے وائس چانسلر و پروفیسر گنگا ناتھ جھاکے اعزاز میں شائع ہونے والے ارمغان: Jha Commemoration Volumeکے لیے لکھا جو ۲۴ ، نومبر ۱۹۳۳ء کو پیش کیا گیا اور یہ پونا اورئینٹل بک ایجنسی سے ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا۔ اظہر مسعود رضوی،عرضِ ناشر، ایضاً، ص ۳
۴ ایضاً، ص ص ۱۱-۳۹۔
۵ سید عبداللہ، ’’نوادر الالفاظ مع غرائب اللغات‘‘، مرتبہ: انجمن ترقی اُردو، کراچی، ۱۹۵۱ء، ص ص ۳-۴۔
۶ ایضاً، ص ص ۱۶-۱۷؛مگر اسی زمانے میں لکھی ہوئی ایک لغت ’’کمالِ عترت‘‘ مصنفہ میر محمد ی عترت اکبر آبادی نے لکھی تھی جسے ڈاکٹر عارف نوشاہی نے اپنے فاضلانہ مقدمے کے ساتھ مرتب و شائع کیا ، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۹۹ء۔
۷ ’’تحفتہ الہند‘‘ ، مرتبہ : نورالحسن انصاری، بنیاد فرہنگِ ایران، دہلی، ۱۹۷۵ء، جلد اوّل، ص ۲۶؛ ’’تحفتہ الہند‘‘ کا بقیہ متن بہ اہتمام ڈاکٹر نور الحسن انصاری، ۱۹۸۳ء میں بخشِ فارسی، دانشگاہِ دہلی کے ’’مجلہ تحقیقاتِ فارسی‘‘ کے شمارۂ مخصوص میں شائع ہوا۔ ’’تحفتہ الہند‘‘ پر سرولیم جونز (Sir William Jones) نے ’’ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ‘‘ کے تحت اپنے جاری کیے ہوئے تحقیقی مجلے Asiatic Researches، ۱۷۸۵ء، شمارہ ۳، ص ۶۶، پر اس کے حصۂ موسیقی کا تعارف On the Musical Modes of Hindusتحریرکیا تھا،بحوالہ چارلس ریو، تصنیفِ مذکور، جلد اوّل، لندن، ۱۹۶۵ء، ص ۶۲، الف؛ یہ مقالہ بعد میں Indian Music and its Instruments، مرتبہ: ولیم ریوز، مطبوعہ، روز نتھال، لندن، ۱۹۲۸ء میں شائع ہوا۔ بحوالہ: رشید ملک، تصنیفِ مذکور،ص۲۰۔ اس تصنیف کے ایک مخطوطے مخزونہ’انڈیا آفس لائبریری‘ پر سر ولیم جونز نے انگریزی میں جا بجا تشریحات اور معانی تحریر کیے ہیں۔ ڈینیسن روس(Denison Ross) اور ای۔ جی۔ براؤن (E.G. Brown) ،Catalogue of Two Collections of Persian and Arabic Manuscripts in the India Office Library، مطبوعہ: ایر ااینڈ سپوٹس ووڈ، لندن، ۱۹۰۲ء، ص ۵۹۔
Friday 10 March 2017
اردوئے معلّیٰ(حصہ دوّم۔ب ) ۔۔ مرزا اسداللہ خان غالب
خلاق زمین و زمان
اردوئے معلّیٰ
یعنی
کارنامہ فصاحت و سرمایہ بلاغت، رقعات اردو
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان بہادر نظام جنگ المتخلص بہ غالب
جو بلحاظ زبان دانی تعلیم اطفال کے لئے ایک دستور العمل ہے
جمع و ترتیب: سید اویس قرنی
ماخذ:نسخہ جو سید عبد السلام کے اہتمام سے مطبع فاروقی واقع دہلی میں طبع ہوا ۱۳۲۶ ھ ۱۹۰۸ء
بنام نواب انوار الدولہ سعد الدین خاں صاحب شفق
ہر گز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت ست برجریدہ عالم دوامِ ما
خداوند نعمت آج دو شنبہ ۶ رمضان کی اور ۱۵ فروری کی ہے۔ اس وقت کہ بارہ پر تین بجے ہیں۔ عطوفت نامہ پہنچا۔ ادھر پڑھا۔ ادھر جواب لکھا۔ ڈاک کا وقت نہ رہا۔ خط کو معنون کر رکھتا ہوں۔ کل شنبہ ۱۶ فروری کو ڈاک میں بھجوا دوں گا۔ حال گزشتہ مجھ پر بہت سخت گزرا۔ ۱۲، ۱۳ مہینے صاحبِ فراش رہا اٹھنا دشوار تھا۔ چلنا پھرنا کیسا۔ نہ تپ نہ کھانسی نہ اسہال نہ فالج نہ لقوہ ان سب سے بدتر ایک صورت پر کدورت یعنی احتراق کا مرض مختصر یہ کہ سر سے پاؤں تک بارہ پھوڑے۔ ہر پھوڑہ پر ایک زخم۔ ایک غار ہر روز بے مبالغہ بارہ تیرہ پھائے اور پاؤ بھر مرہم درکار نو دس مہینے بے خور و خواب رہا ہوں اور شب و روز بے تاب۔ راتیں یوں گزری ہیں کہ اگر کبھی آنکھ لگ گئی دو گھڑی غافل رہا ہوں گا کہ ایک آدھ پھوڑے میں ٹیس اٹھی۔ جاگ اٹھا، تڑپا کیا پھر سو گیا پھر ہوشیار ہو گیا۔ سال بھر میں سے تین حصے دن یوں گزرے۔ پھر تخفیف ہونے لگی۔ دو تین مہینے میں لوٹ پوٹ کر اچھا ہو گیا۔ نئے سر سے روح قالب میں آئی اجل نے میری سخت جانی کی قسم کھائی اب اگرچہ تندرست ہوں لیکن ناتوان و سست ہوں حواس کھو بیٹھا۔ حافظہ کو رو بیٹھا۔ اگر اٹھتا ہوں تو اتنی دیر میں اٹھتا ہوں کہ جتنی دیر میں ایک قد آدم دیوار اٹھے۔ آپ کی پرسش کے کیوں نہ قربان جاؤں کہ جب تک میرا مرنا نہ سنا میری خبر نہ لی۔ میری مرگ کے مخبر کی تقریر اور مثلہ میری یہ تحریر آدھی سچ اور آدھی جھوٹ در صورت مرگ نیم مردہ اور در حالتِ حیات نیم زندہ ہوں ؎
در کشاکش ِ ضعفم نگسلد رُوان از تن
اینکہ من نمے میرم ہم زناتو انیہا ست
اگر ان سطور کی نقل میرے مخدوم مولوی غلام غوث خان صاحب بہادر میر منشی لفٹنٹ گورنری غرب و شمال کے پاس بھیج دیجیئے گا تو ان کو خوش اور مجھ کو ممنون کیجیئے گا۔
ایضاً
پیر و مرشد حضور کا توقیع ِ خاص اور آپ کا نوازش نامہ۔ یہ دونوں حرز بازو ایک دن اور ایک وقت پہنچے۔ توقیع کا جواب دو چار دن میں لکھوں گا۔ ناسازی مزاج مبارک موجب تشویش و ملال ہوئی۔ اگرچہ حضرت کی تحریر سے معلوم ہوا کہ مرض باقی نہیں مگر ضعف باقی ہے۔ لیکن تسکین خاطر منحصر اس میں ہے کہ آپ بعد اس تحریر کے ملاحظہ فرمانے کے اپنے مزاج کا حال پھر لکھیں (۔۔۔۔ ) کی ہنڈوی پہنچی۔ اس کا بھی حال سابق ہی کی ہنڈوی کا سا ہے۔ یعنی ساہوکار کہتا ہے کہ ابھی ہم کو کالپی کے ساہوکار کی اجازت نہیں آئی جو ہم روپیہ دیں۔ اگر سرکار کے کار پرداز وہاں کے ساہو کار سے کہہ کر اجازت لکھوا بھیجیں تو مناسب ہے۔ صہبائی کے تذکرے کی ایک جلد میرے ملک میں سے میرے پاس تھی۔ وہ میں اپنی طرف سے بسبیل ارمغاں آپ کو بھیجتا ہوں۔ نذر قبول ہو۔ اب میں حضرت سے باتیں کر چکا۔ خط کو سر نامہ کر کے کہار کو دیتا ہوں کہ ڈاک میں دے آوے۔ بارہ بجے پر دو بجے کتاب کا پارسل بطریق بیرنگ روانہ کروں گا۔ پیشگاہ وزارت میں میری بندگی پہنچے۔ عرضداشت بعد اس کے پہنچے گی۔ جناب میر صاحب قبلہ امجد علی صاحب کو سلام دینا اور جناب منشی نادر حسین صاحب کو سلام۔
ایضاً
پیر و مرشد اگر میں نے امید گاہ بکافِ عربی از راہِ شکوہ لکھا تو کیا گناہ کیا نہ خط کا جواب نہ قصیدہ کی رسید ؎
دریں خستگی پوزش از من مجوئے
بود بندہ خستہ گستاخ گوئے
اور یہ جو آپ فرماتے ہیں کہ ان مواقع کے سبب سے میں قصیدہ کی تحسین نہیں لکھ سکا۔ بندہ بے ادب نہیں تحسین طلب نہیں۔ ایسے مجمع میں محشور ہوں کہ سوائے احترام الدولہ کے کوئی سخندان نہیں۔ میں جو اپنا کلام آپ کے پاس بھیجتا ہوں گویا اپنے اوپر احسان کرتا ہوں ؎ وائے بر جانِ سخن گر بہ سخندان نہ رسد۔ افسو س کہ میرا حال اور یہ لیل و نہار آپ کی نظر میں نہیں ورنہ آپ جانیں کہ اس بجھے ہوئے دل اور اس ٹوٹے ہوئے دل اور اس مرے ہوئے دل پر کیا کر رہا ہوں۔ نواب صاحب اب نہ دل میں وہ طاقت نہ قلم میں وہ زور سخن گستری کا ایک ملکہ باقی ہے بے تامل اور بے فکر جو خیال میں آ جائے وہ لکھ لوں ورنہ فکر کی صعوبت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بقول مرزا عبدالقادر بیدل؎
جہد ہا درخورِ توانائی است
ضعف یکسر فراغ مے خواہد
مہر کا حال معلوم ہوا پہلے آپ لکھ بھیجئے کہ کیا کھودا جائے گا۔ مہدی حسن خاں ، مہدی حسین خاں بہادر لکھ رہا ہوں۔ صرف یا د پر لکھ رہا ہوں ورنہ خط لڑکوں نے کھو دیا یاد پڑتا ہے کہ نگینہ یہاں سے بھیجنے کو آپ نے لکھا ہے سو اب میں مکرر خواہاں ہوں کہ یہ معلوم ہو جائے کہ نگینہ بھیجئے گا۔ یہاں خریدا جائے گا اور نقش و نگین کیا ہو گا تاکہ شمار حروف کا مجھ کو معلوم رہے اب جب آپ دیکھیں گے تب میں اس کا جواب لکھوں گا۔ حافظ صاحب کا پہنچنا تقریباً معلوم ہوا یعنی ان کی طرف سے آپ نے مجھ کو سلام لکھا ہے سو میں بھی ان کی خدمت میں بندگی اور جناب نادر حسین خاں صاحب کی جناب میں سلام عرض کرتا ہوں۔ زیادہ حد ادب۔
ایضاً
قبلہ حاجات قصیدہ دوبارہ پہنچا۔ چونکہ پیشانی پر دستخط کی جگہ نہ تھی ناچار اس کو ایک اور دو ورقہ پر لکھوایا اور حضور میں گزرانا اور تمنائے دیرینہ حاصل کی یعنی دستخط خاص مشتمل اظہار خوشنودی طبع اقدس ہو گئے۔ احترام الدولہ بہادر میرے ہم زباں اور آپ کے ثنا خواں رہے گویا اس امر خاص میں وہ شریک غالب ہیں۔ ہم بطریق کسرہ اضافی وہم بطریق کسرہ توصیفی پروردگار ان بزرگوار کو سلامت رکھے۔ قدر دان کمال بلکہ حق تو یوں ہے کہ خیر محض ہے غیاث اللغات کتاب نام مؤقر و معزز جیسے الفربہ خواہ مخواہ مردِ آدمی آپ جانتے ہیں کہ یہ کون ہے ایک معلم فرومایہ رامپور کا رہنے والا۔ فارسی سے ناآشنائے محض اور صرف نحو میں ناتمام انشاء خلیفہ مشبات مادھو رام کا پڑھانے والا چنانچہ دیباچہ میں اپنا ماخذ بھی اس نے خلیفہ شاہ محمد مادھو رام نیمت و قتیل کے کلام کو لکھا ہے۔ یہ لوگ راہِ سخن کے غول میں آدمی کے گمراہ کرنے والے۔ فارسی کو کیا جانیں۔ ہاں طبع موزوں رکھتے تھے شعر کہتے تھے ؎
راہ شتاب و پے جادہ شناساں بردار
اے کہ در راہ سخن چوں تو ہزار آمد و رفت
میرا دل جانتا ہے کہ آپ کے دیکھنے کا میں کس قدر آرزو مند ہوں۔ میرا یک بھائی ماموں کا بیٹا وہ نواب ذوالفقار بہادر کی حقیقی خالہ کا بیٹا ہوتا تھا اور مسند نشین حال کا چچا تھا۔ اور وہ میرا ہمشیر بھی تھا یعنی میں نے اپنی ممانی اور اس نے اپنی پھوپھی کا دودھ پیا تھا وہ باعث ہوا تھا۔ میرے باندا بوندیل کھنڈ آنے کا۔ میں نے سب سامان سفر کر لیا۔ ڈاک میں روپیہ ڈاک کا دے دیا۔ قصد یہ تھا کہ فتح پور تک ڈاک میں جاؤں گا۔ وہاں سے نواب علی بہادر کے ہاں کی سواری میں باندے جا کر ہفتہ بھر کالپی ہوتا ہوا آپ کے قدم دیکھتا ہوا بسبیل ڈاک دلّی چلا آؤں گا۔ ناگاہ حضور والا بیمار ہو گئے۔ اور مرض نے طول کھینچا وہ ارادہ قوت سے فعل میں نہ آیا اور پھر مرزا اور نگ خاں میرا بھائی مر گیا ؎ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ واللہ وہ سفر اگرچہ بھائی کی استدعا سے تھا مگر میں نتیجہ اس شکل کا آپ کے دیدار کو سمجھا ہوا تھا۔ ہر زہ سرائی کا جرم معاف کیجیئے گا میرا جی آپ کے ساتھ باتیں کرنے کو چاہا۔ اس واسطے جو دل میں تھا وہ اس عبارت سے زبان پر لایا۔
ایضاً
پیر و مرشد۔ کورنش۔ مزاج اقدس۔ الحمد للہ تو اچھا ہے۔ حضرت دعا کرتا ہوں۔ پرسوں آپ کا خط مع سارٹیفکٹ (سرٹیفکٹ)کے پہنچا۔ آپ کو مبدا فیاض سے اشرف الوکلا ء کا خطاب ملا۔ محتانہ، محتانہ ایک لطیفہ نشاط انگیز سنیئے۔ ڈاک کا ہرکارہ جو بلّی ماروں کے خطوط پہنچاتا ہے ان دنوں میں ایک بنیا پڑھا لکھا حرف شناس کوئی فلاں ناتھ ڈھمک داس ہے۔ میں بالا خانہ پر رہتا ہوں حویلی میں آ کر اس نے داروغہ کو خط دے کر مجھ سے کہا کہ ڈاک کا ہرکارہ بندگی عرض کرتا ہے اور کہتا ہے مبارک ہو آپ کو جیسا کہ دلّی کے بادشاہ نے نوابی کا خطاب دیا تھا اب کالپی سے خطاب کپتانی کا ملا۔ حیران کہ یہ کیا کہتا ہے۔ سر نامہ کو غور سے دیکھا۔ کہیں قبل از اسم مخدوم نیاز کیشاں لکھا تھا۔ اس قرّم ساق نے اور الفاظ سے قطع نظر کر کے کیشاں کو کپتان پڑھا۔ بھائی ضیاء الدین خاں صاحب شملہ گئے ہوئے ہیں۔ شاید ماہِ حال یعنی جولائی۔ یا اول ماہِ آیندہ یعنی اگست میں یہاں آ جائیں۔ آپ کو نوید تخفیف تصدیع دیتا ہوں۔ آپ نواب صاحب سے کتاب کیوں مانگیں اور زحمت کیوں اٹھائیں۔ جس قدر کہ علم ان کو اس خاندان محدث نشان کے حال پر حاصل ہو گیا ہے کافی ہے۔ مولانا قلق کے نام کی عرضی اس کو پہنچا دیجیئے گا اور جناب نادر حسین خان صاحب کو میرا سلام فرما دیجیئے گا۔
ایضاً
پیر و مرشد۔ شب رفتہ کو مینہ خوب برسا۔ ہوا میں فرط برودت سے گزند پیدا ہو گیا۔ اب صبح کا وقت ہے ہوا ٹھنڈی بے گزند چل رہی ہے۔ ابر تنک محیط ہے۔ آفتاب نکلا ہے پر نظر نہیں آتا ہے۔ میں عالم تصور میں آپ کو مسند عز و جاہ پر جانشین اور منشی نادر حسین خاں صاحب کو آپ کا جلیس مشاہدہ کر کے آپ کی جناب میں کورنش بجا لاتا ہوں اور منشی صاحب کو سلام کرتا ہوں۔ کافر نعمت ہو جاؤں اگر یہ مدارج بجا نہ لاؤں۔ حضرت نے اور منشی صاحب نے میری خاطر سے کیا زحمت اٹھائی ہے۔ بھائی صاحب بہت خوشنود ہوئے۔ منت پذیری میں میرے شریک غالب ہیں۔ فی الحال بتوسط میرے سلام نیاز عرض کرتے ہیں۔ اغلب ہے کہ نامہ جداگانہ بھی ارسال کریں۔ حضرت آپ غالب کی شرارتیں دیکھتے ہیں سب کچھ کہے جاتا ہے اور اس اصل کا کہ جس پر یہ مراتب متفرع ہوں ذکر نہیں کرتا۔ فقیر کو یہ طرز پسند نہ آئی۔ مطلب اصلی کو مقدر چھوڑ جانا کیا شیوہ ہے۔ یوں لکھتا تھا کہ آپ کا عنایت نامہ اور اس کے ساتھ نسب نامہ خاندان مجدد علا کا پارسل پہنچا میں ممنون ہوا۔ نواب ضیاء الدین خاں بہادر بہت ممنون و شاکر ہوئے۔ جناب عالی میں تو غالب ہرزہ سرا کا معتقد نہ رہا۔ آپ نے اس کو مصاحب بنا کر رکھا ہے اس سے اس کا دماغ چل رہا ہے۔ قبلہ و کعبہ جناب مولانا قلق میں حضرت شفق نے جو غالب کی شکایت کی تھی وہ مقبول نہ ہوئی۔ اب جناب ہاشمی کو اپنا ہم زبان اور مدد گار بنا کر پھر کہتے ہیں۔ آپ کی بات اس باب میں کبھی نہ مانوں گا جب تک سید صاحب کا خوشنودی نامہ نہ بھجوائیے گا۔ اس سارٹیفکٹ (سرٹیفکٹ)کے حصول میں رشوت دینے کو بھی موجود ہوں۔ والسلام۔
ایضاً
پیرو مرشد میں آپ کا بندہ فرمانبردار۔ اور آپ کا حکم بطیب خاطر بجا لانے والا ہوں مگر سمجھ تو لوں کہ کیا لکھوں۔ وہ مکتوب کہاں بھیجوں۔ آپ کے پاس بھیج دوں یا انہیں منشی صاحب کے پاس بھیج دوں اور وسیم الدین ظہیر الدین کو منشی، میر، شیخ، خواجہ، کیا کر کے لکھوں۔ دو حاکم کی رائے کے شمول کا قیدی اور اس زمانہ میں سینکڑوں جزیرہ نشین رہائی پا کر اپنے اپنے گھر آ گئے بایں ہمہ منشی کو کیا اختیار ہے کہ وہ چھوڑ دے۔ یہ آپ کی تحریر سے نہیں معلوم ہوتا کہ اب سعی منحصر اس میں ہے کہ قیدی دریائے شور کو نہ جاوے اور یہیں محبوس رہے یا یہ منظور ہے کہ جزیرہ کو بھی نہ جاوے اور یہاں کی قید سے بھی رہائی پاوے۔ خواہش کیا ہے اور کار پرداز سے کس طرح کی اعانت چاہوں۔ پہلے تو یہ سوچتا ہوں کہ کیا لکھوں۔ پھر جو کچھ لکھوں اس کو کہاں بھیجوں۔ طریق یہ ہے کہ میاں امیر الدین وہ نگارش لے کر منشی صاحب کے پاس جائیں اور بذریعہ اس خط کے روشناس ہوں۔ میں کیا جانوں کہ امیر الدین کا مسکن کہاں ہے۔ منشی صاحب کو خط بھیج دوں ان کے نزدیک احمق بنوں کہ کس امر موہوم مجہول میں مجھ کو لکھا ہے۔ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ اس خط کو پڑھ کر تفحص کریں کہ امیر الدین کون ہے۔ اس میں صرف ایک خط موسومہ منشی صاحب ہے۔ کھُلا ہوا اس کو پڑھ کر میاں امیر الدین کے پاس بھیج دیجیئے گا۔ مگر گوند لگا کر۔ اور اگر یہ منظور نہ ہو تو میری طرف سے منشی صاحب کے نام کا خط کا مسودہ لکھ کر میرے پاس بھیجئے کہ اس مسودہ کو صاف کر کے کہاں بھیجوں۔
ایضاً
خداوند نعمت۔ شرف افزا نامہ پہنچا۔ شاہ اسرار الحق کے نام کا مکتوب ان کی خدمت میں بھیج دیا گیا۔ جناب شاہ صاحب سالک مجذوب یا مجذوبِ سالک ہیں۔ اگر جواب بھجوا دیں گے تو جناب میں ارسال کیا جائے گا۔ قصیدہ کو بارہا دیکھا اور غور کی جس طور پر ہے اس میں گنجایش اصلاح کی نہ پائی۔ یعنی لفظ کی جگہ لفظ مرادف بالمعنی لانا صرف اپنی دستگاہ کا اظہار ہے اور نہ کوئی لفظ بے محل اور بے موقع نہیں ٭( یہ جملہ یقیناً کاتب کی کارستانی ہے ورنہ غالب کے قلم سے ایسا بے جوڑ جملہ سمجھ سے باہر ہے۔ غالب نے شاید اس طرح لکھا ہو گا :۔ ۱٭اور نہ کوئی لفظ بے محل اور بے موقع ہے۔۔ ۲٭اور کوئی لفظ بے محل اور بے موقع نہیں۔۔ اس سے پہلے بھی کچھ خطوں میں غالب نے کاتبوں کے زبردستی اصلاح دینے کا رونا رویا ہے۔ چھوٹا غالب)کوئی ترکیب فارسی ٹکسال سے باہر نہیں مگر ہاں طرز گفتار کا بدلنا اس کے واسطے چاہیے۔ دوسرا قصیدہ اس زمین میں ایک اور لکھنا اور وہ تکلف بارد ہے۔ بلکہ شاید حضرت کو یہ منظور بھی نہ ہو۔ پس شرم کم ہمتی سے دل ریش اور فرط خجلت سے سردرپیش ہو کر قصیدہ کو اس لفافہ میں بھیجتا ہوں۔ خدا کرے موردِ عتاب نہ ہوں۔ غلہ کی گرانی آفت آسمانی امراض دموی بلائے جانی انواع اقسام کے ادرام و بثور شائع۔ چارہ ناسود مند و سعی ضائع۔ میں نہیں جانتا کہ ۱۱ مئی ۱۸۵۷ ء کو پہر دن چڑھے وہ فوج باغی میرٹھ سے دلّی آئی تھی۔ یا خود قہرِ الہی کا پے بہ پے نزول ہوا تھا۔ بقدر خصوصیت سابق دلّی ممتاز ہے ورنہ سر تا سر قلمرو ہند میں فتنہ و بلا کا دروازہ باز ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ جناب میر امجد علی صاحب کو بندگی۔ جناب منشی نادر حسین خان صاحب کو سلام۔
ایضاً
پیر و مرشد ۱۲ بجے تھے میں ننگا اپنے پلنگ پر لیٹا ہوا حقہ پی رہا تھا کہ آدمی نے آ کر خط دیا۔ میں نے کھولا پڑھا۔ بھلے کو انگرکھا یا کُرتا گلے میں نہ تھا اگر ہوتا تو میں گریبان پھاڑ ڈالتا حضرت کا کیا جاتا میرا نقصان ہوتا۔ سرے سے سنیئے آپ کا قصیدہ بعد اصلاح پہنچا اس کی رسید آئی۔ کٹے کٹے ہوئے شعر الٹے آئے ان کی قباحت پوچھی گئی۔ قباحت بتائی گئی۔ الفاظ قبیح کی جگھ٭(جگہ)بے عیب الفاظ لکھ دئیے گئے۔ لو صاحب یہ اشعار بھی قصیدہ میں لکھ لو۔ اس نگارش کا جواب آج تک نہیں آیا۔ شاہ اسرارالحق کے نام کا کاغذ ان کو دیا جواب میں جو کچھ انہوں نے زبانی فرمایا۔ آپ کو لکھا گیا۔ حضرت کی طرف سے اس تحریر کا بھی جواب نہ ملا؎
پُر ہوں مَیں شکوہ سے یوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھیئے کیا ہوتا ہے
سونچتا (سوچتا )ہوں کہ دونوں خط بیرنگ کئے تھے۔ تلف ہونا کسی طرح متصور نہیں۔ خیر اب بہت دن کے بعد شکوہ کیا لکھا جائے۔ باسی کڑھی میں ابال کیوں آئے۔ بندگی بے چارگی۔ پانچ لشکر کا حملہ پے در پے اس شہر پر ہوا۔ پہلا باغیوں کا لشکر اس میں اہل شہر کا اعتبار لٹا۔ دوسرا لشکر خاکیوں کا اس میں جان و مال و ناموس و مکان و مکین و آسمان و زمین و آثار ہستی سراسر لٹ گئے۔ تیسرا لشکر کال کا اس میں ہزار ہا آدمی بھوکے مرے۔ چوتھا لشکر ہیضہ کا۔ اس میں بہت سے پیٹ بھرے مرے۔ پانچواں لشکر تپ کا اس میں تاب و طاقت نہ پائی اب تک اس لشکر نے شہر سے کوچ نہیں کیا۔ میرے گھر دو آدمی تپ میں مبتلا ہیں۔ ایک بڑا لڑکا۔ ایک داروغہ۔ خدا ان دونوں کو جلد صحت دے۔ برسات یہاں بھی اچھی ہوئی ہے لیکن نہ ایسی کہ جیسی کالپی اور بنارس میں۔ زمیندار خوش۔ کھیتیاں تیار ہیں۔ خریف کا بیڑا پار ہے۔ ربیع کے واسطے پوہ ماہ میں مینہ درکار ہے۔ کتاب کا پارسل پرسوں ارسال کیا جائے گا۔ آہا ہا ہا جناب حافظ محمد بخش صاحب میری بندگی۔ مغل علی خاں غدر سے کچھ دن پہلے مستسقی ہو کر مر گئے۔ ہے ہے کیونکر لکھوں حکیم رضی الدین خان کو قتل عام میں ایک خاکی نے گولی مار دی اور احمد حسین خاں ، ان کے چھوٹے بھائی اسی دن مارے گئے۔ طالع یار خاں کے دونوں بیٹے ٹونک سے رخصت لے کر آئے تھے غدر کے سبب نہ جا سکے یہیں رہے۔ بعد فتح دہلی دونوں بے گناہوں کو پھانسی ملی۔ طالع یار خاں ٹونک میں زندہ ہیں پر یقین ہے کہ مردہ سے بدتر ہوں گے۔ میر چھوٹم نے بھی پھانسی پائی۔ حال صاحبزادہ میاں نظام الدین کا یہ ہے کہ جہاں سب اکابر شہر کے بھاگے تھے وہاں وہ بھی بھاگ گئے۔ بڑودہ میں رہے۔ اور نگ آباد میں رہے حیدرآباد میں رہے۔ سال گزشتہ یعنی جاڑوں میں یہاں آئے۔ سرکار سے ان کی صفائی ہو گئی لیکن صرف جان بخشی۔ روشن الدولہ کا مدرسہ جو عقب کوتوالی چبوترہ ہے وہ اور خواجہ قاسم کی حویلی جس میں مغل علی خاں مرحوم رہتے تھے اور اور خواجہ صاحب کی حویلی یہ ا ملاک خاص حضرت کالے صاحب کی اور کالے صاحب کے بعد میاں نظام الدین کی قرار پا کر ضبط ہوئی اور نیلام ہو کر روپیہ سرکار میں داخل ہو گیا۔ ہاں قاسم جان کی حویلی جس کے کاغذ میاں نظام کی والدہ کے نام ہیں وہ ان کو یعنی میاں نظام الدین کی والدہ کو مل گئی۔ فی الحال میاں نظام الدین پاک پٹن گئے ہیں۔ شاید بہاولپور بھی جائیں گے۔
ایضاً
پیرو مرشد آداب۔ غلط نامہ قاطع برہان کو بھیجے ہوئے تین دن۔ اور آپ کی خیر و عافیت مولوی حافظ عزیز الدین کی زبانی سنے ہوئے دو دن ہوئے تھے کہ کل آپ کا نوازش نامہ پہنچا۔ قاطع برہان کے پہنچنے سے اطلاع پائی معتقدان ِ برہان قاطع برچھیاں اور تلواریں پکڑ پکڑ کے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہنوز دو اعتراض مجھ تک پہنچے ہیں۔ ایک تو یہ کہ قاطع برہان غلط ہے یعنی ترکیب خلاف قاعدہ ہے۔ کلام قطع کیا جاتا ہے برہان قاطع نہیں ہو سکتی۔ لو صاحب ! برہان قاطع صحیح اور قاطع برہان غلط۔ مگر برہان قطع کی فاعل ہو سکتی ہے اور قطع کا فعل آپ نہیں قبول کرتے قاطع برہان میں جو برہان کا لفظ ہے یہ مخفف برہان قاطع ہے۔ برہان قاطع کے رد کو قطع سمجھ کر قاطع برہان نام رکھا تو گناہ ہوا۔ دوسرا ایراد یہ ہے کہ ؎ با انگلشیان ستیزہ بے جا۔ انگلش کا نون تلفظ میں نہیں آتا۔ میں پوچھتا ہوں خدا کے واسطے انگلش اور انگریز کا نون باعلان کہاں ہے ؟ اور اگر ہے بھی تو ضرورت شعر کے واسطے لغاتِ عربی میں سکون و حرکت کو بدل ڈالتے ہیں۔ اگر انگلش کے نون کو غنہ دیا تو گناہ ہوا۔ وہ ورق جو چھاپے کا آپ کے پاس بھیجا ہے اس کو غلط نامہ شاملہ کے بعد لگا کر جلد بڑھوا لیجیئے گا۔ حضرت کیوں آپ نے مراسلہ اور میرے مکتوب کا حال پوچھا؎ ایں ہم کہ جوابے سید جواب است۔ سمجھ لو اور چپ رہو۔ میں نے مانا جس کو تم نے لکھا ہے وہ لکھے گا کہ میں نے مختار سے پوچھا اس نے یوں کہا پھر میں نے یوں کہا۔ اب یہ بات قرار پائی ہے تو اس تقریر کو حضرت ہی باور کریں گے پھر کبھی نہ مانے گا۔ ایک حکایت سنو۔ امجد علی شاہ کی سلطنت کے آغاز میں۔ ایک صاحب میرے نیم آشنا تھے۔ خدا جانے کہاں کے رہنے والے کسی زمانہ میں وارد اکبر آباد ہوئے تھے۔ کبھی کہیں کے تحصیلدار بھی ہو گئے تھے۔ زبان آور اور چالاک اکبر آباد میں نوکری کی جستجو کی کہیں کچھ نہ ہوا۔ میرے ہاں دو ایک بار آئے تھے پھر وہ خدا جانے کہاں گئے مَیں دلی آ رہا۔ کم و بیش بیس برس ہوئے ہوں گے۔ واجد علی شاہ کے عہد میں ان کا خط ناگاہ مجھ کو بسبیل ڈاک آیا۔ چونکہ ان دنوں میں دماغ درست اور حافظہ برقرار تھا میں نے جانا کہ یہ وہی بزرگوار ہیں۔ خط میں مجھ کو پہلے یہ مصرعہ لکھا ؎ از بخت شکر دارم و روز گار ہم۔ آپ سے جدا ہو کر بیس برس آوارہ پھرا جے پور نوکر ہو گیا وہاں سے دو برس کے بعد کہا ں گیا اور کیا کیا۔ اب لکھنؤ میں آیا ہوں وزیر سے ملا ہوں۔ بہت عنایت کرتے ہیں۔ بادشاہ کی ملازمت انہیں کے ذریعہ سے حاصل ہوئی ہے۔ بادشاہ نے خان اور بہادر کا خطاب دیا ہے۔ مصاحبوں میں نام لکھا ہے۔ مشاہرہ ابھی قرار نہیں پایا۔ وزیر کو میں نے آپ کا بہت مشتاق کیا ہے۔ اگر آپ کوئی قصیدہ حضور کی مدح میں اور عرضی یا خط جو مناسب جانیں وزیر کے نام لکھ کر میرے پاس بھیج دیجیئے تو بے شک بادشاہ آپ کو بلائیں گے اور وزیر کا خط فرمان طلب آپ کو پہنچے گا۔ میں نے اسی عرصہ میں ایک قصیدہ لکھا تھا جس کی بیت اسم یہ ہے ؎
امجد علی شاہ آنکہ بہ ذوق دعائے او
صدرہ نمازِ صبح قضا کرد روزگار۔۔ الخ
متردد تھا کہ کس کی معرفت بھیجوں۔ توکلت علی اللہ بھیج دیا۔ رسید آ گئی صرف پھر دو ہفتہ کے بعد ایک خط آیا کہ قصیدہ وزیر تک پہنچا۔ وزیر پڑھ کر بہت خوش ہوا۔ بآئین شائستہ پیش کرنے کا وعدہ کیا۔ میں متوقع ہوں کہ میاں بدر الدین مہر کن سے میری مہر خطابی کھدوا کر بھیج دیجیئے چاندی کا نگینہ مربع اور قلم جلی فقیر نے سر انجام کر کے بھیج دیا۔ رسید آئی۔ اور قصیدہ کی بادشاہ تک گزرنے کی نوید۔ پس پھر دو مہینے تک ادھر سے کوئی خط نہ آیا۔ میں نے جو خط بھیجا الٹا پھر آیا۔ ڈاک کا یہ توقیع کہ مکتوب الیہ یہاں نہیں۔ ایک رات کے بعد حال معلوم ہوا کہ اس بزرگ کا وزیر تک پہنچنا اور حاضر رہنا سچ۔ بادشاہ کی ملازمت اور خطاب ملنا غلط۔ بہادری کی مہر تم سے بغیر حاصل کر کے مرشد آباد کو چلا گیا۔ چلتے وقت وزیر نے دو سو روپے دئیے تھے۔ ایک قاعدہ کلیہ دلّی کا سمجھ لو۔ خالق کی قدرت مقتضی اس کے ہے کہ جو اس شہر پناہ کے اندر پیدا ہوا۔ مرد یا عورت۔ خفقان، مراق اس کی خلقت و فطرت میں ہو۔ آٹھ دس برس کے بعد ساون کے آخر میں مینہ خوب برسا۔ لیکن نہ دریا جاری ہوئی نہ طوفان آیا۔ ہاں شہر کے باہر ایک دن بجلی گری۔ دو ایک آدمی کچھ جانور تلف ہوئے ، مکان گرے۔ دس بیس آدمی دب کر مرے۔ دو تین شخص کوٹھے پر سے گر کر مرے۔ مراقیوں نے غل مچانا شروع کیا۔ اپنے اپنے عزیزانبسفر رفتہ کو لکھا۔ جا بجا اخبار نویسوں نے ان سے سن کر درج اخبار کیا۔ لو اب دس بارہ دن سے مینہ کا نام نہیں۔ دھوپ آگ سے زیادہ تر تیز ہے۔ وہی دہقانی جو اب روتے پھرتے ہیں کہ کھیتیاں جلی جاتی ہیں اگر مینہ نہ برسا تو پھر کال پڑے گا۔ مکانات کے گرنے کا حال یہ ہے کہ چار پانچ برس ضبط رہے۔ یغمائی لوگ، کڑی، تختہ، کیواڑ، چوکھٹ، بعض مکانات کی چھت کا مصالح سب لے گئے۔ اب ان غربا کو وہ مکان ملے تو ان میں مرمت کا مقدور کہاں۔ فرمائیے مکانات کیوں نہ گریں۔
ایضاً
پیرو مرشد ایک نوازش نامہ آیا اور دستنبو کے پہنچنے کا مژدہ پایا۔ اس کا جواب یہی کہ کارپردازان ڈاک کا احسان مانا۔ اور اپنی محنت کو رائگاں نہ جانا۔ چند روز کے بعد ایک عنایت نامہ اور پہنچا۔ گویا ساغر التفات کا دوسرا دور پہنچا اب ضرور آ پڑا کہ کچھ حال اس ستارہ دم دار کا لکھوں۔ چنانچہ جس وقت وہ خط پڑھا ہے سوچ رہا ہوں کہ کیا لکھوں۔ چونکہ بسبب فقدان اسباب یعنی عدم رصد و کتاب کچھ نہیں کہا جاتا ہے۔ ناچار مرزا صاحب کا مصرع زبان پر آ جاتا ہے ؎ از یں ستارہ دنبالہ دار می ترسم۔ یہ مطلع ہے اور یہ پہلا مصرع ہے ؎ زخال ِ گوشہ ابروئے یار مے ترسم۔ کیا آپ مجھ کو بے ہنری اور ہیچ میرزی میں صاحب کمال نہیں جانتے۔ اور اس عبارت فارسی کو میرا مصداق حال نہیں مانتے۔ پیشِ ملّا طبیب و پیشِ طبیب ملّا پیش ہیچ ہر دو پیش ہر دو ہیچ۔ آرایش مضامین شعر کے واسطے کچھ تصوف کچھ نجوم لگا رکھا ہے ورنہ سوائے موزونی طبع کے یہاں اور کیا رکھا ہے۔ بہر حال علم نجوم کے قاعدہ کے موافق جب زمانہ کے مزاج میں فساد کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں تب فلک پر یہ شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ جس برج میں یہ نظر آئے اس کا درجہ دقیقہ دیکھتے ہیں۔ ہزار طرح کی چال ڈالتے ہیں تب ایک حکم نکالتے ہیں۔ شاہجہان آباد میں بعد غروب آفتاب افق غربہ شہر پر نظر آتا تھا اور ان دنوں میں آفتاب اول میزان میں تھا تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ صورت عقرب میں ہے درجہ دقیقہ کی حقیقت نامعلوم رہی۔ بہت دن شہر میں اس ستارہ کی دھوم رہی اب وہ دس بارہ دن سے نظر نہیں آتا۔ وہاں شاید اب نظر آتا ہے جو آپ نے اس کا حال پوچھا ہے۔ بس میں اتنا جانتا ہوں کہ یہ صورتیں قہر الہی کی ہیں۔ اور دلیلیں ملک کی تباہی کی۔ قران النحسین پھر کسوف، پھر خسوف، پھر یہ صورت پُر کدورت عیاذاً باللہ و پناہ بخدا۔ یہاں پہلی نومبر کو بدھ کے دن حسب الحکم حکام کوچہ و بازار میں روشنی ہوئی اور شب کو کمپنی کا ٹھیکہ ٹوٹ جانا اور قلمرو ہند کا بادشاہی عمل میں آناسنایا گیا۔ نواب گورنر جنرل لارڈ کینگ بہادر کو ملکہ معظمہ انگلستان نے فرزند ارجمند خطاب دیا اور اپنی طرف سے نائب اور ہندوستان کا حاکم کیا۔ میں قصیدہ پہلے ہی اس تہنیت میں لکھ چکا ہوں چنانچہ یہ شمول دستنبو نظر انور سے گزرا ہو گا
؎ تانہال دوستی کے بر دہد
حالیا رفتیم و تخمی کاشتیم۔
ایضاً
حضرت پیرو مرشد اگر آج میرے سب دوست و عزیز یہاں فراہم ہوتے اور ہم اور وہ باہم ہوتے تو میں کہتا کہ آؤ اور رسم تہنیت بجا لاؤ۔ خدا نے پھر وہ دن دکھایا کہ ڈاک کا ہرکارہ انوار الدولہ کا خط لایا ؎ ایں کہ مے بینم بہ بیدار یست یا رب یا بخواب۔ منہ پیٹتا ہوں اور سر پٹکتا ہوں کہ جو کچھ لکھا چاہتا ہوں نہیں لکھ سکتا ہوں۔ الہی حیات جاودانی نہیں مانگتا پہلے انوار الدولہ سے مل کر سر گزشت بیان کروں۔ پھر اس کے بعد مروں۔ روپیہ کا نقصان اگرچہ جانکاہ اور جان گزا ہے پر بموجب تلف المال خلف العمر عمر فزا ہے۔ جو روپیہ ہاتھ سے گیا ہے اس کو عمر کی قیمت جانیئے اور ثبات ذات و بقائے عرض و ناموس کو غنیمت جانیئے۔ اللہ تعالیٰ وزیر اعظم کو سلامت رکھے اور اس خاندان کے نام و نشان و عز و شان کو برقرار تا قیامت رکھے۔ میں نے گیارھویں مئی ۱۸۵۷ ء سے اکتیسویں جولائی ۱۸۵۸ ء تک روداد نثر میں بعبارت فارسی نا آمیختہ عربی لکھی ہے اور دہ پندرہ سطر کے مسطر سے چار جزو کی کتاب آگرہ کو مفید الخلائق میں چھپنے کو گئی ہے۔ دستنبو اس کا نام رکھا ہے۔ اور اس میں صرف اپنی سرگزشت اور اپنے مشاہدہ کے بیان سے کام رکھا ہے بعد چھپ جانے کے وہ نسخہ حضرت کی نظر سے گزرانوں گا اور اس کو ہم سخنی اور ہم زبانی جانوں گا۔ جناب میر امجد علی صاحب کا جو آپ کے خط میں ذکر نہیں آیا ہے تو اس خیرخواہ احباب کا دل گھبرایا ہے اب جو خط لکھیئے تو ان کی خیر و عافیت بہر نمط لکھیئے ، ان کو بندگی اور جناب منشی نادرحسین خان صاحب کو سلام پہنچے۔
ایضاً
پیرو مرشد معاف کیجئے گا۔ میں نے جمنا کا کچھ حال نہ لکھا۔ یہاں کبھی کسی نے اس دریا کی کوئی حکایت ایسی کی کہ جس سے استعباد اور استعجاب پایا جائے۔ پرسش کے بعد بھی کوئی بات نہیں سنی۔ سنیئے تو سہی موسم کیا ہے ، گرمی، جاڑا، برسات تین فصلیں اکٹھی ہو گئی ہیں۔ تگرک باری علاوہ ایک بحر روان کی حقیقت متغیر ہو جائے تو محل استعجاب کیوں ہو۔ اور یہ بات کہ دلی میں تغیر نہ ہو۔ اور یورپ٭(غالب نے شاید “پورب” لکھا تھا جو کاتب نے بزعمِ اصلاح “یورپ” میں تبدیل کر دیا۔۔ واللہ اعلم:۔ چھوٹا غالب) میں ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جمنا بانفراد بہہ رہی ہے اور وہاں کہیں کیں کہیں اور ندی کہیں گنگا باہم مل گئی ہیں۔ مجمع البحار ہے۔ حضرت نے خوب وکالت کی۔ مولانا قلق سے تقصیر میری معاف نہ کروائی۔ کہہ دو کہ گناہ معاف ہو گیا۔ میں بغیر سارٹیفکٹ(سرٹیفکٹ )کے کب مانوں گا یہ دن مجھ پر برے گزرتے ہیں۔ گرمی میں میرا حال بعینہٖ وہ ہوتا ہے۔ جیسا زبان سے پانی پینے والے جانوروں کا۔ خصوصاً اس تموز میں کہ غم وہم کا ہجوم ہے۔
آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوز غم ہائے نہانی اور ہے۔
ایضاً
قبلہ و کعبہ وہ عنایت نامہجس میں حضرت نے مزا ج کی شکایت لکھی تھی پڑھ کر بے چین ہو گیا ہوں اور عرض کر چکا ہوں کہ مزاج کا مفصل لکھیئے چونکہ آپ نے کچھ نہیں لکھا تو اور زیادہ مشوش ہوں۔ نسخہ رفع تشویش یعنی شفقت نامہ جلد بھیجئے۔ جناب منشی نادر حسین خان صاحب کا کچھ حال معلوم نہیں ، حضرت میر امجد علی صاحب کا کچھ حال معلوم نہیں۔ متوقع ہوں کہ ان دونوں صاحبوں کی خدمت میں میرا سلام پہنچے اور آپ ان کی خیر و عافیت لکھیں۔ کبوتروں کا نسخہ جیسا کہ میرے پاس آیا ہے بجنسہٖ ا رسال کرتا ہوں۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ میرن صاحب نے انتقال کیا۔ یہ چھوٹے بھائی تھے۔ مجتہد العصر لکھنؤ کے نام ان کا سید حسین اور خطاب سید العلما نقش نگین۔ میر حسین ابن علی میں نے ان کی رحلت کی ایک تاریخ پائی۔ اس میں پانچ بڑھتے ہیں یعنی ۱۲۷۸ ہوتے تھے۔ تخرجہ نئی روش کا میرے خیال میں آیا۔ میں تو جانتا ہوں اچھا ہے دیکھوں آپ پسند فرماتے ہیں یا نہیں۔
قطعہ
حسین ابن علی آبروئے علم و عمل
کہ سید العلما نقش خاتمش بودے
نماند و ماندے اگر بودے پنج سال دگر
غم حسین علی سال ماتمش بودے
زیادہ حد ادب فقط۔
ایضاً
پیرو مرشد یہ خط لکھنا نہیں ہے باتیں کرنی ہیں اور یہی سبب ہے کہ میں القاب و آداب نہیں لکھتا خلاصہ عرض کار یہ ہے کہ آج شہر میں بدر الدین علی خاں کا نظیر نہیں۔ بس مہر اور کون کھودسکے گا۔ ناچار میں نے آپ کا نوازش نامہ جو میرے نام تھا وہ ان کے پاس بھجوا دیا۔ انہوں نے رقعہ میرے نام آج بھیجا۔ سو وہ رقعہ حضرت کی خدمت میں بھیجتا ہوں آپ پڑھ لیں سمجھ لیں اور نگین باحتیاط ارسال فرما دیں۔ پھر اس کے بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں ہے جب میں عرض کروں گا تب بھیجئے گا۔ تعجب ہے کہ جناب میر امجد علی صاحب قلق کا اس خط میں سلام نہ تھا۔ متوقع ہوں کہ چھاپے کے قصیدے ان کو سنا دیے جاویں۔ اور میری بندگی کہی جاوے۔ جناب منشی نادر حسین صاحب کو میرا سلام ہزار اشتیاق پہنچے۔
ایضاً
للہ الشکر کہ پیر و مرشد کا مزاج اقدس بہ خیر و عافیت ہے۔ پہلے نوازش نامہ کا جواب با آنکہ وہ مشتمل ایک سوال پر تھا۔ ہنوز لکھنے نہیں پایا کہ کل ایک مکرمت نامہ آیا۔ بندہ عرض کر چکا ہے کہ مسہل میں ہوں چنانچہ کل میرا مسہل ہو گا۔ اس سبب سے اس توقیع کا پاسخ نگار نہ ہو سکا تھا اور لکھتا بھی تو یہی لکھتا جو آپ نے لکھا ہے۔ ارنی کی رے کی حرکت و سکون کے باب میں قول فیصل یہی ہے جو حضرت نے لکھا ہے۔ اگر تقطیع شعر مساعدت کر جائے اور ارنی بر وزن خمپے گنجایش پائے تو نعم الاتفاق ہے ورنہ قاعدہ تصرف مقتضی جواز ہے۔ مرزا عبدالقادر بیدل ؎
چو رسی بطور ہمت ارنی مگو و مگریز
کہ نیرزد ایں تمنا بجواب ِ لن ترانی
اسد اللہ بیگ غالب؎
رفت آنکہ با ازحسن مدارا طلب کنیم
سررشتہ درکف ارنی گوئے طور بود
زوائد سے فارغ ہو کر عرض کرتا ہوں کہ ہائے کیا غزل لکھی ہے۔ قبلہ آپ فارسی کیوں نہیں کہا کرتے کیا پاکیزہ زبان ہے اور کیا طرز بیان۔ کیا میں سخن ناشناس اور نا انصاف ہوں کہ ایسے کلام کے حک و اصلاح پر جرات کروں ؎ چہ حاجت ست بمشاطہ روئے زیبا را۔ ہاں ایک جگہ آپ تحریر میں سہو کر گئے ہیں۔ ؎ اے مطرب جادو فن بازم رہ ہوشم زن۔ دو میم آ پڑے ہیں۔ ایک میم بے کار ہے دیگر کی جگہ آپ بازم لکھ گئے ہیں ؎ اے مطرب جادو فن دیگر رہ ہوشم زن۔ اب دیکھیئے اور صاحبوں کی غزلیں کب آتی ہیں۔ اتنی عنایت فرمائیے گا کہ صاحب تخلص کے ساتھ ان کا اسم مبارک اور کچھ حال رقم کیجیئے گا۔ زیادہ حد ادب۔
ایضاً
کیونکر کہوں کہ میں دیوانہ نہیں ہوں۔ ہاں اتنے ہوش باقی ہیں کہ اپنے کو دیوانہ سمجھتا ہوں واہ کیا ہوشمندی ہے۔ کہ قبلہ ارباب ہوش کو خط لکھتا ہوں نہ القاب نہ آداب نہ بندگی نہ تسلیم۔ سن غالب ہم تجھ سے کہتے ہیں بہت مصاحب نہ بن۔ اے ایاز حد خود بشناس۔ مانا کہ تو نے کئی برس کے بعد نو بیت کی غزل لکھی ہے اور آپ اپنے کلام پر وجد کر رہا ہے مگر یہ تحریر کی کیا روش ہے۔ پہلے القاب لکھ پھر بندگی عرض کر۔ پھر ہاتھ جوڑ کر مزاج کی خبر پوچھ پھر عنایت نامہ کے آنے کا شکریہ ادا کر اور یہ کہہ کہ جو میں قصور کر رہا تھا وہ ہوا یعنی جس دن صبح کو میں نے خط بھیجا۔ اسی دن آخر روز حضور کا فرمان پہنچا۔ معلوم ہوا کہ حرارت ہنوز باقی ہے۔ انشاءاللہ تعالیٰ رفع ہو جائے گی۔ موسم اچھا آ گیا ہے ؎
گرمی از آب بروں رفت و حرارت ز ہوا
محمل مہر جہانتاب٭ بمیزان آمد
(٭کتاب میں لفظ جہانتات لکھا ہے۔ اللہ جانے واقعی جہانتات کوئی لفظ ہے یا کاتب نے جہانتاب کو جہانتات کر دیا ہے۔ چھوٹا غالب)
اگر صرف تبرید و تعدیل سے کام نکل جائے تو کیا کہا کہنا ہے ورنہ بحسب رائے طبیب تنقیہ کر ڈالیے۔ مجھ کو بھی آج دسواں منضج ہے۔ پانچ سات دن کے بعد مسہل ہو گا۔
ایضاً
پیرو مرشد۔ آداب، مزاج مقدس۔ میرا جو حال آپ نے پوچھا اس پرسش کا شکر بجا لاتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ آپ کا بندہ بے درم خریدہ اچھی طرح ہے۔ ایک فصد بائیں ، منضج چار مسہل کہاں تک آدمی کو ضعیف نہ کرے بارے آفتاب عقرب میں آ گیا۔ پانی برف آب ہو گیا ہے۔ کابل و کشمیر کا میوہ بکنے لگا ہے۔ یہ ضعف ضعفِ قسمتتو نہیں کہ ایسے ایسے امور اس کو زائل کر سکیں۔ غزلوں کو پرسوں سے پڑھ رہا ہوں ہوں اور وجد کر رہا ہوں۔ خوشامد میرا شیوہ نہیں ہے جو ان غزلوں کی حقیقت میری نظر میں ہے وہ مجھ سے سن لیجیئے اور میری داد دینے کی داد دیجیئے۔ مولانا قلق نے متقدمین یعنی امیر خسرو و سعدی و جامی کی روشکو سرحد کمال پہنچایا ہے اور میرے قبلہ و کعبہ مولانا شفق اور مولانا ہاشمی اور مولانا عسکری متاخرین یعنی صائب و کلیم و قدسی کے انداز کو آسمان پر لے گئے ہیں۔ اور تکلف و تملق سے کہتا ہوں تو مجھ کو ایمان نصیب نہ ہو۔ یہ جو آپ نے اپنے کلام کے حک و اصلاح کے واسطے مجھ سے فرماتے ہیں۔ یہ آپ میری آبرو بڑھاتے ہیں۔ کوئی بات بجا ہو کوئی لفظ ناروا ہو تو میں حکم بجا لاؤں۔ زیادہ حد ادب۔
ایضاً
قبلہ و کعبہ کیا لکھوں۔ امور نفسانی میں اضداد کا جمع ہونا محالات عادیہ میں سے ہے کیونکر ہو سکے ایک وقتِ خاص میں ایک امر خاص موجب انشراح کا بھی ہو اور باعث انقباض کا بھی ہو۔ یہ بات میں نے آپ کے اس خط میں پائی کہ اس کو پڑھ کر خوش بھی ہوا اور غمگین بھی ہوا۔ سبحان اللہ ۔ اکثر امور میں تم کو ہم طالع پاتا ہوں۔ عزیزوں کی ستم کشی اور رشتہ داروں سے ناخوشی میرا ہم قوم تو سراسر قلمرو ہند میں نہیں۔ سمر قند میں دو چار، یا دشت خفچاق میں سو دو سو ہوں گے مگر ہاں اقربائے سببی ہیں۔ سو پانچ برس کی عمر سے ان کے دام میں اسیر ہوں۔ اکسٹھ برس ستم اٹھائے ہیں ؎
گر دہم شرح ستم ہائے عزیزاں غالبؔ
رسمِ امید ہما ناز جہاں برخیزد
نہ تم میری خبر لے سکتے ہو نہ میں تم کو مدد دے سکتا ہوں۔ اللہ اللہ دریا سارا تیر چکا ہوں۔ ساحل نزدیک ہے دو ہاتھ لگائے اور بیڑا پار ہے ؎
عمر دیکھا کیا مرنے کی راہ
مر گئے پر دیکھئے دکھلائیں کیا
شاہ اسرار الحق کو حافظ نظام الدین صاحب کا خط بھجوا دیا۔ ہفتہ بھر کے بعد جواب مانگا۔ جواب دیا کہ اب بھیجتا ہوں۔ دس بارہ دن ہوئے کہ حضرت خود تشریف لائے۔ جواب آپ کے اور حافظ جی کے خط کا مانگا کہا کل بھیج دوں گا۔ اس واقعہ کو آج قریب دو ہفتہ کے عرصہ ہوا۔ ناچار ان کے جواب سے قطع نظر کر کے آپ کو یہ چند سطریں لکھیں ؎
از خونِ دل نوشتم نزدیک دوست نامہ
انی رایت ُ دھراً فی ہجرک القیامہ
حافظ جی صاحب کو میری بندگی کہیئے گا اور یہ خط ان کو پڑھوا دیجیئے گا۔ جناب منشی نادر حسین خان صاحب کو میرا سلام پہنچے۔ اگرچہ آپ مبتلائے رنج و الم ہو مگر یہ شرف کیا کم ہے ہ انوار الدولہ کے ہمدرد ہو مورد ستم ہائے روزگار ہونا شرافت ذاتی کی دلیل ہے۔ ساطع اور برہان ہے قاطع۔ ہاں حضرت بہت دن سے جناب میر امجد علی صاحب کا کچھ حال معلوم نہیں ان کے تخلص نے مجھ کو حیران کر رکھا ہے یعنی قلق میں مبتلا ہوں۔ آپ ان کا حال لکھیئے۔ خواجہ اسمٰعیلخاں صاحب کہاں ہیں اور کس طرح۔ سنیئے قبلہ میں تو آپ سے شاہ انوار الحق کے خط کے جواب کا طالب نہیں ہوں کہ آپ ان کے خط حاصل ہونے کے انتظار میں مجھ کو خط نہ لکھ سکیں۔ مترصد ہوں کہ اس اپنے خط کا جواب جلد پاؤں۔
٭٭٭
بنام میر افضل علی عرف میرن صاحب
سعادت و اقبال نشان میر افضل علی صاحب المعروف بہ میرن صاحب خدا تم کوسلامت رکھے۔ اور پھر تمہاری صورت مجھ کو دکھا دے۔ تمہارا خط پہنچا۔ آنکھوں سے لگایا۔ آنکھوں میں نور آیا۔ دل پر رکھا مزا پایا۔ کل تک اس نام کو سن کر شرماتے تھے اور آپ ہی آپ کھلے جاتے تھے اب بن بن کر باتیں بناتے ہو اور ہم کو کڑیاں سناتے ہو۔ کاشکے ٭ (کاش کہ) تم یہاں آ جاؤ تب اس تحریر کا مزا پاؤ۔ میر مہدی صاحب وہ تحریر تمہاری بہ نسبت میرے دیکھ کر بہت خفا ہوئے چنانچہ اب جو تمہاری ان سے ملاقات ہو گی تو تم کو معلوم ہو گا بھائی تمہارے سالے صاحب غرور کے پتلے ہیں دو ایک بار میں نے ان کو بلایا انہوں نے کرم نہ فرمایا۔ تم سچ کہتے ہو یہ لوگ اور ہی آب و گل کے ہیں۔ تمہاری ان کی کبھی نہ بنے گی اور گھری٭ (گاڑھی) نہ چھنے گی۔ وہیں بیٹھے رہو دیکھو خدا کیا کرتا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ رنج و عذاب کا زمانہ جلد گزرتا ہے۔ میر سرفراز حسین صاحب کو میری دعا کہنا اور کہنا بھائی وہ زمانہ آیا ہے کہ سینکڑوں عزیز راہی ملک عدم ہوئے سینکڑوں ایسے مفقود الخبر ہوئے کہ ان کی مرگ و زیست کی خبر نہیں دو چار جو باقی رہے ہیں خدا جانے کہاں بستے ہیں کہ ہم ان کے دیکھنے کو ترستے ہیں۔ میر نصیر الدین کو پہلے بندگی پھر دعا۔ دو شنبہ ۹ نومبر ۱۸۵۸ بین الظہر و العصر۔ حوالہ میر مہدی طال عمرہٗ۔
ایضاً
برخوردار کامگار میر افضل علی عرف میرن صاحب طول عمرہٗ۔ بعد دعا کے واضح رائے سعادت اتمائے ہو آپ کا خط پہنچا۔ اگرچہ میں نے صرف پڑھا۔ میر مہدی کے جلانے کو لکھتا ہوں کہ میں نے آنکھوں سے لگایا۔ ہاں صاحب تم نے جو لکھا ہے قبلہ و کعبہ کہنے سے وہ صاحب بہت خوش ہوتے ہیں کیوں نہ خوش ہوں خوشی کی بات ہے۔ تمہارے سر کی قسم میں گویا دیکھ رہا ہوں اور میری نظر میں پھر رہا ہے۔ وہ میر سرفراز حسین کا شرما کر آنکھیں نیچی کرنی اور مسکرانا خدا کبھی مجھ کو بھی وہ صورت دکھائے۔ میر نصیر الدین یہاں آ گئے ہیں۔ تم مجتہد العصر اور حکیم میر اشرف علی کو میری دعا کہنا اور میر مہدی پوچھیں تو کہنا کہ تم کو کچھ یہاں لکھا۔ کل میں نے خبر منگائی تھی سو لڑکی کو ابھی تک تپ آئے جاتی ہے۔ یقین ہے کہ تم نے وہاں پہنچ کر مولوی مظہر علی کو خط لکھا ہو گا۔ ہاں تم کو ضرور ہے ان سے نامہ و پیام کی رسم رکھنی۔ والدعا۔ چار شنبہ۔ ششم جولائی ۱۸۵۹ ء۔ غالب۔
ایضاً
میری جان تمہارا رقعہ پہنچا۔ نہ کھلا کہ میر سرفراز حسین جے پور کیوں جاتے ہیں۔ بہرحال میر مہدی کو دعا کہنا۔ اور میر سرفراز حسین سے یہ پوچھنا کہ تم جے پور چلے میں نے تم کو خدا کو سونپا۔ تم مجھے کس کو سونپ چلے۔ جواب کا طالب غالب۔ ۲۱ جولائی ۱۸۶۴ ء۔
٭٭٭
بنام مرزا قربان علی بیگ خان صاحب سالکؔ
وللرحمن الطاف خفیہ۔ خیر و عافیت تمہاری معلوم ہو ئی۔ دم غنیمت ہے۔ جان ہے تو جہان ہے۔ کہتے ہیں خدا سے نا امیدی کفر ہے۔ میں تو اپنے باب میں خدا سے نا امید ہو کر کافر مطلق ہو گیا۔ موافق عقیدہ اہل اسلام جب کافر ہو گیا تو مغفرت کی بھی توقع نہ رہی۔ چل بھئی نہ دنیا نہ دین۔ مگر تم حتی الوسعمسلمان بنے رہو اور خدا سے نا امید نہ ہو۔ ان مع العسر یسراً کو اپنے نصب العین رکھو ؎ در طریقت ہر چہ پیش سالکآید خیر اوست۔ گھر میں تمہارے سب طرح خیر و عافیت ہے۔ محمد میرزا پنجشنبہ اور جمعہ کو داستان کے وقت آ جاتا ہے۔ رضوان ہر روز شب کو آتا ہے۔ یوسف علی خاں عزیز سلام اور باقر علی اور حسین علی بندگی کہتے ہیں۔ کلو داروغہ کورنش عرض کرتا ہے۔ اوروں کو یہ پایہ حاصل نہیں کہ وہ کورنش بھی بجا لائیں خط بھیجتے رہا کرو۔ والدعا۔ اپنی مرگ کا طالب غالب۔ صبح دو شنبہ ۲ صفر ۱۱ جولائی سالِ حال۔
ایضاً
میری جان کن اوہام میں گرفتار ہے۔ جہاں باپ کو پیٹ چکا اب چچا کو بھی رو۔ تجھ کو خدا جیتا رکھے۔ اور تیرے خیالات و احتمالات کو صورت وقوعی دے۔ یہاں خدا سے بھی توقع باقی نہیں مخلوق کا کیا ذکر۔ کچھ بن نہیں آتی۔ آپ اپنا تماشائی بن گیا ہوں۔ رنج و ذلت سے خوش ہوتا ہوں۔ یعنی میں نے اپنے کو اپنا غیر تصور کیا ہے جو دکھ مجھے پہنچتا ہے کہتا ہوں کہ لو غالب کے ایک اور جوتی لگی بہت اتراتا تھا کہ میں بڑا شاعر اور فارسی دان ہوں۔ آج دور دور تک میرا جواب نہیں۔ لے اب تو قرضداروں کو جواب دے۔ سچ تو یوں ہے کہ غالب کیا مرا بڑا ملحد مرا برا کافر مرا۔ ہم نے از راہ تعظیم جیسا بادشاہوں کو بعد ان کے جنت آرامگاہ و عرش نشیمن خطاب دیتے ہیں۔ چونکہ یہ اپنے شاہ قلمرو سخن جانتا تھا۔ بسقر مقر اور ہاویہ زاویہ خطاب تجویز کر رکھا ہے۔ آئے نجم الدولہ بہادر ایک قرضدار کا گریبان میں ہاتھ ایک قرضدار بھوگ سنا رہا ہے (کتاب میں “بھُوک قار ہے ” لکھا ہے واللہ اعلم۔ چھوٹا غالب) میں ان سے پوچھ رہا ہوں۔ اجی حضرت نواب صاحب۔ نواب صاحب کیسے ، اور خان صاحب آ پ جوقی٭(سلجوقی) اور افراسیابی ہیں۔ یہ کیا بے حرمتی ہو رہی ہے۔ کچھ تو اکسو کچھ تو بولو۔ بولے کیا، بے حیا، بے عزت، کوٹھی سے شراب، گندگی سے گلاب، بزاز سے کپڑا، میوہ فروش سے آم، صراف سے دام قرض لیے جاتا ہے یہ بھی تو سونچا (سوچا) ہوتا کہ کہاں سے دوں گا۔
٭٭٭
بنام مرزا شمشاد علی بیگ خان صاحب رضواں
فرزند دلبند شمشاد علی بیگ خاں کو۔ اگر خفا نہ ہوں تو دعا اگر آزردہ ہوں تو بندگی۔ غازی آباد سے جا کر طبع اقدس ناساز ہو گئی ؎از آمدنِ کعبہ پشیمانی شدہ باشی۔ قربان علی بیگ خاں کو دعا کہنا مرزا تفضل حسین خان کو دعا کہنا۔ اور ان کا حال لکھنا۔ آج شنبہ ۴ نومبر کی ہے۔ پرسوں نواب صاحب دورہ کو گئے ہیں۔ فرما گئے ہیں کہ دو ہفتہ میں آؤں گا۔ اگر چار روز یہاں رہیں گے پھر نمایشگاہ بریلی کی سیرکو جائیں گے۔ وہاں سے پھر کر جب آئیں گے تو صاحب کمشنر بریلی کا انتظار فرمائیں گے وہ پنجم دسمبر تک آ جائیں گے۔ تین دن جشن رہے گا۔ اس کے دو چار روز بعد غالب رخصت ہو گا۔ خدا کرے تم تک زندہ پہنچ جائے۔ پیر جی بہت یاد آ تے ہیں ان کو دعا کہنا اور یہ کاغذ پہلے تم پڑھنا پھر سالک کو پڑھانا۔ پھر میاں خواجہ امان اور حکیم رضا خان کو دکھانا۔ پھر مرزا تفضل حسین خاں کے پاس لے جانا۔ اس قصیدہ کے ساتھ کی نثر نواب ضیاء الدین خاں یا مرزا ثاقب سے مانگ لینا اور اس کی نقل کر لینا اور قاطع برہان کا حال لکھنا۔ میں نے تیس روپیہ کی ہنڈویسو روپیہ کی باقی حکیم جی کو بھیج دی ہے حضرت نے رسید بھی نہیں لکھی اس سے رسید بھی نہیں لکھی ان سے رسید لکھوا بھیجو اور سب جلدوں کے شیرازے بندھ جائیں اور موٹا کاغذ دونوں طرف لگ جائے۔ خبردار کوئی نسخہ بے جلد نہ رہے۔ تین سو مجلد کے تیار ہونے کی خبر اور بقیہ حساب میرے پاس بھیج دینا یا روپیہ فوراً بھیج دوں گا یا آ کر دوں گا۔ گورنر کا حال لکھو۔ کون کون حاضر ہوا کس کس کی ملاقات ہوئی۔ فرّخ سیر کے دادا صاحب آئے ہیں یا نہیں۔ اگر آئے ہیں تو روداد مفصل لکھو۔ ہاں بھائی ٹونک والے سید سراج احمد کا بھی حال ضرور لکھنا۔ علی نقی خاں وزیر شاہ اودھ کی حقیقت بھی ضرور لکھنا اور مجھ کو ان مقاصد کے جواب کا منتظر سمجھنا آج دو شنبہ ۴ نومبر کی ہے آٹھ دن میں خط کی آمدو شد یقینی ہے۔ نو دن راہ دیکھوں گا۔ دسویں دن اگر تمہارا خط نہ آیا تو میں تمہارا رافضی بن جاؤں گا۔ مطالب مندرجہ کے جواب کا طالب۔ غالب۔
ایضاً
مرزا رسم تحریر خطوط بسبب ضعف ترک ہوتی جاتی ہے۔ تحریر کا تارک نہیں ہوں بلکہ متروک ہوں اب مجھے ویسا نہ سمجھو جیسا چھوڑ گئے ہو۔ رامپور کے سفر میں تاب و طاقت، حسن فکر لطف طبیعت یہ سب اسباب لٹ گیا۔ اگر تمہارے خط کا جواب نہ لکھوں تو محل ترحم ہے نہ مقام شکایت۔ سنو میرے خط کے نہ پہنچنے سے تم کو تشویش کیوں ہو۔ جب تک زندہ ہوں غمزدہ و افسردہ ناتواں و نیم جاں ہوں۔ جب مر جاؤں گا تو میرے مرنے کی خبر سن لو گے۔ پس جب تک میرے مرنے کی خبر نہ سنو جانو کہ غالب جیتا ہے۔ خستہ و نثر رنجور و درد مند یہ سطریں لکھ کر اس وقت تمہارے بھائی پاس بھیجتا ہوں مگر ان کو ہمیشہ سفر در وطن ہے۔ بفرض محال اگر گھر میں ہیں تو عنایت اللہ ان کو ورنہ محمد مرزا کو دے آئے گا، ربیع الثانی جمعہ کا دن صبح کا وقت ہے۔
٭٭٭
بنام مرزا باقر علی خاں صاحب کامل
اقبال نشان مرزا باقر علی خاں کو غالب نیم جاں کی دعا پہنچے۔ تمہارا خط آیا۔ تمہارے روزگار کی درستی آگے سن چکا تھا۔ اب تمہارے لکھنے سے دیکھ بھی لی۔ دل میرا خوش ہوا اور تم خاطر جمع رکھو جیساکہ مہاراج نے تم سے کہا ہے تمہاری ترقی انشاءاللہ تعالیٰ جلد ہو گی۔ مجھ سے جو تم گلہ کرتے ہو خط کے نہ بھیجنے کا۔ بھائی اب میری انگلیاں نکمی ہو گئی ہیں اور بصارت میں بھی ضعف آ گیا ہے۔ دو سطریں نہیں لکھ سکتا۔ اطراف و جوانب کے خطوط آئے ہوئے دھرے رہتے ہیں۔ جب کوئی دوست آ جاتا ہے۔ میں اس سے جواب لکھوا دیتا ہوں۔ پرسوں کا تمہارا خط آیا ہوا دھرا تھا اب اس وقت مرزا یوسف علی خاں آ گئے میں نے ان سے یہ خط لکھوا دیا۔ تمہاری دادی اچھی طرح، تمہارا بھائی اچھی طرح ہے۔ تمہارے گھر میں سب طرح خیر و عافیت ہے۔ تمہاری لڑکی اچھی طرح ہے۔ کبھی روز کبھی دوسرے تیسرے میرے پاس آ جاتی ہے۔
ایضاً
نورِ چشم و راحت جان مرزا باقر علی خان کو فقیر غالب کی دعا پہنچے۔ تمہارا خط جو میرے خط کے جواب میں تھا وہ مجھ کو پہنچا۔ اس میں کوئی بات جواب طلب نہ تھی۔ اس خط میں ایک نئے امر کی تمہیں اطلاع دیتا ہوں وہ امر یہ ہے کہ میں نے اگلے مہینے سبد چین کی ایک جلد مع عرضی اقبال نشان مرزا تفضل حسین خان کی معرفت الور کو بھجوائی تھی۔ سو اب کے ہفتے میں حضور پر نور مہاراجہ راؤ بہادر کا خط انہیں کی معرفت مجھ کو آیا۔ حضور نے از راہ بندہ پروری و قدر افزائی القاب بہت بڑا مجھے لکھا اور خط میں فقرے بہت عنایت اور التفات کے بھرے ہوئے درج کیے۔ تم تو وہیں ہو تم کو اس کی اطلاع ہو گئی تھی یا نہیں۔ اور اگر ہو گئی تھی تو تم نے مجھ کو کیوں نہیں لکھا اب میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ کبھی دربار میں کچھ میرا بھی ذکر آتا ہے یا نہیں اور اگر آتا ہے تو کس طرح آتا ہے۔ حضور سن کر کیا فرماتے ہیں۔ غالب۔ ۷ دسمبر ۱۸۶۷ء۔
ایضاً
اقبال نشان باقر علی خان کو غالب نیم جان کی دعا پہنچے۔ بہت دن ہوئے کہ تمہارا خط آیا مگر تم نے اپنے مکان کا پتا تو لکھا ہی نہ تھا۔ فقط الور کا نام لکھ کر چھوڑ دیا۔ میں کیونکر خط بھیجتا۔ بارے اب شہاب الدین خان کی زبانی پتا معلوم ہوا۔ سو اب میں تم کو خط لکھتا ہوں۔ جینا بیگم اچھی طرح ہے میرے پاس آتی رہتی ہے اور تمہارے گھر میں سب طرح خیر و عافیت ہے۔ اکتوبر کے مہینے کی تمہاری تنخواہ تمہارے گھر بھیج دی۔ مرزا حسین علی خان بندگی عرض کرتا ہے۔ اسد اللہ ۔ تحریر تاریخ ۱۶ نومبر ۱۸۶۷ ء۔
٭٭٭
بنام ذوالفقار الدین حیدر خاں عرف حسین مرزا صاحب
بھائی تمہارے خطوں کا اور یوسف مرزا کے خطوں کا جواب بھیج چکا ہوں۔ محمد قلی خاں صاحب ہمہ تن مصروف ہیں۔ دووالی (دیوالی)کی تعطیل ہو چکی ہے۔ نوند رائے کی بی بی مر گئی ہے۔ وہ غمزدہ ہو رہا ہے مگر خیر کام کرے گا۔ کاشی ناتھ بے پروا آدمی ہے۔ تم ایک خط تاکیدی اس کو بھی لکھ بھیجو۔ اکثر وہ کہا کرتا ہے کہ حسین مرزا جب لکھتے ہیں مرزا نوشہ صاحب ہی کو لکھتے ہیں۔ یہ امر اس پر ظاہر نہ ہو کہ میں نے تمہیں یوں لکھا ہے۔ مطلب اپنا اس کو لکھو میں کیا کروں۔ اگر کہوں کہ میری جان بھی تمہارے کام آئے تو میں حاضر ہوں یہ کہنا تکلف محض ہے۔ کون جان دیتا ہے اور کون کسی سے جان مانگتا ہے مگر جو فکر مجھ کو تمہاری ہے اور جو میری دسترس ہے اس کو میرا خدا اور میرا خداوند جانتا ہے۔ دسترس کو تو تم بھی جانتے ہو۔ انشاءاللہ اوائل ماہ آیندہ یعنی نومبر میں نیر والا مقدمہ درست ہو جائے۔ ان سطور کی تحریر سے مراد یہ ہے کہ ابھی چنی لال تمہارا قرض خواہ آیا تھا۔ تمہارا حال پوچھتا تھا کچھ جھوٹ بول کر اس کو اس راہ پر لایا ہوں کہ سو دو سو روپیہ تم کو بھیج دے۔ بنیوں کی طرح تقریر اس کو سمجھائی ہے کہ لالا جس درخت کا پھل کھانا منظور ہوتا ہے تو اس کو پانی دیتے ہیں۔ حسین مرزا تمہارے کھیت ہیں۔ پانی دو تو اناج پیدا ہو۔ بھائی کچھ تو نرم ہوا ہے۔ تمہارے مکان کا پتا لکھوا کر لے گیا ہے اور یہ کہہ گیا ہے کہ میں اپنے بیٹے رام جی داس سے صلاح کر کے جو بات ٹھہرے گی آپ سے آ کر کہوں گا۔ اگر وہ روپیہ ہی بھیج دے تو کیا کہنا ہے اور اگر وہ خط لکھے اور تم اس کا جواب لکھو تو یہ ضرور لکھنا کہ اسد اللہ نے جوتم سے کہا ہے وہ سچ ہے اور وہ امر ظہور میں آنے والا ہے بس زیادہ کیا لکھوں۔ یہاں تک لکھ چکا تھا کہ سردار مرزا صاحب تشریف لائے۔ میں نے خط ان کو نہیں دکھایا۔ مگر عندالاستفسار کہا گیا کہ حسین مرزا صاحب کو لکھتا ہوں انہوں نے کہا کہ میرا سلام لکھنا اور لکھنا کہ یہاں سب خیر و عافیت سے ہیں اور سب کو دعا سلام کہتے ہیں۔ یوسف مرزا کو بعد دعا کے معلوم ہو کہ اس وقت سردار مرزا سے دریافت ہو گیا کہ عباس مرزا کے نام کا تمہارا رقعہ ان کو پہنچ گیا۔ شنبہ ۲۹ اکتوبر۔
ایضاً
نواب صاحب آج تیسرا دن ہے کہ تم کو حال لکھ چکا ہوں۔ محمد قلی خاں آئے۔ ہم میں ان میں باہم گفتگو ہوئی۔ نواب گورنر کی آمد آمد میں کچھریاں ٭ (کچہریاں ) بند۔ حکام میرٹھ کو چلے جاتے ہیں۔ ۱۹ یا ۲۰ دسمبر کو میرٹھمخیم خیام ہو گا۔ دربار وہیں ہو گا۔ رہا دلّی کا آنا۔ مشبہ فیہ ہے۔ کوئی کہتا ہے نہ آئیں گے۔ کوئی کہتا ہے جریدہ بسبیل ڈاک آئیں گے۔ کوئی کہتا ہے مع لشکر آئیں گے۔ ۱۳ دن یہاں رہیں گے۔ آج ۱۵ دسمبر کی ہے جو کچھ واقع ہو گا وہ تم کو لکھوں گا۔ نقل حکم کی درخواست اور اس مقدمہ کی فکر بعد اس ہنگامہ کے عمل میں آئے گی۔ خاطر عاطر جمع رہے۔ تمہارا دوست بھی حسب الحکم کمشنر ہانسی حصار کل یا پرسوں میرٹھ کو جائے گا اور ادھر سے امیں الدین خاں بھی وہاں آئے گا۔ میرا دربار و خلعت دریا برد ہو گیا۔ نہ پنشن کی توقع نہ دربار و خلعت کی صورت نہ سزا نہ انعام نہ رسم معمولی قدیم۔ یوسف مرزا صاحب کو دعا پہنچے۔ پرسوں کلو جوتا لے آیا۔ کل دونوں طرف سے کھلا ہوا لے کر گیا۔ ڈاک کے کار پردازوں نے الٹا پھیر دیا اور کہا کہ پولندہ بنا کر لاؤ۔ پولندہ بنا کر لے گیا کہا بارہ پر دو بجے لے لیا۔ بیٹھا رہا، رات کو نو بجے اس کے سامنے روانہ ہوا۔ رسید لے کر اپنے گھر آیا۔ خدا کرے تم کو پہنچ جائے اور پسند آئے۔ قصیدہ کے باب میں میں مایوس مطلق ہوں مگر خیر جو کچھ واقع ہو بطریق خبر لکھ بھیجنا۔ مثنوی باد مخالف کی تمہاری تحریر سے معلوم ہو گئی۔ خیر مفتی صاحب کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔ فیلخانہ ملک پیرا لال ڈکی کے محاذی کے مکانات سب گرائے گئے۔ بلاقی بیگم کا کوچہ التوا میں ہے اہل فوج ڈھانا چاہتے ہیں۔ اہل قلم بچاتے ہیں۔ پایان کار دیکھئے کیا ہو۔ جمعہ ۱۶ دسمبر ۱۸۵۹ء۔
ایضاً
جناب عالی۔ کل آپ کا خط لکھا ہوا سہ شنبہ یکم نومبر کا پہنچا۔ لطف یہ کہ کل وہی سہ شنبہ کا دن ۸ نومبر کی تھی۔ آج بدھ کا دن ۹ نومبر کی صبح کے وقت میں تم کو خط لکھنے بیٹھا تھا کہ برخوردار یوسف مرزا خان کا خط لکھا ہوا ۳ نومبر کا پہنچا۔ اب میں دونوں خطوں کا جواب باہم لکھتا ہوں۔ دونوں صاحب باہم پڑھ لیں۔ مرزا آغا جانی صاحب اچھی طرح ہیں ان کو تپ آ گئی تھی اب تپ مفارقت کر گئی ہے مگر ضعف باقی ہے۔ آج چوتھا دن ہے کہ میرے پاس آئے تھے۔ کاشی ناتھ سراسر پہلو تہی کرتا ہے۔ نوند رائے کو تاکید کرتے ہیں۔ آج کل یہاں پنجاب احاطہ کے بہت حاکم فراہم ہیں۔ پون ٹوٹی کے باب میں کونسل ہوئی۔ پرسوں ۷ نومبر سے جاری ہو گئی۔ سالگ رام خزانچی۔ چھٹا مل مہیش داس ان تینوں شخصوں کو یہ کام بطریق امانی سپرد ہوا ہے۔ غلہ اور اپلے کے سوا کوئی جنس ایسی نہیں کہ جس پر محصول نہ ہو۔ آبادی کا حکم عام ہے۔ خلق کا ازدحام ٭( اژدہام )ہے۔ آگے حکم تھا کہ مالکان مکان رہیں کرایہ دار نہ رہیں پرسوں سے حکم ہو گیا کہ کرایہ دار بھی رہیں۔ کہیں یہ نہ سمجھنا کہ تم یا میں یا کوئی اپنے مکان میں کرایہ دار کو آباد کرے۔ وہ لوگ جو گھر کا نشان نہیں رکھتے اور ہمیشہ سے کرایہ کے مکان میں رہتے تھے وہ بھی آ رہیں مگر کرایہ سرکار کو دیں۔ تم انصاف کرو ہمشیرہ کی درخواست کیونکر گزرے۔ جب وہ خود آئیں اور درخواست دیں اور منظور ہو اور مکان ملے تو اس تمام شہر ستان ویران میں سے ایک حویلی ملے گی اور ان کو یہاں رہنا ہو گا کیونکر اس ویرانہ میں تنہا رہیں گی۔ سہم کر دم نکل جائے گا۔ مانا کہ جبر اختیار کر کر رہیں۔ کھائیں گی کہاں سے۔ بہرحال یہ سب خیالات ِ خام اور جملے ناتمام ہیں ہاں نقل لینی اور مرافعہ نہ کرنا اور نقل حکم لینی اور پھر مرافعہ کرنا پھر اس حکم کی نقل لینی یہ امور ایسے نہیں کہ جلد فیصل ہو جائیں۔ حکام بے پروا۔ مختار کار عدیم الفرصت۔ میں پا شکستہ۔ محمد قلی خاں کبھی یہاں کبھی وہاں۔ وقت پر موقوف ہے۔ گھبراؤ نہیں۔ حکیم احسن اللہ خاں کے مکاناتِ شہر ان کو مل گئے اور یہ حکم ہے کہ شہر سے باہر نہ جاؤ۔ دروازہ سے باہر نہ نکلو۔ اپنے گھر میں بیٹھے رہو۔ نواب حامد علی خاں کے مکانات سب ضبط ہو گئے۔ وہ قاضی کے حوض پر کرایہ کے مکانات میں مع ممتوعہ کے رہتے ہیں۔ باہر جانے کا حکم ان کو بھی نہیں۔ مرزا الہی بخش کو حکم کرانچی بندر جانے کا ہے۔ انہوں نے زمین پکڑی ہے۔ سلطان ہی میں رہتے ہیں عذر کر رہے ہیں۔ دیکھیئے یہ جبر اٹھ جائے یا یہ خود اٹھ جائیں۔
ایضاً
نواب صاحب پرسوں صبح کو تمہارا خط پہنچا۔ پہر دن چڑھے لارڈ صاحب کا لشکر آیا۔ کابلی دروازہ کی فصیل کے قریب بھولو شاہ کی قبر کے سامنے خیمہ خاصہ پا ہوا۔ اور باقی لشکر تیس ہزاری باغ میں اترا ہے۔ پنجشنبہ ۲۹ دسمبر ۱۸۵۹ ء۔ اب غالب کے مصیبت کی داستان سنیے۔ پرسوں تمہارا خط پڑھ کر لشکر کو گیا۔ میر منشی سے ملا۔ ان کے خیمہ میں بیٹھ کر صاحب سکرٹر بہادر کو اطلاع کروائی۔ چپراسی کے ساتھ کلو بھی گیا تھا۔ جواب آیا کہ ہمارا سلام دو اور کہو کہ فرصت نہیں ہے۔ خیر میں اپنے گھر آیا۔ کل پھر گیا۔ خبر کروائی۔ حکم ہوا کہ غدر کے زمانہ میں تم باغیوں کی خوشامد کرتے رہتے تھے اب ہم سے ملنا کیوں مانگتے ہو۔ عالم نظر میں تیرہ و تار ہو گیا۔ یہ جواب پیام نومیدی جاوید ہے۔ نہ دربار نہ خلعت نہ پنشن انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بقیہ خبرِ لشکر یہ ہے کہ راجہ بھرتپور برات لے کر پٹیالہ گیا تھا اور اس سبب سے آگرہ میں لارڈ صاحب سے نہیں ملا تھا۔ ایک ہفتہ سے معاودت کر کے یہاں آیا ہوا تھا آج اس کی ملازمت ہے۔ شنبہ۳۱ دسمبر ۱۸۵۹ ء گیارہ بجے ہوں گے۔ میں خط لکھ رہا ہوں توپیں چل رہی ہیں۔ شاید راجہ صاحب کی ملاقات اسی وقت ہوئی۔ کل یکشنبہ ہے۔ پرسوں دو شنبہ کو سہ شنبہ کو لارڈ صاحب کا کوچ ہے۔ کہتے ہیں کہ پشاور تک جائیں گے۔ کل صبح کو محمد قلی خاں آئے ایک عرضی انگریزی ان کے ہاتھ میں۔ کہنے لگے یہ عرضی طالب علی فیلبان نے مجھ کو پھیر دی ہے اور کہا ہے اس کے گزراننے کا موقع نہیں۔ میں اس وقت سوار ہوا چاہتا تھا۔ تمہاری یاس سن کر گیا۔ اپنا داغِ حسرت جیسا کہ اوپر لکھ آیا ہوں لے کر آیا۔ ابراہیم علی خان الور میں مستسقی ہو کر مر گئے۔ خدا ان کو بخشے اور مجھ کو بھی یہ دن نصیب کرے۔ کمشنر صاحب کا نائب یہاں کوئی نہیں اور نہ کسی انگریزی خواں سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے اتنا مسموع ہوا ہے کہ ایک محکمہ لاہور معاوضہ نقصان رعایا کے واسطے تجویز ہوا ہے اور حکم یہ ہے کہ جو رعیت کا مال کولوں نے لوٹا ہے البتہ اس کا معاوضہ بحساب دو ایک سرکار سے ہو گا۔ یعنی ہزار روپے کے مانگنے والے کو سو روپیہ ملیں گے اور جو گوروں کے وقت کی غارتگری ہے وہ مِدر اور مجل ہے اس کا معاوضہ نہ ہو گا۔ شاید یہ وہی کمشنر ہوں مکانات کو حامد علی خاں کا کر کر کیوں لکھتے ہو وہ تو مدت سے ضبط ہو کر سرکار کا مال ہو گیا۔ باغ کی صورت بدل گئی تھی۔ محل سرا اور کوٹھی میں گورے رہتے تھے۔ اب پھاٹک اور سرتاسردکانیں گرا دی گئیں۔ سنگ و خشت کا نیلام کر کے روپیہ داخل خزانہ ہوا مگر یہ نہ سمجھو کہ حامد علی خاں کے مکان کا عملہ بکا ہے۔ سرکار نے اپنا مملو کہ و مقبوضہ ایک مکان ڈھا دیا۔ جب بادشاہِ اودھ کی املاک کا وہ حال ہو تو رعیت کی املاک کو کون پوچھتا ہے۔ تم اب تک سمجھے نہیں ہو کہ حکام کیا سمجھتے ہیں اور نہ کبھی سمجھو گے۔ کیسا نوند رائے کیسی نقل حکم مرافعہ۔ جو احکام کہ دلی میں صادر ہوئے ہیں وہ احکام قضا و قدر ہیں ان کا مرافعہ کہیں نہیں۔ اب یوں سمجھ لو کہ نہ ہم کبھی کہیں کے رئیس تھے نہ جاہ و حشم رکھتے تھے ، نہ املاک رکھتے تھے ، نہ پنشن رکھتے تھے۔ رامپور زندگی میں میرا مسکن اور بعد مرگ میرا مدفن ہو گیا۔ جب تم لکھتے ہو کہ للہ تم وہاں جاؤ تو مجھ کو ہنسی آتی ہے میں یقین کرتا ہوں کہ ہلال ماہ رجب المرجب رامپور میں دیکھوں۔ جو تدبیر وثیقہ کے باب میں تم نے کی ہے وہ بہت مناسب ہے بشرط پیش ہونے کے اور ولایت پہنچنے کے۔ سجاد مرزا اور اکبر مرزا اپنی پیران سری میں اس پر قابض ہو رہیں گے۔ انشاءاللہ العظیم۔ یوسف مرزا خاں کو دعا پہنچے۔ حال قصیدہ و مخمس کا معلوم ہوا۔ قبلہ و کعبہ وہ کر رہے ہیں جو آباء اولاد سے اور آقا غلام سے سلوک کرتا ہے ان کو منظور ہے کہ دعا کا عطیہ جدا پاؤں اور ثنا کا صلہ جدا پاؤں ؎ کارساز ما بفکر کار ما۔ لیکن میری جان انصاف تو کر۔ ان صلوں میں زندگی تو بسر نہیں ہوتی۔ یہ فکر بھی بیہودہ ہے۔ زندگی میری کب تک سات مہینے یہ اور بارہ مہینے سال آیندہ کے۔ اسی مہینے میں اپنے آقا کے پاس جا پہنچتا ہوں۔ وہاں نہ روٹی کی فکر نہ پانی کی پیاس نہ جاڑے کی شدت۔ نہ گرمی کی حدت، نہ حکم کا خوف نہ مخبر کا خطر نہ مکان کا کرایہ دینا پڑے نہ کپڑا خریدنا پڑے نہ گوشت گھی منگاؤں نہ روٹی پکواؤں عالمِ نور سراسرسُرور؎
یارب ایں آرزوئے من چہ خوش ست
تو بدیں آرزو مرا برسان
بندہ علی ابن ابی طالب۔ آرزو مند مرگ۔ غالب۔ روز سہ شنبہ ۳۱ دسمبر ۱۸۵۹ ء۔
٭٭٭
بنام یوسف مرزا صاحب
کوئی ہے ؟ ذرا یوسف مرزا کو بلائیو۔ لو صاحب وہ آئے۔ میاں مَیں نے کل خط تم کو بھیجا ہے مگر تمہارے ایک سوال کا جواب رہ گیا ہے۔ اب سن لو تفضل حسین خاں اپنے ماموں مویّد الدین خاں پاس میرٹھ ہے۔ شاید دلّی آیا ہو مگر میرے پاس نہیں آیا۔ والد ان کے غلام علی خاں اکبر آباد میں مکتب داری کرتے ہیں۔ لڑکے پڑھاتے ہیں۔ روٹی کھاتے ہیں۔ تم لکھتے ہو کہ پچا س محل واجد علی شاہ کے کلکتہ گئے۔ تمہارے ماموں محمد قلی خاں کے خط میں لکھتے ہیں کہ شاہِ اودھ بنارس آ گئے۔ اس خبر کواس خبر کے ساتھ منافات نہیں ہے۔ ادھر سے آپ بنارس کو چلے ہوں۔ ادھر سے بیگمات کو وہاں بلا ہو مگر میری جان ہم کو کیا ؎عالم پسِ مرگ ِ ما چہ دریا چہ سراب۔
ایضاً
آؤ صاحب میرے پاس بیٹھ جاؤ۔ آج یکشنبہ کا دن ہے۔ ساتویں تاریخ رمضان کی اور انیسویں اپریل کی صبح کو بھائی فضلو جن کو میر کاظم علی بھی کہتے ہیں۔ اور ہم نے احتلام الدولہ خطاب دیا ہے وہ تین پاؤ کھجوریں ایک ٹین کا لوٹا اور دو سوت کی رسیاں لے کر بھٹیارے کے ٹٹو پر سوار ہو کر الور کو روانہ ہوئے۔ پہر دن چڑھے ڈاک کا ہرکارہ تمہارا خط میرے نام کا اور ایک حکمنامہ محکمہ لاہورموسومہ میر کاظم علی لایا۔ یہاں تک لکھ چکا تھا کہ تمہارے ماموں صاحب مع سجاد مرزا تشریف لائے۔ تمہارا خط ان کو دے دیا وہ اس کو پڑھ رہے ہیں اور میں یہ خط تم کو لکھ رہا ہوں۔ پہلے تو یہ لکھتا ہوں کہ حکمنامہ میر کاظم علی کو دے دینا اور میری طرف سے تعزیت کرنا کہ میر بھائی صبر کرو اور چپ ہو رہو۔ تاریخ کے دو قطعوں میں ایک قطعہ رہا۔ ماہرو خوش خرام کی جگھ(جگہ)مہ رخ خوش خرام بنا دیا ہے۔ قطعہ اچھا ہے بشرط آنکہ متوفیہ کا شوہر یہ الفاظ اپنی زوجہ کے واسطے گوارا کرے۔ خواجہ جان جھوٹ بولتا ہے والی رامپور کو اس پنشن کے اجرا میں کچھ دخل نہیں یہ کام خدا ساز ہے۔ بہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ناظرجی نے تمہارے قول کی تصدیق کی اور کہا کہ ہاں مسودہ عرضی کا میرے پاس آ گیا۔ میں تم کو دکھاؤں گا خیر تم نے جو لکھا ہو گا وہ مناسب ہو گا خدا راس لائے اور کام بن جائے۔ الگزنڈر بدرلی صاحب میرے دوست کے فرزند ہیں اور نیک بخت اور سعادت مند ہیں۔ میر کاظم علی وغیرہ کی تنخواہ میں میری سپارش (سفارش)کو دخل نہیں ہے۔ تم کاظم علی سے دریافت کر لو۔ ہاں دو مقدموں میں مَیں نے ان کو دو خط لکھے مگر انہوں نے ایک کا بھی جواب نہیں لکھا۔ اور ان مقدموں میں کوشش بھی نہیں کی۔ اب اس کو سمجھ کر جو کچھ لکھو اس کے موافق عمل میں لاؤ۔ ناظر جی صاحب اور سجاد مرزا اپنے گھر گئے وہ تم کو دعا اور سجاد بندگی کہہ گیا ہے۔ اپنے آنے میں جلدی نہ کرو۔ ماں کی رضا جوئی کو سب امور پر مقدم جانو۔ میں ابھی رامپور نہیں جاتا۔ برسات کے بعد بشرط حیات جاؤں گا یعنی اواخر اکتوبر یا اوائل نومبر میں قصد ہے۔ یقین ہے کہ یہ خط دو دن میر کاظم علی کے پہنچنے سے پہلے تمہارے پاس پہنچے۔ ان کے نام کا حکمنامہ بہت احتیاط سے اپنے پاس رہنے دینا۔ خبردار جاتا نہ رہے۔ جب وہ پہنچیں تب ان کو حوالہ کرنا۔ صاحب نہ خمس نہ نذر۔ یہ باتیں غیرت کی ہیں۔ جس طرح اپنے اور بچوں کو دوں گا مظفر میرزا اور تم کو بھی اسی طرح بھجواؤں گا۔ ہمشیرہ عزیزہ کو یعنی اپنی والدہ کو میری دعا کہنا۔ مرقومہ یکشنبہ وقت نیمروز ہفتم رمضان ۲۹ اپریل۔ غالب۔
ایضاً
یوسف مرزا کو بعد دعا کے معلوم ہو کہ تمہارا خط کل منگل کو پہنچا۔ آج بدھ ۱۷ شوال اور ۹ مئی کی ہے۔ اس کا جواب بھیجتا ہوں۔ خدا کی قسم ٹامس ہڈرلی صاحب سے میری ملاقات نہیں ہے۔ ہاں الک صاحب سے ہے سو ان کے نام کا خط کھلا ہوا تم کو بھیجتا ہوں۔ پڑھ کر بند کر کر ان کو دو اور ان سے ملو اور جو کچھ وہ کہیں مجھ کو لکھو۔ احتلام الدولہ بھائی فضلو میر کاظم علی بہادر کیا جانے کتاب کس کو کہتے ہیں۔ اور آگرہ کس ہتھیار کا نام اور سکندر شاہ کون سے درخت کا پھل ہے۔ میرا اردو دیوان میرٹھ کو گیا۔ سکندر شاہ لے گئے مصطفے ٰ خاں کو دے آئے۔ ڈاک میں اس کی رسید آ گئی۔ نہ برہان قاطع نہ قاطع برہان۔ کل جس وقت تمہارا خط آیا اس وقت منشی میر احمد حسین میرے پاس بیٹھے تھے اور اس وقت سالکِ مجذوب بیٹھا ہوا ہے۔ یہ دونوں صاحب تم کو اور بھائی فضلو کو سلام کہتے ہیں۔ اور بھائی فضلو سے یہ کہہ دینا کہ باتفاق رائے منشی میر احمد حسین ابباغ کی درخواست کی عرضی بے فائدہ بلکہ مضر ہے۔ تمہارا کاغذ قیمتی ایک روپیہ کا منشی جی کے پاس موجود ہے۔ وہ اس کو بیچ کر روپیہ تم کو بھجوا دیں گے۔ غالب۔
ایضاً
یوسف مرزا کیونکر تجھ کو لکھوں کہ تیرا باپ مر گیا۔ اور اگر لکھوں تو پھر آگے کیا لکھوں کہ اب کیا کرو مگر صبر۔ یہ ایک شیوہ فرسودہ ابنائے روزگار کا ہے۔ تعزیت یوں ہی کیا کرتے ہیں اور یہی کہا کرتے ہیں کہ صبر کرو۔ ہائے ایک کا کلیجہ کٹ گیا ہے اور لوگ اسے کہتے ہیں کہ تو نہ تڑپ۔ بھلا کیونکر نہ تڑپے گا۔ صلاح اس میں نہیں بتائی جاتی۔ دعا کو دخل نہیں۔ دوا کا لگاؤ نہیں۔ پہلے بیٹا مرا پھر باپ مرا۔ مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ بے سر و پا کس کو کہتے ہیں تو میں کہوں گا یوسف مرزا کو۔ تمہاری دادی لکھتی ہیں کہ رہائی کا حکم ہو چکا تھا یہ بات سچ ہے۔ اگر سچ ہے تو جوانمرد ایک بار دونوں قیدوں سے چھوٹ گیا۔ نہ قیدِ حیات رہی نہ قیدِ فرنگ۔ ہاں صاحب وہ لکھتے ہیں کہ پنشن کا روپیہ مل گیا تھا وہ تجہیز و تکفین کے کام آیا۔ یہ کیا بات ہے کہ مجرم ہو کر ۱۴ برس کو مقید ہوا اس کا پنشن کیونکر ملے گا۔ اور کس کی درخواست سے ملے گا۔ رسید کس سے لی جائے گی۔ مصطفے ٰ خاں کی رہائی کا حکم ہوا مگر پنشن ضبط۔ ہر چند اس پرسش سے کچھ حاصل نہیں لیکن بہت عجیب بات ہے تمہارے خیال میں جو کچھ آئے وہ مجھ کو لکھو۔ دوسرا امر یعنی تبدُّل مذہب عیاذاً باللہ ۔ علی کا غلام کبھی مرتد نہ ہو گا۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ حضرت چالاک اور سخن ساز اور ظریف تھے سونچے (سوچے )ہوں گے کہ ان دموں میں اپنا کام نکالو اور رہا ہو جاؤ عقیدہ کب بدلتا ہے۔ اگر یہ بھی تھا تو ان کا گمان غلط تھا۔ اس طرح رہائی ممکن نہیں۔ قصہ مختصر تمہاری دادی کا جو خط تمہارے بھائی نے مجھ کو بھیجا تھا وہ میں نے تمہارے ماموں کے پاس بھیج دیا۔ ان کی جاداد(جائیداد) کی واگذاشت کا حکم ہو تو گیا ہے اگر ان کے بڑے بھائی کے یاران کو چھوڑیں۔ دیکھیئے انجام کار کیا ہوتا ہے۔ مظفر میرزا کو دعا پہنچے۔ تمہارا خط جواب طلب نہ تھا۔ تمہارے چچا کا آغاز اچھا ہے خدا کرے انجام اسی آغاز کے مطابق ہو۔ ان کا مقدمہ دیکھ کر تمہاری پھوپھی کا اور تمہارا سر انجام دیکھا جائے گا کہ کیا ہوتا ہے۔ ہو گا کیا اگر جاداد(جائیداد) ملی بھی تو قرضدار دام لے لیں گے۔ رزّاق حقیقی پنشن دلوا دے کہ روٹی کا کام چلے۔ جناب میر قربان علی صاحب کو میرا سلام نیاز اور میر کاظم علی کو دعا۔ غالب۔ مرقومہ شنبہ ۲۷ شوال ۹ مئی سالِ حال۔
ایضاً
اے میری جان اے میری آنکھیں
؎ زہجراں طفلے کہ در خاک رفت
چہ نالی کہ پاک آمد و پاک رفت
وہ خدا کا مقبول بندہ تھا۔ وہ اچھی روح اور اچھی قسمت لے کر آیا تھا یہاں رہ کر کیا کرتا۔ ہر گز غم نہ کرو۔ اور ایسی ہی اولاد کی خوشی ہے تو ابھی تم خود بچے ہو خدا تم کو جیتا رکھے اولاد بہت۔ نانا نانی کے مرنے کا ذکر کیوں کرتے ہو وہ اپنی اجل سے مرے ہیں۔ بزرگوں کا مرنا بنی آدم کی میراث ہے۔ کیا تم یہ چاہتے تھے کہ وہ اس عہد میں ہوتے اور اپنی آبرو کھوتے۔ ہاں مظفر الدولہ کا غم منجملہ واقعات کربلائے معلیٰ ہے۔ یہ داغِ ماتم جیتے جی نہ مٹے گا۔ والد کی خدمت بجا لانے کا ہر گز افسوس نہ چاہیے کچھ ہو سکتا ہو اور نہ کیا ہو تو مستحق ملامت ہوتے کچھ ہو ہی نہ سکے نہ کیا کرو۔ اب تو یہ فکر پڑی ہوئی ہے کہ رہیئے کہاں اور کھائیے کیا۔ مولانا کا حال کچھ تم سے مجھ کو معلوم ہوا کچھ تم مجھ سے معلوم کرو۔ مرافعہ میں حکم دوام حبس بحال رہا۔ بلکہ تاکید ہوئی کہ جلد دریائے شور کی طرف روانا (روانہ) کرو۔ چنانچہ تم کو معلوم ہو جائے گا۔ ان کا بیٹا ولایت میں اپیل چاہتا ہے۔ کیا ہوتا جو ہونا تھا سو ہو لیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ناظر جی کو سلام کہنا اور کہنا کہ حال اپنا مفصل لکھ چکا ہوں۔ وہ دہلی اردو اخبار کا پرچہ اگر مل جائے تو بہت مفید مطلب ہے ورنہ خیر کچھ محل خوف و خطر نہیں ہے۔ حکام صدر ایسی باتوں پر نظر نہ کریں گے میں نے سکہ کہا نہیں اگر کہا تو اپنی جان اور حرمت بچانے کو کہا یہ گناہ نہیں اور اگر گناہ بھی ہے تو کیا ایسا سنگین ہے کہ ملکہ معظمہ کا اشتہار بھی اس کونہ مٹا سکے۔ سبحان اللہ گولہ انداز کا بارود بنانا اور توپیں لگانی اور بنک گھر اور میگزین کا لوٹنا معاف ہو جائے اور شاعر کے دو مصرعے معاف نہ ہوں۔ ہاں صاحب گولہ کا بہنوئی (گولہ انداز کا بہنوئی۔۔۔ واللہ اعلم :۔ چھوٹا غالب) مددگار ہے اور شاعر کا سالا بھی جانب دار نہیں۔ لو حضرت میر عنایت حسین صاحب کل آئے۔ میر ارتضیٰ حسین کا خط دے دیا۔ عینک لگا کر خوب پڑا (پڑھا)۔ کہہ گئے ہیں کہ اس کا جواب کل لاؤں گا۔ میں تو صبح کو یہ خط روانہ کرتا ہوں وہ آج یا کل جب خط لاویں گے اس کو جداگانہ لفافہ میں روانہ کر دوں گا۔ مظفر مرزا دیکھیئے کب تک آوے اور مجھ سے کیونکر ملے۔ ایک لطیفہ پرسوں کا سنو۔ حافظ ممّوں بے گناہ ثابت ہو چکے۔ رہائی پا چکے۔ حاکم کے سامنے حاضر ہوا کرتے ہیں۔ املاک اپنی مانگتے ہیں۔ قبض و تصرف ان کا ثابت ہو چکا ہے صرف حکم کی دیر۔ پرسوں وہ حاضر ہیں۔ مثل پیش ہوئی۔ حاکم نے پوچھا حافظ محمد بخش کون ؟۔ عرض کیا کہ میں۔ پھر پوچھا حافظ مموں کون؟۔ عرض کیا کہ میں۔ اصل نام میرا محمد بخش ہے۔ مموں مموں مشہور ہوں۔ فرمایا یہ کچھ بات نہیں۔ حافظ محمد بخش بھی تم اور حافظ مموں بھی تم۔ سارا جہان بھی تم۔ جو دنیا میں ہے وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں۔ مثل داخل دفتر ہوئی۔ میاں مموں اپنے گھر چلے آئے۔ ہاں صاحب خواجہ بخش درزی کل سہ پہر کو میرے پاس آیا میں نے جانا ایک ہاتھی کوٹھے پر چڑھ آیا۔ کہتا تھا کہ آغا صاحب کو میری بندگی لکھ بھیجنا۔ میرن صاحب آج کل پانی پت کو جایا چاہتے ہیں۔ میر کاظم علی ابن میر قلندر علی الور سے آئے ہوئے سلطان جی میں اترے ہوئے ہیں۔ دن پندرہ ایک ہوئے محمد قلی خاں میری ملاقات کو آئے تھے۔ علی جی میں رہتے ہیں۔ رضا شاہ پٹودی ہوئے ہیں۔ میر اشرف علی ابن میر اسد علی مرحوم نے رہائی پائی۔ ابھی املاک کی درخواست نہیں دی۔ ہماری بھابھی صاحبہ یعنی زوجہ میر احمد علی خاں مغفور اپنی حویلی میں چین کر رہی ہیں۔ ایک آدھ دن میں جاؤں گا۔ خدا جانے جمعہ کے دن ناظر جی کی درخواست پر کیا گزری۔ اس وقت تک ان کا کوئی خط نہیں آیا۔ دھیان لگا ہوا ہے۔ زیادہ کیا لکھوں۔
ایضاً
میری جان خدا تیرا نگہبان۔ میں نے گڑ پھنک کو دام میں پھنسایا۔ پھر قفس میں بند کر کے یہ رقعہ لکھوایا۔ میر ارتضی حسین کو فقط ان کے نام کی جو عبارت ہے وہ پڑھا دینا تاکہ ان کی خاطر جمع ہو جائے۔ مثنوی کبھی اصلاح نہ پائے گی جب تک تمام نہ ہو۔ مثنوی جب تک سب نہ لکھی ہو کیونکر اصلاح دی جائے۔ اپنے چھوٹے ماموں صاحب کو میرا سلام باعتبار محبت کے اور بندگی باعتبار سیادت کے۔ اور دعا باعتبار یگانگی اور استادی کے کہنا اور کہنا کہ بھائی اور کیا لکھوں۔ جس حکم کی نقل کے واسطے تم لکھتے ہو وہ اصل کہاں ہے جس کی نقل لوں۔ ہاں زبان زد خلق ہے کہ قدیم نوکروں سے باز پرس نہیں۔ مشاہدہ اس کے خلاف ہے۔ اے لو کئی دن ہوئے کہ حمید خاں گرفتار آیا ہے۔ پاؤں میں بیڑیاں ، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں حوالات میں ہیں۔ دیکھیئے حکم اخیر کیا ہو۔ صرف نوند رائے کی مختار کاری پر قناعت کی گئی۔ جو کچھ ہوتا ہے وہ ہو رہے گا۔ ہر شخص کی سر نوشت کے موافق حکم ہو رہے ہیں نہ کوئی قانون ہے نہ قاعدہ ہے۔ نہ نظیر کام آئے نہ تقریر پیش جائے۔ ارتضی خاں ابن مرتضی خاں کی پوری دو سو روپے کی پنشن کی منظوری کی رپورٹ گئی اور ان کی بہنیں سو سو روپیہ مہینہ پانے والیوں کو حکم ہوا کہ چونکہ تمہارے بھائی مجرم تھے تمہاری پنشن ضبط۔ بطریق ترحم دس دس روپیہ مہینا تم کو ملے گا ترحم یہ ہے تو تغافل کیا قہر ہو گا۔ میں خود موجود ہوں اور حکام صدر کا روشناس۔ پشم نہیں اکھیڑ سکتا ۵۳برس کا پنشن تقرر اس کا بہ تجویز لارڈ لیک و منظوری گورنمنٹ اور پھر نہ ملا ہے نہ ملے گا۔ خیر احتمال ہے ملنے کا۔ جانتے ہو علی کا بندہ ہوں۔ اس کی قسم کبھی جھوٹ نہیں کھاتا۔ اس وقت کلو کے پاس ایک روپیہ سات آنہ باقی ہیں۔ بعد اس کے نہ کہیں سے قرض کی امید ہے نہ کوئی جنس رہن و بیع کے قابل۔ اگر رامپور سے کچھ آیا تو خیر ورنہ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بعض لوگ یہ بھی گمان کرتے ہیں کہ اس مہینے میں پنشن کی تقسیم کا حکم آ جائے گا۔ دیکھیئے آتا ہے یا نہیں۔ اگر آتا ہے تو میں مقبولوں میں ہوں یا مردودوں میں۔ مظفر مرزا کا خط الور سے آ گیا۔ بخیر و عافیت پہنچے۔ میر قاسم علی کا قافلہ بھی وہیں ہے۔ میر قاسم علی کی بی بی الور کی تنخواہ میں سے بموجب سہام شرعیہ دو ثلث مظفر مرزا کو اور ایک ثلث اپنے کو تجویز کرتی ہے۔ ظاہراً بموجب تعلیم قاسم علی کے ہے۔ غالب۔ محررہ جمعہ ۱۳ ذی الحجہ و ۱۵ جولائی سالِ حال۔
ایضاً
میاں پرسوں قریب شام مرزا آغا جانی صاحب آئے وہ اور ان کے متعلق سب اچھی طرح ہیں۔ حسّو بیگ ہانسی گئے۔ کل تمہارا خط آیا۔ بھائی تمہیں خارش کیوں ہوئی۔ حسین مرزا صاحب کیوں بیمار ہوئے۔ خدایا ان آوارگان ِ دشت غربت کو جمعیت جب تو چاہے عنایت کر۔ مگر تصدق مرتضی علی کا تندرست رکھ۔ اللہ اللہ حسین مرزا کی ڈاڑھی سفید ہو گئی۔ یہ شدت غم و رنج کی خوبیاں ہیں۔ اس خط کے پہنچتے ہی اپنی اور ان کی خیر و عافیت لکھنا جہاں تم نے اپنے نام کا خط پڑھا وہاں کا حال یہ ہے ؎
بگفت احوالِ ما برقِ جہان است
دمے پیدا و دیگر دم نہان است
گہے بر طارمِ اعلی نشینم
گہے بر پشت پائے خود نہ بینم
ہمارے خداوند ہیں۔ ہمارے قبلہ و کعبہ ہیں خدا ان کو سلامت رکھے۔ آغا باقر کا امام باڑہ اس سے علاوہ کہ خداوند کا عزا خانہ ہے ایک بنائے قدیم رفیع مشہور۔ اس کے انہدام کا غم کس کو نہ ہو گا یہاں دو سڑکیں دوڑتی ہیں۔ ایک ٹھنڈی سڑک اور ایک آہنی سڑک۔ محل ان کا الگ الگ اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ گوروں کا بارگ(بارک ) بھی شہر میں بنے گا۔ اور قلعہ کے آگے جہاں لال ڈگی ہے ایک میدان نکالا جائے گا۔ محبوب کی دکانیں ، بہیلیوں کے گھر، فیل خانہ، بُلاقی بیگم کے کوچہ تک سوائے لال ڈگی اور دو چار کنووں کے آثار عمارت باقی نہ رہے گی۔ آج جاں نثار خاں کے چھتے کے مکان ڈھنے شروع ہو گئے ہیں۔ کیوں میں دلّی کے ویرانے سے خوش نہ ہوں۔ جب اہل شہر ہی نہ رہے۔ شہر کو لے لے کے کیا چولھے میں ڈالوں۔ حسین مرزا صاحب کو میرا سلام کہنا یہ رقعہ پڑھا دینا۔ ان کا خط موسومہ محمد قلی خان آیا۔ کلو کے ہاتھ ان کے گھر بھجوایا۔ ان کا گھر کہاں وہ تو میر احمد علی خاں مرحوم کی بی بی کے ہاں رہتے ہیں۔ وہ نہ تھے جب بھابھی صاحب کو معلوم ہوا کہ میرے دیور کا آدمی ہے۔ انہوں نے مدعا دریافت کر کے خط رکھ لیا اور کلو سے کہا کہ بھائی کو سلام کہنا کہ محمد قلی خاں علی جی گئے ہوئے ہیں۔ خط ان کے پاس بھجوا دوں گی۔ کل رضا شاہ آئے تھے میں نے ان کو کہا تھا کہ تم میر احمد علی خاں کی بی بی کو تاکید کر دینا کہ خط ضرور کاہے ان کو باحتیاط پہنچا دینا۔ صاحب تمہاری انّا کو میں کیا جانوں۔ کس پتے سے ڈھونڈھوں۔ ددّا سے میں پوچھا۔ امیر النساء کو وہ نہ سمجھی واجد علی کی ماں کر کے پہچانا۔ سو وہ کہتی تھی کہ واجد علی مع اپنی ماں کے پہاڑ گنج ہے۔ ہمشیرہ کی عرضی کے روانہ ہونے کا حال معلوم ہوا۔ تم سمجھو اگر وہ عرضی فی الحقیقت کمشنر نے بھیج دی ہے تو بے شک مدعائے سائلہ قبول کر کے بھیجی ہے۔ اگر خود یہ منظور کرتا تو کبھی نہ بھیجتا۔ باقر علی اور حسین علی اپنی دادی کے ساتھ نواب ضیاء الدین خاں کی والدہ کے پاس قطب صاحب گئے ہوئے ہیں۔ ایاز اور نیاز علی ان کے ساتھ ہیں دو بندگیاں اور ایک دعا اور دو آداب ملتوی۔ ددّا اور کلو اور کلیان کی بندگیاں پہنچیں۔ قمر الدین خاں پرسوں آیا تھا اب آئے گا تو دعا تمہاری اس کو کہہ دوں گا۔ غالب۔
ایضاً
حق تعالیٰ تمہیں دولت و اقبال و عزت دے خط محررہ دوم محرم میں کوئی مطلب جواب طلب نہ تھا۔ مرزا حیدر بیگ صاحب کی رحلت کی خبر تھی اور بس۔ کل بدھ کا دن دو مہینوں کی ۱۷ تاریخ تھی۔ صبح کے وقت مرزا آغاجانی صاحب آئے اور انہوں نے فرمایا کہ حسین مرزا کی حرم لکھنؤ سے آئی تھی۔ بی فتّن کے ہاں اتری تھی اب وہ پٹودی کو اپنے بیٹے کے پاس گئی۔ کہتی تھی کہ نصیب اعدا ناظر جی بہت بیمار ہیں۔ خدا خیر کرے۔ یوسف مرزا میری جان نکل گئی کیا کروں۔ کیونکر خبر منگاؤں ؟۔ یا علی یا علی یا علی دس بارہ بار دل میں کہا ہو گا کہ مداری کا بیٹا دوڑا ہوا آیا اور تین خط لایا۔ یعنی وہ نیچے حویلی میں تھا۔ ڈاک کے ہرکارہ نے خط لا کر دئیے۔ نیاز علی اوپر لے آیا۔ ایک خط یارِ عزیز کا اور ایک خط ہر گوپال تفتہ کا اور ایک خط ذو الفقار الدین حیدر مولوی کا۔ میاں قریب تھا کہ خوشی کے مارے مجھ کو رونا آ جائے بارے اس خط کو میں نے آنکھوں سے لگایا۔ مچھیاں لیں۔ اب تم تماشا دیکھو۱۳ محرم کا خط ۱۷ کو مجھے پہنچا۔ اس میں مندرج کے جمعہ کے دن ۱۹ کو بسبیل ڈاک کلکتے جاؤں گا۔ اور پھر حضرت مجھ سے مطلب کا جواب مانگتے ہیں۔ ہاں جب کلکتہ پہنچ لیں گے اور وہاں سے مجھ کو خط بھیجیں گے اور اپنے مسکن کا پتہ لکھیں گے تب جو کچھ مجھ کو لکھنا ہو گا لکھوں گا۔ آغا صاحب کو سب خط سنا دیا۔ اور ان کو اسی وقت کاشی ناتھ کے پاس بھیجا ہے۔ تاکہ وہ اس کو گرمائیں اور شرمائیں اور کچھ سجاد مرزا کے واسطے بھجوائیں۔ ضیاء الدین خاں دو ہفتہ سے یہاں ہیں اپنے باغ میں اترے ہوئے ہیں۔ دو بار میرے پاس بھی دو دو گھڑی کے واسطے آئے تھے کچھ ان کو منظور ہے۔ برعایت اخلاص و محبت قدیم خدا چاہے تو سجاد مرزا کو اور کلکتے سے ان کے خط آنے کے بعد کچھ ناظر جی کو ان سے بھجواؤں۔ میرا وہی حال ہے۔ بھوکا نہیں ہوں مگر کسی خدمت گزاری کی توفیق نہیں ہے۔ برے بھلے حال سے گزرے جاتی ہے۔ افسوس ہزار افسوس جو تم سے اور ناظر جی سے میرے دل کا حال ہے۔ اگر کہوں تو کون باور کرے اور وہ بات خود کہنے کی نہیں کرنے کی ہے۔ سو کرنے کا مقدور نہیں۔ تفضل حسین خان ابن غلام علی خاں میرٹھ میں اپنے ماموں صاحب کے پاس ہے شہر میں آیا تھا۔ میرے پاس بھی آیا تھا۔ تمہارا سلام کہہ دیا۔ پرسوں پھر وہ میرٹھ گیا۔ بھائی فضلو عرب سرا میں رہتے ہیں۔ پرسوں سے آئے ہوئے ہیں۔ دوڑتے پھرتے ہیں۔ عرضیاں دیتے پھرتے ہیں۔ کوئی سنتا نہیں۔ تم کو سلام کہتے ہیں۔ آمد و رفت کا ٹکٹ موقوف ہو گیا۔ فقیر اور ہتھیار جس پاس ہو وہ نہ آئے اور باقی ہندو، مسلماں ، عورت، مرد سوار، پیادہ جو چاہے چلا جائے چلا آئے۔ مگر غیر آبادی رات کو شہر میں رہنے نہ پائے۔ وہ شور و غل تھا کہ سڑکیں نکلیں گی اور گوروں کی چھاؤنی بنے گی کچھ بھی نہ ہوا۔ مَر پٹ کر ایک جاں نثار خاں کے چھتے کی سڑک نکلی ہے۔ دلی والوں نے لکھنؤ کا خاکہ اڑا رکھا ہے کہتے ہیں کہ لاکھوں مکان ڈھا دیے اور صاف میدان کر دیا۔ میں جانتا ہوں ایسا نہ ہو گا۔ بات اتنی ہی ہے ، جو تم نے لکھی ہے۔ بہرحال اب جو کچھ ہو لکھو۔ اور ناظر جی کے روانہ ہو جانے کی خبر اور سجاد اور اکبر اور ان کی ماں کی خیریت اور اپنے باپ کا حال لکھو۔ پنجشنبہ۔ ۱۸ محرم الحرام۔
ایضاً
میری جان شکوہ کرنا سیکھو۔ یہ باب میں نے تم کو ابھی پڑھایا نہیں۔ کوئی خط تمہارا نہیں آیا کہ میں نے اسی دن یا دوسرے دن جواب نہ لکھا ہو۔ بلکہ میں ایسا جانتا ہوں کہ یہ جو تم نے مجھ کو شکایت نامہ بھیجا ہے اس کے بعد ایک خط میرا بھی تم کو پہنچا ہو گا یہ خط کل آیا آج میں اس کا جواب لکھتا ہوں۔ سنو صاحب تم جانتے ہو کہ میں ۱۴ پارچہ کا خلعت ایک بار اور ملبوس خاص شال دوشالہ ایک بار پیشگاہ حضرت سلطان عالم سے پا چکا ہوں۔ مگر یہ بھی جانتے ہو کہ وہ خلعت مجھ کو دوبارہ کس ذریعہ سے ملا ہے۔ یعنی جناب قبلہ و کعبہ حضرت مجتہد العصر مد ظلہ العالی۔ اب آدمیت اس کی مقتضی نہیں ہے کہ میں بے ان کے توسط کے مدح گستری کا قصد کروں۔ چنانچہ قصیدہ لکھ کر اور جیسا کہ میرا دستور ہے کاغذ کو بنوا کر حضرت پیرو مرشد کی خدمت میں بھیج دیا ہے یقین ہے کہ حضرت نے وہاں بھیج دیا ہو گا۔ اور میں تم کو بھی لکھ چکا ہوں کہ میں نے قصیدہ لکھنؤ کو بھیج دیا ہے۔ اسی خط میں یہ بھی تم کو لکھا ہے کہ حضرت زبدۃ العلما سید نقی صاحب اگر کلکتے پہنچ گئے ہوں تو مجھ کو اطلاع دو۔ داروغگی املاک کے باب میں جو مناسب اور معقول اور واقعی ہے تو میں بے پردہ عالی شان مظفر حسین خان کے خط میں لکھتا ہوں۔ یہ ورق پڑھ کر ان کی خدمت میں گزران دو اور جو وہ ارشاد کریں مجھ کو لکھو۔ تمہارے اس خط کے مطالب مندرجہ کا جواب ہو چکا۔ اس سے زیادہ میرے پاس کوئی بات اس وقت لکھنے کو نہیں ہے مگر یہ کہ ایک خط تمہارے ماموں صاحب کے نام کا بھیج چکا ہوں اگر وہ پہنچے گا اور خدا کرے پہنچے تو اس سے تم کو ایک حال معلوم ہو گا۔ غالب۔ شنبہ ۵ نومبر ۱۸۵۹ء۔
ایضاً
یوسف مرزا میرا حال سوائے میرے خدا اور خداوند کے کوئی نہیں جانتا۔ آدمی کثرت غم سے سودائی ہو جاتے ہیں۔ عقل جاتی رہتی ہے۔ اگر اس ہجوم غم میں میری قوت متفکرہ میں فرق آ گیا ہو تو کیا عجب بلکہ اس کا باور نہ کرنا غضب ہے۔ پوچھو کہ غم کیا ہے ؟ غمِ مرگ، غمِ فراق، غمِ رزق، غمِ عزت۔ غمِ مرگ میں قلعہ نا مبارک سے قطع نظر کر کے اہل شہر کو گنتا ہوں۔ مظفر الدولہ میر ناصر الدین مرزا عاشور بیگ میرا بھانجا۔ اس کا بیٹا احمد مرزا انیس برس کا بچہ۔ مصطفی خاں ابن اعظم الدولہ اس کے دو بیٹے۔ ارتضی خاں اور مرتضی خاں۔ قاضی فیض اللہ ۔ کیا میں ان کو اپنے عزیزوں کے برابر نہیں جانتا تھا اے لو بھول گیا۔ حکیم رضی الدین خاں ، میر احمد حسین میکش اللہ اللہ ان کو کہاں سے لاؤں۔ غمِ فراق ِ حسین مرزا، یوسف مرزا، میر مہدی، میر سرفراز حسین، میرن صاحب خدا ان کو جیتا رکھے کاش یہ ہوتا کہ جہاں ہوتے وہاں خوش ہوتے۔ گھر ان کے بے چراغ وہ خود آوارہ۔ سجاد اور اکبر کے حال کو جب تصور کرتا ہوں کلیجا ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے۔ کہنے کو ہر کوئی ایسا کہہ سکتا ہے مگر میں علی کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ ان اموات کے غم میں اور زندوں کے فراق میں عالم میری نظر میں تیرہ و تار ہے۔ حقیقی میرا ایک بھائی دیوانہ مر گیا۔ اس کی بیٹی اس کے چار بچے ، اس کی ماں یعنی میری بھاوج جے پور میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس تین برس میں ایک روپیہ ان کو نہیں بھیجا۔ بھتیجی کیا کہتی ہو گی کہ میرا بھی کوئی چچا ہے۔ یہاں اغنیا اور امرا کے ازواج و اولاد بھیک مانگتے پھریں اور میں دیکھوں۔ بس مصیبت کی تاب لانے کو جگر چاہیے۔ اب خاص اپنا دکھ روتا ہوں۔ ایک بیوی دو بچے تین چار آدمی گھر کے۔ کلو کلیاں ایاز یہ باہر مداری کے جورو بچے بدستور گویا مداری موجود ہے۔ میاں گھمن گئے گئے مہینا بھر سے آ گئے کہ بھوکا مرتا ہوں۔ اچھا بھائی تم بھی رہو۔ ایک پیسے کی آمد نہیں۔ بیس آدمی روٹی کھانے والے موجود۔ مقام معلوم سے کچھ آئے جاتا ہے وہ بقدر سدّ رمق ہے۔ محنت وہ ہے کہ دن رات میں فرصت کام سے کم ہوتی ہے۔ ہمیشہ ایک فکر برابر چلی جاتی ہے۔ آدمی ہوں دیو نہیں بھوت نہیں۔ ان رنجوں کا تحمل کیونکر کروں۔ بڑھاپا، ضعف قویٰ۔ اب مجھے دیکھو تو جانو کہ میرا کیا رنگ ہے۔ شاید کوئی دو چار گھڑی بیٹھتا ہوں ورنہ پڑا رہتا ہوں۔ گویا صاحب فراش ہوں نہ کہیں جانے کا ٹھکانا نہ کوئی میرے پاس آنے والا۔ وہ عرق بقدر ِ طاقت بنائے رکھتا تھا اب میسر نہیں۔ سب سے بڑھ کر آمد آمد گورنمنٹ کا ہنگامہ ہے۔ دربار میں جاتا تھا۔ خلعتِ فاخرہ پاتا تھا۔ وہ صورت اب نظر نہیں آتی۔ نہ مقبول ہوں نہ مردود ہوں نہ بے گناہ ہوں نہ گناہ گار ہوں ، نہ مخبر نہ مفسد۔ بھلا اب تم ہی کہو۔ اگر یہاں دربار ہوا اور میں بلایا جاؤں تو نذر کہاں سے لاؤں۔ دو مہینے دن رات خونِ جگر کھایا اور ایک قصیدہ چونسٹھ بیت کا لکھا۔ محمد افضل مصور کو دے دیا وہ پہلی دسمبر کو مجھ کو دے گا یہ اس کا مطلع ہے ؎
زسال دگر آبے بروئے کار آمد
ہزار و ہشت صد و شصت در شمار آمد
اس میں التزام اپنی تمام سرگزشت کے لکھنے کا کیا ہے اس کی نقل تم کو بھیجوں گا۔ میر آقا زادہ روشن گہر جناب مفتی میر عباس صاحب کو دکھانا اس بجھے ہوئے بلکہ مرے ہوئے دل پر کلام کا یہ اسلوب ہے۔ جہاں پناہ کی مدح کی فکر نہ کر سکا۔ یہ قصیدہ ممدوح کی نظر سے گزرا نہ تھا۔ میں نے اسی میں امجد علی شاہ کی جگہ واجد علی شاہ بٹھا دیا۔ خدا نے بھی تو یہی کہا تھا انوری نے بارہا ایسا کیا ہے کہ ایک کا قصیدہ دوسرے کے نام پر کر دیا۔ میں نے باپ کا قصیدہ بیٹے کے نام کر دیا تو کیا غضب ہوا۔ اور پھر کیسی حالت اور کیسی مصیبت میں کہ جس کا ذکر بطریق اختصار اوپر لکھ آیا ہوں۔ اس قصیدہ سے مجھ کو غرض دستگاہ سخن منظور نہیں۔ گدائی منظور ہے بہرحال یہ تو کہو قصیدہ پہنچا یا نہیں پہنچا۔ پرسوں تمہارے ماموں کا خط آیا۔ وہ قصیدہ کا پہنچنا لکھتے ہیں۔ کل تمہارا خط آیا اس میں قصیدہ کے پہنچنے کا ذکر نہیں۔ اس تفرقہ کو مٹاؤ اور صاف لکھو کہ قصیدہ پہنچایا نہیں ؟ اگر پہنچا تو حضور میں گزرا یا نہیں ؟ اگر گزرا تو کس کی معرفت گزرا اور کیا حکم ہوا ؟ یہ امور جلد لکھو اور ہاں یہ بھی لکھو کہ املاک واقع شہر دہلی کے باب میں کیا حکم ہوا۔ میں تم کو اطلاع دیتا ہوں کہ کل میں نے فہرست دیہات و باغات و املاک مع حاصل ہر ایک باغ و دِہ و مِلک ناظر جی کو بھیج دی ہے۔ اس خط سے ایک دن پہلے وہ فرد پہنچے گی۔ یہ فرد کلکٹری کے دفتر سے لی ہے مگر اتنا معلوم ہے کہ شہر کی عمارت جو سڑک میں نہیں آئی اور برسات میں ڈھ نہیں گئی وہ سب خالی پڑی ہے کرایہ دار کا نام نہیں۔ مجھ کو یہاں کی املاک کا علاقہ حسین مرزا صاحب کے واسطے مطلوب ہے میں تو پنشن کے باب میں حکم اخیر سن لوں پھر رامپور چلا جاؤں گا۔ جمادی الاولسے ذی الحجہ تک ۸ مہینے اور پھر محرم سے ۱۲۷۷ ھ سال شروع ہو گا۔ اس سال کے دو چار دس گیارہ مہینے غرضکہ انیس بیس مہینے ہر طرح بسر کرنے ہیں۔ ہمیں رنج و راحت و ذلت و عزت جو مقسوم میں ہے وہ پہنچ جائے اور پھر علی علی کہتا ہوا ملک عدم کو چلا جاؤں۔ جسم رامپور میں اور روح عالم نور میں۔ یا علی، یا علی، یا علی۔ میاں ہم تمہیں ایک اور خبر لکھتے ہیں ، برہما کا پتر دو دن بیمار پڑا۔ تیسرے دن مر گیا ہے ہے کیا نیک بخت لڑکا تھا باپ اس کا شیو جی رام اس کے غم میں مردہ سے بدتر ہے۔ یہ دو مصاحب میرے یوں گئے ایک مردہ دل افسردہ کون ہے جس کو تمہارا سلام کہوں ؟یہ خط اپنے ماموں صاحب کو پڑھا دینا اور یہ فرد ان سے لے کر پڑھ لینا اور جس طرح ان کی رائے میں آئے اس پر حصول مطلب کی بنا اٹھا نا اور ان سب مدارج کا جواب شتاب لکھنا۔ ضیاء الدین خاں رہتک چلے گئے اور وہ کام نہ کر گئے دیکھیئے آ کر کیا کہتے ہیں یا رات کو آ گئے ہوں یا شام تک آ جائیں۔ کیا کروں کس کے دل میں اپنا دل ڈالوں۔ بمرتضی علی پہلے سے نیت میں یہ ہے کہ جو شاہِ اودھ سے ہاتھ آئے حصہ برادرانہ کروں۔ نصف حسین مرزا اور تم اور سجاد۔ نصف میں مفلسوں کا مدار حیات خیالات پر ہے۔ مگر اُسی خیالات سے ان کا حسنِ طبیعت معلوم ہو جاتا ہے۔ والسلامخیر ختام۔ دو شنبہ۔ دوم جمادی الاول ۱۲۷۶ ہجری۔ مطابق ۲۸ نومبر ۱۸۵۹ ء وقت صبح۔
ایضاً
میاں صبح کو تمہارے نام کا خط روانہ کیا۔ شام کو تمہارا ایک خط اور آیا۔ حضرت زبدۃ العلما کا اب تک وہاں نہ پہنچنا تعجب کی بات ہے۔ حق تعالیٰ ان کو جہاں رہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ جب چاہیں وہاں پہنچیں میرا مقصود تو اتنا ہی ہے کہ قصیدہ گزرے اور کچھ ہمارے تمہارے ہاتھ آئے لیکن کل کے خط کی پشت جو سطریں ناظر جی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں۔ اس کے دیکھنے سے آس ٹوٹ گئی۔ کچھ ہاتھ آتا نظر نہیں آتا۔ املاک واقع شہر دہلی کے سوال کا جواب اب کی بار قلم انداز ہوا۔ مکرر اگر کہا جائے گا تو بے شک یہ جواب آئے گا کہ ہم نے تو عوض ان مکانات کے یہ مکانات دیے معاوضہ ہو گیا۔ بھائی میں پہلے ہی جانتا تھا کہ یہ املاک قتل ہوئی اور وہ سوا لاکھ روپیہ جو علاوہ زر مقررہ ملا ہے وہ دلّی کی املاک کا خون بہا ہے۔ پرسوں ناظر جی کے نام کے سر نامے میں فرد فہرست مجموع املاک بھیج چکا ہوں۔ خیر یہ وار بھی خالی گیا۔ مولانا غالب علیہ الرحمۃ خوب فرماتے ہیں ؎
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے
تمہارے ماموں صاحب کی دستخطی تحریر نے جو میرا حال کیا ہے وہ کس زبان سے ادا کروں۔ ہے ہے حسین مرزا اور یہ کہے کہ میں کہاں جاؤں اور کیا کروں۔ اور مجھ کمبخت سے اس کا جواب سر انجام نہ ہو سکے۔ بہت بڑا آسرا تھا اور سرکار کی خدمت نہ سہی۔ عہدہ نہ سہی علاقہ نہ سہی۔ سو ڈیڑہ(ڈیڑھ)سو روپیہ دو ماہہ مقرر ہو جانا کیا مشکل تھا۔ دلّی کے آدمی خصوصاً امرائے شاہی ہر شہر میں بدنام اتنے ہیں کہ لوگ ان کے ساتھ بھاگتے ہیں۔ مرشد آباد بھی ایک سرکار تھی۔ حیدر آباد بہت بڑا گھر ہے مگر بے ذریعہ و واسطہ کیونکر جائے اور جائے تو کس سے ملے کیا کہے ناچار وہیں رہو۔ کسی طرح شاہِ اودھ کا سامنا ہو جائے اور میں کہاں کی صلاح بتاؤں وہ صاحب رہتک گئے ہیں۔ کل یقین ہے کہ آ گئے ہوں گے۔ مجھے ابھی خبر نہیں آئی۔ اگر مشیت ِ الٰہی میں ہے تو دسمبر مہینے میں کچھ ظہور میں آ جائے گا۔ نواب گورنر جنرل بہادر یقین ہے کہ آج آگرہ میں رونق افروز ہو گئے۔ الور، جے پور، دھولپور، گوالیار، ٹونک، جاورہ۔ چھ رئیسوں کی وہاں ملازمت کی خبر ہے۔ خیر ہم کو کیا۔ لیث الدولہ حسین علی خاں بہادر کی خدمت میں میرا سلام نیاز اور شکر یاد آوری۔ مرقومہ صبح سہ شنبہ ۲۹ نومبر ۳ جمادی الاولی بحساب جنتری۔
ایضاً
میاں تمہارا خط رامپور پہنچا اور رام پور سے دلّی آیا۔ میں ۲۳ شعبان کو رامپور سے چلا اور ۳۰ شعبان کو دلّی پہنچا۔ اسی دن چاند ہوا۔ یکشنبہ رمضان کی پہلی آج دو شنبہ ۹ رمضان کی ہے۔ سو نواں دن یہاں آئے ہوئے ہے۔ میں نے حسین مرزا کو رامپور سے لکھا تھا ک یوسف مرزا کو میرے آنے تک الور نہ جانے دینا۔ ان کی زبانی معلوم ہواکہ وہ میرا خط ان کو تمہاری روانگی کے بعد پہنچا۔ تم جو مجھ کو اپنے ماموں کے مقدمہ میں لکھتے ہو۔ کیا مجھ کو ان کے حال سے غافل اور ان کی فکر سے فارغ جانتے ہو۔ کچھ بنا ڈال آیا ہوں۔ اگر خدا چاہے تو کوئی صورت نکل آئے۔ اب تم کہو کہ کب تک آؤ گے۔ صرف تمہارے دیکھنے کو نہیں کہتا۔ شاید تمہارے آنے پر کچھ کام بھی کیا جائے۔ مظفر مرزا کا اور ہمشیرہ صاحبہ کا آنا تو کچھ ضرور نہیں شاید آگے بڑھ کر کچھ حاجت پڑے۔ بہرحال جو ہو گا وہ سمجھ لیا جائے گا۔ تم چلے آؤ ہمشیرہ عزیزہ کو میری دعا کہہ دینا۔ مظفر مرزا کو دعا پہنچے۔ بھائی تمہارا خط رامپور پہنچا۔ ادھر کے چلنے کی فکر میں جواب نہ لکھ سکا۔ بخشی صاحبوں کا حال یہ ہے کہ آغا سلطان پنجاب کو گئے۔ جگراؤں میں منشی رجب علی کے مہمان ہیں۔ صفدر سلطان اور یوسف سلطانوہاں ہیں۔ نواب مہدی علی خاں بقدر قلیل بلکہ اقّل کچھ ان کی خبر لیتے ہیں۔ میر جلال الدین خوشنویس اور وہ دونو(دونوں )بھائی باہم رہتے ہیں۔ میں وہیں تھا کہ صفدر سلطان دلّی کو آئے تھے۔ اب جو میں یہاں آیا تو سنا کہ وہ میرٹھ گئے۔ خدا جانے رامپور جائیں یا کسی اور طرف کا قصد کریں۔ تباہی ہے۔ قہر الہی ہے۔ مجھ کو لڑکوں نے بہت تنگ کیا ورنہ چند روز اور رامپور میں رہتا۔ زیادہ کیا لکھوں۔ راقم غالب۔ مرقومہ دو شنبہ ۹ رمضان و ۲ اپریل۔
٭٭٭
بنام منشی شیو نراین صاحب
صاحب خط پہنچا۔ اخبار کا لفافہ پہنچا۔ لفافوں کی خبر پہنچی۔ آپ نے کیوں تکلیف کی۔ لفافے بنانا دل کا بہلانا ہے۔ بے کار آدمی کیا کرے۔ بہرحال جب لفافے پہنچ جائیں گے ہم آپ کا شکریہ بجا لائیں گے ؎ ہر چہ از دوست میرسد نیکوست۔ یہاں آدمی کہاں ہے کہ اخبار کا خریدار ہو۔ مہاجن لوگ جو یہاں بستے ہیں وہ یہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ گیہوں کہاں سستے ہیں۔ بہت سخی ہوں گے تو جنس پوری تول دیں گے۔ کاغذ روپیہ مہینہ کا کیوں مول لیں گے۔ کل آپ کا خط آیا رات بھر میں نے فکر شعر میں خون جگر کھایا۔ ۶۱ شعر کا قصیدہ کہہ کر تمہارا حکم بجا لایا۔ میرے دوست خصوصاً میرزا تفتہ جانتے ہیں کہ میں فنِ تاریخ کو نہیں جانتا۔ اس قصیدہ میں ایک روش خاص سے اظہار ۱۸۵۸ کا کر دیا ہے۔ خدا کرے تمہاری پسند آوے تم خود قدر دانِ سخن ہو اور تیناستاد اس فن کے تمہارے یار ہیں۔ میری محنت کی داد مل جائے گی
قصیدہ
ملاذِ کشور و لشکر، پناہِ شہر و سپاہ
جنابِ عالی ایلن برون والا جاہ
بلند رتبہ وہ حاکم وہ سرفراز امیر
کہ، باج تاج سے لیتا ہے ، جس کا طرفِ کلاہ
وہ محض رحمت و رافت، کہ بہرِ اہلِ جہاں
نیابتِ دمِ عیسیٰ کرے ہے ، جس کی نگاہ
وہ عین عدل کہ دہشت سے جس کی پرسش کی
بنے ہے ، شعلۂ آتش، انیسِ پَرّۂ کاہ
زمیں سے سودۂ گوہر اٹھے ، بجائے غبار
جہاں ہو توسنِ حشمت کا اس کے جولاں گاہ
وہ مہرباں ہو تو انجم کہیں الٰہی شکر
وہ خشمگیں ہو تو گردوں کہے خدا کی پناہ
یہ اس کے عدل سے اضداد کو ہے آمیزش
کہ دشت و کوہ کے اطراف میں ، بہر سرِ راہ
ہزبر، پنجے سے لیتا ہے کام شانے کا
کبھی جو، ہوتی ہے الجھی ہوئی، دُمِ رو باہ
نہ آفتاب، ولے آفتاب کا ہم چشم
نہ بادشاہ، ولے مرتبہ میں ہمسرِ شاہ
خدا نے اوس(اُس) کو دیا ایک خوبرو فرزند
ستارہ جیسے چمکتا ہوا بہ پہلوئے ماہ
زہے ستارۂ روشن کہ جو اسے دیکھے
شعاعِ مہرِ درخشاں ہو، اس کا تارِ نگاہ
خدا سے ہے یہ توقع کہ عہدِ طفلی میں
بنے گا شرق سے تا غرب اس کا بازی گاہ
جوان ہوکے کرے گا یہ وہ جہانبانی
کہ تابع اس کے ہوں روز و شب سپید و سیاہ
کہے گی خلق اسے داورِ سپہر شکُوہ
لکھیں گے لوگ اسے خسرو ستارہ سپاہ
عطا کرے گا خداوندِ کارساز اسے
روانِ روشن و خوئے خوش و دلِ آگاہ
ملے گی اس کو وہ عقلِ نہفتہ داں کہ اسے
پڑے نہ، قطعِ خصومت میں ، احتیاجِ گواہ
یہ ترکتاز سے ، برہم کرے گا کشورِ روس
یہ لے گا، بادشہِ چیں سے چھین، تخت و کلاہ
سنینِ عیسوی اٹھارہ سو اور اٹھاون
یہ چاہتے ہیں جہاں آفریں سے ، شام و پگاہ
یہ جتنے سینکڑے ہیں سب ہزار ہو جاویں
دراز اس کی ہو عمر اس قدر، سخن کوتاہ
امید وارِ عنایات شیو ناراین
کہ آپ کا ہے نمک خوار اور دولت خواہ
یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں عزّ و جاہ کے ساتھ
تمہیں اور اس کو سلامت رکھے سدا، اللہ
(۱:۔ میں “ایلن برون” کی بجائے ایمن برون لکھا تھا۔ ۲:۔ شعاعِ مہرِ درخشاں ہو، اس کا تارِ نگاہ۔ میں “اس کا”کی بجائے “جس کا” لکھا تھا۔۔ یہ دونوں کتابت کی غلطیاں ہیں : چھوٹا غالب)
ایضاً
شفیق میرے مکرم میرے منشی شیو نراین صاحب تم ہزاروں برس سلامت رہو۔ تمہارا مہربانی نامہ اس وقت پہنچا اور میں نے اسی وقت جواب لکھا۔ بات یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ دو جزو یا چار جزو کی ہو۔ چھ جزو سے کتاب کم نہ ہو۔ مسطر دس گیارہ سطر ہو مگر حاشیہ تین طرف بڑا رہے۔ شیرازہ کی طرف کا کم ہو۔ یہ باتیں سب تفتہ کو لکھ چکا ہوں۔ اس یار بے پروا نے تم سے شاید کچھ نہیں کہا اس کے سوا یہ ہے کہ کاپی کی تصحیح ہو۔ غلط نامہ کی حاجت نہ پڑے۔ آپ خود متوجہ رہیئے گا اور منشی نبی بخش صاحب کو اگر کہیئے گا تو وہ بھی شریک رہیں گے اور مرز اتفتہ تو مالک ہی ہیں۔ کاغذ شیو رام پور ی ہو خیر مگر سفیدو مہرہ کیا ہوا اور لعاب دار ہو۔ پھر یہ ہو کہ حاشیہ پر جو لغات کے معنی لکھے جائیں تو اس کی طرز تحریر اور تقسیم دل پسند اور نظر فریب ہو۔ حاشیہ کا قلم بہ نسبت متن کی قلم کے خفی ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان جلدوں میں سے دو جلدیں ولایت کو جائیں گی۔ ایک جناب فیض مآب ملکہ معظمہ انگلستانکی نذر اور ایک میرے آقائے قدیم لارڈ الن برا بہادر کی نذر۔ اور چار جلدیں یہاں کے چار حاکموں کی نذر کروں گا۔ میرزا تفتہ کو پانچ جلدوں کو لکھا تھا لیکن اب چھ جلدیں تیار کر دیجئے گا۔ یعنی شیرازہ اور جلد اور جدول اور ان چھ جلدوں کی جو لاگت پڑی روپیہ جلد سے لے کر دو روپیہ جلد تک وہ مجھ سے منگوا بھیجئے گا۔ میں بمجرد طلب کے فوراً ہنڈوی بھیج دوں گا۔ ایک خریدارپچاس جلد کے واسطے وہاں پہنچے ہیں واسطے خدا کے مرزا تفتہ سے کہیئے کہ ان سے ملیں یعنی راجہ امید سنگہ (سنگھ)بہادر اندور والے وہ چہلی اینٹ میں پولس کے پچھواڑے رہتے ہیں۔ تعجب ہے کہ آپ کا خط آ گیا۔ اور میرزا تفتہ نے مجھے پارسل کی رسید نہیں لکھی۔ اب میرا خط فارسی اپنے نام کا اور یہ خط دونوں خط ان کو دکھا دیجیئے گا اور راجہ امید سنگہ(سنگھ) سے ملنے کو کہیئے گا۔ اور ہاں صاحب یہ ان کو تاکید کیجیئے گا کہ وہ رباعی جو میں نے لکھ بھیجی ہے اس کو سب سے پہلے جہاں اس کا نشان دیا ہے اسی فقرے کے آگے ضرور ضرور اور وہ رباعی بیسویں صفحہ میں اس فقرے کے آگے ہے۔ نے نے اختر بخت خسرو در بلندی بجائے رسید کہ رخ از خاکیاں نہفت۔ تم ان کو یاد دلا کران سے لکھوا لینا ضرور ضرور۔ یہ جو تم نے لکھا کہ صاحب نے سن کر اس کو پسند کیا میں حیران ہوں کہ کونسا مقام تم نے پڑھا ہو گا۔ کیونکر کہوں کہ صاحب اس عبارت کو سمجھتے ہوں گے۔ اس کی جو حقیقت ہو مفصل لکھو۔ زیادہ زیادہ۔ راقم اسد اللہ ۔ سہ شنبہ۔ ۳۱۔ ماہ اگست ۱۸۵۸ ء۔ ضروری جواب طلب۔
ایضاً
مہاراج سخت حیرت میں ہوں کہ منشی ہر گوپال صاحب نے مجھ کو خط لکھنا کیوں چھوڑا۔ اگر مجھ سے خفا ہیں تو کیوں خفا ہیں۔ اور اگر شہر میں نہیں تو کہاں گئے اور کیوں گئے ہیں اور کب تک آئیں گے آپ مہربانی فرما کر یہ امور مجھ کو لکھ بھیجئے۔ اس سے علاوہ ایک رباعی مرزا تفتہ کو بھیجی ہے اور ان کو لکھا ہے کہ اس کو دستنبو میں فلاں جگہ درج کر دینا اور ایک دو فقرے بھائی منشی نبی بخش کو لکھے ہیں اور ان کو بھی دستنبو میں لکھنے کا محل بتا دیا ہے۔ میں نہیں جانتا ان دونوں صاحبوں نے میرے کہنے پر عمل کیا اور انہوں نے نظم کو اور انہوں نے نثر کو کتاب کے حاشیہ پر چڑھا دیا یا نہیں۔ تم سے بہزار آرزو خواہش کرتا ہوں کہ اگر وہ رباعی اور وہ فقرے حاشیہ پر چڑھ گئے ہیں تو مجھ کو ان کے لکھے جانے کی اطلاع دیجیئے کہ تشویش رفع ہو اور اگر ان دونوں صاحبوں نے بے پروائی کی ہے تو واسطے خدا کے آپ مرزا تفتہ سے رباعی اور منشی نبی بخش صاحب سے دونوں فقرے لے لیجیئے اور محل تحریر میرے خط سے معلوم کر کے ان کو جا بجا حاشیہ پر رقم کیجیئے اور مجھ کو اطلاع دیجیئے ضرور ضرور۔ اور ایک اور کام آپ کو کرنا چاہیے کہ شاید تیسرے صفحے کے آخر میں یا چوتھے صفحہ کے اول میں یہ فقرہ ہے اگر دردم دیگر نہیب مباش بہم بردند۔ نہیب کا لفظ عربی ہے یہ سہو سے لکھا گیا ہے اس کو چھیل ڈالیے گا اور اس کی جگہ نوائے مباش بنا دیجیئے گا۔ حقیقت لکھ کر اب سوالات الگ الگ لکھتا ہوں۔ پہلا سوال میرزا تفتہ کا حال اور انکے خط نہ آنے کی وجہ لکھیئے۔ دوسرا سوال میرزا تفتہ نے اگر رباعی دستنبو کے حاشیہ پر لکھ دی ہے تو اس کی اطلاع ورنہ ان کے نام کے خط سے رباعی اور تحریر کا حال معلوم کر کے آپ حاشیہ پر لکھ دیں۔ اور مجھ کو اطلاع دیں۔ تیسرا سوال منشی نبی بخش صاحب نے اگر میری بھیجی ہوئی نثر درج کر دی ہے تو اس کی اطلاع ورنہ اس نثر سے لے کر اور محل معلوم کر کے حاشیہ کتاب پر لکھ دیجیئے اور مجھ کو لکھ بھیجئے۔ چوتھا سوالاب جس طرح لکھ آیا ہوں نہیب کی جگہ نوا کا لفظ بنا کر مجھ کو عنایت کیجیئے۔ پانچواں سوال۔ خریدار پچاس جلدوں کے پہنچے۔ میرزا تفتہ سے ملے روپیہ پچاس جلد کی قیمت کا دیا یا ہنوز یہ امور وقوع میں آئے اس کی اطلاع ضرور دیجیئے۔ چھٹا سوال۔ چھاپا شروع ہو گیا یا نہیں۔ اگر شروع نہیں ہوا تو کیا سبب۔ متوقع ہوں کہ میرے یہ سب کام از راہ عنایت بنا کر ان چھ سوال کا جواب اسی طرح جدا جدا لکھیئے اور ضرور لکھیئے اور جلد لکھیئے۔ راقم اسد اللہ خاں۔ روز جمعہ۔ سوم ستمبر ۱۸۵۸ء۔
ایضاً
نورِ بصر، لخت جگر منشی شیو نراین کو دعا پہنچے۔ خط اور رپورٹ کا لفافہ پہنچا۔ اور سب حال تمہارے خاندان کا دریافت ہوا۔ سب میرے جگر کے ٹکڑے ہیں تم اپنے دودمان کے چشم و چراغ ہو العلمہ طاقۃ شوق سے لکھو آخر کے صفحہ کی دو سطریں ازروئے مضمون سراسر کتاب کے مضمون کے خلاف ہیں۔ میں نے سرکار کی فتح کا حال نہیں لکھا صرف اپنی پندرہ مہینے کی سرگزشت لکھی ہے۔ تقریباً شہر و سپاہ بھی ذکر آیا ہے اور وہ اپنی سرگزشت جو میں نے لکھی ہے سو ابتدا۱۱ مئی ۱۸۵۷ ء سے ۳۱ جولائی ۱۸۵۸ ء تک لکھی ہے۔۔ شہر ستمبر میں فتح ہوا اس کا بیان ضمناً آ گیا۔ خوب ہوا جو تم نے مجھ سے پوچھا ورنہ بڑی قباحت ہوتی۔ اب میں جس طرح سے کہوں سو کرو۔ پہلے سونچو (سوچو)کہ تقسیم یوں ہے تین سطریں اوپر اور تین سطریں نیچے اور بیچ میں ایک سطر اس میں کتاب کا نام۔ کیوں میاں تقسیم یوں ہی ہے اب میں دوسرے صفحہ پر ساتویں سطر لکھ دیتا ہوں اس کو ملاحظہ کرو اور میرا کہا مانو ورنہ کتاب کی حقیقت غلط ہو جائے گی اور مطبع پر بات آئے گی۔ اس صفحہ میں دو ایک باتیں اور سمجھا دوں کہ وہ ضروری ہیں۔ سنو میری جان نوابی کا مجھ کو خطاب ہے۔ نجم الدولہ اور اطراف و جوانب کے امرا سب مجھ کو نواب لکھتے ہیں۔ بلکہ بعض انگریز بھی۔ چنانچہ صاحب کمشنر بہادر دہلی نے جو ان دنوں ایک روبکاری بھیجی ہے تو لفافہ پر اسد اللہ خاں لکھا لیکن یہ یاد رہے نواب کے لفظ کے ساتھ میرزا یا میر نہیں لکھتے۔ یہ خلاف دستور ہے یا نواب اسد اللہ خاں لکھو یا میرزا اسد اللہ خاں لکھو اور بہادر کا لفظ تو دونوں حال میں واجب اور لازم ہے۔
ایضاً
برخوردار نور چشم منشی شیو نراین کو معلوم ہو کہ میں کیا جانتا تھا کہ تم کون ہو جب یہ جانا کہ تم ناظر بنسی دھر کے پوتے ہو تو معلوم ہوا کہ میرے فرزند دلبند ہو۔ اب تم کو مشفق و مکرم لکھوں تو گنہگار۔ تم کو ہمارے خاندان اور اپنے خاندان کی آمیزش کا حال کیا معلوم ہے ؟ مجھ سے سنو۔ تمہارے دادا کی والدہ عہد نجف خانو ہمدانی میں میرے نانا صاحب مرحوم خواجہ غلام حسین خاں کے رفیق تھے۔ جب میرے نانا نے نوکری ترک کی اور گھر بیٹھے تو تمہارے پردادا نے بھی کمر کھولی اور پھر کہیں نوکری نہ کی۔ یہ باتیں میرے ہوش سے پہلے کی ہیں۔ مگر جب میں جوان ہوا تو میں نے یہ دیکھا کہ منشی بنسی دھر خان صاحب کے ساتھ ہیں اور انہوں نے جو کیٹھم گانوں (گاؤں )اپنی جاگیر کا سرکار میں دعویٰ کیا تو منشی بنسی دھر اس امر کے منصرم ہیں اور وکالت اور مختاری کرتے ہیں اور وہ ہم عمر تھے۔ شاید بنسی دھر مجھ سے ایک دو برس بڑے ہوں یا چھوٹے ہوں۔ انیس بیس برس کی میری عمر اور ایسی ہی عمر ان کی۔ باہم شطرنج اور اختلاط اور محبت آدھی آدھی رات گزر جاتی ہے چونکہ گھر ان کا بہت دور تھا اس واسطے جب چاہتے تھے چلے جاتے تھے بس ہمارے اور ان کے مکان میں مچھیا رنڈی کا گھر اور ہمارے دو کٹڑے درمیان میں تھے۔ ہماری بڑی حویلی وہ ہے جو اب لکھمی چند نے مول لی ہے اسی کے دروازہ کی سنگین بارہ دری پر میری نشست تھی۔ اور پاس اس کے ایک کٹھیا والی حویلی اور سلیم شاہ کے تکیہ کے پاس دوسری حویلی اور کالے محل سے لگی ہوئی ایک اور حویلی اور اس سے آگے بڑھ کر ایک کٹڑہ کہ وہ گڈریوں والا مشہور تھا اور ایک کٹڑہ کہ وہ کشمیرن والا کہلاتا تھا اس کٹڑے کے ایک کوٹھے پر میں پتنگ اڑا رہا تھا اور راجہ بلوان سنگہ (سنگھ)سے پتنگ لڑا کرتے تھے واصل خاں نامی ایک سپاہی تمہارے دادا کا پیش دست رہتا تھا اور وہ کٹروں کا کرایہ اوگا کر ان کے پاس جمع کرواتا تھا۔ سنو تو سہی تمہارا دادا بہت کچھ پیدا کر گیا ہے۔ علاقے مول لیے تھے اور زمیندارا اپنا کر لیا تھا۔ دس بارہ ہزار روپے کی سرکار کی مالگزاری کرتا تھا۔ آیا وہ سب کارخانے تمہارے ہاتھ آئے یا نہیں۔ اس کا حال ازروئے تفصیل جلد مجھ کو لکھو۔ اسداللہ روز شنبہ۔ ۱۹ اکتوبر وقت ورود خط۔
ایضاً
برخوردار اقبال نشان منشی شیو نراین کو بعد دعا کے معلوم ہو، تمہارے دو خط متواتر پہنچے۔ میرے بھی دو خط پس و پیش پہنچے ہو ں گے موافق اس تحریر کے عمل کیا ہو گا۔ دو جلدیں پر تکلف اور پانچ جلدیں بہ نسبت اس کے کم تکلف مرزا حاتم علی صاحب کے عہد اہتمام میں ہیں۔ اس سے ہم کو اور تم کو کچھ کام نہیں وہ جیسی چاہیں بنوا کر بھیج دیں۔ تم ایک جلد بس زیادہ صرف کیوں کرو۔ اپنے طور پر اپنی طرف سے جیسی چاہو بنوا کر بھیج دو۔ میں تم کو اپنے پیارے ناظر بنسی دھر جانتا ہوں۔ اس کو تمہاری نشانی جان کر اپنی جان کے برابر رکھوں گا۔ باقی حال اپنے خاندان اور تمہارے خاندان اور باہم پل کر اپنا اور بنسی دھر کا بڑے ہونا سب تم کو لکھ چکا ہوں۔ مکرر کیوں لکھوں۔ بادشاہ کی تصویر کی یہ صورت ہے کہ اجڑا ہوا شہر نہ آدمی نہ آدم زاد مگر ہاں دو ایک مصوروں کی آبادی کا حکم ہو گیا ہے وہ رہتے ہیں سو وہ بھی بعد اپنے گھروں کے لٹنے کے آباد ہوئے ہیں۔ تصویریں بھی ان کے گھروں میں سے لٹ گئیں کچھ جو رہیں وہ صاحبان انگریز نے بڑی خواہش سے خرید لیں۔ ایک مصور کے پاس ایک تصویر ہے وہ تیس روپے سے کم کو نہیں دیتا۔ کہتا ہے تین تین اشرفیوں کو میں نے صاحب لوگوں کے ہاتھ بیچی ہیں تم کو دو اشرفی کو دوں گا۔ ہاتھی دانت کی تختی پر وہ تصویر ہے۔ میں نے چاہا کہ اس کی نقل کاغذ پر اتار دے اس کے بھی بیس روپیہ مانگتا ہے اور پھر خدا جانے اچھی ہو یا نہ ہو۔ اتنا صرفِ بے جاکیا ضرور ہے۔ میں نے ایک دو آدمیوں سے کہہ رکھا ہے اگر کہیں سے ہاتھ آ جائیں گی تو لے کر تم کو بھیج دوں گا۔ مصوروں سے خرید کرنے کا نہ خود مجھ میں مقدور نہ تمہارا نقصان منظور۔ اب چھاپا تمام ہو گیا ہو گا وہ پانچ اور دو سات کتابیں جو میرزا صاحب کی تحویل میں ہیں وہ اور ایک جلد جو تم نے مجھے کو دینی کی ہے وہ یہ سب لوح اور جلد کی درستی کے بعد پہنچ جائیں گے۔ مگر وہ چالیس کتابیں سراسری (سرسری)جو مجھے چاہیے ہیں وہ تو آج کل میں روانہ کر دو۔ اور ہاں میری جان یہ چالیس کتابوں کا پُشتارہ کیونکر پہنچے گا اور محصول اس کا کیا ہو گا اور یہ بھی تو بتاؤ کہ وہ دس جلدیں رائے امید سنگھ کے پاس کہاں بھیجی جائیں گی۔ میرزا تفتہ ہاترس کو جاتے ہوئے ان کا اندور نہ ہونا اور شاید پھر آگرہ اور دلّی کا آنا مجھ کو لکھ چکے ہیں۔ ان باتوں کا جواب مجھ کو لکھو۔ تصویر کے باب میں جو کچھ لکھو وہ کروں اور ان مقامات سے اطلاع پاؤں جواب جلد لکھو اور مفصل لکھو۔ از غالب۔ نگاشتہ وردوان داشتہ۔ شنبہ ۲۳ اکتوبر ۱۸۵۶ ء۔
ایضاً
میاں تمہارے کمال کا حال معلوم کر کے میں بہت خوش ہوا۔ اگر مجھ کو کبھی انگریزی لکھوانا ہو گا تو یہاں سے اردو میں لکھ کر بھیج دوں گا۔ تم وہاں سے انگریزی لکھ کر بھیج دیا کرنا۔ قصہ قاصدان شاہی میں نے دیکھا۔ اصلاح کے باب میں سونچا(سوچا)کہ اگر سب فقروں کو مقفّیٰ اور عبارت کو رنگین بنانے کا قصد کروں تو کتاب کی صورت بدل جائے گی۔ اور شاید تم کو بھی یہ منظور نہ ہو۔ ناچار اس پر قناعت کی کہ جو الفاظ ٹکسال سے باہر تھے وہ بدل ڈالے۔ مثلاً “وے “کو کہ یہ گنوارو بولی ہے۔ وہ۔ یہ۔ ٹھیٹ اردو ہے۔ “کرانا”یہ بیرون جات کی بولی ہے۔ “کروانا” یہ صحیح ہے۔ “راجے “یہ غلط ہے۔ “راجہ” صحیح ہے۔ کہیں کہیں روابط و ضمائر نامربوط تھے ان کو مربوط کر دیا ہے۔ اور ایک جگہ “گھنے بسے “یہ لفظ میری سمجھ میں نہ آیا اس کو تم سمجھ لینا۔ باقی اور سب مربوط اور خوب اور صاف ہے۔ حاجت اصلاح کی نہیں۔ صاحب کتابیں کب روانہ ہوں گی۔ دوا لی بھی ہولی۔ اگر گنگا جانے کا قصد ہو تو بھائی میری کتابیں بھیج کر جانا۔ اور ہاں یہ میں نہیں سمجھا کہ مرزا مہر کی بنائی ہوئی سات کتابیں بھی انہیں کتابوں کے ساتھ بھیجو گے یا وہ اپنے طور پر جدا روانہ کریں گے وہ تم نے اپنی بنوائی ہوئی کتاب کا آٹھ دن کا وعدہ کیا تھا اور اس وعدہ سے یہ بات تراوش کرتی تھی کہ سادہ کتابیں پہلے روانہ ہوں گی اور وہ ایک کتاب ہفتہ کے بعد سو وہ ہفتہ بھی گزر گیا۔ یقین ہے کہ اب وہ سب ایک جا پہنچیں۔ اور شاید کل پرسوں آ جائیں۔ وہ نمبر اخبار کا جو تم نے مجھ کو بھیجا تھا۔ اس میں اڈمنشٹن صاحب کے لفٹنٹ ہونے کی اور بہت جلد آگرہ آنے کی خبر لکھی تھی۔ یہاں مجھ کو کئی باتیں پوچھنی ہیں ایک تو یہ کہ چیف سکرٹر نواب گورنر جنرل کے تھے۔ جب یہ لفٹنٹ گورنر ہوئے تو اب وہاں چیف سکرٹر کون ہو گا۔ یقین ہے کہ ولیم میور صاحب اس عہدہ پر مامور ہوں۔ پس اگر یوں ہی ہے تو ان کے محکمہ میں چیف سکرٹر کون ہو گا۔ دوسری بات یہ کہ میر منشی ان کے تو وہی منشی غلام غوث خاں صاحب رہیں گے۔ یقین ہے کہ ان کے ساتھ ہیں۔ تیسری بات یہ کہ گورنر جنرل کے فارسی دفتر کے میر منشی ایک بزرگ تھے بلگرام کے رہنے والے منشی سید جان خاں آیا اب بھی وہی ہیں یا ان کی جگہ کوئی اور صاحب ہیں۔ ان سب باتوں میں سے جو آپ کو معلوم ہوں وہ اور جو نہ معلوم ہواس کو معلوم کر کے مجھ کو لکھیئے اور جلد لکھیئے اور ضرور لکھیئے۔ یقین تو ہے کہ تم سمجھ گئے ہو کہ میں کیوں پوچھتا ہوں۔ کتابیں جا بجا بھیجنے میں جب نام اور مقام معلوم نہ ہو تو کیونکر بھیجوں۔ جواب لکھو اور شتاب لکھو۔ کتابیں بھیجو جلد بھیجو۔ سہ شنبہ ۹ نومبر ۱۸۵۸ء۔
ایضاً
برخوردار کامگار منشی شیو نراین طال عمرہٗ دراز قدرہٗ۔ کل جمعہ کے دن ۱۲ نومبر کو ۳۲ کتابیں آ گئیں۔ میں بہت خوش ہوا اور تم کو دعائیں دیں۔ خط تمہارے نام کا ابھی میرا کہار ڈاک میں لے گیا ہے اس رقعہ کی تحریر سے مقصود یہ ہے کہ میاں عبدالحکیم بہت نیک بخت اور اشراف اور ہنر مند آدمی ہیں۔ دلّی گزٹ میں حرفوں کے چھاپے کا کام کیا کرتے تھے۔ چونکہ وہ چھاپا خانہ اب آگرہ میں ہے یہ بھی وہیں آتے ہیں۔ تمہارے پاس حاضر ہوں گے ان پر مہربانی رکھنا بھلا وہ شہر بے گانہ ہے ان کو تمہاری خدمت میں شناسائی رہے گی تو اچھی بات ہے۔ صحافی کا کام بھی بقدر ضرورت کر سکتے ہیں شاید۔ اگر دہلی گزٹ میں ان کا طور درست نہ ہو تو اس صورت میں بشرط گنجایش اپنے مطبع میں ان کو رکھ لینا۔ راقم اسد اللہ ۔ نگاشتہ شنبہ ۱۳ نومبر ۱۸۵۸ء۔
(کتاب میں ۱۸۵۸ ء کی بجائے تاریخ ۱۲۵۸ ء درج ہے۔ کاتب کی کتابت اور پروف ریڈر حضرات کو چھوٹے غالب کا سلام پہنچے )
ایضاً
صاحب تمہارا خط آیا دل خوش ہوا دیکھئے مرزا مہر کب روانہ کرتے ہیں۔ اگر بھیج چکے ہیں تو یقین ہے کہ آج یہاں آ پہنچیں آج نہ آئیں کل آئیں۔ کل سے میں شام تک راہ دیکھتا ہوں۔ مہر نیم نہیں اس کا نام نیم روزہے اور وہ سلاطین تیموریہ کی تواریخ ہے۔ اب وہ بات ہی گئی گزری بلکہ وہ کتاب اب نہ چھپانے کے لائق ہے نہ چھپوانے کے قابل۔ اردو کے خطوط جو آپ چھاپا چاہتے ہیں یہ بھی زائد بات ہے۔ کوئی رقعہ ایسا ہو گا کہ جو میں نے قلم سنبھال کر اور دل لگا کر لکھا ہو گا ورنہ صرف تحریر سرسری ہے۔ اس کی شہرت میری سخنوری کے شکوہ کے منافی ہے اس سے قطع نظر کیا ضرور ہے کہ ہمارے آپس کے معاملات اوروں پر ظاہر ہوں خلاصہ یہ کہ ان رقعات کا چھپانا میرے خلاف طبع ہے۔ محررہ پنجشنبہ ۱۸ نومبر ۱۸۵۸ ء۔
ایضاً
برخوردار اقبال نشان کو دعا پہنچے۔ کل جمعہ کے دن ۱۹ نومبر ۱۸۵۸ ء کو سات کتابوں کے دو پارسل پہنچے۔ واقعی کتابیں جیسا کہ میرا جی چاہتا تھا اسی روپ کی ہیں۔ حق تعالیٰ میرزا مہر کو سلامت رکھے۔ رقعوں کے چھاپنے کے باب میں ممانعت لکھ چکا ہوں البتہ اس باب میں میری رائے پر تم کو اور میرزا تفتہ کو عمل کرنا ضرور ہے۔ مطلب عمدہ جو اس خط کی تحریر سے منظور ہے وہ یہ ہے کہ جو کتاب تم نے بنوائی ہے اور میں نے تم کو لکھا تھا کہ پہلے ورق کے دوسرے صفحہ پر انگریزی عبارت لکھ کر بھیجنا۔ خدا کرے وہ عبارت تم نے نہ لکھی ہو۔ اگر لکھ دی ہو تو ناچار اور اگر نہ لکھی ہو تو اب نہ لکھنا اور صفحہ سادہ رہنے دینا۔ اور اسی طرح میرے پاس بھیج دینا۔ یہ بھی معلوم رہے کہ اب ان کتب کی تقسیم اس کتاب کے آنے تک ملتوی رہے گی اور وہ کتاب میرے پاس جلد پہنچ جائے تو بہتر ہے۔ ۲ نومبر ۱۸۵۸ ء جواب طلب بلکہ کتاب طلب۔
ایضاً
صاحب تم کندھولی کب آئے اور جب آئے تو میرا خط بیرنگ کے جس میں سات روپیہ کی ہنڈوی ملفوف تھی پایا یا نہیں پایا۔ اگر پایا تو موافق اس تحریر کے عمل کیوں نہ فرمایا۔ اور اس خط میں ایک مطلب جواب طلب تھا اس کا جواب کیوں نہ بھجوایا۔ اچھا اگر تم ایک آدھ دن کے واسطے کندھولی گئے تھے تو کار پردازانِ مطبع نے خط لے کر رکھ چھوڑا ہو گا اور جب تم آئے ہو گے تو وہ خط تمہیں دیا ہو گا پھر کیا سبب جو تم نے جواب نہ لکھا یا ابھی کندھولی سے تم نہیں آئے یا وہ خط میرا تلف ہو گیا۔ تاریخ تحریر خط مجھے یاد نہیں۔ اب یہ لکھتا ہوں کہ اگر خط پہنچا تو مجھ کو خط کی اور ہنڈوی کی رسید اور میرے سوال کا جواب لکھو اور اگر خط نہیں پہنچا تو اس کی تدبیر بتاؤ کہ اب میں ساہو کار سے کیا کہوں اور ہنڈوی مثنی کس طرح سے مانگوں۔ از اسد اللہ مضطرب۔ روز سہ شنبہ ۳ نومبر ۱۸۵۸ ء۔ جواب طلب۔ شتاب طلب۔
ایضاً
صاحب تم خط کے جواب نہ بھیجنے سے گھبرا رہے ہو گے حال یہ ہے کہ قلم بنانے میں میرا ہاتھ انگوٹھے کے پاس سے زخمی ہو گیا۔ اور ورم کر آیا۔ چار دن روٹی بھی مشکل سے کھائی گئی ہے۔ بہرحال اب اچھا ہوں۔ پنج آہنگ تم نے مول لے لی۔ اچھا کیا۔ دو چھاپے ہیں۔ ایک پادشاہی چھاپے خانے کا اور ایک منشی نور الدین کے چھاپے خانے کا۔ پہلا ناقص ہے۔ دوسرا سراسر غلط ہے کیا کہوں تم سے ضیاء الدین خاں جاگیردار لوہارو میرے سببی بھائی اور میرے شاگرد رشید ہیں جو نظم و نثر میں نے کچھ لکھا وہ انہوں نے لیا اور جمع کیا چنانچہ کلیات نظم فارسی چون پچپن جزو۔ اور پنج آہنگ اور مہر نیم روز اور دیوان ریختہ سب مل کر سوا سو جزو۔ مطلیٰ اور مذہب اور انگریزی ابری کی جلدیں الگ الگ کوئی ڈیڑھ سو اور سو روپیہ کے صرف میں بنوائی۔ میری خاطر جمع کہ کلام میرا سب جا فراہم ہے پھر ایک شاہزادہ نے اس مجموعہ نظم و نثر کی نقل کی۔ اب دو جگھ (جگہ)میرا کلام اکٹھا ہوا۔ کہاں سے یہ فتنہ برپا ہوا اور شہر لٹے۔ وہ دونوں جگھ(جگہ)کا کتاب خانہ خوانِ یغما ہو گیا۔ ہر چند میں نے آدمی دوڑائے کہیں سے ان میں سے کوئی کتاب ہاتھ نہ آئی وہ سب قلمی ہیں۔ غرض اس تحریر سے یہ ہے کہ قلمی فارسی کا کلیات قلمی ہندی کا کلیات قلمی پنج آہنگ قلمی مہر نیمروز۔ اگر کہیں ان میں سے کوئی نسخہ بکتا ہوا آوے تو اوسکو (اُس کو )میرے واسطے خرید کر لینا اور مجھ کو اطلاع کرنا۔ میں قیمت بھیج کر منگوا لوں گا۔ جناب ہنری اسٹورٹ ریڈ صاحب کو ابھی میں خط نہیں لکھ سکتا ان کی فرمایش ہے اردو کی نثر انجام پائے تو اس کے ساتھ ان کو خط لکھوں مگر بھائی تم غور کرو اردو میں مَیں اپنی قلم کا زور کیا صرف کروں گا اور اس عبارت میں معانی نازک کیونکر بھروں گا۔ ابھی تو یہی سونچ(سوچ)رہا ہوں کہ کیا لکھوں۔ کونسی بات کونسی کہانی کونسا مضمون تحریر کروں اور کیا تدبیر کروں تمہاری رائے میں کچھ آئے تو مجھ کو بتاؤ ایک قرینہ سے مجھ کو معلوم ہوا ہے کہ شاید گورنمنٹ سو دو سو دستنبو کی خریداری کرے گی اور ان نسخوں کو ولایت بھیجے گی۔ کیا بعید ہے کہ ہفتہ دو ہفتہ میں تمہارے پاس الہ آباد سے حکم پہنچے۔ روز شنبہ ۱۱ دسمبر ۱۸۵۸ء۔
ایضاً
بھائی یہ بات تو کچھ نہیں کہ تم خط کا جواب نہیں لکھتے۔ خیر دیر سے لکھو اگر شتاب نہیں لکھتے۔ تمہارا خط آیا اس کے دوسرے دن میں نے جواب بھجوایا۔ آج تک تم نے اس کا جواب نہ بھیجا۔ حالانکہ اس میں جواب طلب باتیں تھیں۔ یعنی میں نے اپنی نظم و نثر کی کتب کا حال تم کو لکھ کر تم سے یہ استدعا کی تھی کہ قلمی جو نسخہ تمہارے ہاتھ آ جاوے وہ تم خرید کر کے مجھے بھیج دینا۔ ریڈ صاحب کے باب میں مَیں نے یہ لکھا تھا کہ جب کچھ اردو کی نثر ان کے واسطے لکھ لوں گا تو دستنبو کی خریداری کی خواہش کروں گا۔ معہذا تم سے صلاح پوچھی تھی کہ کس حکایت اور کس روایت کو فارسی سے اردو کروں۔ تم نے اس بات کا بھی جواب نہ لکھا۔ سید حفیظ الدین احمد کی مُہر کھدوانے کو تم نے لکھا تھا کہ ملتوی رہے۔ پھر اس کا بھی کچھ بیورا نہ لکھا۔ میں اس کو ابھی کچھ نہیں سمجھا۔ اس کو یکسو کرو۔ ہاں ناں کچھ بھیجو۔ تمہاری مہر بد الدین علی خاں کو دی گئی ہے۔ یقین تو یہ ہے کہ اسی دسمبر مہینے میں تمہارے پاس پہنچ جائے اور ۱۸۵۸ سن کھدیں۔ شاید کچھ دیر ہو تو جنوری ۱۸۵۸ء میں کھدے اس سے زیادہ درنگ نہ ہو گی۔ تم کو روپیہ حرف سے آٹھ آنہ حرف سے کیا علاقہ۔ تم کو اپنی مُہر سے کام۔ سچ تو کہو کیا پھر کندھولی گئے ہو۔ کس شغل میں ہو یا مجھ سے خفا ہو۔ اگر خفا ہو تو اور کچھ نہ لکھو خفگی کی وجہ لکھو۔ بہرحال اس خط کا جواب شتاب لکھو۔ اور اسی خط میں بعد اس سب باتوں کے جواب کے مولوی قمر الدین خاں کا ھال لکھو کہ وہ کہاں ہیں اور کس طرح ہیں۔ برسرکار ہیں یا بے کار ہیں۔ اچھا میرا بھائی اس خط کے جواب میں دیر نہ ہو۔ غالب۔ مرسلہ چہار شنبہ ۱۵ دسمبر ۱۸۵۸ء۔
ا ایضاً
برخوردار آج اس وقت تمہارا خط مع لفافوں کے آیا۔ دل خوش ہوا۔ بھائی میں اپنے مزاج سے لاچار ہوں۔ یہ لفافے از مقام در مقام و تاریخ و ماہ مجھ کو پسند نہیں۔ آگے جو تم نے مجھے بھیجے تھے وہ بھی میں نے دوستوں کو بانٹ دئیے۔ اب یہ لفافوں کا لفافہ اس مراد سے بھیجتا ہوں کہ ان کی عوض یہ لفافے جو در مقام و از مقام سے خالی ہیں جن میں تم اپنے خط بھیجا کرتے ہو مجھ کو بھیج دو اور یہ لفافے اس کے عوض مجھ سے لے لو اور اگر اس طرح کے لفافے نہ ہوں تو ان کی کچھ ضرورت نہیں۔ مُہر کے واسطے صاحب زمرد کا نگینہ اور پھر چنے کی دال کے برابر اور ہشت پہلو۔ اس اجڑے شہر میں کہا ں ملے گا۔ عقیق بہت خوش رنگ سیاہ یا سرخ جیسا تم نے آگے لکھا ہے ہشت پہلو ہو گا۔ یہ مہر میری طرف سے تم کو پہنچے گی تم کو ۴ حرف ۶ حرف سے کچھ مدعا نہیں۔ آپ اپنی مہر چاہو زمرد پر چاہو الماس پر کھدواؤ۔ میں تو عقیق کی مہر تم کو دوں گا۔ رہی وہ دوسری مہر جب تمہاری مہر کھد چکے گی جس طرح تم کہو گے کھد جائے گی۔ میاں کیا قرینہ بتاؤں گورنمنٹ کی خریداری کا۔ ایک بات ایسی ہے کہ ابھی کہہ نہیں سکتا۔ خدا کرے اس کا ظہور ہو جائے۔ ابھی مجھ سے کچھ نہ پوچھو۔ جناب ریڈ صاحب صاحبی کرتے ہیں۔ میں اردو میں اپنا کمال کیا ظاہر کر سکتا ہوں۔ اس میں گنجایش عبارت آرائی کی کہاں ہے۔ بہت ہو گا تو یہ ہو گا کہ میرا اردو بہ نسبت اوروں کی اردو کے فصیح ہو گا۔ خیر بہرحال کچھ کر دوں گا اور اردو میں اپنا زور قلم دکھاؤں گا۔ قے کا ہونا اور دستوں کا آنا یہ چاہتا ہے کہ تم نے رات کو بُری قسم کی شراب مقدار میں زیادہ پی ہو گی۔ کچھ تبرید کرو اور شراب زیادہ نہ پیا کرو۔ میرا رقعہ تمہارے نام کا حسب الحکم تمہارے پاس واپس بھیجا جاتا ہے میں نے تفتہ کا خفا ہونا اسی طرح لکھا تھا جیسا تم کو تمہارا خفا ہونا لکھا تھا۔ بھلا وہ میرے فرزند کی جگہ ہیں۔ مجھ سے خفا کیوں ہوں گے۔ اس دن سے آج تک دو تین خط ان کے آ چکے ہیں۔ چنانچہ ایک خط ابھی تمہارے خط کے ساتھ ڈاک کا ہرکارہ دے گیا ہے۔ محررہ شنبہ ۱۸ دسمبر ۱۸۵۸ء۔
ایضاً
اب ایک امر خاص کو سمجھو۔ دو جلدیں دستنبو کی مجھ کو لکھنؤ بھیجنی ہیں اور میرے پاس کوئی جلد نہیں ہے۔ اب جو تم سے منگاؤں اور یہاں سے لکھنؤ بھجواؤں تو ایک قصہ ہے۔ یہ صاحب لوگ اطراف و جوانب سے مجھ پر فرمایشیں بھیجتے ہیں۔ تم سے بقیمت کوئی نہیں منگواتا۔ چالیس جلدیں پہلی اور بارہ یہ حال کی سب تقسیم ہو گئیں ان دونو(دونوں )صاحبوں کی خاطر مجھ کو بہت عزیز ہے۔ ایک روپیہ کے ۳۲ ٹکٹ اور ۲ آنے کے دو ٹکٹ اس خط میں ملفوف کر کے تم کو بھیجتا ہوں۔ دو پارسل الگ الگ لکھنؤ کو ارسال کرو۔ آنے آنے کے ٹکٹ اس پر لگا دو۔ ایک پارسل پر یہ لکھو۔ ایں پارسل بصیغہ پیم فلٹ پاکٹ اسٹامپ پیڈ در لکھنؤ۔ بہ محلہ نخاس۔ در امام باڑہ اکرام اللہ خاں۔ بمکان میرزا عنایت علی بخدمت میر حسین علی صاحب برسد۔ مرسلہ شیو نراین مہتمم مطبع مفید خلائق۔ از آگرہ۔ دوسرے پارسل پر بھی یہی عبارت مگر مکان کا پتہ اور نام اور۔ در لکھنؤ بہ احاطہ خانساماں۔ متصل تکیہ شیر علی شاہ۔ بمکانات مولوی عبدالکریم مرحوم بخدمت مولوی سراج الدین احمد صاحب برسد۔ سمجھ لیے ؟ یعنی دو پارسل اسٹامپ پیڈ دونوں لکھنؤ کو۔ ایک بنام میر حسین علی اور ایک بنام سراج الدین احمد بسبیل ڈاک روانہ کر دو۔ اور ہاں صاحب ان دونوں پارسلوں کی روانگی کی تاریخ مجھ کو لکھ بھیجو تاکہ میں اپنے خط میں ان کو اطلاع دوں۔ ایک امر اور ہے اگر تم بھی اس رائے کو پسند کرو یعنی جس طرح سے تم نے ایک جلد ہنری اسٹورٹ ریڈ صاحب کو اپنی طرف سے بھیجی ہے اسی طرح دو جلدیں ان دونوں صاحبوں کو جن کا نام کاغذ میں لکھا ہوا ہے بھیج دو۔ مگر اپنی ہی طرف سے۔ میرا اس میں اشارہ نہ پایا جائے۔ یہ دونوں صاحب بالفعل دلّی میں وارد ہیں۔ یہ بات ایسی نہیں ہے کہ خواہی نخواہی اس کو کیا ہی چاہیے۔ ایک صلاح ہے اور نیک صلاح ہے۔ مناسب جانو کرو ورنہ جانے دو۔ میاں اردو کیا لکھوں۔ میرا یہ منصب ہے کہ مجھ پر اردو کی فرمایش ہو خیر ہوئی۔ اب میں کہانیاں قصے کہاں ڈھونڈھتا پھروں۔ کتاب نام کو میرے پاس نہیں۔ پنشن مل جائے۔ حواس ٹھکانے ہو جائیں تو کچھ فکر کروں۔ پیٹ میں پڑیں روٹیاں تو سبھی گلاں موٹیاں۔ زیادہ زیادہ۔ غالب روز سہ شنبہ۔ ۴ جنوری ۱۸۵۹ ء۔ جواب طلب۔
ایضاً
پرسوں اور کل دو ملاقاتیں جناب آرنلڈ صاحب بہادر سے ہوئیں۔ کیا لکھوں کہ مجھ پر بے سابقہ معرفت کیا عنایت فرمائی۔ میں یہ جانتا ہوں کہ گویا مجھ کو مول لے لیا۔ آج وہ یہاں اور ہیں۔ کل جائیں گے۔ دستنبو تمہاری بھیجی ہوئی ان کے پاس نہیں پہنچی۔ ناچار ایک دستنبو اور ایک پنج آہنگ اپنے پاس سے ان کی نذر کر آیا ہوں۔ لکھنؤ کے دونوں پارسلوں کی رسید مجھ کو آج تک نہیں آئی۔ آخر رسید تو تم کو پارسلوں کی ملی ہو گی۔ ڈاک میں سے معلوم کر کے مجھ کو لکھ بھیجو ورنہ میں مشوش رہوں گا۔ از غالب۔ نگاشتہ صبح شنبہ۱۵ جنوری ۱۸۵۹ ء۔
ایضاً
صاحب میں ہندی غزلیں بھیجوں کہاں سے۔ اردو کے دیوان چھاپے کے ناقص ہیں بہت غزلیں اس میں نہیں ہیں۔ قلمی دیوان جو اتم و اکمل تھے وہ لٹ گئے۔ یہاں سب کو کہہ رکھا ہے کہ جہاں بکتا ہوا نظر آ جائے لے لو تم کو بھی لکھ بھیجا اور ایک بات اور تمہارے خیال میں رہے کہ میری غزل پندرہ سولہ بیت کی شاذ و نادر ہے بارہ شعر سے زیادہ اور نو شعر سے کم نہیں ہوتی۔ جس غزل کے تم نے پانچ شعر لکھے ہیں یہ نو شعر کی ہے۔ ایک دوست کے پاس اردو کا دیوان چھاپے سے کچھ زیادہ ہے۔ اس نے کہیں کہیں سے مسودات متفرق بہم پہنچا لیے ہیں۔ چنانچہ پنہاں ہو گئیں ویراں ہو گئیں۔ یہ غزل مجھ کو اسی سے ہاتھ آ گئی ہے۔ اب میں نے اس کو لکھا ہے اور تم کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ خط لکھ کر رہنے دوں گا۔ جب اس کے پاس سے ایک غزل آ جائے گی تو اسی خط میں ملفوف کر کے بھیج دوں گا۔ یہ خط آج روانہ ہو جائے گا یا کل۔ میں نے ایک قصیدہ اپنے محسن و مربی قدیم جناب فریڈرک اڈمنشٹن صاحب لفٹنٹ گورنر بہادر غرب و شمال کی مدح میں اور ایک قصیدہ جناب منٹگمری لفٹنٹ گورنر بہادر ملک پنجاب کی تعریف میں لکھا ہے اگر کہو تو بھیج دوں مگر فارسی میں اور چالیس چالیس پینتالیس پینتالیس شعر ہیں۔ کتب دستنبو کی یک جانی سے میں خوش ہوا۔ خدا کرے جس کو دی ہو۔ دد تین غلطیاں جو معلوم ہیں وہ بنا دی ہوں۔ یہ نہ معلوم ہوا کہ صاحب لوگوں نے خریدیں یا ہندوستانیوں نے لیں۔ تم یہ بات مجھ کو ضرور لکھو۔ دیکھو صاحب تم گھبراتے تھے آخر یہ جنس پڑی نہ رہی اور بک گئی۔ بھائی ہندوستان کا قلمرو بے چراغ ہو گیا۔ لاکھوں مر گئے جو زندہ ہیں ان میں سینکڑوں گرفتار بند بلا ہیں۔ جو زندہ ہیں اس میں مقدور نہیں۔ میں ایسا جانتا ہوں یا تو صاحبان انگریز کی خریداری آئی ہو گی یا پنجاب کے ملک کو یہ کتابیں گئی ہوں گی۔ پورب میں کم بکی ہوں گی۔ میاں میں تم کو اپنا فرزند جانتا ہوں۔ خط لکھنے نہ لکھنے پر موقوف نہیں ہے۔ تمہاری جگہ میرے دل میں ہے اب میں طبع آزمائی کرتا ہوں اور جو غزل تم نے بھیجی ہے اس کو لکھتا ہوں خدا کرے نو کے نو شعر یا د آ جائیں۔
غزل
ہر ایک بات میں کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
وہ چیز جس کے لیے ہو ہمیں بہشت عزیز
سوائے بادہ گلفام مشکبو کیا ہے
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ قدح و کوزہ و سبو کیا ہے
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تجھ سے
وگرنہ خوف بد آموزی عدو کیا ہے
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیئے کہ آرزو کیا ہے
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
یہ تمہارا اقبال ہے کہ نو شعر یاد آ گئے ایک غزل یہ اور دو غزلیں وہ جو آیا چاہتی ہیں تین ہفتہ کا گودام تمہارے پاس فراہم ہو گیا اگر منگواؤ گے تو قصیدے دونوں بھیج دوں گا۔ مرقومہ سہ شنبہ ۱۹ ماہ اپریل ۱۸۵۹ء۔
ایضاً
بھائی حاشا ثم حاشا اگر یہ غزل میری ہو ؎ اسد اور لینے کے دینے پڑے ہیں۔ اس غریب کو میں کچھ کیوں کہوں۔ لیکن اگر یہ غزل میری ہو تو مجھ پر ہزار لعنت۔ اس سے آگے ایک شخص نے یہ مطلع میرے سامنے پڑھا اور کہا کہ قبلہ آپ نے کیا خوب مطلع کہا ہے ؎
اسد اس جفا پر بتوں سے وفا کی
میرے شیر شاباش رحمت خدا کی
میں نے ان سے کہا کہ اگر یہ مقطع میرا ہو تو مجھ پر لعنت۔ بات یہ ہے کہ ایک شخص میر امانی اسد ؔ ہو گزرے ہیں یہ مطلع اور یہ غزل ان کے کلام معجز نظام میں سے ہے۔ اور تذکروں میں مرقوم ہے۔ میں نے تو کوئی دو چار برس ابتدا میں اسدؔ تخلص رکھا ہے ورنہ غالبؔ ہی لکھتا رہا ہوں تم طرز تحریر اور روشِ فکر پر بھی نظر نہیں کرتے۔ میرا کلام اور ایسا مزخرف۔ یہ قصہ تمام ہوا۔ وہ غزل جو تمہارے پاس پہنچ گئی ہے چھاپنے سے پہلے ایک نقل اس کی مرزا حاتم علی مہر کو دے دینا جس دن یہ میرا خط پہنچے اسی دن وہ غزل نقل کر کے ان کو بھیج دینا۔ دستنبو کی خریداری کا حال معلوم ہو گیا۔ میرا بھی یہی گمان تھا کہ لاہور کے ضلع میں گئی ہوں گی۔ جناب مکلوڈ صاحب فنانشل کمشنر پنجاب نے بذریعہ صاحب کمشنر بہادر دہلی مجھ سے منگوائی تھی ایک جلد ان کو بھی بھیج چکا ہوں۔ قصیدے میں نے دو لکھے ہیں۔ ایک اپنے مربی قدیم جناب فریڈرک ایڈ منشٹن صاحب بہادر کی تعریف میں اور ایک جناب منٹگمری صاحب بہادر کی مدح میں۔ ایک پچپن شعر کا، ایک چالیس بیت کا اور پھر فارسی۔ ان کو ریختہ کی غزلوں میں کیا چھاپو گے جانے بھی دو۔ رہیں غزلیں سابق کی وہ جو میرے ہاتھ آتی جائیں گی بھجواتا جاؤں گا۔ میاں تمہاری جان کی قسم نہ میرا اب ریختہ لکھنے کو جی چاہتا ہے نہ مجھ سے کہا جائے۔ اس دو برس میں صرف وہ پچپن شعر بطریق قصیدہ تمہاری خاطر سے لکھ کر بھیجے تھے۔ سوائے اس کے اگر میں نے کوئی ریختہ کہا ہو گا تو گنہگار۔ بلکہ فارسی غزل بھی واللہ نہیں لکھی۔ صرف یہ دو قصیدے لکھے ہیں۔ کیا کہوں کہ دل و دماغ کا کیا حال ہے۔ پرسوں ایک خط تمہیں اور لکھ چکا ہوں اب اس کا جواب نہ لکھنا۔ والدعا۔ چار شنبہ ۲۶اپریل ۱۸۵۹ء۔
ایضاً
برخوردار منشی شیو نراین کو دعا پہنچے۔ خط تمہارا مع اشتہار کے پہنچا یہاں کا حال یہ ہے کہ مسلمان امیروں میں تین آدمی نواب حسن علی خان۔ نواب حامد علی خان۔ حکیم احسن اللہ خان۔ سو ان کا یہ حال ہے کہ روٹی ہے تو کپڑا نہیں۔ معہذا یہاں کی اقامت میں تذبذب۔ خدا جانے کہاں جائیں کہاں رہیں۔ حکیم احسن اللہ خاں نے آفتاب عالمتاب کی خریداری کر لی ہے اب وہ مکرر حالات دربار شاہی کیوں لیں گے۔ سوائے ساہو کاروں کے یہاں کوئی امیر نہیں ہے۔ وہ لوگ اس طرف کیوں توجہ کریں گے۔ تم ادھر کا خیال دل سے دھو ڈالو۔ رہا نام اس رسالے کا تاریخی جانے دو۔ رستخیز ہند۔ غوغائے سپاہ۔ فتنہ محشر۔ ایسا کوئی نام رکھو۔ اب تم یہ بتاؤ کہ رئیس رامپور کے ہاں بھی تمہارا اخبار یا معیار الشعرا جاتا ہے یا نہیں۔ اب کے تمہارے معیار الشعرا میں مَیں نے یہ عبارت دیکھی تھی کہ امیر شاعر اپنی غزلیں بھیجتے ہیں ہم کو جب تک ان کا نام و نشان معلوم نہ ہو گا ہم ان کے اشعار نہ چھاپیں گے۔ سو میں تم کو لکھتا ہوں کہ یہ میرے دوست ہیں اور امیر احمد ان کا نام ہے اور امیر تخلص کرتے ہیں۔ لکھنؤ کے ذی عزت باشندوں میں ہیں اور وہاں کے بادشاہوں کے روشناس اور مصاحب رہے ہیں۔ اور اب وہ رامپور میں نواب صاحب کے پاس ہیں۔ مَیں ان کی غزلیں تمہارے پاس بھیجتا ہوں میرا نام لکھ کر ان غزلوں کو چھاپ دو۔ یعنی غزلیں غالبؔ نے ہمارے پاس بھیجیں اور اس کے لکھنے سے ان کا نام اور ان کا حال معلوم ہوا۔ نام اور حال وہ جو میں اوپر لکھ آیا ہوں اس کو آپ کے معیار الشعرا میں چھاپ کر ایک دو ورقہ یا چار ورقہ رامپور ان کے پاس بھیج دو اور سر نامہ پر لکھو کہ در رامپور بر درِ دولت ِ حضور رسیدہ بخدمت جناب مولوی امیر احمد صاحب امیر تخلص برسد۔ اور مجھ کو اس کی اطلاع دو۔ اور اس امر کی بھی اطلاع دو کہ رامپور کو تمہارا اخبار جاتا ہے یا نہیں۔ مرسلہ یکشنبہ ۱۲ جون ۱۸۵۹ء۔
ایضاً
برخوردار نور چشم منشی شیو نراین کو دعا پہنچے۔ صاحب میں تو منتظر تمہارے آنے کا تھا کس واسطے کہ منشی پیارے لال بھائیوں میں ہیں ماسٹر رام چندر کے۔ انہوں نے پرسوں مجھ سے کہا تھا کہ منشی شیو نراین دو تین دن میں آیا چاہتے ہیں۔ آج صبح کو ناگاہ تمہارا خط آیا۔ اب مجھ کو اس کا پوچھنا تم سے ضرور ہوا کہ آنے کی تمہاری خبر جھوٹ تھی یا ارادہ تھا اور کس سبب موقوف رہا۔ بابو ہر گوبند سہائے کا میں بڑا احسان مند ہوں حق تعالیٰاس کوشش کے اجرا میں ان کو عمر و دولت دے۔ سعادت مند اور نیک بخت آدمی ہیں۔ تمہاری خواہش کو میں اچھی طرح سمجھا نہیں۔۔ مصرع تم نے لکھا اور وہ چھاپا گیا۔ ہزار پانسو (پانچ سو)وہ ورقے چھپ گئے۔ اب جو مصرع اور کہیں سے بہم پہنچے گا وہ کس کام آئے گا۔ خود لکھتے ہو کہ پہلا جزو تم کو بھیجا ہے۔ صبر کرو وہ جزو آنے دو۔ میں ا سکو دیکھ لوں یقین ہے کہ قلمی ہو گا۔ اس کو دیکھ کر اور مضامین کو سمجھ کر مصرعہ بھی تجویز کر دوں گا۔ مگر اتنا تم اور بھی لکھو کہ آیا یوں منظور ہے کہ اس مصرع کی جگہ اور مصرع لکھو یا یہی چاہتے ہو کہ یہ بھی رہے اور وہ بھی رہے۔ خط تمہارا آ ج آ گیا ہے۔ پم فلٹ پاکٹ یا آج شام کو یا کل شام تک آ جائے گا۔ سہ شنبہ ۲۰ جولائی ۱۸۵۹ء۔
ایضاً
برخوردار کو بعد دعا کے معلوم ہو۔ تمہارا خط پہنچا اور خط سے کئی دن پہلے رسالہ بغاوت ہند پہنچا۔ تمہارے تصمیم عزیمت سے میں خوش ہوا۔ اللہ اللہ اپنے یار بنسی دھر کے پوتے کو دیکھوں گا۔ رسالہ بغاوت ہند ماہ بماہ اور معیار الشعرا ہر مہینے میں دو بار پہنچتا رہے۔ باقی گفتگو عند الملاقات ہو رہے گی۔ اپنے شفیق دلی ماسٹر رامچندر صاحب کو تمہارے آنے کی اطلاع دی وہ بہت خوش ہوئے۔ جو رقعہ انہوں نے میرے رقعہ کے جواب میں لکھا ہے وہ تم کو بھیجتا ہوں پڑھ لینا اگر دستنبو ئیں باقی ہوں تو وہ اپنے ساتھ لیتے آنا۔ غالب۔ شنبہ ۲۳ جولائی ۱۸۵۹ء۔
ایضاً
میاں یہ کیا معاملہ ہے ایک خط اپنی رسید کا بھیج کر پھر تم چپکے ہو رہے نہ معیار الشعرا نہ بغاوت ہند۔ نہ میرے خط کا جواب، نہ ہنڈوی کی رسید۔ برخوردار نواب شہاب الدین خاں نے اگست سے دسمبر تک پنجماہ معیارالشعرا و بغاوت ہند کا بھیجا ہے یعنی مجھ کو دیے اور میں نے ہنڈوی لکھوا کر وہ ہنڈوی اپنے خط میں لپیٹ کر تم کو بھیجی یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ خط پہنچا یا نہیں پہنچا۔ جب ان مطالب جزئی کا یہ حال ہے تو کتاب اور انگریزی عرضی کا تو بھی کیا ذکر ہے۔ خدا کے واسطے ان سب مقاصد کا جواب جدا جدا لکھو۔ آج اگست کی ۱۷بدھ کا دن ہے۔ پہلا لمبر معیار الشعرا کا بھی نہیں آیا یہ ہے کیا؟ مہر تمہاری کھدنی شروع ہو گئی ہے۔ اسی اگست کے مہینے میں تمہارے پاس پہنچ جائے گی۔ اچھا میرا بھائی اس خط کا جواب جلد پاؤں اور کتاب اور عرضی کا بھی تقاضا کروں تو بعید نہیں۔ مگر آج شام تک اس خط کو رہنے دوں گا اگر تمہارا خط یا معیار الشعرا یا بغاوت ہند یا کوئی لفافہ شام تک آیا تو اس خط کو پھاڑ ڈالوں گا۔ ورنہ کل صبح کو ڈاک میں بھجوا دوں گا۔ اپنے والد کو دعا اور اشتیاقِ دیدار کہہ دینا۔ غالب۔ مرقومہ چہار شنبہ۔ ۱۷ ماہ اگست ۱۸۵۹ ء وقت دوپہر۔
ایضاً
کیوں میری جان۔ تم نے خط لکھنے کی قسم کھائی ہے یا لکھنا ہی بھول گئے ہو۔ شہر میں ہو یا نہیں ہو ؟ تمہارے مطبع کا کیا حال ہے ؟ تمہارا کیا طور ہے ؟ تمہارے چچا کا مقدمہ کیونکر فیصل ہوا ؟ میرا کام تم نے درست کیا ؟ کرو گے یا نہیں ؟ معیار ا لشعرا کا پارسل پہنچ گیا؟ بغاوت ہند کا پارسل ابھی نہیں آیا۔ ان سب مطالب کا جواب لکھو۔ اور شتاب لکھو۔ غالب۔ محررہ پنجشنبہ ۲۲ ستمبر ۱۸۵۹ء۔
ایضاً
برخوردار منشی شیو نراین کو بعد دعا کے معلوم ہو۔ کیا میرے خط نہیں پہنچتے کہ جواب ادھر سے نہیں آتا۔ دو مجلد بغاوت ہند کے زیادہ پہنچے ہیں۔ اس کے واسطے تم سے پوچھا گیا تھا اس کا جواب بھی نہ آیا۔ مَیں نے یوسف علی خاں عزیز کے خط میں کچھ عبارت تمہارے نام لکھی تھی انہوں نے تم کو نہ پڑھائی ہو گی۔ اس کا بھی تم نے جواب نہ لکھا۔ ولایت کی عرضی اور کتاب کے باب میں تو میں کچھ کہتا ہی نہیں جو اس کا جواب مانگوں۔ کچھ مجھ سے خفا ہو گئے ہو تو ویسی کہو۔ یہ خط تم کو بیرنگ بھیجتا ہوں تاکہ تم کو تقاضا معلوم ہو۔ اے لو ایک اور بات سنو تمہارا تو یہ حال کہ مجھ کو خط لکھنے کی گویا تم نے قسم کھائی ہے اور میری خواہش یہ کہ نواب گورنر جنرل بہادر کی خبر جو وہاں تم کو معلوم ہوا کرے مجھ کو لکھا کرو۔ خصوصاً اکبر آباد میں آ کر جو کچھ واقع ہو وہ مفصل لکھو آیا جناب لفٹنٹ گورنر بہادر بھی ساتھ آئیں گے یا جدا جدا آ کر یہاں فراہم ہو جائیں گے۔ دربار کی صورت خیرخواہوں کے تقسیم انعام کی حقیقت۔ کوئی نیا بندوبست جاری ہو اس کی کیفیت۔ یہ سب مراتب مجھ کو لکھا کرو۔ دیکھو خبردار اس امر میں تساہل نہ کرنا۔ اب کیا سنتے ہو ؟ لکھنؤ سے کہاں آئے ہیں ؟ کانپور فرخ آباد ہوتے ہوئے آگرہ آئیں گے۔ کہاں کہاں کون کون رئیس آ ملے گا ؟ لکھنؤ کے دربار کا حال جو کچھ سنا ہو گا وہ لکھو۔ اگرچہ یہاں لوگوں کے ہاں اخبار آتے رہتے ہیں اور میری نظر سے گزر جاتے ہیں۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ تمہارے خط سے آ گہی پاتا رہوں۔ تم جو لکھو گے منقح اور مفصل لکھو گے یقین ہے کہ برادر زادہ عزیز یعنی تمہارے والد ماجد نے مرزا یوسف علی خاں کے کام کی درستی لالہ جوتی پرشاد کی سرکار میں کر دی ہو گی اس کی بھی اطلاع ضرور ہے۔ صبح چار شنبہ ۲ نومبر ۱۸۵۹ء۔ جواب کا طالب۔ غالب۔
ایضاً
برخوردار دو خط آئے۔ اور آج یکشنبہ ۱۳ نومبر کو لفافہ اخبار آیا۔یہ اودھ اخبار بھائی ضیاء الدین خاں کے ہاں آتا ہے اور وہ میرے پاس بھیج دیا کرتے ہیں۔ اس کی حاجت نہیں اپنے اور میرے ٹکٹ کیوں برباد کرو۔ میرا مقصود اسی قدر ہے کہ فرخ آباد کے اخبار بسبب قرب کے وہاں معلوم ہوتے ہوں گے۔ جو سنو وہ مجھ کو لکھو اور جب نواب معلی القاب آگرہ میں آ جائیں تو اپنا مشاہدہ مجھ کو لکھتے رہو پس غرض اتنی ہی ہے۔ آج کا اخبار لفافہ بدل کر آج ہی بھیج دیتا ہوں۔ اور دونوں کتابیں بغاوت ہند پرسوں بھیج چکا ہوں۔ تمہارے والد کی طرف سے مجھ کو بڑی تشویش ہے۔ دعا کر رہا ہوں خدا میری دعا قبول کرے اور ان کو شفائے کامل دے۔ میری دعا ان کو پہنچا دینا۔ مرزا یوسف علی خاں عزیز کا حال معلوم ہوا۔ یہ عالی خاندان اور ناز پروردہ آدمی ہیں۔ ان کو جو راحت پہنچاؤ گے اور ان کی جو خدمت بجا لاؤ گے اس کا خدا سے اجر پاؤ گے۔ زیادہ سوائے دعا کے کیا لکھوں۔ غالب۔ روز یکشنبہ ۱۳ نومبر ۱۸۵۹ء۔
ایضاً
میری جان دو جلدیں بغاوت ہند کی پرسوں میرے پاس پہنچیں۔ اس وقت برخوردار میرزا شہاب الدین خاں بیٹھے ہوئے تھے ایک جلد ان کو دی۔ کل ایک پارسل اور میرے نام کا آیا۔ میں خوش ہوا کہ ولایت کی عرضی اور دستنبو کا پارسل ہو گا۔ دیکھا تو وہی دو جلدیں بغاوت ہند کی ہیں۔ حیران رہ گیا کہ یہ کیا۔ ظاہراً مہتممانِ ارسال نے از راہِ سہو دوبارہ بھیج دی ہیں۔ چاہتا تھا کہ لفافہ بدل کر ڈبل ٹکٹ لگا کر بھیج دوں پھر سونچا(سوچا)کہ پہلے تم کو اطلاع دوں شاید یہیں سے کسی اور کو دلوا دو۔ بس اب تمہارے کہنے کا انتظار ہے۔ جو کہو سو کروں۔ کہو تم کو بھیج دوں۔ کہو کہیں اور تمہاری طرف سے بھیج دوں۔ میرے کسی کام کی نہیں۔ والدعا۔ راقم اسد اللہ ۔ مرقومہ ۲۰ اکتوبر۱۸۵۹ء۔
ایضاً
برخوردار کامگار کو بعد دعا کے معلوم ہو کہ دستنبو کے آغاز کی عبارت ازروئے احتیاط دو بار ارسال کی گئی ہے یقین ہے کہ پہنچ گئی ہو گی اور چھاپی گئی ہو گی اور آپ نے اسی عبارت سے اشتہار بھی اخبار میں چھاپا ہو گا یا اب چھاپیے گا۔ بہرحال اس شہر کے اخبار سنیئے۔ حکم ہوا ہے کہ دو شنبہ کے دن پہلی تاریخ نومبر کو رات کے وقت سب خیر خوہانِ انگریز اپنے اپنے گھروں میں روشنی کریں۔ اور بازاروں میں اور صاحب کمشنر بہادر کی کوٹھی پر بھی روشنی ہو گی۔ فقیر بھی اسی تھیدستی (تہیدستی)میں کہ اٹھارہ مہینے سے پنشن مقرری نہیں پاتا اپنے مکان پر روشنی کرے گا۔ اور ایک قطعہ پندرہ بیت کا لکھ کر صاحب کمشنر شہر کو بھیجا ہے۔ آپ کے اپس اس کی ایک نقل بھیجتا ہوں۔ اگر تمہارا جی چاہے تو اس کو چھاپ دو۔ اور جس لمبر میں یہ چھاپا جاوے وہ لمبر میرے دیکھنے کو بھیج دینا اور اب فرمائیے کہ میں کتابوں کے آنے کا کب تک انتظار کروں۔
قطعہ
دریں روزگارِ ہمایوں و فرخ
کہ گوئی بود روزگارِ چراغاں
شدہ گوش پر نور چوں چشم بینا
ز آوازہ اشتہار ِ چراغاں
مگر شہر دریائے نور کاینجا
نگہ گشتہ ہر سو دو چارِ چراغاں
بسر بردہ بر چرخ مہر منور
ہمہ روز در انتظارِ چراغاں
گواہِ من اینک خطوطِ شعاعی
کہ دارد دلش خار خارِ چراغاں
دریں شب رَوَا باشد ار چرخِ گرداں
کند گنجِ انجم نثارِ چراغاں
نبود ست درد ہرزیں پیش ہرگز
بدیں روشنی رونقِ کاروبارِ چراغاں
شد از فیض شاہنشہِ انگلستاں
فرزوں رونقِ کاروبارِ چراغاں
جہاندار وکٹوریا کزفروغش
زآتش دمد لالہ زارِ چراغاں
ز عدلش چناں گشت پروانہ ایمن
کہ شددید بانِ حصارِ چراغاں
بفرمان سر جان لارنس صاحب
شد ایں شہر آئینہ دارِ چراغاں
بدہلی فلک رتبہ ساندرس صاحب
بر آراست نقش و نگارِ چراغاں
شد از سعی ہنری اجرٹن بہادر
رواں ہر طرف جوئبارِ چراغاں
سخن سنج غالب زروئے عقیدت
دعا مے کند در بہارِ چراغاں
کہ باد افزوں سال عمر شہنشہ
بروئے زمیں از شمارِ چراغاں
ایضاً
برخوردار منشی شیو نراین کو دعائے دوام دولت پہنچے۔ کل تمہارا خط پہنچا۔ دل خوش ہوا۔ باقر علی خان اور حسین علی خان یہ دونو(دونوں )میرے پوتے ہیں اور تم بھی میرے پوتے ہو۔ لیکن چونکہ تم عمر میں بڑے ہو تو پہلے تم اور بعد تمہارے یہ۔ میں حسب الطلب نواب صاحب کے دوستانہ یہاں آیا ہوں۔ اور اپنی صفائی بذریعہ ان کے گورنمنٹ سے چاہتا ہوں۔ دیکھوں کیا ہوتا ہے۔ کتاب اور عرضی اواسطِ ماہِ جنوری میں ولایت کو روانہ کر کے یہاں آیا ہوں۔ چھ ہفتہ میں جہاز پہنچتا ہے۔ یقین ہے کہ پارسل ولایت پہنچ گیا ہو گا ؎
بہ بینم تا کردگارِ جہاں
درین آشکارا چہ دارد نہاں
اپنے والد کو میری دعا کہہ دینا۔ میرزا یوسف علی خاں کو میری دعا کہنا اور کہنا میں تمہاری فکر سے فارغ نہیں ہوں۔ اگر خدا چاہے تو کوئی راہ نکل آئے۔ سہ شنبہ ۳ مارچ ۱۸۶۰ ء۔ غالب۔
ایضاً
برخوردار اقبال آثار منشی شیو نراین کو بعد دعا کے معلوم ہو کہ ایکنسخہ بغاوت ہند کا ایک دو ورقہ معیار الشعرا کا معرفت برخوردار میرزا شہاب الدین خاں کے پہنچا اور آج چار شنبہ ۱۴ مارچ کی ہے کہ ایک نسخہ بغاوت ہند بھیجا ہوا تمہارا رامپور پہنچا۔ خدا تم کو جیتا رکھے۔ اب میں شنبہ کے دن ۱۷ مارچ کو دلی روانہ ہوں گا۔ تم کو بطریق اطلاع لکھا ہے اب بدستور ارسال خطوط دلی کو رہے یہاں نہ بھیجنا۔ ہاں بھائی ان دنوں میں برخوردار مرزا یوسف علی خاں وہاں آئے ہوئے ہیں آج ہی ان کا خط مجھ کو پہنچا ہے تم ضرور ان سے ملنا۔ منشی امیر علی صاحب کے ہاں وہ اترے ہوئے ہیں۔ ان کو بلا کر میری دعا کہنا اور کہنا کہ اچھا ہے دلّی چلے آؤ وہاں جو مجھ سے ملو گے تو زبانی سب کلام ہو رہے گا۔ اور اگر وہ ہاترس گئے ہوں تو یہ رقعہ جو تمہارے نام کا ہے ایک کاغذ میں لپیٹ کر ٹکٹ لگا کر ہاترس کو شیخ کریم بخش چوکیداروں کے دفعدار کے گھر کے پتے سے بھیج دینا۔ ضرور ضرور۔ از غالب۔ رواں داشتہ چہار شنبہ ۱۴ مارچ ۱۸۶۰ء وقت دوپہر۔
میاں دیوان کے کے میرٹھ چھاپے جانے کی حقیقت سن لو تب کچھ کلام کرو۔ میں رامپور میں تھا کہ ایک خط تمہارا پہنچا۔ سر نامہ پر لکھا تھا عرضداشت عظیم الدین احمد۔ منمقام میرٹھ۔ واللہ باللہ ۔ اگر میں جانتا ہوں کہ عظیم الدین کون ہے اور کیا پیشہ رکھتا ہے۔ بہرحال پڑھا، معلوم ہوا کہ ہندی دیوان اپنی سوداگری اور فائدہ اٹھانے کے واسطے چھاپا چاہتے ہیں۔ خیر چپ ہو رہا۔ جب میں رامپور سے میرٹھ آیا۔ بھائی مصطفے ٰ خاں صاحب کے ہاں اترا۔ وہاں منشی ممتاز علی صاحب میرے دوست قدیم مجھ کو ملے۔ انہوں نے کہا کہ اپنا اردو کا دیوان مجھ کو بھیج دیجیئے گا۔ عظیم الدین ایک کتاب فروش اس کو چھاپا چاہتا ہے۔ اب تم سنو دیوان ریختہ اتم و اکمل کہاں تھا۔ ہاں میں نے غدر سے پہلے لکھوا کر نواب یوسف علی خاں بہادر کو رامپور بھیج دیا تھا۔ اب جو میں دلی سے رامپور جانے لگا تو بھائی ضیاء الدین خاں صاحب نے مجھ کو تاکید کر دی تھی کہ تم نواب صاحب کی سرکار سے دیوان اردو لے کر اس کو کسی کاتب سے لکھو ا کر مجھ کو بھیج دینا۔ میں نے رامپور میں کاتب سے لکھوا کر بسبیل ڈاک ضیاء الدین خاں کو دلی بھیج دیا تھا۔آمدم بر سر مدعائے سابق۔ اب جو منشی ممتاز علی صاحب نے مجھ سے کہا تو مجھے یہی کہتے بن آئی کہ اچھا دیوان تو میں ضیاء الدین خاں سے لے کر بھیج دوں گا مگر کاپی کی تصحیح کا ذمہ کون کرتا ہے۔ نواب مصطفے ٰ خاں نے کہا کہ میں۔ اب کہو میں کیا کرتا۔ دلی آ کر ضیاء الدین خاں سے دیوان ایک آدمی کے ہاتھ نواب مصطفے ٰ خاں کے پاس بھیج دیا س۔ اگر میں اپنی خواہش سے چھپواتا تو اپنے گھر کا مطبع چھوڑ کر پرائے چھاپے خانے میں کتاب کیوں بھجواتا۔ آج اسی وقت میں نے تم کو یہ خط لکھا اور اسی وقت بھائی مصطفے ٰ خاں صاحب کو ایک خط بھیجا ہے اور ان کو لکھا ہے اگر چھاپا شروع نہ ہوا ہو تو نہ چھاپا جائے اور دیوان جلد میرے پاس بھیجا جائے۔ اگر دیوان آ گیا تو فوراً تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ اور اگر وہاں کاپی شروع ہو گئی ہے تو میں ناچار ہوں میرا کچھ قصور نہیں ہے۔ اگر سرگزشت کو بھی سن کر مجھ کو گنہگار ٹھہراؤ تو اچھا میرا بھائی میری تقصیر معاف کیجیو۔ رمضان اور عید کا قصہ لگا ہوا ہے یقین ہے کہ کاپی شروع نہ ہوئی ہو۔ اور دیوان میرا میرے پاس آئے اور تم کو پہنچ جائے۔ ۱۹ یا ۲۰ جنوری ۱۸۶۰ ء کتاب اور دونوں عرضیاں ولایت کو روانہ کر کے رامپور گیا ہوں۔ تین مہینے کی جہاز کی آمد و رفت ہے سو گزر چکی ہے۔ خواہ اسی مہینہ میں خواہی آغاز ماہِ آیندہ یعنی مئی میں جواب کے آنے کا مترصد ہوں دیکھیئے آئے یا نہ آئے۔ آئے تو خاطر خواہ آئے یا ایسا ہی سرسری آئے۔
ایضاً
برخوردار منشی شیو نراین کو دعا کے بعد معلوم ہو۔ تصویر پہنچی تحریر پہنچی۔ سنو میری عمر ستر برس کی ہے۔ تمہارا دادا میرا ہم عمر اور ہمباز تھا اور میں نے اپنے نانا صاحب خواجہ غلام حسین مرحوم سے سنا کہ تمہارے پردادا صاحب کو اپنا دوست بتاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں بنسی دھر کو اپنا فرزند سمجھتا ہوں۔ غرض اس بیان سے یہ ہے کہ سو سوا سے برس کی ہماری تمہاری ملاقات ہے پھر آپس میں نامہ و پیام کی راہ و رسم نہیں اور اس راہ و رسم کے مسدودہونے کا حاصل یہ ہے کہ ایک دوسرے کے حال کی خبر نہیں۔ اگر تم کو میرے حال سے آگاہی ہوتی تو مجھ کو بسبیل ڈاک کبھی اکبر آباد نہ بلاتے لو اب میری حقیقت سنو۔ چھٹا مہینا ہے کہ سیدھے ہاتھ میں ایک پھنسی نے صورت پھوڑے کی پیدا کی۔ پھوڑا پک کر پھوٹ کر ایک زخم۔ زخم کیا ایک غار بن گیا۔ ہندوستانی جراحوں کا علاج رہا۔ بگڑتا گیا۔ دو مہینے سے کالے ڈاکٹر کا علاج ہے۔ سلائیاں دوڑ رہی ہیں۔ استرہ سے گوشت کٹ رہا ہے۔ بیس دن سے صورت اقامت کی نظر آنے لگی ہے۔ اب ایک اور داستان سنو۔ غدر کے رفع ہونے اور دلّی کے فتح ہونے کے بعد میرا پنشن کھلا۔ چڑھا ہوا روپیہ دام دام ملا۔ آیندہ کو بدستور بے کم و کاست جاری ہوا۔ مگر لارڈ صاحب کا دربار اور خلعت جو معمولی و مقرری تھا مسدود ہو گیا۔ یہاں تک کہ صاحب سکرٹر بھی مجھ سے نہ ملے اور کہلا بھیجا کہ اب گورنمنٹ کو تم سے ملاقات کبھی منظور نہیں۔ میں فقیر متکبر(غالب نے شاید “متفکر” لکھا تھا جو کاتب کی اصلاح سے متکبر ہو گیا۔۔ واللہ اعلم چھوٹا غالب) مایوس دائمی ہو کر اپنے گھر بیٹھ رہا اور حکام شہر سے بھی ملنا موقوف کر دیا۔ بڑے لارڈ صاحب کے ورود کے زمانے میں نواب لفٹنٹ گورنر بہادر پنجاب بھی دلی میں آئے دربار کیا۔ خیر مجھ کو کیا۔ ناگاہ دربار کے تیسرے دن بارہ بجے چپراسی آیا اور کہا نواب لفٹنٹ گورنر نے یاد کیا ہے۔ بھائی یہ آخر فروری ہے اور میرا حال یہ ہے کہ علاوہ اس دائیں ہاتھ کے زخم کے سیدھی ران میں اور بائیں ہاتھ میں ایک ایک پھوڑا جدا ہے۔ حاجتی میں پیشاب کرتا ہوں۔ اٹھنا دشوار ہے بہرحال سوار ہو گیا۔ پہلے صاحب سکرٹر بہادر سے ملا پھر نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تصور میں کیا بلکہ تمنا میں بھی جو بات نہ تھی وہ حاصل ہوئی۔ یعنی عنایت سے عنایت اخلاق سے اخلاق۔ وقت رخصت خلعت دیا اور فرمایا کہ یہ ہم تجھ کو اپنی طرف سے از راہ محبت دیتے ہیں۔ اور مژدہ دیتے ہیں کہ لارڈ صاحب کے دربار میں بھی تیرا لمبر اور خلعت کھل گیا۔ انبالہ جا دربار میں شریک ہو، خلعت پہن۔ حال عرض کیا گیا فرمایا خیر اور کبھی دربار میں شریک ہونا۔ اس پھوڑے کا برا ہو انبالے نہ جا سکا آگرے کیونکر جاؤں۔ بابو ہر گوبند سہائے صاحب کو سلام۔ مضمون واحد۔ ۳ مئی۔
ایضاً
میاں تمہاری باتوں پر ہنسی آتی ہے۔ یہ دیوان جو میں نے تم کو بھیجا ہے اتمم و اکمل ہے وہ اور کون سی دو چار غزلیں ہیں جو مرزا یوسف علی خاں عزیز کے پا س ہیں اور اس دیوان میں نہیں۔ اس طرف سے آپ اپنی خاطر جمع رکھیں کہ کوئی مصرع میرا اس دیوان سے باہر نہیں۔ معہذا ان سے بھی کہوں گا اور وہ غزلیں ان سے منگا کر دیکھ لوں گا۔ تصویر میری لے کر کیا کرو گے۔ بے چارہ عزیز کیونکر کھچوا سکے گا۔ اگر ایسی ہی ضرورت ہے تو مجھ کو لکھو۔ میں مصور سے کھچوا کر تم کو بھجوا دوں نہ نذر درکار نہ نثار۔ میں تم کو اپنے فرزندوں کے برابر چاہتا ہوں اور شکر کی جگھ(جگہ)ہے کہ تم فرزند ِ سعادت مند ہو۔ خدا تم کو جیتا رکھے اور مطالب عالیہ کو پہنچا دے۔ سہ شنبہ ۳ جولائی ۱۸۶۰ ء۔ غالب۔
ایضاً
میاں میں جانتا ہوں کہ مولوی میر نیاز علی صاحب نے وکالت اچھی نہیں کی۔ میرا مدعا یہ تھا کہ وہ تم پر اس امر کو ظاہر کریں کہ دلی میں ہندی دیوان کا چھپنا پہلے اس سے شروع ہوا ہے کہ حکیم احسن اللہ خان صاحب تمہارا بھیجا ہوا فرمہ مجھ کو دیں اور وہ جو میں نے یہاں کے مطبع میں چھاپنے کی اجازت دی تھی یہ سمجھ کر دی تھی کہ اب تمہارا ارادہ اس کے چھاپنے کا نہیں۔ غور کرو میرٹھ کے چھاپے خانے والے محمد عظیم نے کس عجز و الحاح سے دیوان لیا تھا اور میں نے نظر تمہاری ناخوشی پر بجبر اس سے پھیر لیا۔ یہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ اور کو چھاپنے کی اجازت دوں۔ تم نے جو خط لکھنا موقوف کیا۔ میں سمجھا کہ تم خفا ہو میں نے مولوی نیاز علی صاحب سے کہا کہ برخوردار شیو نراین سے میری تقصیر معاف کروا دینا۔ بھائی خدا کی قسم میں تم کو اپنا فرزند دلبند سمجھتا ہوں۔ اس دیوان اور تصویر کا ذکر کیا ضرور ہے۔ رامپور سے وہ دیوا ن صرف تمہارے واسطے لکھوا کر لایا۔ دلی میں تصویر بہ ہزار جستجو بہم پہنچا کر مول لی اور دونوں چیزیں تم کو بھیج دیں وہ تمہارا مال ہے۔ چاہو اپنے پاس رکھو چاہو کسی کو دے ڈالو۔ چاہو پھینک دو۔ تم نے دستنبو کی جدول اور جلد بنوا کے ہم کو سوغات بھیجی تھی۔ ہم نے اپنی تصویر اور اردو کا دیوان تم کو بھیجا۔ میرے پیارے دوست ناظر بنسی دھر کے تم یادگار ہو ؎اے گل بتو خُرسند تو بُوئے کسے داری۔ خوشنودی کا طالب۔ غالب۔ ۱۰ جنوری ۱۸۶۲ء۔
٭٭٭
بنام بابو گوبند سہائے صاحب
برخوردار بہت دن ہوئے کہ میں نے تم کو خط لکھا ہے۔ اب اس خط کا جواب ضرور لکھو اور جلد لکھو۔ دو سوال ہیں تم سے۔ ایک تو یہ کہ یہاں مشہور ہے کہ نواب گورنر جنرل بہادر الہ آباد سے کانپور آ گئے۔ کوئی کہتا ہے آویں گے۔ اس کا حال جو کچھ تم کو معلوم ہو لکھو۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ دو قسم کی انگریزی شراب ایک تو کاس ٹیلن اور ایک اوڈلٹام یہ میں ہمیشہ پیا کرتا تھا اور یہ دونوں بیس روپیہ حد چوبیس روپیہ درجن آتی تھی۔ اب یہاں پہلے تو نظر ہی نہیں آتی تھی۔ اب پچاس روپیہ اور ساٹھ روپیہ درجن آتی ہے۔ وہاں تم دریافت کرو کہ ا س کا نرخ کیا ہے۔ اور یہ بھی معلوم کرو کہ بطریق ڈاک پہنچ سکتی ہے یا نہیں ؟ یہ دونوں امر دریافت کر کے مجھ کو جلد لکھو۔ اگر بقیمت مناسب ہاتھ آئے اور اس کا بھیجنا ممکن ہو تو یہاں سے روپیہ کی ہنڈوی بھیج دوں اور تم خرید کر بیل گاڑی کی ڈاک پر روانہ کر دو۔ جاڑوں میں مجھ کو بہت تکلیف ہے اور یہ گڑچھال کی شراب میں نہیں پیتا۔ یہ مجھ کو مضّرت کرتی ہے اور مجھے اس سے نفرت ہے۔ چار شنبہ ۲۹ دسمبر ۱۸۵۸ ء۔ ضروری جواب طلب از غالب جان بلب۔
ایضاً
صاحب تم کو دعا کہتا ہوں اور دعا دیتا بھی ہوں۔ شراب کی قیمت کے دو خط بھیجے۔ بھائی کاس ٹیلن اور اوڈلٹام دونوں چوبیس روپیہ درجن میں ہمیشہ لیا کرتا تھا اب یہاں مہنگی ملتی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا جب وہاں بھی اس قیمت کو ملتی ہے تو میرا مقدور نہیں۔ میں سمجھتا تھا شاید وہاں ارزاں ہو۔ خیر اس کو جانے دو۔ روٹی ہی ملے جائے تو غنیمت ہے۔ مہینہ بھر کی روٹی کا مول ایک درجن کی قیمت ہے۔
٭٭٭
بنام نواب امین الدین احمد خان صاحب بہادر رئیس لوہارو
بھائی صاحب ساٹھ ساٹھ برس سے ہمارے تمہارے بزرگوں میں قرابتیں بہم پہنچیں۔ نِچ کا میرا تمہارا معاملہ یہ کہ پچاس برس سے میں تم کو چاہتا ہوں بے اس کے کہ چاہت تمہاری طرف سے بھی ہو۔ چالیس برس سے محبت کا ظہور طرفین سے ہوا میں تمہیں چاہتا رہا تم مجھے چاہتے رہے۔ وہ امر عام اور یہ امر خاص کیا مقتضی اس کا نہیں کہ مجھ میں تم میں حقیقی بھائیوں کا سا اخلاص پیدا ہو جائے۔ وہ قرابت اور یہ مودّت کیا پیوندِ خون سے کم ہے۔ تمہارا یہ حال سنوں اور بے تاب نہ ہو جاؤں اور وہاں نہ آؤں۔ مگر کیا کروں مبالغہ نہ سمجھو۔ میں ایک قالبِ بے روح ہوں ؎ یکے مردہ شخصم بمردی رواں۔ اضمحلال روح کا روز افزوں ہے۔ صبح کو تبرید قریب دو پھر (پہر)کے روٹی۔ شام کو شراب۔ اگر اس میں سے جس دن ایک چیز اپنے وقت پر نہ ملی میں مر لیا۔ واللہ نہیں آ سکتا۔ باللہ نہیں آ سکتا۔ دل کی جگہ میرے پہلو میں پتھر بھی تو نہیں۔ دوست نہ سہی۔ دشمن بھی تو نہ ہوں گا۔ محبت نہ سہی عداوت بھی تو نہ ہو گی۔ آج تم دونو(دونوں ) بھائی اس خاندان میں شرف الدولہ اور فخرالدولہ کی جگہ ہو۔ میں لم یلد و لم یو لد ہوں۔ میری زوجہ تمہاری بہن میرے بچے تمہارے بچے ہیں خود جو میری حقیقی بھتیجی ہے اس کی اولاد بھی تمہاری ہی اولاد ہے۔ نہ تمہارے واسطے بلکہ ان بے کسوں کے واسطے۔ تمہارا دعا گو ہوں اور تمہاری سلامتی چاہتا ہوں۔ تمنا یہ ہے کہ انشاءاللہ تعالیٰ ایسا ہی ہو گا کہ تم جیتے رہو اور تم دونوں کے سامنے مر جاؤں تاکہ اس قافلہ کو اگر روٹی نہ دو گے تو چنے تو دو گے۔ اگر چنے بھی نہ دو گے اور بات نہ پوچھو گے تو میری بلا سے میں تو موافق اپنے تصور کے مرتے وقت ان فلک زدوں کے غم میں نہ الجھوں گا۔ جناب والدہ ماجدہ تمہاری یہاں آنا چاہتی ہیں اور ضیاء الدین خاں اسی واسطے وہاں پہنچتے ہیں۔ سنو بعد تبدیل آب و ہوا دو فائدے اور بھی بہت بڑے ہیں۔ کثرت اطبا صحت احبا تنہائی ہے نہ ملول رہو گے۔ حرف و حکایت میں مشغول رہو گے آؤ آؤ شتاب آؤ۔ بھائی مرزا علاؤ الدین خاں تم کو کیا لکھوں جو وہاں تمہارے دل پر گزرتی ہو۔ یہاں میری نظر میں ہے۔ خیر دعائے مزید عمر و دولت۔ نجات کا طالب۔ غالب۔
ایضاً
برادر صاحب جمیل المناقب عممیم الاحسان سلامت۔ بعد سلام مسنون دعائے بقائے دولت روز افزوں عرض کیا جاتا ہے کہ عطوفت نامہ کی رو سے فارسی دو غزلوں کی رسید معلوم ہوئی۔ تیسری غزل گوہر نتواں گفت۔ اختر نتواں گفت۔ جو تمہارے حسب الطلب بھیجی گئی ہے کیا نہیں پہنچی ہو گی یا تم بھول گئے ہو گے۔ وکیل حاضر باش دربار اسد اللہ ی یعنی علائی مولائی نے اپنے مؤکل کی خوشنودی کے لئے فقیر کی گردن پر سوار ہو کر ایک اردو غزل کی غزل لکھوائی۔ اگر پسند آئے تو مطرب کو سکھائی جائے۔ جھنجھوٹی کے اونچے سروں میں۔ راہ رکھوائی جاوے۔ اگر جیتا رہا تو جاڑوں میں آ کر میں بھی سن لوں گا۔ والسلام مع الاکرام۔ نجات کا طالب غالب۔ چہار شنبہ ۱ ربیع الاول ۱۲۸۲ہجری۔
غزل
میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی
تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی
غیر کی مرگ کا غم کس لیے ، اے غیرتِ ماہ؟
ہیں ہوس پیشہ بہت، وہ نہ ہُوا، اور سہی
تم ہو بت، پھر تمھیں پندارِ خُدائی کیوں ہے ؟
تم خداوند ہی کہلاؤ، خدا اور سہی
حُسن میں حُور سے بڑھ کر نہیں ہونے کے کبھی
آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی
تیرے کوچہ کا ہے مائل، دلِ مضطر میرا
کعبہ اک اور سہی، قبلہ نما اور سہی
کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے ، واعظ؟
خلد بھی باغ ہے ، خیر آب و ہوا اور سہی
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں ، یا رب؟
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
مجھ کو وہ دوکہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
زہر کچھ اور سہی، آبِ بقا اور سہی
مجھ سے ، غالبؔ، یہ علائی نے غزل لکھوائی
ایک بیداد گرِ رنج فزا اور سہی
(٭کتاب میں حاشیہ پر لاحول ولا قوۃ بھی لکھا ہے ٭ چھوٹا غالب)
ایضاً
برادر صاحب جمیل المناقب عممیم الاحسان سلامت۔ تمہارے تفریح طبع کے واسطے ایک غزل نئی لکھ کر بھیجی ہے خدا کرے پسند آئے اور مطرب کو سکھائی جائے آج شہر کے اخبار لکھتا ہوں۔ سوانح لیل و نہار لکھتا ہوں۔ کل پنجشنبہ ۲۵ مئی کو اول روز پہلے بڑے زور کی آندھی آئی پھر خوب مینہ برسا وہ جاڑا پڑا کہ شہر کرہ زمہریر ہو گیا۔ بڑے دریبہ کا دروازہ ڈھایا گیا۔ قابل عطار کے کوچہ کا بقیہ مٹایا گیا۔ کشمیری کٹڑہ کی مسجد زمین کا پیوند ہو گئی۔ سڑک کی وسعت دو چند ہو گئی۔ اللہ اللہ گنبد مسجدوں کے ڈھائے جاتے ہیں اور ہنود کے ڈیوڑھیوں کے جھنڈیوں کے پرچم پھراتے ہیں۔ ایک شیر زور آور اور پیلتن بندر پیدا ہوئے مکانات جا بجا ڈھاتا پھرتا ہے۔۔ فیض اللہ خاں بنگش کی حویلی پر جو گلدستے ہیں جس کو عوام گمزی کہتے ہیں ان میں سے ہلا ہلا کر ایک کی بنا ڈھا دی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ واہ رے بندر۔ یھ(یہ)زیادتی اور پھر شہر کے اندر ریگستان کے ملک سے ایک سردار زادہ کثیر العیال عسیر المال عربی فارسی انگریزی تین زبانوں کا عالم دلّی میں وارد ہوا ہے۔ بلی ماروں کے محلہ میں ٹھہرا ہے۔ بحسبِ ضرورت حکام شہر سے مل لیا ہے۔ باقی گھر کا دروازہ بند کیے بیٹھا رہتا ہے۔ گاہ گاہ نہ ہر شام و پگاہ غالب علی شاہ درویش کے تکیہ پر آ جاتا ہے۔ اہل شہر حیران ہیں کہ کھاتا کہاں سے ہے اس کے پاس روپیہ آتا کہاں سے ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ باپ سے پھر گیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ بے سبب باپ کی نظر سے گر گیا ہے۔ دیکھیئے انجام کار کیا ہو۔ غالب علی شاہ کا قول یہ ہے کہ کُل کا بھلا ہو۔ جمعہ ۲۲ مئی ۱۸۶۵ ء۔
ایضاً
جمیل المناقب عممیم الاحسان سلامت۔ بعد سلام مسنون و دعائے بقائے دولت روز افزوں عرض کیا جاتا ہے کہ استاد میر جان آئے اور ان کی زبانی تمہاری خیر و عافیت معلوم ہوئی۔ خدا تم کو زندہ و تندرست و شاد و شاداں رکھے۔ یہاں کا حال کیا لکھوں۔ بقول سعدی علیہ الرحمۃ؎ نماند آب جز آبِ چشم در یتیم۔ شب و روز آگ برستی ہے یا خاک۔ نہ دن کو سورج نظر آتا ہے نہ رات کو تارے۔ زمین سے اٹھتے ہیں شعلے۔ آسمان سے گرتے ہیں شرارے۔ چاہا تھا کہ کچھ گرمی کا حال لکھوں۔ عقل نے کہا کہ دیکھ نادان قلم انگریزی دیا سلائی کی طرح جل اٹھے گی اور کاغذ کو جلا دے گی۔ بھائی ہوا کی گرمی تو بڑی بلا ہے گاہ گاہ جو ہوا بند ہو جاتی ہے۔ وہ اور بھی جانگزا ہے۔ خیر اب فضل سے قطع نظر ایک کودکِ غریب الوطن کے اختلاط کی گرمی کا ذکر کرتا ہوں کہ وہ جاں سوز نہیں بلکہ دل افروز ہے۔ پرسوں فرّخ مرزا آیا۔ اسکا باپ بھی اس کے ساتہ(ساتھ)تھا میں نے اس سے پوچھا کہ کیوں صاحب میں تمہارا کون ہوں اور تم میرے کون ہو؟ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا۔ حضرت آپ میرے دادا ہیں اور میں آپ کا پوتا ہوں۔ پھر میں نے پوچھا کہ تمہاری تنخواہ آئی کہا جناب عالی آکا جان کی تنخواہ آ گئی ہے میری نہیں آئی میں نے کہا تُو لوہارو جائے تو تنخواہ پائے۔ کہا حضرت میں تو آکا جان سے روز کہتا ہوں کہ لوہارو چلو۔ اپنی حکومت چھوڑ کر دلّی کی رعیت میں کیوں مل گئے۔ سبحان اللہ بالشت بھر کا لڑکا اور یہ فہم درست اور طبع سلیم۔ میں خوبی خو اور فرخی سیرت پر نظر کر کے اس کو فرخ سیر کہتاہوں۔ مصاحب بے بدل ہے۔ تم اس کو بلا کیوں نہیں بھیجتے۔ مگر بھائی غلام حسین خاں مرحوم کے متبع ہو کہ زین العابدین و حیدر حسن اور ان کی اولاد کو کبھی منہ نہ لگایا۔ علاؤ الدین جیسا ہوشمند ہمہ دان بیٹا۔ فرخ سیر جیسا دانشور بذلہ سنج اور شیریں سخن پوتا۔ یہ دو عطیہ عظمیٰ و موہبت کبریٰ ہیں تمہارے واسطے من جانب اللہ ؎
اگر در یافتی بردانشت بوس
وگر غافل شدی افسو س افسوس
آج ۲۲ جون کی ہے۔ آفتاب سرطان میں آ گیا۔ لفظ انقلاب صیفی میں۔ دن گھٹنے لگا چاہیے کہ تمہارا غیظ و غضب ہر روز کم ہو جائے۔ نجات کا طالب غالب۔
ایضاً
بھائی صاحب آج تک سونچتا (سوچتا)رہا کہ بیگم صاحبہ قبلہ کے انتقال کے باب میں تم کو کیا لکھوں۔ تعزیت کے واسطے تین باتیں ہیں۔ اظہارِ غم۔ تلقینِ صبر۔ دعائے مغفرت۔ سو بھائی اظہارِ غم تکلف محض ہے۔ جو غم تم کو ہوا ہے ممکن نہیں کہ دوسرے کو ہوا ہو۔ تلقینِ صبر بے دردی ہے۔ یہ سانحہ عظیم ایسا ہے جس نے غمِ رحلت نواب مغفور کو تازہ کیا پس ایسے موقع پر صبر کی تلقین کیا کی جائے۔ رہی دعائے مغفرت میں کیا اور میری دعا کیا مگر چونکہ وہ میری مربیہ اور محسنہ تھیں دل سے دعا نکلتی ہے۔ معہذا تمہارا یہاں آنا سنا جاتا تھا۔ اس واسطے خط نہ لکھا۔ اب جو معلوم ہوا کہ دشمنوں کی طبیعت ناساز ہے۔ اور اس سبب آنا نہ ہوا۔ یہ چند سطریں لکھی گئیں حق تعالیٰ تم کو سلامت اور تندرست اور خوش رکھے۔ تمہاری خوشی کا طالب غالب۔ ۱۵ نومبر ۱۸۶۶ ء۔
(اللہ جانے سنہ تاریخ ۱۸۶۲ ہے یا ۱۸۶۶ ء۔ کیونکہ کتاب میں ۱۸۲۶ ء لکھا ہے۔ چھوٹا غالب)
ایضاً
اخ مکرم خدا کرم کی خدمت میں بعد اہدائے سلامِ مسنون ملتمس ہوں۔ تمہارا شہر میں رہنا موجب تقویت دل تھا ؎ گو نہ ملتے تھے پر اک شہر میں تو رہتے تھے۔ بھائی ایک سیر دیکھ رہا ہوں۔ کئی آدمی طیور آشیاں گم کردہ کی طرح ہر طرف اڑتے پھرتے ہیں۔ ان میں سے دو چار بھولے بھٹکے کبھی یہاں بھی آ جاتے ہیں۔ لو صاحب اب وعدہ کب وفا کرو گے۔ علائی کو کب بھیجو گے ابھی تو شب کے چلنے اور دن کے آرام کرنے کے دن میں بارش شروع ہو جائے گی تو آپ کی اجازت بھی کام نہ آئے گی چلنے والا کہے گا۔ میں رہرو چالاک ہوں تیراک نہیں۔ لوہارو سے دلّی تک کشتی بغیر کیونکر جاؤں۔ دخّانی جہاز کہاں سے لاؤں ؎ اے ز فرصت بے خبر در ہر چہ باشی زود باش۔ علائی کے دیدار کا طالب غالب۔ استاد میر جان کو سلام۔ یوم الخمیس۔ ۱۷ محرم ۱۸۸۱ ہجری۔
٭٭٭
بنام مرزا علاؤ الدین احمد خاں صاحب بہادر
صاحب تمہارا خط پہنچا۔ مطالب دل نشین ہوئے۔ غوغائے خلق سے مجھ کو غرض نہیں۔ کیا اچھی رباعی ہے کسی کی ؎
مومن بخیالِ خویش مستم داند
کافر بگماں خدا پرستم داند
مُردم ز غلط فہمی مردم مُردم
اے کاش کسے ہر آنچہ ہستم داند
بھائیوں سے پھر نہیں ملا۔ بازار میں نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے جواہر خبردار میرا سلام اخوین کو اور ان کا سلام مجھ کو پہنچا دیتا ہے اسی کو غنیمت جانتا ہوں ؎
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
یہ مقطع اور مطلع مندرجہ دیوان ہے مگر اس وقت یہ دونوں شعر حسبِ حال نظر آئے اس واسطے لکھ دئیے گئے۔ تم نے اشعار جدید مانگے خاطر تمہاری عزیز ایک مطلع صرف دو مصرع آگے کے کہے ہوئے یاد آ گئے کہ وہ داخل دیوان بھی نہیں۔ ان پر فکر کر کے ایک مطلع اور پانچ شعر لکھ کر سات بیت کی ایک غزل تم کو بھیجتا ہوں۔ بھائی کیا کہوں کہ کس مصیبت سے یہ چھ بیتیں ہاتھ آئی ہیں اور وہ بھی بلند رتبہ نہیں ؎
رقیب پر ہے اگر لطف، تو ستم کیا ہے ؟
تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
کٹے تو شب کہیں ، کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ وہ زُلفِ خم بخم کیا ہے ؟
لکھا کرے کوئی احکامِ طالعِ مولود
کسے خبر ہے کہ واں جنبشِ قلم کیا ہے ؟
نہ حشرونشر کا قائل نہ کیش و ملت کا
خدا کے واسطے ! ایسے کی پھر قسم کیا ہے ؟
وہ داد و دید گرا نمایہ شرط ہے ہمدم
وگرنہ مُہرِ سلیمان و جامِ جم کیا ہے ؟
سخن میں خامۂ غالبؔ کی آتش افشانی
یقین ہے ہم کو بھی، لیکن اب اس میں دم کیا ہے ؟
(کتاب میں لفظ “گرانمایہ ” کی بجائے کاتب نے غلطی سے “گرانمانہ” لکھ دیا ہے۔ چھوٹا غالب)
لو صاحب تمہارا فرمانِ قضا تو امان بجا لایا مگر اس غزل کا مسودہ میرے پاس نہیں ہے اگر باحتیاط رکھو گے اور اردو دیوان کے حاشیہ پر چڑھا دو گے تو اچھا کرو گے۔ عمر فراواں و دولت فزوں باد۔ فقط۔ جمعہ ۲۲ دسمبر ۱۸۶۵ ء بارہ پر دو بجے تین کا عمل۔
ایضاً
مرزا روبرو بہ از پہلو۔ آؤ میرے سامنے بیٹھو۔ آج صبح کے سات بجے باقر علی خاں اور حسین علی خاں مع ۱۴ مرغ ۶ بڑے اور ۸ چھوٹے کے دلّی کو روانہ ہوئے۔ دو آدمی میرے ان کے ساتھ گئے۔ کلو اور لڑکا نیاز علی یعنی ڈیڑھ آدمی میرے پاس ہیں۔ نواب صاحب نے وقت رخصت ایک ایک دوشالہ مرحمت کیا۔ مرزا نعیم بیگ ابن مرزا کریم بیگ دو ہفتہ سے یہاں وارد ہیں اور اپنی بہن کے ہاں ساکن ہیں کہتے ہیں کہ تیرے ساتھ دلّی چلوں گا۔ اور وہاں سے لوہارو جاؤں گا۔ میرے چلنے کا حال یہ ہے کہ انشاءاللہ تعالیٰ اسی ہفتہ میں چلوں گا۔ آپ چال چُوکے اردو لکھتے لکھتے جو خط مشتمل ایک مطلب پر تھا اس کو تم نے فارسی لکھا۔ اور فارسی بھی مقصدیانہ نہیں کہ امیر کو اور اپنے بزرگ کو کبھی بصیغہ مفرد نہ لکھیں۔ یہ وہی چھوٹی “ہے ” اور بڑی “حے” کا قصہ ہے۔ خیر خط نہ دکھاؤں گا۔ ماکتب فیہ کہہ کر کام کا مقدمہ نکال لوں گا۔ میں نے تو چلتے وقت فرخ سیر کے اتالیق کی زبانی بھائی کو کھلا (کہلا)بھیجا تھا کہ تم اگر کوئی اپنا مدعا کہو تو میں اس کی درستی کرتا لاؤں جواب آیا کہ اور کچھ مدعا نہیں صرف مکان کا مقدمہ ہے سواس مقدمہ میں میرا اور میرے شرکاء کا وکیل کے ہاں موجود ہے اگر وہ اس امر کا ذکر کرتے ہیں تو میں ان کے خالو اصغر علی خاں کے نام عرضی یا خط لکھوا لاتا۔ بہرحال اب بھی قاصر نہ رہوں گا۔ تاریخ اوپر لکھ آیا۔ نام اپنا بدل کر مغلوب رکھ لیا ہے۔
ایضاً
یکشنبہ یکم اکتوبر۱۸۶۵ء
؎ شکر ایزد کہ ترا باپدرت صلح فتاد
حوریاں رقص کناں ساغر شکرانہ زدند
قدسیاں بہر دعائے تو ووالائے پدرت
قرعہ فال بنامِ من دیوانہ زدند
میاں تم جانتے ہو کہ میں عازم رام پور تھا اسباب مساعدت ہو گئے بشرط حیات جمعہ کو روانہ ہوں گا۔ لڑکے بالوں کی خیر و عافیت علی حسین خاں کی تحریر سے معلوم ہوتی رہتی ہے میرا لکھنا زائد ہے ایک بار میں صاحب کمشنر کی عیادت کو گیا تھا فرخ مرزا بھی میرے ساتھ گیا تھا۔ مزاج کی خبر پوچھ آیا۔ بھائی صاحب کو میرا سلام کہنا۔ راقم غالب علی شاہ۔
ایضاً
جانا جانا ایک خط میرا تمہارے دو خطوں کے جواب میں تم کو پہنچا ہو گا۔ آج میں علی اصغر خاں بہادر کے گھر گیا ان سے میں نے تذکرہ کیا فرمایا کہ فرخ سیر کی ماں کو لکھ بھیجو کہ سال بھر کی تنخواہ کی رسید بھیج دیں یہاں سے روپیہ بھیج دیا جائے گا۔ آج منگل ہے ۷ شعبان کی اور ۲۶ دسمبر کی۔ دونوں بھتیجے تمہارے جمعہ کے دن ۲۲ دسمبر کو روانہ دہلی ہوئے۔ میں پرسوں یوم الخمیس کو مرحلہ پیما ہوں گا؎
اول ما آخر ہر منتہی در اکرام و عزت
آخر ما جیب تمنا تہی از مال و دولت
تو کمان گروہہ کہا کر فارسی بگھارا کر مجھ سے ہندی کی چندی سن۔ ایک غلیل حضور نے دینی کی ہے۔ ایک علی اصغر خاں سے اینٹھی دونوں کل آئیں گی۔ مرزا نعیم بیگ ابن مرزا کریم بیگ دو تین ہفتہ سے یہاں وارد اور اپنی بہن کے ہاں ساکن ہیں۔ زاد کی خداے چٹھی فقیر پر کی۔ راحلہ وہ جانیں۔ فقط۔ غالب۔
ایضاً
صبح دو شنبہ شانزدہم از مہِ صیام۔ میری جان نئے مہماں کا قدم تم پر مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری اور اس کی اور اس کے بھائیوں کی عمر و دولت میں برکت دے۔ تمہاری طرزِ تحریر سے صاف نہیں معلوم ہوتا کہ سعید ہے یا سعیدہ ہے ثاقب اس کو عزیز اور غالب عزیز جانتا ہے۔ واضح لکھو تا احتمال رفع ہو۔ خط ثاقب کے نام کا توبہ توبہ خط کاہے کو ایک تختہ کاغذ کا میں نے سراسر پڑھا۔ لطیفہ و بذلہ و شوخی و شوخ چشمی کا بیان جب کرتا کہ فحوائے عبارت سے جگر خوں نہ ہو جاتا۔ بھائی کا غم جدا، ایسا سخن گزار، ایسا زبان آور، ایسا عیار طرار۔ یوں عاجز و درماندہ و از کار رفتہ ہو جائے۔ تمہارا غم جدا۔ ساغر اول و درد کیا دل لے کر آئے کیا زبان لے کر آئے کیا علم لے کر آئے ، کیا عقل لے کر آئے اور پھر کسی روش کو برت نہ سکے کسی شیوہ کی داد نہ پائے گویا نظیری تمہاری زبان سے کہتا ہے ؎
جوہر بینش من در تہٖ زنگار بماند
آنکہ آئینہ من ساخت پرداخت دریغ
بھائی اس معرض میں مَیں بھی تیرا ہم طالع اور ہمدرد ہوں اگر چہ یک فنہ ہوں مگر مجھے اپنے ایمان کی کی قسم میں نے اپنی نظم و نثر کی داد باندازہ بایست پائی نہیں آپ ہی کہا آپ ہی سمجھا۔ قلندری و آزادگی و ایثار و کرم کے جو داعی میرے خالق نے مجھ میں بھر دئیے ہیں بقدر ہزار ایک ظہور میں نہ آئے نہ وہ طاقت جسمانی کہ ایک لاٹھی ہاتھ میں لوں اور اس میں شطرنجی اور ایک ٹین کا لوٹا مع سوت کی رسی کے لٹکا لوں اور پیادہ پا چل دوں۔ کبھی شیراز جا نکلا۔ کبھی مصر جا ٹھہرا۔ کبھی نجف جا پہنچا۔ نہ وہ دستگاہ کہ ایک عالم کا میزبان بن جاؤں اگر تمام عالم میں نہ ہو سکے نہ سہی۔ جس شہر میں رہوں اس شہر میں تو بھوکا ننگا نظر نہ آئے ؎
نہ بستان سرائے نہ میخانہ
نہ دستاں سرائے نہ جانانہ
نہ رقص پری پیکران بر بساط
نہ غوغائے رامشگراں دررباط
خدا کا مقہور۔ خلق کا مردود۔ بوڑھا ناتوان بیمار فقیر نکبت میں گرفتار۔ تمہارے حال میں غور کی اور چاہا کہ اس کا نظیر بہم پہنچاؤں۔ واقعہ کربلا سے نسبت نہیں دے سکتا۔ لیکن واللہ تمہارا حال اس ریگستان میں بعینہٖ ایسا ہے جیسا مسلم ابن عقیل کا حال کوفہ میں تھا۔ تمہارا خالق تمہاری اور تمہارے بچوں کی جان و آبرو کا نگہبان میرے اور معاملات کلام و کمال سے قطع نظر کرو۔ وہ جو کسی کو بھیک مانگتے نہ دیکھ سکے اور خود در بدر بھیک مانگے وہ میں ہوں۔
ایضاً
چاشتگاہ سہ شنبہ دوازدہم نومبر ۱۸۶۱ء۔ آج جس وقت کہ روٹی کھانے کو گھر جاتا تھا شہاب الدین خاں تمہارا خط اور مصری کی ٹھلیا لے کر آئے۔ میں اس کو لوا کر گھر گیا اپنے سامنے مصری تلوائی آدھ پاؤ اوپر دو سیر نکلی۔ خانہ دولت آباد۔ یہی کافی دوافی ہے اور اب حاجت نہیں۔ روٹی کھا کر باقر آیا۔ تمہارے ابن عم کا آدمی جوابِ خط کا متقاضی ہوا کہ شتر سوار جانے والا ہے۔ میں کھانا کھا کر لیٹنے کا عادی ہوں۔ لیٹے لیٹے مصری کی رسید لکھ دی۔ مطالب مندرجہ خط کا جواب بشرط حیات کل بھیجوں گا۔ غالب۔
اقبال نشانا بخیر و عافیت و فتح و نصرت لوہارو پہنچنا مبارک ہو۔ مقصود ان سطور کی تحریر سے یہ ہے کہ مطبع اکمل المطابع میں چند احباب میرے مسودات اردو کے جمع کرنے پر اور اس کے چھپوانے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ مجھ سے مسودات مانگے ہیں اور اطراف و جوانب سے بھی فراہم کیے ہیں۔ میں مسودہ نہیں رکھتا جو لکھا وہ جہاں بھیجنا ہوا وہاں بھیج دیا۔ یقین ہے کہ خط میرے تمہارے پاس بہت ہوں گے اگر ان کا ایک پارسل بنا کر بسبیل ڈاک بھیج دو گے یا آج کل میں کوئی ادھر آنے والا ہو اس کو دے دو گے تو موجب میری خوشی کا ہو گا۔ اور میں ایسا جانتا ہوں کہ اس کے چھاپے جانے سے تم بھی خوش ہو گے۔ بچوں کو دعا۔ غالب۔
ایضاً
جانِ غالب یاد آتا ہے کہ تمہارے عم نامدار سے سنا ہے کہ لغات دساتیر کی فرہنگ وہاں ہے اگر ہوتی تو کیوں نہ تم بھیج دیتے خیر ؎ آنچہ مادرکار داریم اکثرے درکار نیست۔ تم ثمر نورس ہو اس نہال کے جس نے میری آنکھوں کے سامنے نشو نما پائی ہے اور میں ہوا خواہ و سایہ نشین اس نہال کا رہا ہوں کیونکر تم مجھ کو عزیز نہ ہو گے۔ رہی دید و ادید اس کی دو صورتیں ہیں۔ تم دلّی میں آؤ یا میں لوہارو آؤں۔ تم مجبور میں معذور۔ خود کہتا ہوں کہ میرا عذر زنہار مسموع نہ ہو۔ جب تک تم سمجھ نہ لو کہ میں کون ہوں اور ماجرا کیا ہے۔ سنو عالم دو ہیں۔ ایک عالم ارواح اور ایک عالم آب و گل۔ حاکم ان دونوں عالموں کا وہ ایک ہے جو خود فرماتا ہے لِمَنِ المُلکُ الیَوم اور پھر آپ جواب دیتا ہے۔ للہِ الواحِدِ القہار۔ ہر چند قاعدہ عام یہ ہے کہ عالم آب و گل کے مجرم عالم ارواح میں سزا پاتے ہیں لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالم ارواح کے گنہگار کو دنیا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں۔ چنانچہ میں آٹھویں رجب ۱۲۱۲ھ میں روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا گیا۔ ۱۳ برس حوالات میں رہا۔ ۷ رجب ۱۲۲۵ ھ کو میرے واسطے حکم دوام حبس صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی۔ اور دلّی شہر کو زندان مقرر کیا اور مجھے اس زندان میں ڈال دیا۔ فکر نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا۔ برسوں کے بعد جیل خانہ سے بھاگا تین برس بلاد شرقیہ میں پھرتا رہا۔ پایانِ کار مجھے کلکتہ سے پکڑ لائے اور پھر اسی محبس میں بٹھا دیا۔ جب یہ دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے۔ دو ہتھکڑیاں اور بڑھا دیں۔ پاؤں بیڑی سے فگار۔ ہاتھ ہتھکڑیوں سے زخم دار۔ مشقت مقرری اور مشکل ہو گئی۔ طاقت یک قلم زائل ہو گئی۔ بے حیا ہوں سال گزشتہ بیڑی کو زاویہ زندان میں چھوڑ کر مع دونوں ہتھکڑیوں کے بھاگا۔ میرٹھ، مراد آباد ہوتا ہوا رامپور پہنچا۔ کچھ دن کم دو مہینے وہاں رہا تھا کہ پھر پکڑا آیا اب عہد کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا۔ بھاگوں کیا بھاگنے کی طاقت بھی نہ رہی۔ حکمِ رہائی دیکھیئے کب صادر ہو ایک ضعیف سا احتمال ہے کہ اس ماہ ذی الحجہ میں چھوٹ جاؤں۔ بہر تقدیر بعد رہائی کے تو آدمی سوائے اپنے گھر کے اور کہیں جاتا۔ میں بھی بعد نجات سیدھا عالم ارواح کو چلا جاؤں گا؎
فرخ آں روز کہ از خانہ زنداں بروم
سوئے شہر ِ خود ازیں وادی ویراں بروم
گانے میں غزل کے سات شعر کافی ہوتے ہیں۔ دو فارسی غزلیں دو اردو غزلیں اپنے حافظہ کی تحویل میں بھیجتا ہوں بھائی صاحب کی نذر
غزل
از جسم بجاں نقاب تاکَے
ایں گنج دریں خراب تاکَے
ایں گوہر پُر فروغ یا رب
آلودہ خاک و آب تا کَے
ایں راہرو ِ مسالک قدس
واماندہ خورد و خواب تا کَے
بیتابی برق جز دمے نیست
ماویں ہمہ اضطراب تا کَے
جاں در طلبِ نجات تا چند
دل در تعبِ عتاب تا کَے
پرسش ز تو بے حساب باید
غمہائے مرا حساب تاکَے
غالبؔ بہ چنیں کشاکش اندر
یا حضرت بو تراب تا کَے
دوش کز گردش بختم گلہ بر رُوئے تو بود
چشم سوئے فلک و رُوئے سخن سوئے تو بود
آنچہ شب شمع گماں کردی و رفتی بعتاب
نفسم پردہ کشائے اثرِ خوئے تو بود
چہ عجب صانع اگر نقش دہانت گم کرد
کاں خود از حیرتیاں رخ نیکوئے تو بود
بکف باد مباد ایں ہمہ رسوائی دل
کاخراز پردہ گیانِ شکنِ سوئے تو بود
مُردن و جاں بتمنائے شہادت دادن
ہم از اندیشہ آزردنِ بازوئے تو بود
دوست دارم کر ہے را کہ بکارم زدہ اند
کایں ہمانست کہ پیوستہ در آبروئے تو بود
لالہ و گُل ودمد از طرف مزارش پسِ مرگ
تا چہا دردلِ غالبؔ ہوس ِ روئے تو بود
ہے بس کہ ہر ایک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور
لوگوں کو ہے خورشید جہانتاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغ نہاں اور
ہے خون ِ جگر جوش میں دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدہ خوننابہ فشاں اور
یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے
جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں گے ہاں اور
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
اس بزم میں نہیں بنتی مجھے حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے
ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں
بھولے سے اس نے سینکڑوں وعدے وفا کیے
صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خو
دینے لگا ہے بوسے بغیر التجا کیے
رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجادہ رہنِ مے
مدت ہوئی ہے دعوتِ آب و ہوا کیے
کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو
کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے
غالب تمھیں کہو کہ ملے گا جواب کیا
مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے
ایضاً
سعادت و اقبالن زشان میرز ا علاؤ الدین خاں بہادر کو فقیر اسد اللہ کی دعا پہنچے۔ کل شام کو مخدوم مکرم جناب آغا محمد حسین صاحب شیرازیبسواری ریل مانند دولتِ دلخواہ کہ ناگاہ آوے فقیر کے تکیہ میں تشریف لائے۔ شب کو جناب ڈپٹی ولایت حسین خاں کے مکان میں آرام فرمایا اب وہاں آتے ہیں۔ قریب طلوعِ آفتاب بچشم نیم باز یہ رقعہ تمہارے نام لکھا ہے جو کچھ جی چاہتا ہے وہ مفصل نہیں لکھ سکتا۔ مختصر مفید آغا صاحب کو دیکھ کر یوں سمجھا کہ میرا بوڑھا چچا غالب جوا ن ہو کر میلے کی سیر کو حاضر ہوا ہے۔ پس نور چشمان راحت جاں مرزا باقر علی خاں بہادرو مرزا حسین علی خاں بہادر جناب آغا صاحب کا قدمبوس بجا لائین اور ان کی خدمت گزاری کو اپنی سعادت اور میری خوشنودی سمجھیں۔ بس ہاں مرزا علائی اگر کرنیل الگزنڈر اسکنر بہادر سے ملاقات ہو تو میرا سلام کہنا۔
ایضاً
صاحب میری داستان سنیئے۔ پنشن بے کم و کاست جاری ہوا۔ زرِ مجتمعہ سہ سالہ یک مشت مل گیا۔ بعد ادائے حقوق چار سو روپیہ دینے باقی رہے اور ستاسی روپیہ گیارہ آنے مجھے بچے۔ مئی کا مہینہ بدستور ملا۔ آخر جون میں حکیم آ گیا کہ پنشن دار علی العموم ششماہی پایا کریں بماہ پنشن تقسیم نہ ہوا کرے۔ میں دس بارہ برس سے حکیم محمد حسن خاں کی حویلی میں رہتا ہوں۔ اب وہ حویلی غلام اللہ خاں نے مول لے لی۔ آخر جون میں مجھ سے کہا کہ حویلی خالی کر دواب مجھے فکر پڑی ہے کہ کہیں دو حویلیاں قریب ہمدگر ایسی ملیں کہ ایک محلسرا اور ایک دیوان خانہ ہو۔ نہ ملیں۔ ناچار یہ چاہا کہ بلی ماروں میں ایک مکان ایسا ملے کہ جس میں جا رہوں۔ نہ ملا۔ تمہاری چھوٹی پھوپھی نے بے کس نوازی کی۔ کڑوڑا والی حویلی مجھ کو رہنے کو دی۔ ہر چند وہ رعایت مرعی نہ رہی کہ محلسرا سے قریب ہو مگر خیر بہت دور بھی نہیں۔ کل یا پرسوں وہاں جا رہوں گا۔ ایک پاؤں زمیں پر ہے ایک پاؤں رکاب میں توشہ کا وہ حال گوشہ کی یہ صورت۔ کل شنبہ ۱۷ ذی الحجہ کی اور ۷ جون کی پہر دن چڑھے تمہارا خط پہنچا۔ دو گھڑی کے بعد سنا گیا کہ امین الدین خاں صاحب نے اپنی کوٹھی میں نزول اجلال کیا۔ پہر دن رہے از راہ مہربانی ناگاہ میرے ہاں تشریف لائے۔ میں نے ان کو دُبلا و افسردہ پایا۔ دل کُڑھا۔ علی حسین خاں بھی آیا۔ اس سے بھی ملا۔ میں نے تمہیں پوچھا کہ وہ کیوں نہیں آئے ؟ بھائی صاحب بولے کہ جب میں یہاں آیا تو کوئی وہاں بھی تو رہے اور اس سے علاوہ وہ اپنے بیٹے کو بہت چاہتے ہیں۔ میں نے کہا اتنا ہی جتنا تم اس کو چاہتے تھے۔ ہنسنے لگے۔ غرض کہ میں نے بظاہر ان کو تم سے اچھا پایا۔ آگے تم لوگوں کے دلوں کا مالک اللہ ہے۔ راقم غالب۔ نگاشتہ وردان داشتہ یکشنبہ۔ بین الظہر و العصر۔
ایضاً
چہار شنبہ ۲۵ ستمبر ۱۸۶۱ ء ہنگام نیمروز۔ علائی مولائی اس وقت تمہارا خط پہنچا۔ ادھر پڑھا ادھر جواب لکھا۔ واہ کیا کہنا ہے رامپور کے علاقہ کو گاؤ سنگ اور مجھ کو بیل یا اس پیوند کے طعنہ کو تازیانہ اور مجھ کو گھوڑا بنایا۔ وہ علاقہ اور وہ پیوند لوہارو کے سفر کا مانع و مزاحم کیوں ہو۔ رئیس کی طرف سے بطریق وکیل محکمہ کمشنری میں معین نہیں ہوں۔ جس طرح امرا واسطے فقرا کے وجہ معاش مقرر کر دیتے ہیں اسی طرح اس سرکار سے میرے واسطے مقرر ہے۔ ہاں فقیر سے دعائے خیر اور مجھ سے اصلاح نظم مطلوب ہے چاہوں دلی میں رہوں چاہوں اکبر آباد۔ چاہوں لاہور۔ چاہوں لوہارو۔ ایک گاڑی کپڑوں کے واسطے کرایہ کروں کپڑوں کے صندوق میں آدھی درجن شراب دھروں۔ آٹھ کہار ٹھیکہ کے لوں۔ چار آدمی رکھتا ہوں۔ دو یہاں چھوڑ دوں دو ساتھلوں۔ چل دوں۔ رامپور سے جو لفافہ آیا کرے گا لڑکوں کا حافظ لوہارو بھجوایا کرے گا۔ گاڑی ہو سکتی ہے۔ شراب مل سکتی ہے۔ کہار بہم پہنچ سکتے ہیں۔ طاقت کہاں سے لاؤں۔ روٹی کھانے کو باہر کے مکان میں سے محلسرا میں کہ وہ بہت قریب ہے جب جاتا ہوں تو ہندوستانی گھڑی بھر میں دم ٹھہرتا ہوں۔ اور یہی حال دیوان خانہ میں آ کر ہوتا ہے۔ والی رامپور نے تو مرشد زادہ کی شادی میں بلایا تھا۔ یہی لکھا کیا کہ میں اب معدوم محض ہوں۔ تمہارا اقبال تمہارے کلام کو اصلاح دیتا ہے اس سے بڑھ کر مجھ سے خدمت نہ چاہو۔ بھائی کے اور تمہارے دیکھنے کو بہت جی چاہتا ہے پرکیا کروں عقرب و قوس کے آفتاب یعنی نومبر دسمبر میں قصد تو کروں گا کاش لوہارو کی جگہ گوڑگانو ہوتا یا بادشاہ پور ہوتا۔ کہو گے کہ رامپور کیا نزدیک ہے وہاں گئے کو دو برس ہو گئے۔ یہاں انحطاط و اضمحلال روز افزوں نہ تم یہاں آ سکتے ہو نہ مجھ میں وہاں آنے کا دم۔ بس اگر نومبر دسمبر میں میر ا خیر حملہ چل گیا بہتر ورنہ؎ اے وائے از محرومی دیدار دگر ہیچ۔ غالب۔
ایضاً
اقبال نشان مرزا علاؤ الدین خان بہادر کو غالب گوشہ نشین کی دعا پہنچے۔ برخوردار علی حسین خاں آیا مجھ سے ملا۔ بھائی کا حال اس کی زبانی معلوم ہوا۔ حق تعالی اپنا فضل کرے۔ الولد سرّ لابیہ تم اس کے مصداق کیوں بنے۔ خفقان و مراق اگرچہ تمہارا خانہ زاد موروثی ہے لیکن آج تک تمہاری خدمت میں حاضر نہ ہوا تھا۔ اب کیوں آیا۔ اگر آیا تو ہر گز اس کو ٹھہرنے نہ دو۔ ہانک دو۔ خبردار اس کو اپنے پاس رہنے نہ دینا۔ شفیق مکرم و لطف مجسم منشی نولکشور صاحب بسبیل ڈاک یہاں آئے مجھ سے اور تمہارے چچا اور تمہارے بھائی شہاب الدین خاں سے ملے۔ خالق نے ان کو زہرہ کی صورت اور مشتری کی سیرت عطا کی ہے گویا بجائے خود قران السعدین ہیں۔ تم سے میں نے کچہ(کچھ)نہ کہا تھا اور کلیات کے دس مجلد کی قیمت مان لیے تھے اب ان سے جو ذکر آیا تو انہوں نے پہلی قیمت مشتہرہ اخبار لینی قبول کی یعنی ۴/۔ فی جلد اس صورت میں دس مجلد کے میں دوں اور تم دو ہمگی مطبع اودھ اخبار میں پہنچانے چاہئیں۔ میں دسمبر ماہ حال کی دسویں گیارہویں کو طالب ہو ں گا۔ کہو علی حسین خان کو دے دوں کہو لکھنؤ بھیج دوں۔ اس نگارش کا جواب جلد لکھو۔ بھائی صاحب کی خدمت میں میرا سلام کہنا اور استاد میر جان کے میری طرف سے قدم لینا۔ نجات کا طالب غالب۔ ۲۱ جمادی الثانی غضر مطابق ۳ دسمبر سال غضب کیا ہے ہے (۱۸۶۶)یہ گویا تاریخ وفات جناب نواب گورنر جنرل لارڈ الگن صاحب بہادر کی ہے۔
ایضاً
جمعہ نہم رجب و ۵ دسمبر۔ میری جان تمہارا خط بھی آیا۔ اور علی حسین خاں نجم الدین بھی تشریف لایا اگر سر نوشت آسمانی میں بھی اواخر رجب یا وائل شعبان میں ہمارا تمہارا مل بیٹھنا مندرج ہے تو زبانی کہہ سن لیں گے۔ قلم کو ان اسرار کی محرمیت نہیں ہے جو شخص اپنے ملک و مال و جان و تن و ننگ و نام کے امور میں آشفتہ و سرگرداں بلکہ عاجز و حیراں ہو دوسرے کو اس سے کیا گلا ہائے نظیری ؎
با ما جفا و ناخوشی باخود غرور و سر کشی
از ما نہ از خود نہ نہ آخر ازانِ کیستی
محل عقل و ہوش دماغ سو تباہ افیون کا مخمر ہو جانا علاوہ۔ اللہ جو چاہے سو کرے ایسا پیارا باغ باغ و بہار بھائی یوں بگڑ جائے۔ نجات کا طالب غالب۔
ایضاً
پنجشنبہ ۲۶ رمضان۔ صاحب کل تمہارا خط پہنچا۔ آج اس کا جواب لکھ کر روانہ کرتا ہوں۔ رجب بیگ، شعبان بیگ، رمضان بیگ یہ نامور مہینے ہیں سو خالی گئے۔ شوال بیگ آدمی کا نام نہیں سنا۔ ہاں عیدی بیگ ہو سکتا ہے۔ پس جب عید ہے اور روز سعید ہے تو کیا بعید ہے کہ بخلاف شہورِ ثلثہ ماضیہ اس مہینے میں تم آ سکو۔ ہے ہے میں تو کہتا ہوں نہ آ سکو اس ماہ مبارک میں امضائے حکم سرکار کا وہ ہنگامہ گرم ہو کہ پارسیوں کی عید کو سہ بر نشین کا گمان گزرے۔ دور کیوں جاؤ۔ ہولی کی دلہنڈی کا سماں لوہارو میں بندھ جائے۔ ایک خر سوار کی سواری بڑی دھوم سے نکلی حسنِ اتفاق یہ کہ یہ وہی موسم ہے ہولی اور عید کو سہ بر نشین کا زمانہ باہم ہے۔ حوت کے آفتاب میں یہ دونوں تہوار ہوتے ہیں۔ کل آفتاب حوت میں آیا ہے کہ سہ بر نشین اور ہولی کا مژدہ لایا ہے۔ خیر میں چند روز اور ستم کش فراق اور تیرے دیدار کا مشتاق رہوں تو سہ برنشین اور ہولی کی رنگ رلیاں منانے اور خر سوار بضرب تازیانہ دورائے۔ علاؤ الدین خاں واللہ تو میرا فرزند روحانی اور معنوی ہے فرق اسی قدر ہے کہ میں جاہل ہوں اور تو مولوی ہے۔ ارے ظالم اس کو سہ برنشین کی داد دے۔ عقل کرامت ہے الہام ہے۔ لطف طبع کیا ہے یہ اسم کس قدر مناسب مقام ہے صبیہ کا مقدم تم پر مبارک ہو۔ ثاقب مجھ سے لڑتا تھا کہ بھتیجا ہے۔ میں کہتا تھا کہ پوتی ہے بارے میں جیتا اور ثاقب ہارا۔ عریضہ جداگانہ استاد میر جان صاحب کے نام پہنچتا ہے۔
ایضاً
میری جان علائی ہمہ دان۔ اس دفع دخل مقدر کا کیا کہنا ہے۔ فرہنگ لغات دساتیر تمہارے پاس ہے میں چاہتا تھا کہ اس کی نقل تم سے منگاؤں تم نے دساتیر مجھ سے مانگی اسی صحیفہ مقدس کی قسم کہ وہ میرے پاس نہیں ہے ، جی میں کہو گے کہ اگر دساتیر نہیں تو فرہنگ کی خواہش کیوں ہے۔ حق یوں ہے کہ بعض لغات کے اعراب یاد نہیں اس واسطے فرہنگ کی خواہش ہے۔ اگر اس فرہنگ کی نقل بھیج دو گے تو مجھ پر احسان کرو گے۔ دساتیر میرے پاس ہوتی تو آج اس خط کے ساتھ اس کا بھی پارسل بھیج دیتا۔ ہاں صاحب اگر دساتیر ہوتی اور میں بھیج دیتا تو البتہ بھائی صاحب کا مشکور ہوتا۔ دین و دنیا میں کیوں ماجور ہوتا۔ ارسال اہدا پر حصول اجر کیوں مرتب ہو گیا۔ بھائی وہ مذہب اختیار کیا چاہتے ہیں اور تم اس مذہب کو حق جانتے ہو کہ میں جو واسطہ اس کے اعلان و شیوع کا ہوتا تو عند اللہ مجھ کو استحقاقاجر پانے کا پیدا ہوتا۔ اپنے باپ کو سمجھاؤ اور ایک شعر میرا اور ایک شعر حافظ اور ایک شعر مولوی روم کا سناؤ ؎
غالب :۔
دولت بغلط نبود از سعی پشیماں شو
کافر نتوانی شد ناچار مسلمان شو
حافظ:۔
چنگ ہفتاد دو ملت ہمہ را عذر بنہ
چوں ندیدند حقیقت رہِ افسانہ زدند
مولانا روم ؒ:۔
مذہبِ عاشق ز مذہبہا جدا ست
عاشقاں را مذہب و ملت جدا ست
رات کو خوب مینہ برسا ہے صبح کو تھم گیا ہے ہوا سرد چل رہی ہے۔ ابر تُنک چھا رہا ہے۔ یقین ہے کہ تمہاری جدہ ماجدہ مع اپنی بہو اور پوتے کے روانہ لوہارو ہوں۔ کل آج کی روانگی کی خبر تھی۔ یہ لڑکا سعیدِ ازلی ہے ابر کا محیط ہونا اور ہوا کا سرد ہو جانا خاص اس کی آسایش کے واسطے ہے۔ میرا نظر سرِ راہ ہے وہاں بیٹھا ہوا یہ خط لکھ رہا ہوں۔ محمد علی بیگ ادھر سے نکلا۔ بھئی محمد علی بیگ لوہارو کی سواریاں روانہ ہو گئیں ؟ حضرت ابھی نہیں۔ کیا آج نہ جائیں گے ؟ آج ضرور جائیں گے۔ تیاری ہو رہی ہے۔ مرقومہ شنبہ یکم جون وقتِ صبح ۶ بجے ۷ بجے کے عمل میں۔ غالب۔
ایضاً
یکشنبہ ۳ محرم ۱۲۸۱ ھ مطابق ۲۱ جون ۱۸۶۲ء۔ میری جان مرزا علی حسین خان آئے اور مجھ سے ملے۔ میں نے خطوط مرسلہ تمہارے یکمشت ان کو دیے۔ اب تمہارے پاس پہنچنے کا ان کا اختیار ہے رسید کا البتہ مجھے انتظار ہے۔ علی حسین خاں سے آنے کی حقیقت اور یہاں اقامت کی مدت پوچھی گئی جواب پایا کہ ایک مہینہ دس دن کی رخصت لے کر آیا ہوں۔ بی بی بیمار ہے اس کا استعلاجمنظور ہے۔ میری جان علی حسین خاں کے کام آئے تو دریغ نہ کروں بھلا یہ مبالغہ سہی بلکہ بے شک تبلیغ و غلو ہے لیکن قریب قریب اس کے یعنی جو چیز امکان سے باہر نہ ہو اس میں قصور کیونکر کیا جائے گا بلکہ شاید تمہاری سپارش کی بھی حاجت نہ ہو۔ مگر سونچو(سوچو)کہ آئین غمخواری و اندوہ گساری کیا ہو گی۔ میر زاہد وضع و بد روش نہیں کہ پند و بند کا محتاج ہو کوئی اس کا مقدمہ کسی محکمہ میں دائر نہیں کہ مصلحت و مشورت کی احتیاج ہو رہے امور خانگی یعنی بی بی اور اس کے آبا اور اخوان کے معاملے اس میں نہ تم کو دخل نہ مجھ کو مداخلت۔ تم علی حسین خاں کو اس پیوند پر کیا کیا چھیڑتے ہو اور یہ نہیں سمجھتے کہ اس کا دادا کتنا بڑا آدمی تھا اور اس کے دادا کی اور اس کی سسرال ایک ہے۔ یہ ذریعہ فخر ہے اس کو اس کے طفیل سے تم کو بلکہ تھوڑی سی نازش اگر مجھ ننگ اقربا کے حصہ میں بھی آ جائے تو کچھ بعید نہیں۔ ہر چند تمہارا کلمہ ایک بذلہ ہے لیکن اس خسر و خسروانی نے مار ڈالا۔ کیا کہوں جو مجھ کو مزا ملا ہے۔ کہاں خسرو خسرواں لغات عربی الاصل اور کہاں روز مرہ مشہور کہ خسر سُسرے کو کہتے ہیں صنعت اشتقاق و طباق کو کس سینہ زوری سے برتا ہے۔ اچھا میرے میاں۔ یہ خسر بمعنی پدر زن کیا لفظ ہے حروف بین الفارسی و العربی مشترک ہیں۔ لیکن ان معنوں میں نہ فارسی ہے نہ عربی ہے۔ فارسی میں پدر زن بہ فک اضافت کہتے ہیں عربی میں جس طرح بمعنی نقصان منصرف ہے شاید سسرے کا اسم جامد بھی ہو فی الحقیقت سسرے کی تفریس و تعریب ہو۔ یہ پرسشنہ بہ سبیل استہزاہے بلکہ بطریق استفسار و استعلام ہے جو تمہیں معلوم ہو بلکہ اگر تم پر مجہول ہو تو معلوم کر کے مجھے لکھ بھیجو۔ یوسف علی خاں عزیز مانند اس دہقان کے کہ جو دانہ ڈال کے مینہ کا منتظر ہو اور ابر آوے اور نہ برسے مضطر و حیران ہے۔ علی حسین خاں آتے ہیں۔ علی حسین خاں آتے ہیں۔ آئے وہ آئے تو کیا لائے۔ غالب۔
ایضاً
میرزا نسیمی کو دعا پہنچے۔ آنکھ کی گھاجنی جب خود پک کر پھوٹ گئی تھی اور پیپ نکل گئی تھی تو نشتر کیوں کھایا۔ مگر یہ کہ بطریق خوشامد طبیب سے رجوع کی جب اس نے نشتر تجویز کیا۔ خواہی نخواہی امتثال کرنا پڑا ار شاید یوں نہ ہو کچھ مادہ باقی ہو۔ بہرحال حق تعالی اپنے فضل و کرم سے شفا بخشے۔
قطعہ
بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج
ہر سلحشور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ، ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں ، وہ مقتل ہے
گھر، بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہرِ دہلی کا ذرّہ ذرّہ خاک
تشنۂ خوں ہے ، ہر مسلماں کا
کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک
آدمی، واں نہ جا سکے ، یاں کا
میں نے مانا کہ مل گئے ، پھر کیا؟
وہی رونا تن و دل و جاں کا
گاہ جل کر کیا کیے شکوہ
سوزشِ داغ ہائے پنہاں کا
گاہ رو کر کہا کیے باہم
ماجرا دیدہ ہائے گریاں کا
اس طرح کے وصال سے ، یا رب!
کیا مٹے داغ دل سے ہجراں کا؟
ایضاً
یار بھتیجے بھائی مولانا علائی۔ خدا کی دہائی۔ نہ میں ویسا ہوں گا جیسا نیر سمجھا ہے اور نہ تم مجھ کو لکھ چکے ہو یعنی خفقانی اور خیال تراش۔ نہ ویسا ہوں گا جیسا میرزا علی حسین خاں بہادر سمجھے ہوں گے ؎ اے کاش کسے ہر آنچہ ہستم داند۔ دوجانہ میں میرا انتظار اور میرے آنے کا تقریب شادی پر مدار یہ بھی شعبہ ہے انہی ظنون کا جس سے تمہارے چچا کو گمان ہے مجھ پر جنون کا۔ جاگیردار میں نہ تھا کہ ایک جاگیردار مجھ کو بلاتا۔ گوّیا میں نہ تھا کہ اپنا سازو سامان لے کر چلا جاتا۔ دوجانہ جا کر شادی کماؤں اور پھر اس فصل میں دنیا کرّہ نار ہو لوہارو بھائی کے دیکھنے کے واسطے نہ جاؤں اور پھر اس موسم میں کہ جاڑے کی گرمی بازار ہو۔ کل استاد میر جان صاحب نے تمہارا خط مجھ کو دکھایا ہے۔ میں نے ان کو جانے نجانے میں متردد پایا ہے جائیں نہ جائیں۔ میں اپنی طرف سے ترغیب کرتا رہتا ہوں اور کہتا رہوں گا۔ غلام حسن خاں اگر کسی وقت آ جائیں گے تو ان کو تمہاری تحریر کا خلاصہ خاطر نشان کروں گا۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ ان دونوں صاحبوں کو یا ایک کو ان میں سے توفیق دے یا مجھ کو طاقت یا تم کو انصاف کہ میرے نہ آنے کو دلّی کی دلبستگی پر محمول نہ کرو۔ مجھ کو شک ہے جزیرہ نشینوں کے حال پر عموماً رئیس فرخ آباد پر خصوصاً کہ جہاز سے اتر کر سر زمین عرب میں چھوڑ دیا۔ آہاہاہا؎
پڑئیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
کلیات کے انطباع کا اختتام اپنی زیست میں مجھ کو نظر نہیں آتا۔ قاطع برہان کا چھاپا تمام ہو گیا۔ حق التصنیف کی ایک جلد میرے پاس آ گئی وہ تمہارے عمّ نامدار کے نذر ہوئی۔ باقی جلدیں جن کا میں خریدار ہوا ہوں اور درخواست میری مطبع میں داخل ہے۔ جب تک قیمت نہ بھیج دوں کیونکر آئیں۔ میں روپیہ کی تدبیر میں ہوں اگر بہم پہنچ جائے تو بھیج دوں۔ تمہارے پاس جو قاطع برہان پہنچی ہے اگر چھاپے کی ہے تو صحیح ہے جہاں تردد ہو غلط نامہ ملحقہ میں دیکھ لو۔ زیادہ انکشاف منظور ہو مجھ سے پوچھ لو۔ اگر قلمی ہے تو درجہ اعتبار سے ساقط ہے اس کو میری تالیف نہ سمجھو۔ بلکہ مول لے لو اور اس کو پھاڑ ڈالو۔ آج یوم الخمیس ۱۹ جون المبارک بارہ پر تین بجے تمہارا خط آیا ادھر پڑھا ادھر جواب لکھنے بیٹھا۔ یہاں تک لکھ چکا تھا کہ شیخ شہاب الدین سہروردی نے تمہارا خط ان کو دیا۔ وہ پڑھ رہے ہیں ہم لکھ رہے ہیں۔ ابر آیا ہوا ہے ہوا سرد چل رہی ہے۔
ایضاً
میاں تم میرے ساتہ(ساتھ)وہ معاملے کرتے ہو جو احبّا سے موسوم و معمول ہیں۔ خیر تمہارا حکم بجا لایا۔ غزل بعد اصلاح کے پہنچتی ہے۔ جناب لفٹنٹ گورنر بہادر نے دربار کیا۔ میری تعظیم و توقیر اور میرے حال پر لطف و عنایت میری ارزش و استحقاق سے زیادہ بلکہ میری خواہش اور تصور سے سوا مبذول کی۔ اس ہجوم امراض جسمانی اور آلام روحانی کو ان باتوں سے کیا ہوتا ہے۔ ہر دم دمِ نزع ہے۔ دل غم سے خونریز ہو گیا ہے کہ کسی بات سے خوش نہیں ہو سکتا۔ مرگ کو نجات سمجھے ہوئے ہوں۔ اور نجات کا طالب ہوں۔ کئی دن سے کوئی تحریر دلپذیر تمہاری نہیں آئینہ مجھے تم نے یا د کیا نہ اپنے بھائی کو کچہ(کچھ)لکھا اب اس خط کا جواب جلد لکھو پہلے اپنے بچوں کا حال پھر وہاں کے اوضاع جیسا تمہارا قاعدہ ہے۔ منقح اور مفصل لکھو۔ فقط نجات کا طالب۔ غالب
ایضاً
میری جان تخلص تمہارا بہت پاکیزہ اور میری پسند ہے۔ پشمی کو بہ تکلف اس کا مصحف کیوں ٹھہراؤ یہ میدان بہت فراخ ہے۔ خدا کی خے کو جیم فارسی سے بدل لو۔ نبی کو بتقدیم موحدہ علی النون لکھو۔ یہ وساوس دل سے دور کرو۔ رہرو ایک اچھا تخلص ہے رہڑو اس کی تجنیس موجود ہے۔ شیون ایک اچھا تخلص ہے ستون اس کی تصحیف ہے۔ تمہارے واسطے بمناسبت اسم عالی تخلص خوب تھا۔ مگر اس تخلص کا ایک شاعر بہت بڑا نامی گزر چکا ہے۔ ہاں نامی سامی یہ دو تخلص بھی اچھے ہیں۔ مولانا فایق کی پیروی کرو۔ مولانا لایق کہلاؤ اگر کہو گے کہ اسی ترکیب سے لفظ نالائق پیدا ہوتا ہے۔ مولانا شایق بن جاؤ۔ ہنسی کی باتیں ہو چکیں۔ اب حقیقت واجبی سنو۔ نسیمی تخلص خماسی بر وزن ظہوری و نظیری اچھا ہے۔ اگر بدلنا ہی منظور ہے تو نامی سامی رہرو شیون۔ یہ چار تخلص رباعی بر وزن عرفی و غالب اچھے ہیں۔ ان میں سے ایک تخلص قرار دو میرے نزدیک سب سے بہتر تمہارے واسطے خاص فخری تخلص بہتر ہے کہو گے کہ آزاد کے باغ میں ایک آم کا نام فخری ہے۔ حاصل کلام دو دن کی فکر میں جو تخلص میرے خیال میں آئے وہ آج لکھ بھیجتا ہوں۔ بھائی موید تخلص نیا ہے اگر یہ پسند آئے تو یہ رکھو۔ والدعا صبح یکشنبہ ۱۲ مئی ۱۸۶۱ ء۔ نجات کا طالب۔ غالب۔
ایضاً
صاحب بہت دن سے تمہارا خط نہیں آیا۔ آپ کا وکیل بڑا چرب زبان ہے مقدمہ اس نے جیت لیا۔ چنانچہ اس کی تحریر سے تم کو معلوم ہوا ہو گا۔ سنتا ہوں کہ حمزہ خان کو ان دنوں علت مشائخ کا زور ہے اور سعدی کیاس بات پر عمل کرتے ہیں ؎
کسنے کہ یزداں پرستی کنند
بآواز دُولاب مستی کنند
خدا مبارک کرے۔ غالب۔
ایضاً
صبح یکشنبہ یکم مارچ ۱۸۶۲ء۔ صاحب پرسوں تمہارا خط آیا۔ کل جمعہ کے دن نواب کا مسہل تھا ۱۱ بجے وہاں سے آیا۔ چونکہ حبوب میں مکّر ب دوائیں تھیں بہت بے چین رہے۔ آٹھ دسدست آئے آخر روز مزاج بحال ہو گیا۔ تنقیہ اچھا ہو ا۔ اب بفضل الہی اچھے ہیں اور یقین ہے کہ مرض عود نہ کر ے۔ دلّی کی اقامت کی مدّت اپنے والد کی رائے پر رہنے دو۔ بقدر مناسب وقت عزم خیر خواہانہ کچھ کہوں گا ضرور نہ بابرام۔ میں تم سے زیادہ ان کا مزاج دان ہوں یہ خود پسند اور معہذا سپارش کا دشمن ہے۔ مغلچیوں کے مقدمہ کو طبیعت امکان پر چھوڑ دو میں دخل نہ کروں گا۔ ہاں اگر خود مجھ سے پوچھیں گے یا میرے سامنے ذکر آئے گا تو میں اچھی کہوں گا ؎ بُریدہ باد زبانے کہ ناسزا گوید۔ برا نہ ماننا اگر یہ دونوں بھائی یا ان میں سے ایک رفیق ہو گیا۔ یوں تمام عمر بخوشی گزر جائے لیکن تم کَے برس۔ کَے مہینے ، کَے ہفتہ کا اگریمنٹ لکھتے ہو ؟ غالب۔
ایضاً
میرزا علائی پہلے استاد میر جان صاحب کے قہر و غضب سے مجھ کو بچاؤ تاکہ میرے حواس جو منتشر ہو گئے ہیں جمع ہو جائیں۔ میں اپنے کو کسی طرح کے قصور کا مورد نہیں جانتا، جھگڑا ان کی طرف سے ہے تم اس کو یوں چکاؤ یعنی اگر ان کو صرف آشنائی و ملاقات منظور ہے تو وہ میرے دوست ہیں شفیق ہیں میرا سلام قبول فرمائیں۔ اور اگر قرابت داری و رشتہ داری ملحوظ ہے تو وہ میرے بھائی ہیں مگر عمر میں چھوٹے میری دعا قبول فرمائیں۔ صاحبین کی رائے کا اختلاف مشہور ہے۔ مجھ سے کچھ نہیں ہو سکتا مگر ہر ایک قول جدا جدا لکھوں۔ آج نہ لکھا نہ سہی دو چار دن کے بعد لکھوں گا۔ تم سمجھ تو گئے ہو گے کہ صاحبین مرزا قربان علی بیگ اور مرزا شمشاد علی بیگ ہیں بھائی صاحب کی رضا جوئی مجھ کو منظور۔ اور یہ غزل معروض ہے میری طرف سے سلام کہو؎
از من غزلے گیرد بفرمائے کہ مطرب
در نے دمد از روئے نوازش دو سہ دم را
غزل
جز دفع غم زیدہ نبود است کام ما
گوئی چراغ روز سیاہ است جام ما
در خلوتش گزر نبود باد را مگر
صرصر بخاک راہ رساندپیام ما
اے باد صبح عطرے ازان پیرہن بیار
تسکین زبوئے گُل نہ پذیرد مشام ما
ہر بار دانہ بہر ہما افگنیمو مور
آید بدام و دانہ رُباید ز دام ما
گفتی چو حالِ دل شنود مہرباں شود
مشکل کہ پیشِ دوست تواں بُرد نامِ ما
از ما بما پیام دہم از ما بما سلام
رنج دلی مباد پیام و سلام ما
مقصود ما زدہر ہر آئینہ نیستی است
یا رب کہ ہیچ دوست مبادا بکام ما
غالب بقول حضرت حافظ ز فیض عشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
ایضاً
میاں چلتے وقت تمہارے چچا نے غلیل کی فرمایش کی تھی۔ رامپور پہنچ کر وہ بے سعی تلاش ہاتھ آ گئی بنوا رکھی۔ لڑکوں نے ملازموں نے مجھ سے سن لیا کہ یہ نواب ضیاء الدین خاں صاحب کے واسطے ہے۔ اب چلنے سے ایک ہفتہ پہلے تم نے غلیل مانگی۔ بھائی کیا بتاؤں کہ کتنی جستجو کی کہیں بہم نہ پہنچی۔ دس روپیہ تک مول کو نہ ملی۔ نواب صاحب سے مانگی توشہ خانہ میں بھی نہ تھی ایک امیر کے ہاں پتہ لگا۔ دوڑا ہوا گیا۔ کھپچی موجود پائی لیکن کیا کھپچی جیسے نجف خاں کے عہد کے تورانیوں میں ہماری تمہاری ہڈی۔ بنوانے کی فرصت کہاں۔ آج لی کل چل دیا۔ اس بانس کی قدر کرتا اور اس کو اچھی طرح بنوا لیتا۔ بادشاہ فرخ سیر اور اس کے اخوان خوش و خرم ہیں۔ فرخ سیر کی ماں نے باجرے کا حلوہ سوہاں (سوہن حلوہ)کھلایا۔ نجات کا طالب۔ غالب۔ شنبہ ۲۵ شعبان ۱۳ جنوری۔
ایضاً
جانِ غالب دو خط متواتر تمہارے پہنچے۔ مغربی عُرفا میں سے ہے۔ بیشتر اس کے کلام میں مضامیں حقیقت آگیں ہیں لیکن دامان گلہ دارد و گریباں گلہ دارد۔ اس زمین میں مَیں نے اس کی غزل نہیں دیکھی۔ حاجی محمد جان قدسی کی غزل اس زمین میں ہے ؎
در بزم ِ وصال تو بہنگامِ تماشا
نظارہ ز جنبیدن ِ مژگاں گلہ دارد
یہ ایک شعر اس کا مجھے یاد ہے۔ بھائی تمہارا باپ بدگمان ہے یعنی مجھ کو زندہ سمجھتا ہے۔ میرا سلام کہو اور یہ شعر میرا پڑھ کر سناؤ؎
گمانِ زیست بود بر منت ز بیدردی
بدست مرگ و لے بدتر از گمانِ تو نیست
مجھے کافور و کفن کی فکر پڑ رہی ہے وہ ستمگر شعر و سخن کا طالب ہے زندہ ہوتا تو وہیں کیوں نہ چلا آتا۔ مجھ پر سے یہ تکلیف اٹھوا لو اور تم اس زمین میں چند شعر لکھ کر بھیج دو۔ میں اصلاح دے کر بھیج دوں گا۔ عصائے پیر بجائے پیر۔ واللہ میرا کلام ہندی یا فارسی کچھ میرے پاس نہیں ہے آگے جو کچھ حافظہ میں موجود تھا وہ لکھ بھیجا اب جو کچھ یاد آ گیا وہ لکھتا ہوں۔
غزل
بامن کہ عاشقم سخن از ننگ و نام چیست
در امر خاص حجتِ دستورعام چیست
مستم ز خون دل کہ دو چشم ازاں پُر است
گوئی مخور شراب ونہ بینی بجام چیست
بادوستہر کہ بادہ بخلوت خورد مدام
داند کہ حور و کوثر دارالسلام چیست
ما خستہ غمیم و بود مے دوائے ما
باخستگاں حدیث حلال و حرام چیست
از کاسہ کرام نصیب است خاک را
تا از فلک نصیبہ کاس کرام چیست
غالب اگر خرقہ و مصحف بہم فروخت
پُرسد چرا کہ نرخِ مے لعل فام چیست
ایضاً
لو صاحب وہ مرزا رجب بیگ مرے۔ ان کی تعزیت آپ نے نہ کی۔ شعبان بیگ پیدا ہو گئے۔ کل ان کی چھٹی ہو گئی آپ شریک نہ ہوئے ؎ اے وائے ز محرومی دیدار دگر ہیچ۔ میاں خدا جانے کس طرح یہ چار سطریں تجھ کو لکھی ہیں۔ شہاب الدین خاں کی بیماری نے میری زیست کا مزا کھو دیا۔ میں کہتا ہوں کہ اس کی عوض میں مر جاؤں۔ اللہ اس کو جیتا رکھے۔ اس کا داغ مجھ کو نہ دکھائے۔ یارب اس کو اس کی اولاد کے سر پر سلامت رکھ۔ نجات کا طالب۔ غالب۔
ایضاً
مولانا نسیمی کیوں خفا ہوتے ہو ہمیشہ سے اسلاف و اخلاف ہوتے چلے آئے ہیں اگر نیر خلیفہ اول ہے تو تم خلیفہ ثانی ہو۔ اس کو عمر میں تم پر تقدم زمانی ہے۔ جانشین دونوں مگر ایک اول ہے اور ایک ثانی ہے۔ شیرا پنے بچوں کو شکار کا گوشت کھلاتا ہے۔ طریق صید افگنی سکھاتا ہے۔ جب وہ جوان ہو جاتے ہیں۔ آپ شکار کر کھاتے ہیں۔ تم سخنور ہو گئے ہو حسن طبع خداداد رکھتے ہو۔ ولادت فرزند کی تاریخ کیوں نہ کہو۔ اسم تاریخی کیوں نہ نکال لو کہ مجھ پیر غمزدہ دل مردہ کو تکلیف دو۔ علاؤ الدین خاں تیری جان کی قسم میں نے پہلے لڑکے کا اسم تاریخی نظم کر دیا تھا اور وہ لڑکا نہ جیا۔ مجھ کو اس وہم نے گھیرا کہ میری نحوست طالع کی تاثیر سے میرا ممدوح جیتا نہیں۔ نصیر الدین حیدر اور امجد علی شاہ ایک ایک قصیدہ چل دئیے۔ واجد علی شاہ تین قصیدوں کے متحمل ہوئے پھر سنبھل نہ سکے۔ جس کی مدح میں دس بیس قصیدے کہے گئے وہ عدم سے بھی پرے پہنچا۔ صاحب دہائی خدا کی میں نہ تاریخ ولادت کہوں گا نہ نام تاریخی ڈھونڈوں گا۔ حق تعالیٰ تم کو اور تمہاری اولاد کو سلامت رکھے اور عمر و دولت و اقبال عطا کرے۔ سنو صاحب حسن پرستوں کا ایک قاعدہ ہے وہ امرد کو دو چار برس گھٹا کر دیکھتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ جوان ہے لیکن بچہ سمجھتے ہیں۔ یہ حال تمہاری قوم کا ہے۔ قسم شرعی کھا کر کہتا ہوں کہ ایک شخص ہے کہ اس کی عزت اور نام آوری جمہور کے نزدیک ثابت اور محقق ہے اور تم صاحب بھی جانتے ہو مگر جب تک اس سے قطع نظر نہ کرو۔ اور اس مسخرے کو گمنام و ذلیل نہ سمجھ لو تم کو چین نہ آئے گا۔ پچاس برس سے دلّی میں رہتا ہوں۔ ہزار ہا خط اطراف و جوانب سے آتے ہیں بہت لوگ ایسے ہیں کہ محلہ نہیں لکھتے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ محلہ سابق کا نام لکھ دیتے ہیں۔ حکام کے خطوط فارسی انگریزی یہاں تک کہ ولایت کے آئے ہوئے صرف شہر کا نام اور میرا نام یہ سب مراتب تم جانتے ہو اور ان خطوط کو دیکھ چکے ہو اور پھر مجھ سے پوچھتے ہو کہ اپنا مسکن بتا اگر میں تمہارے نزدیک امیر نہیں نہ سہی۔ اہل حرفہ میں سے بھی نہیں ہوں کہ جب تک محلہ اور تھانہ نہ لکھا جائے ہرکارہ میرا پتہ نہ پائے آپ صرف دہلی لکھ کر میرا نام لکھ دیا کیجیئے خط کے پہنچنے کا میں ضامن۔ پنجشنبہ ۴ ماہ اپریل۔
ایضاً
میری جان ناز سازی روزگار بے ربطی اطوار و بطریق داغ بالائے داغ آرزوئے دیدار وہ دو آتش شرار دبار اور ایک یہ دریائے ناپیدا کنار۔ وقنا ربنا عذاب النار۔ خدا نے بھائی ضیاء الدین خاں کے بڑھاپے اور میری بے کسی پر رحم فرمایا۔ میرا شہاب الدین خان بچ گیا۔ امراض مختلفہ میں گِھر گیا تھا۔ بواسیر خونی، زحیر، تپ، صداع۔ بارے اب من کل الوجوہ صحت حاصل ہے۔ ضعف جاتے ہی جائے گا آگے کون سے قوی تھے کہ اب ان کو ضعف کہا جائے۔ایک بڈھا کسی گلی میں جاتے جاتے ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ کہنے لگا ہائے بڑھاپا۔ ادھر ادھر دیکھا جب جانا کہ کوئی نہیں ہے۔ کہتا ہوا بڑھا کہ جوانی میں کیا پتھر پڑتے تھے۔ والسلام۔ غالب مستہام۔
ایضاً
لو صاحب پرسوں تمہارا خط آیا اور کل دوپہر کو استاد میر جان آئے جب ان سے کہا گیا تو یہ جواب پایا کہ میں مدت سے آمادہ سفر لوہارو بیٹھا ہوں۔ حکیم صاحب کی گاڑی کی روانگی کے وقت میں نے اپنی گٹھڑی بھیجی تھی وہ پھری آئی اس مراد سے کہ گاڑی میں جگھ(جگہ)نہ گٹھڑی کی نہ سواری کی ناچار چپ ہو رہا۔ اب گٹھڑی ویسی ہی بندھی ہوئی رکھی ہے جب میاں خاں اور وزیر خاں روانہ ہوں گے اور منشی امداد حسین مجھ کو اطلاع دیں گے تو میں فوراً چل دوں گا۔پا برکاب ہوں۔ کل ہی آخر روز غلام حسن خاں آئے۔ کل انہوں نے چوتھے دن کھانا کھایا تھا۔ ہیضہ ہو گیا تھا۔ قے متواتر دست پے در پے غرض بچ گئے۔ کہتے تھے کہ آج جولائی کی ۱۷ تاریخ ہے۔ ۱۳ دن یہ اور ۱۵ دن اگست کے اور نہیں جا سکتا۔ تنخواہ لے کر بانٹ بونٹ کر ایک دن نہ ٹھہروں گا۔ لوہارو کی راہ لوں گا۔ مرزا شمشاد علی بیگ سے تمہارا پیام کہا گیا بعید ہے جو غلام حسن خاں کے ہم سفر ہو جائیں۔ بھائی کی طرف سے منشی امداد حسین خاں کو لکھوا بھیجو کہ میاں جان وغیرہ کے ساتھ استاد کو ضرور بھیجنا اور تم اپنی طرف سے اپنے ابن عم غلام حسن خاں کو بحوالہ میری تحریر کے عیادت اور اوائل اگست میں روانگی کی تاکید لکھ بھیجو
؎ در بزم وصال ِ تو بہنگام تماشا
نطارہ ز جنبیدنِ مژگاں گلہ دارد
یہ زمین قدسی علیہ الرحمۃ کے حصہ میں آ گئی ہے میں ا س میں کیوں تخم ریزی کروں اور اگر بے حیائی سے کچھ ہاتھ پاؤں ہلاؤں تو اس شعر کا جواب کہاں سے لاؤں ؎
ہرگز نتواں گفت دریں قافیہ اشعار
بیجا ست برادر اگر از من گلہ دارد
التوائے شرب شراب ۲۲ جون شروع شراب ۱۰ جولائی ؎ المنّۃ للہ کہ در میکدہ باز است۔
ایضاً
شنبہ ۱۰ جولائی ۱۸۶۴ ء۔ علائی مولائی غالب کو اپنا دعا گو اور خیر خواہ تصور کریں مادہ ہائے تاریخ کو نہ آپ قالب نظم میں لائیں اور نہ اور کو اس امر منکر کی تکلیف دیں۔ بھائی سمجھو یزید پر لعن منجملہ عبادت سہی لیکن تقریباً کہہ دیتے ہیں کہ بر یزید لعنت۔ کسی مومن نے اس کی ہجو میں قصیدہ نہیں لکھا۔ ابداع مادہ ہائے تاریخ تمہارے حسنات میں لکھا گیا مثاب تم ہو چکے اجر پاؤ گے انشاءاللہ اب اپنے کو بدنام اور کسی کو ملول اور عداوت کو ظاہر اور اگر ظاہر ہو تو محکم نہ کرو۔ علی بخش خان مرحوم مجھ سے چار برس چھوٹا تھا۔ میں ۱۲۱۲ ھ میں پیدا ہوا ہوں اب کے رجب کے مہینے سے اونترواں برس شروع ہوا ہے اس نے ۶۶ برس کی عمر پائی۔ نئی تقریر و تحریر کا آدمی تھا۔ اکبر آباد میں میور صاحب سے ملے اثنائے مکالمت میں کہنے لگے کہ میں چچا جان کے ساتہ(ساتھ)جرنیل لارڈ لیک صاحب کے لشکر میں موجود تھا اور ہولکر سے جو محاربات ہوئے ہیں اس میں شامل رہا ہوں۔ بے ادبی ہوتی ہے ورنہ اگر قبا و پیرہن اوتار (اتار)کر دکھاؤں تو سارا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہے۔ جا بجا تلوار اور برچھی کے زخم ہیں۔ وہ ایک بیدار مغز اور دیدہ ور آدمی ان کو دیکھ دیکھ کر کہنے لگا کہ نواب صاحب ہم ایسا جانتے ہیں کہ تم جرنیل صاحب کے وقت میں چار پانچ برس کے ہو گے۔ یہ سن کر کہا کہ درست و بجا ارشاد ہوتا ہے خدایش بیامرزدو بدیں داغہائے بے نمک گیراد۔ غالب۔
ایضاً
یکشنبہ ۹ فروری ۱۸۶۲ ء صاحب صبح جمعہ کو میں نے تم کو خط لکھا اسی وقت بھیج دیا۔ پہر دن چڑھے سنا کہ شب کو پھر دورہ ہوا۔ گیا آیا خود ان سے حال پوچھا۔ علی محمد بیگ کی زبانی یہ معلوم ہوا کہ بہ نسبت دورہ ہائے سابق خفیف تھا اور افاقہ جلد ہو گیا۔ کل مرزا شمشاد بیگ ناقل تھے کہ مجھ سے علی حسین خاں کہتے تھے کہ نواب صاحب فرماتے ہیں کہ لوہارو چلو گے اور ہماری دال روٹی قبول کرو گے میں نے کہا کہ میں دال روٹی چاہتا ہوں مگر پیٹ بھر کے۔ غالب کہتا ہے کہ اس بیان سے یہ معلوم ہوا کہ سالک سے سلوک منظور نہیں تنہائی ہوائے شمشاد در سر است ؎
رُموز مملکت ِ خویش خسرواں دانند
گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش
ایضاً
صاحب میں از کار رفتہ و در ماندہ ہوں آج تمہارے خط کا جواب لکھتا ہوں۔ لفط خسر کے باب میں اتنی توضیح کیا ضرور تھی میرا علم لغات عربیہ کا محیط نہیں ہے اور یہ بطریق حق الیقین جانتا ہوں کہ خسر لغت فارسی نہیں۔ سسرے کی تفریس سے خسر پیدا ہوا ہو تو کیا عجب ہے تم سے اس کی تحقیق چاہی تھی کہ یہ لغت عربی الاصل نہ ہو وہ معلوم ہوا کہ عربی نہیں لغت ہندی ہے اور یہی تھا میرا عقیدہ۔ علی حسین خاں آئے دو تین بار مجھ سے مل گئے اب نہ وہ آ سکتے ہیں نہ میں جا سکتا ہوں۔ نصیب دشمناں وہ لنگڑے میں لولا۔ ان کے پاؤں کاحال مفصل تم کو معلوم ہو گا جونکیں لگیں کیا ہوا کہاں تک نوبت پہنچی۔ میری حقیقت سنو۔ مہینا بھرسے زیادہ کا عرصہ ہوا بائیں پاؤں میں ورم کفِ پا سے پشتِ پا کو گھیرتا ہوا پنڈلی تک آیا۔ کھڑا ہوتا ہوں تو پنڈلی کی رگیں پھٹنے لگتی ہیں خیر اٹھا روٹی کھانے محلسرا نہ گیا۔ کھانا یہیں منگا لیا۔ پیشاب کو کیونکر نہ اٹھوں حاجتی پر بغیر اوکڑو(اکڑوں )بیٹھے بات نہیں بنتی۔ پاخانہ کو اگرچہ دوسرے تیسرے دن جاؤں مگر جاؤں تو سہی یہ سب موقع خیال میں لا کر سونچ(سوچ)لو کہ کیا گزرتی ہو گی۔ آغازِ فتق مزید علیہ یا مستزاد ؎ پیری و صد عیب چنین گفتہ اند۔ اپنا یہ مصرع بار بار چپکے چپکے پڑھتا ہوں ؎ اے مرگ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے۔ مرگ اب ناگہانی کہاں رہی۔ اسباب و آثار سب فراہم ہیں۔ ہائے الہی بخش خان مغفور کا کیا مصرع ہے ؎ آہ جی جاؤں نکل جائے اگر جان کہیں۔ زائدہ بے فائدہ مرگ کا طالب۔ غالب۔ جمعہ ۳ جولائی۱۸۶۳ء۔
ایضاً
ولیعہدی میں شاہی ہو مبارک
عنایات الہی ہو مبارک
اس امر فرّخ و ہمایوں کی شہرت میں کوشش بے حوصلگی ہے اور اس کے اخفا میں مبالغہ خفقانیت تم اپنی زبان پر نہ لاؤ اگر کوئی اور کہے مانع نہ آؤ نہ اشتہار نہ استتاء۔ دورہ ہوا مگر مدت معینہ کے بعد اور پھر جھاگ کا نہ آنا اور تمہارے پکارنے سے متنبہ ہو جانا مادہ کی کمی کی علامتیں ہیں۔ شدت میں جس قدر خفت ہو غنیمت ہے۔ میرے خطوط اردو کے ارسال کے باب میں جو کچھ تم نے لکھا تمہارے حسن طبع پر تم سے بعید تھا میں سخت بے مزہ ہوا۔ اگر بے مزگی کے وجوہ لکھوں تو شاید ایک تختہ کاغذ سیاہ کرنا پڑے۔ اب ایک بات موجز و مختصر لکھتا ہوں۔ سنو بھائی اگر ان خطوط کا تم کو اخفا منظور ہو اور شہرت تمہارے منافی طبع ہے تو ہر گز نہ بھیجو۔ قصہ تمام ہوا۔ اور اگر ان کے تلف ہونے کا اندیشہ ہے تو میری دستخطی خطوط اپنے پاس رہنے دو۔ اور کسی متصدی سے نقل اتروا کر چاہو کسی کے ہاتھ۔ چاہو بسبیل پارسل ارسال کرو۔ لیکن خدا کے واسطے کہیں غصہ میں آ کر عطائے تو بہ لقائے تو کہہ کر اصل خطوط نہ بھیج دینا۔ یہ امر میرے مخالف مقصود ہے بھلا صاحب ڈرتا ہوں میں تم سے ادھرخط پڑھا۔ ادھر جواب لکھ کر ڈاک میں بھیجا۔ تمہارا خط رہنے دیا ہے جب شمشاد علی بیگ آئیں گے پڑھ لیں گے۔
ایضاً
میری جان کیا کہتے ہو کیا چاہتے ہو۔ ہوا ٹھنڈی ہو گئی۔ پانی ٹھنڈا ہو گیا۔ فصل اچھی ہو گئی۔ اناج بہت پیدا ہو گیا۔ توقیع جانشینی مجھ سے تم کو پہنچا۔ خرقہ پایا سبحہ و سجادہ کا یہاں پتہ نہیں ورنہ وہ بھی عزیز رکھتا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ بھائی نے شفا پائی استاد میر جان پہنچ گئے۔ آخر اکتوبر میں یا آغاز نومبر میں نیّرِ رخشاں کو بھی وہیں لو۔ پھر عقرب و قوس کے آفتاب کا کیا ذکر۔ آبان باہ و آزر ماہ سے کیا غرض؎
بسے تیرودہ ماہ و اردی بہشت
برآید کہ ماہ خاک باشیم و خشت
استاد میر جان کو اس راہ سے کہ میری پھوپھی ان کی چچی تھیں اور یہ مجھ سے عمر میں چھوٹے ہیں دعا اور ا س رو سے کہ دوست ہیں اور دوستی میں کمی و بیشی سن و سال کی رعایت نہیں کرتے۔ سلام اور اس سبب سے کہ استاد کہلاتے ہیں بندگی اس نظر سے کہ یہ سید ہیں درود۔ اور موافق مضمون اس مصرعہ کے ؎ سوائے اللہ واللہ ما فی الوجود۔ سجود۔ حضرت وہ شرفنامہ نہیں ہے کہ کسی احمق نے شرفنامہ میں سے کچھ لغات اکثر غلط کمتر صحیح چن کر جمع کیے ہیں نہ دیباچہ ہے کہ اس سے جامع کا حال معلوم ہو۔ نہ خاتمہ ہے کہ عہد و عصر کا حال کھلے۔ باینہمہ میاں ضیاء الدین کے پاس ہے اگر وہ آ جائیں گے تو ان سے کہہ دوں گا اگر وہ لا دیں گے تو ان کو قیمت دے کر علائی مولائی کو بھیج دوں گا۔ خصی بکروں کے گوشت کے قلیے۔ دو پیازے۔ پلاؤ۔ کباب جو کچھ تم کھا رہے ہو۔ مجھ کو خدا کی قسماگر اس کا کچھ خیال بھی آتا ہو خدا کرے بیکانیر کی مصری کا کوئی ٹکڑا تم کو میسر نہ آیا ہو کبھی یہ تصور کرتا ہوں کہ میر جان اس مصری کے ٹکڑے چبا رہے ہوں گے تو میں یہاں رشک سے اپنا کلیجہ چابنے (چبانے )لگتا ہوں۔ نجات کا طالب غالب۔ سہ شنبہ ۱۵ ماہ اکتوبر ۱۸۶۱ء۔
ایضاً
خاک نمناکم دو تو باد بہار
نہ توانی مراز جا بروں
ہاں نسیمے ز من چہ میخواہی
زحمت ِ خویشتن چہ میخواہی
خوشی مجھ میں تم میں مشترک ہے تم نے مجھے تہنیت دی تو مبارک اور میں نے تمہیں تہنیت دی تو مناسب للہ الحمد للہ الشکر۔ بھائی سچ یہ ہے کہ ان دنوں میں میرے پاس ٹکٹ نہیں اگر بیرنگ بھیجوں تو کہار ماندہ اٹھ نہیں سکتا۔ ڈاک گھر تک جائے کون۔ اپنا مقصود تمہارے والد ماجد سے اور تمہاری جدہ ماجدہ اور تمہارے عم عالی مقدار سے کہہ چکا ہوں۔ خلاصہ یہ کہ میری بی بی اور بچوں کو یہ تمہاری قوم کے ہیں منہ سی لیا کہ میں اب اس بوجھ کا متحمل نہیں ہو سکتا انہوں نے بھی بشرط ان لوگوں کے لوہارو جانے کی اس خواہش کو قبول کیا۔ میرا قصد سیاحت کا ہے۔ پنشن اگر کھل جائے گاتو وہ صرف اپنے صرف میں لایا کروں گا۔ جہاں جی لگا وہاں رہ گیا جہاں سے دل اکھڑ ا چل دیا؎ تا درمیانہ خواستہ کردگار چیست۔ غالب۔ دو شنبہ ۱۳ محرم ۱۲۷۵ ہجری مطابق ۲۳ اگست ۱۸۵۸ء۔
ایضاً
مرزا علائی مولائی نہ لاہور سے خط لکھا نہ لوہارو سے۔ بقدر مادہ حمق محو انتظار بلکہ امیدوار رہا۔ اب جو کسی طرح کی توقع نہ رہی تو شکوہ طرازی کا موقع ہاتھ آیا۔ اگرچہ جانتا ہوں کہ اسیک شکوہ کے دفع میں طوطی نامہ برابر ایک رسالہ لکھو گے اور ہزار وجہیں موجّہ بیان کرو گے۔ میں اس تصور کا مزہ اٹھا رہا ہوں کہ دیکھوں کیا لکھتے ہو۔ دادی صاحبہ سے لکھوانا پھوپھی صاحبہ سے لکھوانا غالب سے لکھوانا بعد حصولِ اجازت نہ آنا۔ اس کے بھی کچھ معنی ہیں یا نہیں۔ اچھا میرا میاں کچھ ا س باب میں لکھ دو۔ چپڑی اور دو دو۔ ایک مندیل اور ایک سیلا یا کوئی اور چیز مبارک۔ بچوں کو میری دعا کہنا اور ان کی کیر و عافیت لکھنا۔ استاد میر جان کو سلام۔ مزا تو جب ملے گا کہ تم دلّی آؤ اور اپنی زبان سے لاہور کے ہنگامہ انجمن کا حال بیان کرو۔ نجات کا طالب غالب۔ چہار شنبہ ۳ نومبر ۱۸۶۴ء۔
ایضاً
صبح یکشنبہ ۲ ستمبر ۱۸۶۳ ء جاناعالیشانا پہلے خط اور پھر بتوسط برخوردار علی حسین خان مجلد کلیات فارسی پہنچی۔ حیرت ہے کہ چار روپیہ قیمت کتاب اور ۴/۔ محصول ڈاک قالب انطباع میں آ کر پانچ روپیہ قیمت اور ۵/۔ محصول قرار پاوے خیر جہاں سو وہاں سوائے۔ میرا حال تمہیں اور تمہارا حال مجھے معلوم ہے ؎ اینہم اندر عاشقی بالائے غمہائے دگر۔ اب کے چٹھے میں شاید دے سکوں۔ نومبر سنہ حال میں تمہارے پاس پہنچ جائینگے انشاء اللہ العلی العظیم۔ میں بے حیا تھا نہ مرا اچھا ہونے لگا۔ عوارض میں تخفیف ہے۔ طاقت آتی چلی ہے مختصر مفید
؎ در نامہ جزایں مصرع شاعر چہ نویسم
اے وائے ز محرومی دیدار دگر ہیچ
نجات کا طالب۔ غالب۔
ایضاً
دو شنبہ ۲۳ ذی الحجہ ۱۲۸۰ھ۔ اے میری جان مثنوی ابر گہر بار کونسی فکر تازہ تھی کہ میں تجھ کو بھیجتا۔ کلیات میں موجود ہے معہذا شہاب الدین خاں نے بھیج دی میں مکرر کیا بھیجتا۔ تب محرق کے دیکھنے سے انکار کیوں کرتے ہو۔ اگر منافی طبع تحریر کو بسبب انزجار نہ دیکھا کرتے تو فریقین کی کتب مبسوط کہاں سے موجود ہوتیں افسو س کہ میں نے عربی جانا عربی نہیں ہے اب مانا کہ ایک سہوِ طبیعت تھا۔ میرا اعتراض تو خلط مبحث پر ہے۔ افسوس و فسوس ایک کیوں ہو جائے یہاں کے اطوار مجھ سے باوجود قرب مخفی اور تم پر باینہمہ بعد اشکار دوران باخبر در حضورو نزدیکاں بے بصر دور۔ روپیہ آ گیا دل سے نکلا مخزن سے نکلا۔ ہاتھ سے نہیں نکلا۔ جب ہاتھ سے نکل جائے گا اور جنس مول لی جائے گی اور یہ گند کٹ جائے گا تب ترساں ترساں پیشکاہ نادری میں تمہارے یہاں آنے کے باب میں کچھ عرض کیا جائے گا میں ان دنوں مردود بھی ہوں۔ والسلام۔
صبحدم با ابوالبشر گفتم
پارہ زر بدہ کہ زرداری
حیف باشد کہ از چومن پسرے
خاک رنگیں عزیز تر داری
گفت حیف ست از تو خواہش زر
کہ تو گنجینہ گہر داری
گنجدان ِ سخن حوالہ تست
خود بہ بیں تا چہ اے پزر داری
پیش من زر کجا ست جان پدر
ببری ہر چہ در نظر داری
گفتم اینک بہ بند پیمانی
زر بمن میدہی اگر داری
سر زنبیل آن عمر عیار
گر زعیاریش خبرداری
بکشا زود و زر بریزد بگوئے
کہ ہمیں مدعا مگر داری
گفت باب فسانہ بودہ است
چہ فروریزم و چہ برداری
ایضاً
یکم جنوری ۱۸۶۴ء۔ علائی مولائی کو غالب ِ طالب کی دعا۔ بے چار ہ مرزا کا معاملہ علی حسین خاں کی معرفت طے ہو گیا۔ یہاں پندرہ کا سوال وہاں دس میں سے تین کم کرنے کا خیال۔ متوسط دوسرا جو علی حسین خاں بہادر کے بعد درمیان آئے وہ کیا کرے اور کیا کہے۔ مرزا قانع و متوکل ہیں نہ پندرہ مانگتے ہیں نہ دس۔ اللہ بس ماسوا ہوس۔ جناب ترولین صاحب بھائی کے دوستِ دلی دلّی آئے لارڈ صاحب کہلاتے ہیں۔ سنتا ہوں کہ کل اکبر آباد جاتے ہیں۔ بھائی علی بخش خاں مدت سے بیمار تھے رات کو بارہ بجے پر دو بجے مر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ تمہارے عم نامدار آج دن کو بارہ بجے سلطان جی گئے ہیں۔ میں نہ جا سکا۔ تجہیز و تکفین ان کی طرف سے عمل میں آئے گی۔ بارہ پر تین بجے یہ خط میں نے تمہیں لکھا ہے۔ کل شنبہ ۲ جنوری صبح کو ڈاک گھر بھیج دوں گا۔ مشفقی شفیقی میر جان صاحب کو سلام مع الاکرام۔ نجات کا طالب۔ غالب۔
ایضاً
صبح شنبہ۔ ۳۰ مئی ۱۸۶۳ ء لاموجود الا اللہ ۔ اس خدا کی قسم جس کو میں نے ایسا مانا ہے اور اس کے سواکسی کو موجود نہیں جانا ہے کہ خطوط کے ارسال کو مکرر نہ لکھنا از راہ ملال نہ تھا۔ طالب کے ذوق سست پا کر میں متوقع ہو گیا۔ متوسط ایک جلیل القدر آدمی اور طالب کتب کا سوداگر ہے اپنا نفع نقصان سونچے (سوچے )گا۔ لاگت بچت کو جانچے گا۔ میں متوسط کو مہتمم سمجھا تھا اور یہ خیال کیا تھا کہ یہ چھپوائے گا۔ ۳ رقعہ ایک جگہ سے لے کر ان کو بھیجے اس کی رسید میں تقریباً انہوں نے طلب رقعات مکلف سوداگر لکھی اور بس سوداگر کو مفقود الخبر لکھا۔ ظاہراً کتابیں لے کر کہیں گیا ہو گا۔ کتابیں لینے گیا ہو گا۔ یہ ۲۳ لفافے اور ۳۴ خط بدستور میرے بکس میں موجود محفوظ رہیں گے۔ اگر متوسط بتقاضا طلب کرے گا ان خطوط کی نقلیں اس کو اور اصل تم کو بھیج دوں گا ورنہ تمہارے بھیجے ہوئے کاغذ تم کو پہنچ جائیں گے۔ یہاں ان خطوں کے ارسال میں تم نے مجھ سے وہ کیا جو میں نے تم سے دوجانہ میں کیا تھا۔ بھلا میں تو پیر خرف اور سن خرافت کو نسیان لازم ہے۔ تم نے کیا سمجھ کے کپڑا لپیٹ کر اور مختم کر کے بھیجا خطوں پر ایک قلیل العرض کاغذ لپیٹ کر ارسال کیا ہوتا اگر منشی بہاری لال میرا اور شہاب الدین کا دوست نہ ہوتا تو پچاس روپیہ کا مجھ کو دھبا لگتا ؎ رسدیہ بود بلائے ولے بخیر گزشت۔ غالب۔
ایضاً
بدست مرگ ولے بدتر از گمان تو نیست۔ مکرر لکھ چکا ہوں کہ قصیدہ کا مسودہ میں نے نہیں رکھا۔ مکرر لکھ چکا ہوں کہ مجھے یاد نہیں کون سی رباعیاں مانگتے ہو۔ پھر لکھتے ہو کہ رباعیاں بھیج قصیدہ بھیج۔ معنی اس کے یہ کہ تو جھوٹا ہے اب کہ تو مقرر بھیجے گا۔ بھائی قرآن کی قسم۔ انجیل کی قسم۔ توریت کی قسم۔ زبور کی قسم۔ ہنود کے چار بید (وید)کی قسم۔ دساتیر کی قسم۔ ژند کی قسم۔ پاژند کی قسم۔ استاد کی قسم۔ گرو کی قسم۔ گرنتھ کی قسم۔ نہ میرے پاس قصیدہ نہ مجھے وہ رباعیاں یاد۔ کلیات کے باب میں جو عرض کر چکا ہوں ؎ برہمانیم کہ ہستیم و ہماں خواہد بود۔ جب میں دس پندرہ جلدیں منگا لوں گا ایک بھائی کو اور ایک تم کو ارمغاں بھیجوں گا۔ اور اگر بھائی کو جلدی ہے تو لکھنؤ میں اودھ اخبار کا مطبع مالک اس کا منشی نولکشور مشہور۔ جتنی جلدیں چاہیں لکھنؤ سے منگا لیں۔ میں بہرحال دو جلدیں جس وقت موقع ہو گا بھیج دوں گا۔ ۱۱ جون ۱۸۶۳ء۔ نجات کا طالب۔ غالب۔
ایضاً
یکشنبہ ۱۶ فروری ۱۸۶۲ ہنگام نیمروز۔ صاحب کل تمہارے خط کا جواب بھیج چکا ہوں پہنچا ہو گا۔ آج صبح کو بھائی صاحب کے پاس گیا۔ بھائی ضیاء الدین خاں اور بھائی شہاب الدین خاں بھی وہیں تھے۔ مولوی صدر الدین میرے سامنے آئے۔ حکیم محمود خاں کے طور پر معالجہ قرار پایا ہے۔ یعنی انہوں نے نسخہ لکھ دیا ہے سو اس کے موافق حبوب بن گئی ہیں۔ نقوع کی دوائیں آج آ کر بھیگیں گی کل حبوب کے اوپر وہ نقوع پیا جائے گا۔ مگر انداز و ادا سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی حضرت مریض کی رائے اور ان کے ہوا خواہوں کی رائے میں قصد اس استعلاج کا مذبذب ہے۔ نسخہ کی حقیقت کو میزان نظر میں تول رہے ہیں استاد میر جان بھی تھے۔ نیم نامعقول مرزا اسد بیگ بھی تھے۔ سب طرح خیریت ہے۔ کل تمہارے خط میں دو بار یہ کلمہ مرقوم دیکھا کہ دلّی بڑا شہر ہے۔ ہر قسم کے آدمی وہاں بہت ہوں گے۔ اے میری جان یہ وہ دلّی نہیں ہے جس میں تم پیدا ہوئے وہ دلّی نہیں ہے جس میں تم نے تحصیل علم کیا ہے وہ دلّی نہیں ہے جس میں تم شعبان بیگ کی حویلی میں مجھ سے پڑھنے آتے تھے وہ دلّی نہیں ہے جس میں سات برس کی عمر سے آتا جاتا ہوں وہ دلّی نہیں ہے جس میں اکیاون برس سے مقیم ہوں۔ ایک کنپ (کیمپ)ہے۔ مسلمان اہل حرفہ یا حکام کے شاگرد پیشہ۔ باقی سراسر ہنود و معزول بادشاہ کے ذکور جو بقیۃ السیف ہیں وہ پانچ پانچ روپیہ مہینا پاتے ہیں۔ اناث میں سے جو پیر زن ہیں وہ کٹنیاں اور جوانیں کسبیاں۔ امرائے اسلام میں سے اموات گنو۔ حسن علی خاں بہت بڑے باپ کا بیٹاسو روپیہ روز کا پنشن دار سو روپیہ مہینے کا روزینہ دار بن کر نامردانہ بن گیا۔ میر ناصر الدین باپ کی طرف سے پیرزادہ۔ نانا اور نانی کی طرف سے امیر زادہ مظلوم مارا گیا۔ آغا سلطان۔ بخشی محمد علی خاں کا بیٹا جو خود بھی بخشی ہو چکا تھا بیمار پڑا۔ نہ دوا نہ غذا۔ انجام کار مر گیا۔ تمہارے چچا کی سرکار سے تجہیز و تکفین ہوئی۔ احبّا کو پوچھو ناظر حسین مرزا جس کا بڑا بھائی مقتولوں میں آ گیا اس کے پاس ایک پیسا نہیں۔ بڈھے صاحب ساری املاک بیچ کر نوش جاں کر کے بیک بینی و دو گوش بھرت پور چلے گئے۔ ضیاء الدولہ کے پانسو(پانچ سو)کرایہ کی املاک واگزاشت ہو کر پھر قرق ہو گئی۔ تباہ خراب لاہور گیا وہاں پڑا ہوا ہے۔ دیکھیئے کیا ہوتا ہے۔ قصہ کوتاہ قلعہ اور جھجھر اور بہادر گڈہ(گڑھ)اور بلب گڈہ(گڑھ) اور فرخ نگر۔ کم و بیش تیس لاکھ روپے کی ریاستیں مٹ گئیں۔ شہر کی امارتیں خاک میں مل گئیں۔ ہنرمند آدمی یہاں کیوں پایا جائے۔ جو حکما کا حال لکھا ہے وہ بیان واقع ہے۔ صلحا و زہاد کے باب میں جو حرف مختصر میں نے لکھا ہے اس کو بھی سچ جانو اپنے والد ماجد کی طرف سے خاطر جمع رکھو۔ سحر، آسیب کا گمان ہر گز نہ کرو۔ خدا چاہے تو استعمال ایارجات کے بعد بالکل اچھے ہو جائیں گے اور اب بھی خدا کے فضل سے اچھے ہیں۔ عافیت کا طالب۔ غالب۔
ایضاً
اجی مولانا علائی نواب صاحب دو مہینے تک کی اجازت دے چکے ہیں اور میں یہ خبر تراشی نہیں کرتا۔ مرزا علی محمد بیگ کی زبانی ہے کہ نواب علاؤ الدین خاں سے کہہ چکے ہیں کہ قصہ مٹ گیا ہے اب تم شوق سے دلی جاؤ۔ دو ہفتہ سے لے کر دو مہینے تک کی تم کو رخصت ہے۔ پھر تم کیوں نہ آئے خدا نے دعا، خداوند نے استدعا قبول کی۔ تمہاری طرف سے سست قدمی اور دل سردی کی کیا وجہ۔ اگر حاکی کی حکایت جوٹ ہے تو تم سچ لکھو کہ ماجرا کیا ہے۔ مرزا یوسف علی خاں عزیز تمہارے بلائے ہوئے اور مہدی حسین بھائی صاحب کے مطلوب مرزا عبدالقادر بیگ کے قبائل کے ساتھ کل روانہ لوہارو ہوئے ہیں۔ شنبہ ۱۷ دسمبر ۱۸۶۴ء۔ نجات کا طالب۔ غالب۔
ایضاً
میاں مدعا اصلی ان سطور کی تحریر سے یہ ہے کہ اگر کل کمیٹی میں گئے ہو تو میرے سوال کے پڑھے جانے کا حال لکھو۔ ضمناً ذکر ایک مدبر کا لکھا جاتا ہے۔ جو تم نے ا س مدبر کے صفات لکھے سب سچ ہیں۔ احمق۔ خبیث النفس۔ حاسد۔ طبیعت بڑی سمجھ بری۔ قسمت بری۔ ایک بار میں نے دکنی کی دشمنی میں گالیاں کھائیں۔ ایک بار بنارسی کی دوستی میں گالیاں کھاؤں گا۔ میں نے جو تمہیں اس کے باب میں لکھا تھا وجہ اس کی یہ تھی کہ میں نے سنا تھا کہ تم نے اپنے سائیسوں سے کہہ دیا ہے یا کہا چاہتے ہو کہ اس کو بازار میں بے حرمت کریں۔ یہ خلاف شیوہ مومنین ہے۔ خلاصہ یہ کہ قصد نہ کرنا یہ موید اس کا قول ہے جو میں نے تم سے پہلے کا تھا کہ تم یوں تصور کرو کہ اس نام کا آدمی اس محلہ میں بلکہ اس شہر میں کوئی نہیں۔ غالب۔
ایضاً
مولانا علائی۔ واللہ علی حسین خاں کا بیان بمقتضائے محبت تھا۔ ہر بار کہتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ حق بجانب ان کے ہے کوئی ہم سخن نہ کوئی ہم نفس نہ سیر نہ شکار نہ مجلس نہ دربار تنہائی و بے شغلی اور بس جی کیونکر نہ گھبرائے۔ خفقان کیوں نہ ہو جائے۔ نہ دن یاد نہ تاریخ آج چوتھا یا بھئی شاید بھول گیا ہوں پانچواں دن ہے کہ منشی نولکشور بسواری ڈاک رہگرائے لکھنؤ ہوئے۔ کل پہنچ گئے ہوں یا آج پہنچ جائیں آج روز یکشنبہ ۱۳ دسمبر کی ہے ایک دن منشی صاحب میرے پاس بیٹھے تھے اور برخوردار شہاب الدین خان بھی تھا میں نے ثاقب کو مخاطب کر کے کہا کہاگر میں دنیا دار ہوتا تو اس کو نوکری کہتا۔ مگر چونکہ فقیر تکیہ دار ہوں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ تین جگہ کا روزینہ دار ہوں ساڑھے باسٹھ روپے یعنی ۷۵۰ سالسرکار انگریزی سے پاتا ہوں اور بارہ سو سال رامپور سے اور چوبیس روپیہ سال ان مہاراج سے۔ توضیح یہ کہ دو برس سے ہر مہینہ میں چار بار اخبار مجھ کو پہنچتے ہیں قیمت نہیں لیتے۔ مگر ہاں اڑتالیس ٹکٹ میں مطبع میں پہنچا دیا کرتا ہوں۔ جو میں نے پوچھے تھے کہ علی حسین خاں کے حوالہ کروں۔ مقصود اس سے یہ تھا کہ ارسال بسبیل ہنڈوی دشوار ہے۔ خیر اب جس طرح ہو گا حصار پر ہنڈوی لکھوا کر تم کو بیج دوں گا۔ تم حصار پہنچ کر روپیہ منگوا لیجیو۔ خدا چاہے تو دسمبر میں روپیہ تمہارے پاس پہنچ جائے۔ استاد میر جان صاحب کو قدمبوس کہہ کر مجھ کو فرعون بننا پڑا۔ دوہائی خدا کی اب ایسا نہ کروں گا میرا سلام بلکہ دعا نا کو دے دینا۔ پرسوں مولوی صدر الدین خاں صاحب کو فالج ہو گیا سیدھا ہاتھ رہ گیا زبان موٹی ہو گئی ہے بات مشکل سے کر تے ہیں اور کم سمجھ میں آتی ہے۔ میں اپاہج ہوں جا نہیں سکتا جو ان کو دیکھ آتا اس سے ان کا حال پوچھا جاتا ہے۔ دن تاریخ صدر میں لکھا آیا ہوں کاتب کا نام غالب ہے کہ دستخط سے پہچان لو۔
ایضاً
آج بدھ کے دن ۲۷ رمضان کو پہر دن چڑھے جس وقت کہ میں کھانا کھا کر باہر آیا تھا ڈاک کا ہرکارہ تمہارا خطاور شہاب الدین خاں کا خط معاً لایا۔ مضمون دونوں کا ایک۔ واہ کیا مضموں ان دنوں میں کہ سب طرح رنج و عذاب فراہم ہیں ایک داغ جگر سوز یہ بھی ضرور تھا۔ سبحان اللہ میں نے اوسکی (اس کی) صورت بھی نہیں دیکھی یا ولادت کی تاریخ سنی یا اب رحلت کی تاریخ لکھنی پڑی۔ پروردگار تم کو جیتا رکھے اور نعم البدل عطا کرے۔ میاں اس کو سب جانتے ہیں کہ میں مادہ تاریخ نکالنے میں عاجز ہوں لوگوں کے مادے دیے ہوئے نظم کر دیتا ہوں اور جو مادہ اپنی طبیعت سے پیدا کرتا ہوں وہ بیشتر لچر ہوا کرتا ہے چنانچہ ا پنے بھائی کی رحلت کا مادہ دریغ دیوانہ نکالا پھر اس میں سے آہے کے عدد گھٹائے تمام دوپہر اسی فکر میں رہا یہ نہ سمجھا کہ مادہ ڈھونڈھا تمہارے نکالے ہوئے لفظوں کو تاکا کیا کہ کسی طرح سات اس پر بڑھاؤں بارے ایک قطعہ درست ہوا مگر تمہاری زبان سے یعنی گویا تم نے کہا ہے پانچ شعر میں تین شعر زائد و موضح مدعا لیکن میں نہیں جانتا کہ تعمیہ اچھا ہے یا برا ہے ہاں اخلاق تو البتہ ہے تامل سے سمجھ میں آتا ہے اور شاید لوح مزار پر کھدوانے کے قابل نہ ہو۔
قطعہ
در گریہ اگر دعوئے ہم چشمیِ ما کرد
بینی کہ شود ابر بہاری خجل از ما
ناچار بگریم شب و روز کہ زیں سیل
باشد کہ بروکالبد آب و گل از ما
گفتی کہ نگہدار دل از کشمکش غم
خود کر د برآرد غمِ جاں گسل از ما
یحییٰ شد و از شعلہ سوزِ غم ِ ہجرش
چوں شمع دود دُود بسر متصل از ما
غم دیدہ نسیمے پے تاریخ وفاتش
نبنوشت کہ درداغِ پسر سوخت دل از ما
ما کے اعداد ۴۱۔ دل کے اعداد۳۴۔ ما میں سے دل گیا۔ گویا ۴۱ میں سے ۳۴ گئے۔ باقی رہے سات۔ وہ داغ پسر پر بڑھائے ۱۲۷۴ ہاتھ آئے۔
ایضاً
سبحان اللہ ہزار برس تک نہ پیام بھیجنا نہ خط لکھنا اور پھر لکھنا تو سراسر غلط لکھنا مجھ سے کتاب مستعار مانگتے ہو یاد کرو کہ تم کو لکھ چکا ہوں کہ دساتیر اور برہان قاطع کے سوا کوئی کتاب میرے پاس نہیں۔ ازانجملہ برہان قاطع تم کو دے چکا ہوں۔ دساتیر میرا ایمام و حرز جان ہے۔ اشعار تازہ مانگتے ہو کہاں سے لاؤں ؟ عاشقانہ اشعار کو مجھ سے وہ بُعد ہے جو ایمان سے کفر کو۔ گورنمنٹ کا بھاٹ تھا بھٹئی کرتا تھا خلعت پاتا تھا۔ خلعت موقوف۔ بھٹئ متروک۔ نہ غزل نہ مدح ہزل و ہجو میرا آئین نہیں پھر کہو کیا لکھوں۔ بوڑھے پہلوان کے پیچ بتانے کو رہ گیا ہوں اکثر اطراف و جوانب سے اشعار آ جاتے ہیں اصلاح پا جاتے ہیں۔ باور کرنا اور مطابق واقع سمجھنا۔ تمہارے دیکھنے کو دل بہت چاہتا ہے اور دیکھنا تمہارا موقوف اس پر ہے کہ تم یہاں آؤ۔ کاش اپنے والد ماجد کے ساتھ چلے آتے اور مجھ کودیکھ جاتے۔ اردو کا دیوان رامپور سے لایا ہوں اور وہ آگرہ گیا ہے وہاں منطبع ہو گا۔ ایک نسخہ تمہارے پاس بھی پہنچ جائے گا۔
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
مرقومہ روز دو شنبہ ۲ جولائی ۱۲۶۰ھ۔ غالب۔
ایضاً
صاحب میرا برادر عالی قدر اور تمہارا والد ماجد اب اچھا ہے از روئے عقل اعادہ مرض کا احتمال باقی نہیں ہے۔ رہا وہم اس کی وہ دوا لقمان کے پاس بھی نہیں مرزا قربان علی بیگ اور مرزا شمشاد علی بیگ کے باب میں جو کچھ تم نے لکھا ہے اور آیندہ جو کچھ لکھو گے میری طرف سے وہی جواب ہو گا جو آگے لکھ چکا ہوں یعنی میں تماشائی محض نہ رہوں گا۔ اگر بھائی صاحب مجھ سے کچھ ذکر کریں گے تو بھلی کہوں گا۔ آپ کے عم عالی مقدار جو فرماتے ہیں کہ غالب کو بیٹھے ہوئے ہزارہا تسویلات و خیالات دکھلائی دیتے ہیں یہ حضرت نے اپنی ذات پر میری طبیعت کو طرح کیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح میں مبتلائے وساوس و اوہام ہوں اور لوگ بھی اسی طرح بخاراتِ مراقی میں گرفتار ہوں گے۔ قیاس مع الفارق ہے نہ بخیل صادق۔ یہاں لا موجود الا اللہ کی بادہ ناب کا رطل گراں چڑھائے ہوئے اور کفر و اسلام و نور و نار کو مٹائے بیٹھے ہیں ؎ کجا غیر کُو غیر کُو نقشِ غیر۔ سوائے اللہ واللہ ما فی الوجود۔ ضمیران بر وزن دُرگران لغت عربی ہے نہ معرب۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ پھول ہندوستان میں ہوتا ہے یا نہیں۔ اس کی تحقیقات از روئے الفاظ الادویہ ممکن ہے۔ آج اس نے جلاب لیا۔ دس دست آئے۔ مواد خوب خارج ہوا۔ فارسی غیر فصیح :۔ امروز مسہل گرفت دہ دست آمد ند مواد خوب برآمد۔ فارسی فصیح :۔امروز فلانی پگاہ دادے مسہل آشامید تاشام دہ بار نشست یا دہ بار بمتراح رفت یا دہ بار بہ بیت الخلا رفت مادہ فاسد چنانکہ باید اخراج یافت۔ معلوم رہے کہ لوطیوں کے منطق میں خصوصاً اور اہل پارس کی روز مرہ میں عموماً نشستن استعارہ ہے ریدن کا چنانچہ ایک تذکرہ میں مرقوم کہ اصفہان میں ایک امیر نے شعرا کی دعوت اپنے باغ میں کی۔ مرزا صائب اور اس عصر کے کئی شعر اجمع ہوئے ایک شاعر کہ تذکرہ میں اس کا نام مندرج ہے اور میں بھول گیا ہوں اکول (بہت کھانے والا)تھا مگر معدہ اس کا ضعیف تھا۔ حرص و شرہ کے سبب سے بہت کھا جاتا تھا ہضم نہ کر سکتا تھا۔ کھا کھا کر شراب پی پی کر دروازہ باغ کو مقفل کر کے سب سو رہے اس مرد اکول فضول نے رات بھر میں سارا باغ ہگ بھرا۔ نہ ایک جگہ بلکہ کبھی اس کیاری میں اور کبھی اس روش پر کبھی اس درخت کے تلے۔ کبھی اس درخت کی جڑ میں۔ قصہ مختصر غایت شرم و حیا سے دو چار گھڑی رات رہے دیوار سے کود کر چلا گیا۔ صبح کو جب جاگے اس کو ادھر ادھر ڈھونڈھا کہیں نہ پایا مگر حضرت کا فضلہ کئی جگہ نظر آیا۔ مرزا صاحب نے ہنس کر فرمایا :۔ یاراں شما را چہ افتادہ است کہ میگوید فلانے در باغ نیست مے بینم کہ مخدوم ہمدریں باغ چند جا نشستہ است۔ جمعہ ۵ رمضان و ۷ مارچ۔ سالِ روستا خیز۔ رباعی خط میں لکھنی بھول گیا۔ یہ میں نے بھائی کو تہنیت بھیجی تھی۔
رباعی
اے کردہ بمہر زر فشانی تعلیم
پیدا ز کلاہِ تو شکوہِ دریہیم
بادابتو فرخندہ ز یزداں کریم
پروانگی جدید اقطاع قدیم
ایضاً
مولانا علائی نہ مجھے خوف مرگ نہ دعوای صبر ہے۔ میرا مذہب بخلاف عقیدہ قدریہ جبر ہے۔ تم نے میاں جی گرمی کی۔ بھائی نے برادر پروری کی۔ تم جیتے رہو وہ سلامت رہیں۔ ہم اسی حویلی میں تا قیامت رہیں۔ اس ابہام کی توضیح اور اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مینھ(مینہ)کی شدت سے چھوٹا لڑکا ڈرنے لگا اس کی دادی بھی گھبرائی۔ مجھ کو خلوت خانہ کا دروازہ غرب رویہ اور اس کے آگے ایک چھوٹا سا درہ یاد تھا جب تمہارے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو میں اسی دروازہ سے تم کو دیکھنے آیا تھا۔ یہ سمجھ کر خلوت خانہ کو محلسرا بنایا چاہتا تھا کہ گاڑی ڈولی لونڈی اصیل کا چھن تیلن تنبولن کہاری پسنہاری۔ ان فرقوں کا ممر دروازہ رہے گا۔ میری اور میرے بچوں کی آمدو رفت دیوانخانہ میں رہے گا۔ عیاذاً باللہ وہ لوگ دیوانخانہ میں سے آئیں جائیں اپنے بیگانے کا ہر وقت پچھلپائیاں نظر آئیں۔ بی وفادار جن کو تم کچھ اور بھائی خوب جانتے ہیں۔ اب تمہاری پھوپھی نے انہیں وفادار بیگ بنا دیا ہے باہر نکلتی ہیں سودا تو کیا لائیں گی مگر خلیق اور ملنسار ہیں رستہ چلتوں سے باتیں کرتی پھرتی ہیں جب محل سے نکلیں گی ممکن نہیں کہ اطراف نہر کی سیر نہ کریں گی۔ ممکن نہیں کہ دروازہ کے سپاہیوں سے باتیں نہ کریں گی۔ ممکن نہیں کہ پھول نہ توڑیں اور بی بی کو لے جا کر نہ دکھائیں اور نہ کہیں کہ یہ پھول تمائی چچا کے بیٹے کی کائی کے ایں۔ شرح۔ تمہارے چچا کے بیٹے کی کیاری کے ہیں۔ ہے ہے ایسے عالیشان دیوان خانہ کی یہ قسمت اور مجھ سے نازک مزاج دیوانے کی یہ شامت معہذا اس سہ دری کو اپنے آدمیوں اور لڑکوں کے مکتب کے لئے ہر گز کافی نہ جانا مور اور کبوتر اور دنبہ اور بکری باہر گھوڑوں کے پاس رہ سکتے تھے عَرَفتَ رَبّیِ بِفَسخِ العَزَائِم پڑھا اور چپ ہو رہا مگر تمہاری خاطر ِ عاطر جمع رہے کہ اسباب وحشت و خوف و خطر اب نہ رہے۔ مینھ(مینہ)کھل گیا ہے مکان کے مالکوں کی طرف سے مدد شروع ہو گئی ہے۔ نہ لڑکا ڈرتا ہے نہ بی بی گھبراتی ہیں نہ میں بے آرام ہوں۔ کھلا ہوا کوٹھا چاندنی رات ہوا سرد تمام رات فلک پر مریخ پیش نظر۔ دو گھڑی کے تڑکے زہرہ جلوہ گر۔ ادھر چاند مغرب میں ڈوبا ادھر مشرق سے زہرہ نکلی۔ صبوحی کا وہ لطف روشنی کا وہ عالم۔ ۶ ماہ اگست ۱۸۶۲ ء۔
ایضاً
صبح سہ شنبہ نہم ستمبر ۱۸۶۲ء۔ جانِ غالب مگر قسم سے نکلی ہوئی جان قیامت کو دوبارہ ملنے کی توقع ہے خدا کا احسان مرزا قربان علی بیگ تمہاری کشش کے مجذوب کیوں بنتے ہیں وہ تو خود سالک ہیں مگر ہاں یہ صاحبزادہ سعادتمند رضوان سوا اس کے آپ مالک ہیں۔ نواب صاحب کا ہم مطبخ اور آپ کا ہم مائدہ ہونا بہتر ہوا۔ کاش تم یہ لکھتے کہ مشاہرہ کیا مقرر ہوا۔ اثنا عشری ایک تم ہو سو تمہیں کیا اختیار ہے۔ البتہ عشرہ مبشرہ کی اولویت پر مدار ہے۔ باپ تمہارا خلاف قاعدہ اہل سنت جماعت عشرہ میں سے ثلثہ کو کم کرتا تھا رضوان نے نہ مانا کیونکر مانتا وہ تو ثلثہ کا دم بھرتا تھا۔ تہور خانصاحب کے باب میں جویا اس خبر کا ہے کہ اب لوہارو سے ان کا ارادہ کدھر کا ہے۔ رضوان کو دعا پہنچے۔ نواب صاحب کی عنایت اور مولانا علائی کی صحبت مبارک ہو۔ پیر جی سے جب پوچھتا ہوں تم خوب شخص ہو اور وہ کہتے ہیں کیا کہنا ہے اور میں پوچھتا ہوں کس کا تو وہ فرماتے ہیں شمشاد علی بیگ کا۔ اَین اور کسی کا نام تم کیوں نہیں لیتے دیکھو یوسف علی خاں بیٹھے ہیں۔ ہیرا سنگہ(سنگھ)موجود ہے۔ واہ صاحب میں کیا خوشامدی ہوں جو منہ دیکھی کہوں۔ میرا شیوہ حفظ الغیب ہے۔ غائب کی تعریف کرنی کیا عیب ہے ؟ ہاں صاحب آپ ایسے ہی وضع دار ہیں اس میں کیا ریب ہے۔
ایضاً
جانا عالیشانا خط پہنچا۔ حظ اٹھا۔ تمہاری آشفتہ حالی میں ہر گز شک نہیں تم کہیں۔ قبائل کہیں۔ والی شہر ناسازگارانجام کار ناپائدار۔ ایک دل اور سو آزار۔ اللہ تمہارا یاور۔ علی تمہارا مددگار۔ میں پا در رکاب بلکہ نعل در آتش۔ کب جاؤ ں اور فرخ سیر کو دیکھوں ایک خط میں نے علی حسین خاں کو لکھا وہاں سے اس کا جواب آ گیا روہیلا پھوڑے پھنسی میں مبتلا ہے خدا اس کو صحت دے۔ شمشاد علی بیگ کہاں الور پہنچا اور اس طرح گیا کہ شہاب الدین خاں سے مل کر بھی نہ گیا خیر؎ رُموز مصلحتِ خویش خسرواں دانند۔ یہاں جشن کے وہ ساماں ہو رہے ہیں کہ جمشید اگر دیکھتا تو حیران رہ جاتا شہر سے دو کوس پر آغا پور نامی ایک بستی ہے۔ آٹھ دن سے وہاں خیام برپا تھے پرسوں صاحب کمشنر بہادر بریلی مع چند صاحبوں اور میموں کے آئے اور خیموں میں اترے۔ کچھ کم سوصاحب اور میم جمع ہوئے۔ سب سرکار رامپور کے مہمان۔ کل سہ شنبہ ۵ دسمبر حضور پر نور بڑے تجمل سے آغا پور تشریف لے گئے بارہ پر دو بجے گئے اور شام کو پانچ بجے خلعت پہن کر آئے۔ وزیر علی خاں خانساماں خواصی میں سے روپیہ پھینکتا ہوا آتا تھا۔ دو کوس کے عرصہ میں دو ہزار روپیہ سے کم نہ نثار ہوا ہو گا۔ آج صاحب عالی شان کی دعوت ہے پٹن شام کا کھانا یہیں کھائیں گے۔ روشنی آتشبازی کی وہ افراط کہ رات دن کا سامنا کرے گی۔ طوائف کا وہ ہجوم حکام کا وہ مجمع کہ اس مجلس کو طوائف الملوک کہا چاہیے۔ کوئی کہتا ہے کہ صاحب کمشنر بہادر مع صاحبان عالیشان کے کل جائیں گے کوئی کہتا ہے پرسوں۔ رئیس کی تصویر کھینچتا ہوں۔ قد۔ رنگ۔ شکل۔ شمائل۔ بعینہٖ بھائی ضیاء الدین خاں۔ عمر کا فرق اور کچھ کچھ چہرہ اور لحیہ متفاوت۔ حلیم و خلیق۔ باذل۔ کریم۔ متواضع۔ متشرع۔ متورّع۔ شعر فہم۔ سینکڑوں شعر یاد۔ نظم کی طرف توجہ نہیں۔ نثر لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ جلالائی طباطبائی کی طرز برتتے ہیں۔ شگفتہ جبین ایسے کہ ان کے دیکھے سے غم کوسوں بھاگ جائے۔ فصیح بیان ایسے کہ ان کی تقریر سن کر ایک اور نئی روح قالب میں آئے۔ اللہ م دام اقبالہٗ و زاد اجلالہٗ۔ بعد اختتام محافل طالبِ رخصت ہوں گا۔ بعد حصول رخصت دلّی جاؤں گا۔ بھائی صاحب کی خدمت میں بشرط رسائیو تاب گویا ئی سلام کہنا اور بچوں کی خیر و عافیت جو تم کو معلوم ہوئی ہے وہ مجھ کو لکھنا۔ ۲۰ دسمبر ۱۸۶۵ کی بدہ(بدھ)کا دن صبح کے آٹھ بجا چاہتے ہیں۔ کاتب کا نام غالب ہے تم جانتے ہو گے۔
ایضاً
صبح یکشنبہ ۲۷ جولائی ۱۸۶۴ء۔ میری جان سن پنجشنبہ پنجشنبہ جمعہ ۹ ہفتہ دس اتوار گیارہ ایک مژہ برہمزدن مینھ(مینہ) نہیں تھما اس وقت شدت سے برس رہا ہے۔ انگیٹھی میں کوئلے دہکا کر پاس رکھ لیے ہیں دو سطریں لکھیں اور کاغذ کو آگ سے سینک لیا۔ کیا کروں تمہارے خط کا جواب ضرور لو۔ سنتے جاؤ۔ مرزا شمشاد علی بیگ کو خط تمہارا پڑھوا دیا۔ انہوں نے کہا غلام حسن خان کی معیت پر کیا موقوف ہے مجھے آج سواری مل جائے کل چل نکلوں۔ اب میں کہتا ہوں کہ اونٹ ٹٹو کا موسم نہیں گاڑی کی تدبیر ہو جائے بس پچاس برس کی بات ہے کہ الہی بخش خاں مرحوم نے ایک زمیں نئی نکالی میں نے حسب الحکم غزل لکھی۔ بیت الغزل یہ ؎
پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے
مقطع یہ ہے :۔
اسد خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جو اس نے ذرامیرے پاؤں داب تو دے
اب میں دیکھتا ہوں کہ مطلع اور چار شعر کسی نے لکھ کر اس مقطع اور اس بیت الغزل کو شامل ان اشعار کے کر کے غزل بنائی ہے اور لوگ اس کو گاتے پھرتے ہیں۔ مقطع اور ایک شعر میرا اور پانچ شعر کسی اُلو کے۔ جب شاعر کی زندگی میں گانے والے شاعر کے کلام کو مسخ کر دیں تو کیا بعید ہے کہ وہ شاعر متوفی کے کلام میں مُطربوں نے خلط کر دیا ہو۔ مقطع بے شک مولانا مغربی کا ہے اور وہ شعر جو میں نے تم کو لکھا ہے اور یہ شعر جواب لکھتا ہوں ؎
دامانِ نگہ تنگ و گل ِ حسنِ تو بسیار
گلچین بہار تو ز دامان گلہ دارد
یہ دونوں شعر قدسی کے ہیں۔ مغربی قدما میں اور عرفا میں ہے جیسا عراقی۔ ان کلام دقائق و حقائق تصوف سے لبریز۔ قدسی شاہجہانی شعرا میں صائب و کلیم کا ہم عصر اور ہم چشم۔ ان کا کلام شور انگیز ان بزرگوں کی طرز روش میں زمین و آسمان کا فرق۔ بھائی کو سلام کہنا اور کہنا کہ صاحب وہ زمانہ نہیں کہ ادھر متھرا داس سے قرض لیا ادھر درباری مل کو مارا۔ ادھر خوب چند۔ چین سکھ کی کوٹھی جالوٹی۔ ہر ایک پاس تمسک مہری موجود۔ شہد لگا چاٹو۔ نہ مول نہ سود اس سے بڑھ کر یہ بات کہ روٹی کا خرچ بالکل پھوپھی کے سر۔ با این ہمہ کبھی خان نے کچھ دے دیا کبھی الور سے کچھ دلوا دیا۔ کبھی ماں نے کچھ آگرہ سے بھیج دیا۔ اب میں اور باسٹھ روپے آٹھ آنے۔ کلکٹری کے سو روپیہ رامپور کے قرض دینے والا ایک میرا مختار کار وہ سود ماہ بماہ لیا چاہے۔ مول میں قسط اس کو دینی پڑے۔ انکم ٹکس(ٹیکس) جدا۔ چوکیدار جدا۔ سود جدا۔ مول جدا۔ بی بی جدا۔ بچے جدا۔ شاگرد پیشہ جدا۔ آمد وہی ایک سو باسٹھ۔ تنگ آ گیا۔ گزارا مشکل ہو گیا روز مرہ کا کام بند رہنے لگا۔ سونچا(سوچا)کہ کیا کروں کہاں سے گنجایش نکالوں۔ قہر درویش بر جان درویش۔ صبح کی تبرید متروک۔ چاشت کا گوشت آدھا۔ رات کی شرابو گلاب موقوف۔ بیس بائیس روپیہ مہینا بچا۔ روز مرہ کا خرچ چلایا۔ یاروں نے پوچھا تبرید و شراب کب تک نہ پیو گے ؟ کہا گیا جب تک وہ نہ پلائیں گے۔ پوچھا کہ نہ پیو گے تو کس طرح جیو گے ؟ جواب دیا کہ جس طرح وہ جلا ئیں گے۔ بارے مہینا پورا نہیں گزرا تھا کہ رامپور سے علاوہ وجہ مقرری اور روپیہ آ گیا۔ قرض مقسط ادا ہو گیا متفرق رہا خیر رہو۔ صبح کی تبرید۔ رات کی شراب جاری ہو گئی۔۔ گوشت پورا آنے لگا۔ چونکہ بھائی صاحب نے وجہ موقوفی اور بحالی پوچھی تھی ان کو یہ عبارت پڑھا دینا اور حمزہ خاں کو بعد سلام کہنا ؎ اے بے خبر ز لذت شُرب مدام ما۔ دیکھا ہم کو یوں پلاتے ہیں۔ دریبہ کے بنیوں کے لونڈوں کو پڑھا کر مولوی مشہور ہونا۔ اور مسائل ابو حنیفہ دیکھنا اور مسائل حیض و نفاس میں غوطہ مارنا اور ہے عرفا کے کلام سے حقیقت حقہ وحدت وجود کو اپنے دل نشین کرنا اور ہے۔ مشرک وہ ہیں جو وجود کو واجب و ممکن میں مشترک جانتے ہیں۔ مشرک وہ ہیں جو مسیلمہ کو نبوت میں خاتم المرسلین کا شریک گردانتے ہیں۔ مشرک وہ ہیں جو نومسلموں کو ابو الائمہ کا ہمسر مانتے ہیں۔ دوزخ ان لوگوں کے واسطے ہے۔ میں موحد خالص اور مومن کامل ہوں زبان سے لا الہ الا اللہ کہتا ہوں۔ اور دل میں لاموجود الا اللہ لامؤثر فی الوجود الاللہ سمجھے ہوا ہوں۔ انبیا سب واجب التعظیم اور اپنے وقت میں سب منفرض الطاعت تھے۔ محمد علیہ السلامپر نبوت ختم ہوئییہ خاتم المرسلین اور رحمۃ للعالمین ہیں۔ مقطع نبوت کا مطلع امامت اور امامت نہ اجماعی بلکہ من اللہ ہے اور امام من اللہ علی علیہ السلام ہے ثم حسن ثم حسین اسی طرح تا مہدی موعود علیہ السلام ؎ برین زیستم ہم برین بگزرم۔ ہاں اتنی بات اور ہے کہ اباعت اور زندقہ کو مردود اور شراب کو حرام اور اپنے کو عاصی سمجھتا ہوں اگر مجھ کو دوزخ میں ڈالیں گے تو میرا جلانا مقصود نہ ہو گا بلکہ میں دوزخ کا ایندھن ہوں گا اور دوزخ کی آنچ کو تیز کروں گا تاکہ مشرکین و منکرین نبوت مصطفوی و امامت مرتضوی اس میں جلیں۔ سنو مولوی صاحب اگر ہٹ دھرمی نہ کرو گے اور کتمانِ حق کو گناہ جانو گے تو البتہ تم کو یاد ہو گا اور کہو گے کہ ہاں یا دہے جن روزوں میں تم علاؤ الدین خاں کو گلستان اور بوستان پڑھاتے ہو اور تم نے ایک دن غریب کو دو تین طمانچے مارے ہیں۔ نواب امین الدین خاں ان دنوں میں لوہارو ہیں۔ علاؤ الدین خاں کی والدہ نے تم کو ڈیوڑھی پر سے اٹھا دیا تم با چشم پر آب میرے پاس آئے میں نے تم سے کہا بھائی شریف زادوں کو اور سردار زادوں کو چشم نمائی سے پڑھاتے ہیں مارتے نہیں۔ تم نے بے جا کیا آیندہ یہ حرکت نہ کرنا تم نادم ہوئے اب وہ مکتب نشین طفل سے گزر کر پیر ہفتاد سالہ کے واعظ بنے تم نے کئی فاقوں میں ایک شعر حافظ کا حفظ کیا ہے ؎ چوں پیر شدی حافظ الخ۔ اور پھر پڑھتے ہو اس کے سامنے کہ اس کی نظم کا دفتر حافظ کے دیوان سے دو چند سہ چند ہے۔ مجموعہ نثر جداگانہ اور یہ بھی لحاظ نہیں کرتے کہ ایک شعر حافظ کا یہ ہے اور ہزار شعر اس کے مخالف ہیں ؎
حافظ:۔
صوفی بیا کہ آئینہ صاف است جام را
تا بنگری صفائے مے لعل فام را
دیگر:۔ شراب حجاب خوردہ مے مہ جبیناں بیں
خلاف مذہب آناں جمال انیاں بیں
دیگر:۔ ترسم کہ صرفہ نبرد روز باز خوست
نانِ حلال شیخ ز آب حرام ما
دیگر:۔ ساقی مگر وظیفہ حافظ ز بادہ داد
کاشفتہ گشت طرہ دستار مولوی
میاں میں بڑی مصیبت میں ہوں۔ محلسرا کی دیواریں گر گئی ہیں پاخانہ ڈھ گیا۔ چھتیں ٹپک رہی ہیں۔ تمہاری پھوپھی کہتی ہیں ہائے دبی ہائے مری۔ دیوان خانہ کا حال محلسرا سے بدتر ہے۔ میں مرنے سے نہیں ڈرتا۔ فقدانِ راحت سے گھبرا گیا ہوں۔ چھت چھلنی ہے ابر دو گھنٹہ برسے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے۔ مالک اگر چاہے کہ مرمت کرے تو کیونکر کرے۔ مینھ(مینہ) کھلے تو سب کچھ ہو اور پھر اثنائے مرمت میں مَیں بیٹھا کس طرح رہوں اگر تم سے ہو سکے تو برسات تک بھائی سے مجھ کو وہ حویلی جس میں میر حسن رہتے تھے اپنی پھوپھی کے رہنے کو اور کوٹھی میں سے وہ بالا خانہ مع دالان زیریں جو الہی بخش خاں مرحوم کا مسکن تھا میرے رہنے کو دلوا دو۔ برسات گزر جائے گی مرمت ہو جائے گی۔ پھر صاحب اور میم اور بابا لوگ اپنے قدیم مسکن میں آ رہیں گے۔ تمہارے والد کی ایثار و عطا کے جہاں مجھ پر احسان ہیں ایک یہ مروت کا احسان میرے پایانِ عمر میں اور بھی سہی۔ غالب۔
ایضاً
چار شنبہ ۱۸ مئی ۱۸۶۶ ء۔ بقول عوام باسی عید کا دن صبح کا وقت۔ میری جان غالبِ کثیر المطالب کی کہانی سن۔ میں اگلے زمانہ کا آدمی ہوں جہاں ایک امر کی ابتدا دیکھی یہ جان لیا کہ اب یہ امر مطابق اس ہدایت کے نہایت پذیر ہو گا۔ یہاں اختلاف طبایع کا وہ حال کہ آغاز مغشوش انجام مخدوش مبتدا خبر سے بیگانہ۔ شرط جزاسے محروم سنا اور متواتر سنا کہ قصہ طے ہو گیا اب علاؤ الدین خان مع قبائل آئیں گے۔ دل خوش ہوا کہ اپنے محبوب کی شکل مع اس کے نتائج کے دیکھوں گا۔ پرسوں آ کر بھائی پاس گیا اثنائے اختلاط و انبساط میں میں نے پوچھا کہ کہو بھئی علاؤ الدین خان کب آئیں گے جواب کچھ نہیں ابے وہ قصہ تو طے ہو گیا ہاں وہ تو روپیہ میں نے دے بھی دیا میں نے کہا تو اب چاہیے کہ وہ آئیں فرمایا کہ شاید ابھی نہ آئے ؎ معلوم ہوا کہ خیر ٹھینگا باجا ہو۔ ناچار ارادہ کیا کہ جو کچھ کہنا تھا وہ اب لکھ کر بھیجوں۔ پرسوں تو شام ہو گئی تھی۔ کل بغلگیر ہونے والوں نے دم نہ لینے دیا اس پر طرہ یہ کہ ثاقب نے کہا کہ بھائی تم سے شاکی ہیں اب ضرور آ پڑا کہ گزارش مدعا سے پہلے تمہارے رفع ملال میں کلام کروں بھائی تم میرے فرزند بلکہ بہ از فرزند ہو۔ اگر میرا صلبی بیٹا اس دید و دانست و تحریر و تقریر کا ہوتا تو میں اس کو اپنا یار ِ وفادار اور ذریعہ افتخار جانتا۔ میرے خطوط کے نہ پہنچنے کا گلہ غلط۔ تمہارا کونسا خط آیا کہ اس کا جواب یہاں سے نہ لکھا گیا۔ میرے پاس جو مقاصد ضروری فراہم تھے۔ وہ میں نے اس نظر سے نہ لکھے کہ اب تم آتے ہو زبانی گفت و شنید ہو جائے گی ثاقب نے چلتی گاڑی میں روڑا اٹکا دیا تب مجھے توطیہ و تمہید میں ایک ورق لکھنا پڑا ورنہ آغاز نگارش یہاں سے ہوتا۔ یا اسد اللہ الغالب؎
بامن از جہل معراض شد نامنفعلے
کہ گرش ہجو کنم ایں بودش مدح عظیم
یہ رسالہ موسوم بہ محرق قاطع برہان جو ثاقب نے تم کو بھیجا ہے میرے کہنے سے بھیجا ہے۔ اور اس ارسال سے میرا س مدعا یہ ہے کہ اس کے معائنہ کے وقت اس کتاب کی بے ربطی عبارت پر اور میری اپنی قرابت اور نسبت ہائے حدیدہ پر نظر نہ کرو۔ بیگانہ وار دیکھو۔ اور ازروئے انصاف حکم بنو۔ بے حیف و میل اس نے جو مجھے گالیاں دی ہیں اس پر غصہ نہ کرو۔ غلطیاں عبارت کی شدت اطناب ممل کی صورت سوال دیگر جواب دیگر ان باتوں کو مطمع نظر کرو بلکہ اگر فرصت ساعدت کرے تو ان مراتب کو الگ ایک کاغذ پر لکھو اور بعد اتمام میرے پاس بھیج دو۔ میرا ایک دوست روحانی کہ وہ منجملہ رجال الغیب ہے۔ ان ہفوات کا خاکہ اڑا رہا ہے۔ نیّر رخشاں نے اس کو مدد دی ہے تم بھی بھائی مدد دو۔ اور وہ امر مبہم کہ جو تمہارے والد کی تقریر سے دل نشین نہیں ہوا یعنی قصہ چُک جانا اور دلّی آنا اس کا ماجرا مفصل و مشرح لکھ۔ دن تاریخ اپنا نام آغاز کتاب میں لکھ آیا ہوں۔ اب ارسال جواب کی تاکید کے سوا اور کیا لکھوں۔ فقط۔
ایضاً
میاں میں تمہارے باپ کا تابع تمہارا مطیع فرخ مرزا کا فرمانبردار مگر ابھی اٹھا ہوں اپنے کو بھی نہیں سمجھا کہ میں کون ہوں۔ آج فرخ صاحب کے نام کا رقعہ پہنچ جائے گا۔ چہہ جزو تمہارے دیے ہوئے میر مہدی مہدی حسن صاحب کو دیے اور باقی دن چڑھے اعیان مطبع جمع ہو لیں تو وہ اوراق بھی منگا دوں گا۔ غالب۔
ایضاً
شنبہ ۱۵ شعبان و فروری وقت نماز ظہر نیر اصغر سپہر سخن سرائی مولانا علائی کی خاطر نشان و دل نشین ہو کہ آج صبح کو ۵ یا ۶ گھڑی دن چڑھے دونوں بھائی صاحب تشریف لائے۔ میں گھر آیا کھانا کھایا۔ دوپہر کو تمہارا خط پایا۔ دو گھڑی لوٹ پوٹ کر جواب لکھا اور ڈاک میں بھجوا یا۔ یہ مرض جو بھائی کو ہے اس راہ سے کہ ضد صحت ہے مکروہ طبع ورنہ ہر گز موجبِ خوف و خطر نہیں میں تو بھول گیا تھا اب بھائی کے بیان سے یاد آ گیا کہ ۱۲۔ ۱۳ برس پہلے ایک دن ناگاہ یہ حالت طاری ہو گئی تھی۔ وہ موسم جوانی کا تھا اور حضرت عادی بہ فنون نہ تھے۔ تنقیہ بہ قے فوراً اور بہ اسہال بعد چند روز عمل میں آیا۔ اب سنِ کہولت استعمال افیون مزید علیہ دورہ جلد متواتر ہوا۔ اضطراب از راہِ محبت ہے ازروئے حکمت اضطراب کی کوئی وجہ نہیں۔ نظری میں یکتا حکیم امام الدین خاں وہ ٹونک۔ عملی میں چالاک حکیم احسن اللہ خاں وہ کرولی۔ رہے حکیم محمود خاں وہ ہمسایہ دیوار بدیوار حکیم غلام نجف خاں وہ دوست قدیم صادق الولا۔ حکیم بقا کے خاندان میں دو صاحب موجود۔ تیسرے حکیم منجھلے وہ بھی شریک ہو جائیں گے۔ اب آپ فرمائیے حکیم کون ہے۔ ہاں دو ایک ڈاکٹر باعتبار ہم قومی حکام نامور یا کوئی ایک آدھ بید منزوی اور گمنام۔ بہر حال خاطر جمع رکھو۔ خدا کے فضل پر نظر رکھو۔ سبحان اللہ تم مجھ سے سپارش کرو۔ امین الدین خاں کی کیا میرے پہلو میں دل یا میرے دل میں ایمان جس کو محبت بھی کہتے ہیں بقدر پرِ پشہو سرِ مور بھی نہیں۔ معالجہ حکماء کی راہ پر رہے گا۔ ندیمی اور غمخواری میں اگر قصور کروں تو گناہگار۔ میاں ایسے موقع میں رائے اطبا میں خلاف کم واقع ہوتا ہے۔ مرض مشخص۔ دوا معین۔ سوءِ مزاج ساذج نہیں مادی ہے اور مادہ بارد ہے۔ کوئی طبیب سوائے تنقیہ کے کوئی تدبیر نہ سونچے (سوچے )گا۔ تنقیہ میں سوائے مخرجات ِ بلغم اور کچھ تجویز نہ کرے گا۔ تجویز ہے کہ دو دن کے بعد تنقیہ خاص ہو اور ایارج کا مسہل دیا جائے۔ اسما و آیات شفا بخش مقرر ہیں۔ ردِّ سحر و دفع بلا ان کے ذریعہ سے متصور ہے لیکن ان ملاؤں اور عزائم خوانوں نے نہ توڑ دی ہے کچھ نہیں جانتے اور باتیں بکھانتے (بگھارتے )ہیں۔ تمہارے باپ پر کوئی سحر کیوں کرے گا۔ بیچارہ الگ ایک گوشہ میں رہتا ہے کہ جب تک خاص وہاں کا قصد نہ کرے کبھی کوئی وہاں نہ جائے۔ یہ خیال عبث۔ ہاں خیرات و مساکین سے طلب دعا اور اہل اللہ سے استمداد۔ شہر میں مساکین شمار سے باہر۔ اہل اللہ میں ایک حافظ عبدالعزیز ما بخیر شما بسلامت۔ نجات کا طالب۔ غالب۔ دن اور تاریخ اوپر لکھ آیا ہوں۔
ایضاً
اقبال نشان والا شان صدرہ عزیز تر از جان مرزا علاؤ الدین خاں کو دعائے درویشانہ غالب دیوانہ پہنچے۔ سال نگارش تم کو یاد ہو گا۔ میں نے دبستان فارسی کا تم کو جانشین و خلیفہ قرار دے کر ایک سجل لکھ دیا ہے۔ اب جو چار کم اسی برس عمر ہوئی اور جانا کہ میری زندگی برسوں کیا بلکہ مہینوں کی نہ رہی۔ شاید بارہ مہینے جس کو ایک برس کہتے ہیں اور جیوں۔ ورنہ دو چار مہینے پانچ سات ہفتے دس بیس دن کی بات رہ گئی ہے۔ اپنی ثبات حواس میں اپنے دستخط سے یہ توقیع تم کو لکھ دیتا ہوں کہ فن اردو میں نظماً و نثراً تم میرے جانشین ہو۔ چاہیے کہ میرے جاننے والے جیسا مجھ کو جانتے تھے ویسا تم کو جانیں اور جس طرح مجھ کو مانتے تھے تم کو مانیں۔ کل شے ٍھالک و یبقیٰ وَجہُ رَبِّکَ ذُوالجلالِ والاِکرام۔ یکشنبہ سلخ صفر ۱۲۸۵ ہجری۔ ۲۱ جون ۱۸۶۸ ء منمقام دہلی۔
٭٭٭
بنام مرزا امیر الدین احمد خاں المدعو بہ فرخ مرزا
اے مردم چشم جہاں بینِ غالب۔ پہلے القاب کے معنی سمجھ لو۔ یعنی چشمِ جہاں بینِ غالب کی پُتلی چشم جہاں بیں تمہارا باپ مرزا علاؤ الدین خاں بہادر اور پُتلی تم۔ آج میں نے تمہارا خط دیکھا۔ مجھ کو بہت پسند آیا۔ استاد کامل نہ ہونے کے با وصف تم نے یہ کمال حاصل کیا۔ آفرین صد آفرین۔ میں اپنے اور تمہارے پروردگار سے کہ وہ رب العالمین ہے یہ دعا مانگتا ہوں کہ تم کو زیادہ نہیں تو تمہارے باپ کے برابر علم و فضل اور تمہارے پردادا حضرت فخر الدولہ نواب احمد بخش خاں بہادر جنت آرامگاہ کے برابر جاہ و جلال عنایت کرے۔ میاں تمہارے دادا نواب امین الدین خاں بہادر ہیں۔ میں تو تمہارا دلدادہ ہوں۔ خبردار جمعہ کو اپنی صورت مجھے دکھا جایا کرو۔ والدعا۔ دیدار کا طالب۔ غالب۔
٭٭٭
بنام میر احمد حسین المتخلص بہ میکش
بھائی میکش آفرین۔ ہزار آفرین۔ تاریخ نے مزا دیا۔ خدا جانے وہ خرمے کس مزے کے ہوں گے جن کی تاریخ ایسی ہے۔ دیکھو صاحب؎ قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید۔ تاریخ دیکھی اس کی تعریف کے خرمے کھائیں گے۔ اس کی تعریف کریں گے۔ کہیں یہ تمہارے خیال میں نہ آوے کہ یھ(یہ)حسن طلب ہے کہ ناحق تم دین محمد غریب کو دوبارہ تکلیف دو۔ ابھی رقعہ لے کر آیا ہے ابھی خرمے لے کر آوے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ اگر بفرض محال تم یوں ہی عمل میں لاؤ گے اور میاں دین محمد صاحب کے ہاتھ خرمے بھجواؤ گے تو ہم بھی کہیں گے تازہ شے بہتر۔ بارہ سے بہتر۔
ایضاً
میاں عجیب اتفاق ہے نہ میں تمہارے دیکھنے کو آسکتا ہوں نہ تم میرے دیکھنے کو قدم رنجہ فرما سکتے ہو۔ وہ قدم رنجہ کہاں سے کرو سراپا رنجہ ہو۔ لاحول ولا قوۃ۔ یہ تعطیل کے دن کیا ناخوش گزرے۔ یوسف مرزا سے میر سرفراز حسین سے تمہارا حال سن لیتا ہوں اور رنج کھاتا ہوں۔ خدا تمہارے حال پر رحم کرے اور تم کو شفا دے۔ خواہش یہ ہے کہ ناتوانی کا عذر نہ کرو اور اپنا حال اپنے ہاتھ سے لکھو۔ والدعا۔ اسد۔
٭٭٭
بنام جناب حکیم غلام مرتضیٰ خاں صاحب
خانصاحب جمیل المناقب حکیم غلام مرتضیٰ خاں صاحب کو غالب دردمند کا سلام۔ خوب یاد کیجیئے کہ میں نے کبھی کسی امر میں آپ کو تکلیف نہیں دی۔ اب ایک طرح کی عنایت کا سائل ہوں حامل ہذا المکتوب پنڈت جے نراین میرا خط لے کر حاضر ہوتے ہیں ان کے بزرگ نواب احمد بخش خاں کی سرکار میں مناصب عالیہ اور عہدہ ہائے جلیلہ رکھتے تھے۔ اب موقع یھ(یہ)آیا ہے کہ جستجوئے نوکری میں پٹیالے آتے ہیں۔ آپ کو میرے سر کی قسمجہاں تک ہو سکے سعی کر کے ان کو موافق ان کی عزت کے کوئی منصب کوئی عہدہ دلوا دو گے تو میں یہ جانوں گا کہ تم نے مجھے نوکر رکھوا دیا ہے۔ بڑا احسان مند ہوں گا۔ نجات کا طالب۔ غالب۔ ۱۳ شوال ۱۲۸۱ ہجری۔
٭٭٭
بنام جناب حکیم غلام رضا خانصاحب
نور دیدہ و سرورِ دل و راحت جاں اقبال نشان حکیم غلام رضا خاں کو غالب نیم جاں کی دعا پہنچے۔ تم سے رخصت ہو کر اور تمہیں خدا کو سونپ کر روانہ رامپور ہوا۔ موسم اچھا تھا۔ گرمی گزر گئی تھی۔ جاڑا ابھی چمکا نہ تھا۔ عالم اعتدال آب و ہوا۔ سایہ و سر چشمہ جا بجا۔ آرام سے رام پور پہنچا۔ نواب صاحب حال بمقتضائے الولد سرّلابیہ حسن ِ اخلاق میں نواب فردوس آرامگاہ کے برابر بلکہ بعض شیوہ و روش میں ان سے بہتر ہیں۔ بمجرد مسند نشینی کے غلہ کا محصول یک قلم معاف کیا۔ علی بخش خانساماں کو تیس ہزار روپیہ بابت مطالبہ سرکاری بخش دیا۔ مفصل حالات بذل و نوال عندالملاقات زبانی کہوں گا۔ سنو صاحب میں فقیر آزادہ کیش ہوں۔ دنیا دار نہیں۔ مکار نہیں۔ خوشامد میرا شعار نہیں۔ جس میں جو صفات دیکھتا ہوں وہ بیان کرتا ہوں۔ نواب صاحب تو گھر بیٹھے مجھے سو روپیہ مہینا دیتے ہیں تم مجھے کیا دیتے ہو جو تمہارے باب میں میرا عقیدہ یہ ہے کہ اگر بمثل میرا کوئی صلبی بیٹا ایسا ہوتا جیسے تم ہو تو میں اس کو اپنا فخر و شرف جانتا۔ علم و عقل و خلق و صدق و سداد و حلم کے جامع۔ تورّع و زہد و تقوی کے حاوی۔ علم اخلاق میں حکمائے روحانی نے سعادت کے جو مدارج دیکھے ہیں وہ سب تم میں پائے جاتے ہیں۔ پروردگار تم کو عمر طبعی عطا کرے اور دولت و اقبال شمار سے زیادہ دے ؎ انشاءا للہ کہ ہم چنین خواہد بود۔ غالب۔
٭٭٭
بنام جناب ماسٹر پیارے لال صاحب
شفیق مکرم بابو پیارے لال صاحب کو سلام۔ کل رقعہ مع مسودہ بابو چندو لال صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ یقین ہے کہ آپ کی نظر سے گزرا ہو گا۔ اور آپ مسودہ کرنے پر متوجہ ہوئے ہوں گے۔ جلدی نہیں آپ بغور اچھی طرح تامل سے لکھیئے۔ جب صاف ہو جائے گا۔ مجھے دیجیئے گا۔ میں اپنی مہر کر کے ڈاک میں بھجوا دوں گا۔ ابھی ڈپٹی کمشنر بہادر کے پاس سے آیا ہوں وہ کہتے تھے کہ کل لارڈ صاحب آئیں گے اور پرسوں شملے کو تشریف لے جائیں گے۔ بطریق اطلاع آپ کو لکھا ہے یہ منظور نہیں کہ عرضی آج تیار ہو جاوے اور کل میں آپ دوں۔ ڈاک میں ارسال کرنا منظور ہے۔ راقم اسد اللہ خاں غالب۔ ۳۰ اپریل ۱۸۶۶ء۔
ایضاً
کیوں صاحب ہم سے ایسے خفا ہو گئے کہ ملنا بھی چھوڑا۔ خیر میری تقصیر معاف کرو اور اگر ایسا ہی گناہ عظیم ہے کہ کبھی نہ بخشا جائے گا تو وہ گناہ میرا مجھ پر ظاہر کر دو تاکہ میں اپنے قصور کی اطلاع پاؤں۔ برخوردار ہیرا سنگہ(سنگھ)تمہارے پاس پہنچتا ہے اور یہ تمہارا دست گرفتہ ہے۔ رہتک میں تم نے اسے نوکر رکھوا دیا تھا۔ خیر وہاں کی صورت بگڑ گئی۔ اب یہ غریب بہت تباہ ہے اور امور معاش میں سخت دل تنگ۔ تمہیں دستگیری کرو تو یہ سنبھلے ورنہ اس کا نقش ِ ہستی صفحہ دہر سے مٹ جائے گا۔ والسلام۔ عنایت کا طالب۔ غالب۔
ایضاً
فرزند ارجمند اقبال بلند بابو ماسٹر پیارے لال کو غالبِ ناتوان نیم جان کی دعا پہنچے۔ لاہور پہنچ کر تم نے مجھے خط نہ بھیجا اس کی میں جتنی شکایت کروں بجا ہے۔ تم نہیں جانتے کہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔ میں تمہارا عاشق ہوں اور کیونکر نہ عاشق ہوں۔ صورت کے تم اچھے۔ سیرت کے تم اچھے۔ شیوہ و روش کے تم اچھے۔ خالق نے خوبیاں تم میں کوٹ کوٹ کر بھر دی ہیں۔ اگر میرا صلبی فرزند ایسا ہوتا تو میں اس کو اپنا فخرِ خاندان سمجھتا اور اب تم جس قوم اور جس خاندان میں ہو۔ اس قوم اور اس خاندان کے ذریعہ افتخار ہو۔ خدا تم کو سلامت رکھے اور عمر و دولت و اقبال و جاہ و جلال عطا کرے۔ میاں تم کو یاد ہے کہ میں نے تم کو سابق میں اس سے نور چشم مرزا یوسف علی خاں کے باب میں کچھ لکھا ہے میرے اختلالِ حواس کا حال تم جانتے ہو۔ خدا جانے اس وقت کس خیال میں تھا اور میں کیا لکھ گیا وہ جو کچھ لکھا وہ سہل انکاری تھی اب جو کچھ لکھتا ہوں یہ راست گفتاری ہے۔ مختصر یہ کہ مرزا یوسف علی خاں عزیز بڑے عالی خاندان اور بڑے بزرگ قوم کے ہیں۔ شاعر بھی بہت اچھے ہیں۔ شعر خوب لکھتے ہیں۔ صاحب استعداد ہیں۔ علم ان کو اچھا ہے یہ بھی گویا فرقہ اہل علم و فضل میں سے ہیں اور ترقی کے قابل ہیں۔ نور چشم مولوی نصیر الدین کو میری دعا کہنا۔ محررہ ۳۰ جنوری ۱۸۶۸ ء۔
٭٭٭
بنام منشی جواہر سنگھ صاحب جوہر
برخوردار منشی جواہر سنگہ(سنگھ)کو بعد دعائے دوام ِ عمر و دولت معلوم ہو۔ خط تمہارا پہنچا۔ خیرو عافیت تمہاری معلوم ہوئی۔ قطعے جو تم کو مطلوب تھے اس کے حصول میں جو کوشش ہیرا سنگہ(سنگھ)نے کی ہے۔ میں تم سے کہہ نہیں سکتا۔ نری کوشش نہیں۔ روپیہ صرف کیا روپیہ جو تم نے بھیجے تھے وہ اور پچیس تیس روپیہ اور صرف کیے پانچ پانچ اور چار چار اور دو دو روپیہ کو قطعے مول لیے اور بنوائے۔ خرید میں روپیہ جدا دیے اور بنوانے میں روپیہ جدا لگائے۔ دوڑتا پھرا۔ حکیم صاحب کے پاس کئی بار جا کر حضور والا کا قطعہ لایا۔ اب دور رہا ہے۔ ولی عہد بہادر کے دستخطی قطعہ کے واسطے یقین ہے کہ دو چار دن میں وہ بھی ہاتھ آوے اور بعد اس قطعہ کے ہاتھ آنے کے وہ سب کو یکجا کر کے تمہارے پاس بھیج دے گا۔ مدد میں بھی اس کی کر رہا ہوں لیکن اس نے بڑی مشقت کی۔ آفرین صد آفرین۔ پندرہ روپیہ میں سے ایک روپیہ اپنے صرف میں نہیں لایا۔ اور ماں کو عاجز کر کے اس سے بہت روپیہ لیے جب سب قطعہ تمہارے پاس پہنچیں گے تب اس کا حسن خدمت تم پر ظاہر ہو گا۔ کیوں صاحب وہ ہماری لنگی اب تک کیوں نہیں آئی۔ بہت دن ہوئے جب تم نے لکھا تھا کہ اسی ہفتہ بھیجوں گا۔ والدعا۔ اسد اللہ ۔
ایضاً
برخوردار کامگار سعادت و اقبال نشان منشی جواہر سنگہ(سنگھ) جوہر کو بلب گڈہ (گڑھ) کی تحصلیداری مبارک ہو۔ پیپلی سے نوح آئے نوح سے بلب گڈھ(گڑھ) گئے۔ اب بلب گڈھ(گڑھ)سے دلی آؤ گے انشاءاللہ ۔ سنو صاحب حکیم مرزا جان خلف الصدق حکیم آغا جان صاحب کے تمہارے علاقہ تحصیلداری میں بصیغہ طبابت ملازم سرکار انگریزی ہیں ان کے والد ماجد میرے پچاس برس کے دوست ہیں۔ میں ان کو اپنے بھائی کے برابر جانتا ہوں اس صورت میں حکیم مرزا جان میرے بھتیجے اور تمہارے بھائی ہوئے۔ لازم ہے کہ ان سے یکدل و یکرنگ رہو اور ان کے مددگار بنے رہو۔ سرکار سے یہ عہدہ بصیغہ دوام ہے۔ تم کو کوئی نئی بات پیش کرنی نہ ہو گی۔ صرف اسی امر میں کوشش رہے کہ صورت اچھی بنی رہے۔ سرکار کی خاطر نشان رہے کہ حکیم مرزا جان ہوشیار اور کارگزار آدمی ہے۔ ۲ فروری ۱۸۶۴ء۔
٭٭٭
بنام منشی ہیرا سنگھ صاحب
نور چشمِ غالبِ غم دیدہ منشی ہیرا سنگہ(سنگھ) کو دعا پہنچے۔ تمہارا خط محررہ ۱۱ جنوری پہنچا۔ دورہ کا سفر بارے تمام ہو ا اب جاڑوں کے دن آرام سے کاٹو۔ گھبراؤ نہیں۔ سال بھر پڑھائے جاؤ۔ جب لڑکا شُد و بُدسے آگاہ ہو جائے تب ڈپٹی کمشنر سے ترقی کی درخواست کرنا۔ اگر نائب تحصیلدار ہو جاؤ گے تو رفتہ رفتہاکسٹرا اسسٹنٹہونے کی گنجایش ہے۔ مدرسہ کے علاقہ میں تو نوکر نہیں ہو جو بابو پیارے لال کو تمہاری بدلی کا اختیار ہو۔ زنہار اس باب میں بابو صاحب سے نہ کہوں گا۔ اور نہ یہ خط تمہارا منشی جواہر سنگہ(سنگھ)کو دکھلاؤں گا۔ ناحق الجھو کیوں۔ اس الجھنے سے فائدہ کیا۔ خاطر جمع رکھو ؎کہ رحم نہ کند مدعی خدا بکند۔ میں ویسا ہی ہوں جیسا تم دیکھ گئے ہو۔ اور جب تک جیوں گا ایسا ہی رہوں گا۔ غالب۔ ۱۴ جنوری ۱۸۶۸ء۔
٭٭٭
بنام منشی بہاری لال المتخلص بہ مشتاق
سعادتمند باکمال منشی بہاری لال کو یمین ِ تاثیر دعائے غالب خستہ حال عمر و دولت و اقبال فراواں ہو۔ منشی من بھاون لال تمہارے والد ماجد کا انتقال موجب رنج و ملال ہوا اگرچہ اس رہبر و جادہ فنا سے میری ملاقات نہ تھی لیکن تمہارے تنہا اور بے مربی رہ جانے کا میں نے بہت غم کھایا۔ خدا انکو بخشے اور تم کو صبر عطا کرے۔ غالب۔ ۲۶ فروری ۱۸۶۸ ء۔
ایضاً
برخوردار بہاری لال مجھ کو تم سے جو محبت ہے اس کے دو سبب ہیں ایک تو یہ کہ تمہارے خال فرخفال منشی مکند لال میرے بڑے پرانے یار ہیں۔ خوش خو۔ شگفتہ رو۔ بذلہ گو۔ دوسرے تمہاری سعادتمندی اور خوبی اور حلم اور بقدر حال علم اردو نظم و نثر میں تمہاری طبع کی روانی اور تمہاری قلم کی گل فشانی مگر چونکہ تم کو مشاہدہ اخبار اطراف اور خود اپنے مطبع کے اخبار کی عبارت کا شغل تحریر ہمیشہ رہتا ہے بہ تقلید اور انشا پردازوں کے تمہاری عبارت میں بھی املا کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ میں تم کو جا بجا آگاہ کرتا رہتا ہوں خدا چاہے تو املا کی غلطی کا ملکہ بالکل زائل ہو جائے۔ مگر بہاری لال اس نونہال ِ باغِ دولت یعنی حکیم غلام رضا خاں کے دوامِ صحبت کو اپنے طالع کی یاور ی سمجھ۔ یہ دانشمند ستودہ خوئے امیر نامور ہونے والا اور مراتب اعلیٰ کو پہنچنے والا ہے۔ اس کی ترقی کے ضمن میں تمہاری بھی ترقی ہونے والی ہے ؎
بیا دامان ِ صاحب دولتے گیر
کہ مرد از صاحبِ دولت شود پیر
میاں سچ تو یوں ہے کہ اکمل المطابع اجمل المطابع بھی ہے۔ حکیم غلام نبی خاں منجملہ خوبانِ روزگار ہیں۔ نکو خوئے اور نیکو کردار ہیں۔ میر فخر الدین آزاد منش اور سعادت مند نوجوان ہیں۔ کم گفتار اور مرنج و مرنجان ہیں۔ تم چاروں شخص پیکر صدق و وفا و مہر و ولا کے چار عنصر ہو۔ جہاں آفرین تم چاروں صاحبوں کو خوشنود و دل شاد اور اکمل المطابع کو با رونق اور آباد رکھے۔ غالب۔ ۷ جون ۱۸۶۸ء۔
٭٭٭
خاتمہ کتاب
خاتمہ کتاب اردوئے معلیٰ ریختہ کلک بلاغت انتما سخندان بے مثال معنی سنجنازک خیال شاعر نغز گوئے دلاویز بیان ناثر جادو طراز و شیریں بیاں مرزا قربان علی بیگ خانصاحب سالک شاگرد مولانا غالب مرحوم
شیدائیان شاہد دلفریب سخن ہر وقت اس کے خریدار اور شیفتگان حسن معانی ہر دم اس کے خواستگار رہتے ہیں کہ اچھا کلام جو مطبوع طبائع ناظرینِ خردپیشہ اور پسند خواطر شایقین درست اندیشہ ہو میسر آئے۔ صاحب نظر ان دیدہ ور جن کی آنکھیں شبستانِ معانی کی سیر سے سیر ہوتی ہیں۔ مشاہدہ ماہ پیکراں مہر تمثال سے تسلی نہیں پاتے۔ اور نگین شاہان نکتہ پرور جن کی دماغ میں گلستانِ سخن کی بو بھر جاتی ہے۔ ریاحین ِ باغِ ارم کے سونگھنے کو نہیں جاتے۔ اور پھر وہ کلام اور وہ سخنجو نیّر اعظم سپہر سخنوری و ماہ منیر آسمان معنی گستری شہسوار عرصہ نکتہ دانی۔ یکہ تاز میدان جادو بیانی فرمانروائے کشور نازک خیالی۔ زینت افزائے اورنگِ بیمثال۔ ناثر نثری رفعت شاعر شعریرتبت چمن آرائے گلستانِ فصاحت۔ حدیقہ پیرائے خیابانِ بلاغت۔ فروغ بزم آفرینش، نور دیدہ بینش۔ استاد یگانہ۔ مسلّم الثبوت زمانہ۔ رشک عرفی و غیرتِ طالب۔ جناب استادی نجم الدولہ دبیر الملک اسد اللہ خاں بہادر نظام جنگ غالبؔ کی زبان معجز بیان پر آیا ہوا اور خامہ پرویں افشاں سے نکلا ہوا۔ علی الخصوص یہ سفینہ بے نظیر و مجموعہ دلپذیر جس کا ہر حرف باعث نظارتِ چشم نظارگیاں اور ہر لفظ سبب تازگی دیدہ مشتاقان ہے۔ ہر سطر کو دریائے موج خیز ِ معانی اور ہر فقرہ کو گلزار ہمیشہ بہار رنگیں بیانی کہنا چاہیے۔ عبارت سے سلسبیلکی سلاست پیدا۔ مضامیں سے آبِ کوثر کی لطافت ہویدا۔ کمند انداز رسا میں گردن معانی شکار شیرینی ادا پر ادائے شیریں لباں نثار۔ غور کیجیئے کہ فراہم آنا اس نسخہ بے بدل کا اور طبع ہونا اس کتاب بے مثل کا کیونکر نہ غنیمت سمجھا جائے۔ ناظرین کو لطف ارزانی و شایقین کو مذاق سخن کی فراوانی مبارک۔ کیونکر شکر فراہمی نہ ادا کیا جائے۔ ہاں اے سلک اندوہگیں کیسا شکریہ کیا کلام ہے اے بے خبر گریہ و ہنگام ِ ماتمِ عام ہے ؎
باید چو شمع در دل شبہا گریستن
سرگرم بودن از تہٖ(تہہ)دل با گریستن
ناسازگار جسم مرانا گداختن
ناخوش گوار چشم مرا ناگریستن
این ست اگر تراوش سر چشمہ حیات
باید بعمر ِ خضر و مسیحا گریستن
ہنوز یہ نامہ دلاویز تمام و کمال تشریف طبع نہ پا چکا تھا کہ سپہر بے مُہر نے بتاریخ ۲ ذیقعدہ ۱۲۸۵ ہجری جامہ حیات جناب مغفور و مرحوم کو چاک کیا۔ ہے ہے آفتاب علم و کمال کو رنج خسوف دکھایا۔ ماہتاب فضل و ہنر کو صدمہ کسوف میں پھنسایا؎
اس ستمگار سے کوئی پوچھے
ہاتہ(ہاتھ)اس واقعہ سے کیا آیا
نہ سوجھاکہ عالم میں تاریکی چھا جائے گی زمانہ کو تسکین ہاتھ نہ آئے گی۔ آنکھیں اشکبار دل بے قرار ہوں گے مگر؎
نیشِ عقرب نہ از پے کین است
مقتضائے طبیعتش این ست
اپنی عادت سے ناچار ہے۔ دشمنی اہل کمال اس کا شعرا ہے۔ کوئی مبتلائے آفت ہو۔ خواہ گرفتار مصیبت ہو۔ اس کو اپنی گردش کا رنگ دکھانا۔ کسی نہ کسی یگانہ آفاق کو نقش ِ ہستی صفحہ روزگار سے مٹانا۔ سخن آرائے نوحہ سرائی سے کیونکر بدل ہو۔ سخن سنجی کے عوض کبھی نالہ پُر درد اور کبھی آہِ سرد لب پر ہے۔ کہیئے جب یہ بارِ گراں ِ اندوہ دل پر آئے۔ دل کی مجالہ ے کہ بیٹھ نہ جائے۔ کیسی تاریخ خاتمہ کتاب۔ کیسا سالِ وفات۔ ہاں گفتگو کو مختصر کرتا ہوں اور ایک قطعہ لکھتا ہوں۔
قطعہ
کیا کہوں کچھ کہا نہیں جاتا
لب پہ نالوں کا اژدھام ہوا
صدمہ مرگِ حضرت ِ غالب
سببِ رنج خاص و عام ہوا
ہے یہی سالِ طبع سالِ وفات
آج ان کا سخن تمام ہوا
تاریخ طبع حصہ اول اردوئے معلّیٰ طبعزاد منشی جواہر سنگھ صاحب جوہر تخلص
چو اردوئے معلّیٰ گشت تالیف
ہمانا یک جہاں گردید طالب
پے سال مسیحائی طبعش
بگو جوہرؔ خہے اردوئے غالبؔ
٭٭٭
Subscribe to:
Posts (Atom)