Friday 3 March 2017

آزادئ ہند میں اردو زبان کا کردار

فضل اللہ سیف اللہ
 یہ بات مکمل طور پر عیاں ہے کہ ہر قوم اپنا اظہارخیال اپنی زبان کے ذریعے کرتی ہے.اس سلسلے میں ہماری مادری زبان اردو نے بھی ہندوستان کی جنگ آزادی میں بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ جب ہمارا ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا،اس دوران سرزمین ہند نے اپنی کوکھ سے بے شمار شاعروں, ادیبوں اور سیاست دانوں کو جنم دیا.اس کی بدولت ہندوستانیوں میں نئے جوش اور ولولے جنم لیے اور پھر انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے اپنی شاعری اور شعلہ بار تقریروں سے غلامی کی زنجیروں سے ہمیں آزادی دلانے میں اہم کردار ادا کیا.
        شاعروں اور ادیبوں کی پرجوش تحریروں نے ہندوستانی لوگوں کے ذہنوں کو یکسر بدل ڈالا۔ سرسید احمد خاں, مولانا ابوالکلام آزاد, علامہ اقبال, مولانا محمد علی جوہر, حسرت موہانی, نظیر اکبر آبادی یہ تمام انیسویں صدی کے جانباز ہیں جنہوں نے بیسویں صدی کے اثرات مرتب کیے۔
       سرسید احمد خاں کو ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کے قائدین میں شمار کیا جاتا ہے۔ سرسید نے اپنے ملک میں اتحاد برقرار رکھنے کی خاطر اور ہندوستانیوں میں آزادی کی روح پھونکنے کے لئے مختلف رسالے اور اخبارات شائع کیے۔ جن میں ان کے معروف رسالہ "تہذیب الاخلاق" کو کافی اہمیت حاصل ہوئی جو اردو کی صحافتی, ادبی اور تاریخی دنیا میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوستان کی آزادی کی خاطر ہمارے ان رہنماؤں نے اپنے مختلف رسالوں اور مضامین کے ذریعے وہ خدمات انجام دی ہیں جو ہمیشہ اور ہر زمانہ میں قدر کی نگاہ سے یاد کی جائیں گے. ہزاروں ان مسلم جانبازوں و سر فروشوں کو جنھوں نے گلشن آزادی کی لہلہاہٹ کے لئے سر زمین ہند پر اپنے پاکیزہ خون سے آبیاری کی تھی، فراموشی کی کھائیوں میں گرادینے کے باوجود آج بھی جنگ آزادی میں اردو کا کردار روز روشن کی طرح تابناک اور جمہوریہ ہند پر سایہ فگن ہے اور جب تک ہندوستان رہےگا اس کے معتبر نام تاریخ ہند کے افق پر مثل سورج پوری آب وتاب کے ساتھ روشن رہیں گے. 
        اس سلسلے میں چند رسالے اور اخبارات جیسے "البلاغ" اور "الہلال" جس کے مدیرعظیم سیاسی شخصیت اور قومی یکجہتی کے علمبردار مولانا ابو الکلام آزاد تھے, "ہمدرد" کے مدیر مولانا محمد علی جوہر اور "زمیندار" کے مولانا ظفر علی خان مدیر تھے . یہ تمام رسالے اور اخبارات اس وقت سب سے بڑے فتنے فرنگیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے تھے اور ان کے علاوہ بھی انہوں نے اپنے مضامین شائع کرکے جنگ آزادی میں اپنا اہم رول ادا کیا.
     علامہ اقبال پر حب الوطنی کا جذبہ مکمل طور پر غالب تھا۔ ان کی حب الوطنی کا اظہار ان کی نظم "ہمالہ ،صدائے درد، "ترانہء ہندی" اور "شوالہ" سے خوب خوب ہوتا ہے.
        منشی پریم چند کی افسانہ نگاری نے بھی اس سلسلے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر ایک افسانہ "رموز وطن" قلم بند کیا۔ اس طرح یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ ملک کی آزادی کے لئے اردو زبان نے مخلص رہنماؤں اور بزرگوں کے ذریعے محنت و لگن کے ساتھ ملک اور قوم کی خوب خدمات انجام دی ہیں. جس طرح آزادی حاصل کرنے میں ہمارے رہنما پیش پیش رہے اسی طرح اپنی زبان کی اہمیت کو بھی انہوں نے برقرار رکھا.اس وقت "زبان اردو " کسی عصبیت کی شکار نہیں ہوئ تھی. وہ تو بس ملک کی زبان سمجھی جاتی تھی. 
     مگر آہ.....!  جس زبان نے آزادی کی فضا میں سانسیں لینامقدر کیا،آج وہی زبان تعصب و تنگ نظری کی بهینٹ چڑهہ چکی ہے. بقول شاعر :
ظلم اردو پہ ہوتا ہے اور اس نسبت سے 
لوگ اردو کو مسلماں سمجھ لیتے ہیں.
       لیکن خیر !! یہ تو دنیا کی بڑی مجاہد زبان ثابت ہوئی  ہے اور ہورہی ہے. انگریزوں کی بربریت سے نبرد آزما ہونے کا معاملہ ہو یا پهر آزادی کے بعد اپنوں سے ہی زخم کهانے کی بات ہو. اردو پورے استحکام  کے ساتهہ اپنے ولولہ انگیز عزم کا ببانگ دہل اعلان کرتی ہے اور کہتی ہے کہ :
اردو کہتی ہے کس سے کینہ ہے مجهے 
ہر قوم کا ہر لفظ نگینہ ہے مجهے
میں جام شہادت تو پیوں گی لیکن
اس دور میں شہید ہوکے جینا ہے مجهے
         اگر ہم اپنی شناخت قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زبان کی بھی قدر کرنی ہوگی اور اس کی اہمیت و ضرورت کو عام کرنا ہوگا،کیونکہ اردو زبان کی ترقی میں ہی ہماری ترقی اور پہچان چھپی ہے. اقبال کے استاذ شاعر داغ دہلوی نے کہاتها:
اردو ہے جس کا نام ہم جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
      "اردو زبان" یہی وہ زبان ہے جس نے تحریک آزادی میں روح پھونکنے کا کام کیا تھا. 
"إنقلاب زندہ باد!"  
یہ نعرہ کسے یاد نہیں؟ مگر حیف! یہ یاد نہیں کہ یہ نعرہ اردو زبان کی ہی دین ہے. 
     آؤ مل کر ایک بار پھر سے سبهوں کو یہ إحساس دلائیں : 
اردو زندہ باد! 
        انقلاب زندہ باد! 
راگھونگر بھوارہ
مدھوبنی (بہار)

No comments: